کرناٹک ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران ایک جج نے بنگلورو کے مسلم اکثریتی علاقے کو ‘پاکستان’ کہا تھا۔ اب سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ عدالت کو اس طرح کا تبصرہ نہیں کرنا چاہیے، جن کوخواتین کی تضحیک یا سماج کے کسی بھی طبقے کے لیے متعصب خیال کیا جا سکتا ہے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بدھ کو کہا کہ ہندوستان کے کسی بھی حصے کو ‘پاکستان’ کہنا ملک کی علاقائی سالمیت کے خلاف ہے۔ عدالت اس ماہ کے شروع میں کرناٹک
ہائی کورٹ کے ایک جج کے تبصروں سے متعلق ایک کیس کی سماعت کر رہی تھی ۔
انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق، پانچ ججوں کی بنچ کی صدارت کرتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ نے یہ بات اس کیس کی سماعت کے دوران کہی، جس میں انہوں نے کرناٹک ہائی کورٹ کے جج کے تبصروں کے ویڈیو کلپ کا ازخود نوٹس لیا تھا۔
کرناٹک ہائی کورٹ کے جسٹس سریش نے ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے بنگلورو کے ایک مسلم اکثریتی علاقے کو ‘پاکستان’ کہا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے ہائی کورٹ کے رجسٹرار جنرل سے رپورٹ طلب کی تھی۔
بنچ میں جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گوئی، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس رشی کیش رائے بھی شامل تھے۔
بدھ کو بنچ نے اس رپورٹ کا جائزہ لیا جس میں کہا گیا تھا کہ جج نے 21 ستمبر کو عوامی طور پر معافی مانگی تھی۔
سپریم کورٹ بنچ نے کہا، ’21 ستمبر 2024 کو کھلی عدالت کی کارروائی کے دوران ہائی کورٹ کے جج کی طرف سے مانگی گئی معافی کے پیش نظر، ہم انصاف اور ادارے کے وقار کے مفاد میں ان کے خلاف کارروائیوں کو آگے نہیں بڑھائیں گے۔’
بنچ نے کہا، ‘رجسٹرار جنرل کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ میں اس بات کا خاطر خواہ اشارہ ہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ کے سامنے کارروائی کے دوران جوتبصرے کیے گئے، وہ کارروائی کے دوران کیے گئے تبصروں سے متعلق نہیں تھے اور اس سے گریز کیا جانا چاہیے تھا۔ انصاف کا تصور معاشرے کے ہر طبقے کے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ انصاف کو ایک معروضی حقیقت کے طور پر پیش کرنے کا تصور۔‘
واضح ہو کہ حال ہی میں سوشل میڈیا پر سامنے آئے ویڈیو میں کرناٹک ہائی کورٹ کے جسٹس سریش سماعت کے دوران قابل اعتراض ریمارکس دیتے ہوئے
نظر آ رہے تھے ۔ ایک کلپ میں جج کو بنگلورو کے مسلم اکثریتی علاقے گوری پالیا کو ‘پاکستان’ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے، جبکہ دوسرے میں وہ ایک خاتون وکیل پر نازیبا تبصرہ کرتے ہوئے نظر آتےہیں۔
سپریم کورٹ نے کارروائی بند کرنے سے پہلے کچھ ‘عام’ تبصرے بھی کیے ہیں۔
عدالت نے کہا، ‘ویڈیو کانفرنسنگ اور کارروائی کی لائیو اسٹریم انصاف تک رسائی کو فروغ دینے کے لیے عدالتوں کی ایک اہم آؤٹ ریچ سہولت کے طور پر ابھری ہے۔ نیز، عدالتی نظام کے تمام اسٹیک ہولڈرز،جن میں جج، وکیل اور فریقین کو، خاص طور پر فریقین شامل ہیں ،کو اس حقیقت سے آگاہ ہونے کی ضرورت ہے کہ عدالتی کارروائی تک رسائی صرف ان لوگوں تک محدود نہیں ہے جو جسمانی طور پر موجود ہیں، بلکہ عدالت کے احاطے سے دور ناضرین تک بھی اس کی رسائی قابل ذکر ہے۔ ‘
بنچ نے مزید کہا، ‘جج کی حیثیت سے ہم اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ہر شخص کی زندگی کے تجربات کی بنیاد پر ایک خاص حد تک متعصب ہوتا ہے… یہ ضروری ہے کہ ہر جج کو اپنے تعصبات کا علم ہونا چاہیے۔ انصاف کرنے کا بنیادی عنصر غیر جانبدار اور منصفانہ ہونا ہے۔ اس عمل میں ہر جج کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی فطرت سے آگاہ ہو، کیوں کہ صرف اس آگاہی کی بنیاد پر ہی ہم معروضی اور غیر جانبدارانہ انصاف فراہم کرنے کے لیے جج کی بنیادی ذمہ داری کے ساتھ حقیقی معنوں میں وفادار ہو سکتے ہیں۔’
عدالت نے کہا، ‘ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کیونکہ ادارے کے ہر اسٹیک ہولڈر کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ عدالتی فیصلہ سازی میں صرف وہی اقدار شامل ہونی چاہیے جو ہندوستان کے آئین میں درج ہیں۔ آرام دہ اور پرسکون مشاہدات ذاتی تعصب کی ایک خاص حد کی عکاسی کر سکتے ہیں، خاص طور پر جب یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ کسی خاص جنس یا برادری کی طرف متوجہ ہیں۔ لہٰذا، عدالتوں کو محتاط رہنا چاہیے کہ عدالتی کارروائی کے دوران ایسے تبصرے نہ کیے جائیں، جو خواتین کے لیے تضحیک یا ہمارے معاشرے کے کسی بھی طبقے کے لیے متعصب خیال کیے جا سکتے ہیں۔’
عدالت نے کہا، ‘اس طرح کے تبصروں کو منفی انداز میں سمجھا جا سکتا ہے، جس سے نہ صرف عدالت یا ان کا اظہار کرنے والے جج اثر انداز ہوسکتے ہیں، بلکہ بڑے پیمانے پر عدالتی نظام بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔’
پٹنہ ہائی کورٹ کے ‘بیوہ کو میک اپ کی ضرورت نہیں’ کے تبصرہ کو سپریم کورٹ نےحد ردجہ قابل اعتراض بتایا
دریں اثنا، سپریم کورٹ نے بدھ (25 ستمبر) کو کہا کہ پٹنہ ہائی کورٹ کا یہ تبصرہ کہ بیوہ کو میک اپ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ‘انتہائی قابل اعتراض’ ہے۔
لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق، یہ تبصرہ ایسے وقت میں آیا جب سپریم کورٹ جائیداد کے تنازع پر ایک خاتون کے اغوا اور قتل کے معاملے کی سماعت کر رہی تھی۔
مقتولہ سے متعلق عینی شاہدین نے بتایا تھا کہ واقعہ کے وقت وہ ایک گھر میں رہ رہی تھی اور بعد میں پولیس کو وہاں سے میک اپ کا سامان ملا تھا۔ تاہم، بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سامان گھر میں رہنے والی دوسری خاتون کا تھا۔
اس وقت پٹنہ ہائی کورٹ نے تبصرہ کیا تھا کہ میک اپ کا سامان کسی دوسری عورت کا نہیں ہوسکتا، کیونکہ وہ بیوہ ہے اور اسے میک اپ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
جسٹس بیلا ایم ترویدی اور ستیش چندر شرما کی بنچ نے پٹنہ ہائی کورٹ کے ریمارکس پر اعتراض کیا اور کہا، ‘ہمارے خیال میں ہائی کورٹ کے ریمارکس نہ صرف قانونی طور پر ناقابل قبول ہیں بلکہ حد درجہ قابل اعتراض بھی ہیں۔ اس طرح کے ریمارکس اس حساسیت اور غیرجانبداری کے مطابق نہیں ہیں جس کی عدالت سے توقع کی جاتی ہے، خصوصی طور پر جب یہ ریکارڈ پر موجود کسی ثبوت سے ایسا ثابت نہ ہو۔‘