میڈیا میں پیغام جانا چاہیے کہ کسی خاص کمیونٹی کو نشانہ نہیں بنایا جا سکتا: جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ

سدرشن نیوز کے ایک پروگرام کے متنازعہ ایپی سوڈ کے ٹیلی کاسٹ کی عرضی پر شنوائی کرتے ہوئے جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا کسی پر روک لگانا ایٹمی میزائل کی طرح ہے، لیکن ہمیں آگے آنا پڑا کیونکہ کسی اور کے ذریعے کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی تھی۔

سدرشن نیوز کے ایک پروگرام کے متنازعہ ایپی سوڈ کے ٹیلی کاسٹ کی عرضی پر شنوائی کرتے ہوئے جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا کسی پر روک لگانا ایٹمی میزائل کی طرح ہے، لیکن ہمیں آگے آنا پڑا کیونکہ کسی اور کے ذریعے کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی تھی۔

(فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/@SureshChavhank)

(فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/@SureshChavhank)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ کو کہا کہ انہوں نے آگے بڑھ کر 15 ستمبر کو سدرشن نیوز کے ‘یوپی ایس سی جہاد’ پروگرام کاٹیلی کاسٹ اس لیے روکا کیونکہ کوئی اور کچھ نہیں کر رہا تھا۔انڈین ایکسپریس کے مطابق، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا، ‘سپریم کورٹ کا کسی چیز پر روک لگانا ایٹمی میزائل کی طرح ہے۔لیکن ہمیں آگے آنا پڑا کیونکہ کسی اور کے ذریعےکوئی کارروائی نہیں کی جا رہی تھی۔ ایک سرکاری افسرنے خط لکھا بس۔’

بتا دیں کہ گزشتہ منگل کو سپریم کورٹ نے سدرشن نیوز کے بند اس بول پروگرام کے متنازعہ‘نوکر شاہی جہاد’ ایپی سوڈ کےٹیلی کاسٹ کو روکتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت ہونے کے ناطے یہ کہنے کی اجازت نہیں دے سکتے کہ مسلمان  سول سروسز میں گھس پیٹھ کر رہے ہیں۔

کورٹ کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ پروگرام پہلی نظر میں ہی مسلم کمیونٹی کو بدنام کرنے والا لگتا ہے۔

غورطلب ہے کہ ‘بند اس بول’سدرشن نیوز چینل کے ایڈیٹران چیف  سریش چوہانکے کا شو ہے۔ اگست کے آخری ہفتے میں جاری ہوئے اس کے ایک ایپی سوڈ کے ٹریلر میں چوہانکے نے ہیش ٹیگ یوپی ایس سی جہاد لکھ کر نوکر شاہی میں مسلمانوں کی گھس پیٹھ کی سازش کا انکشاف کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

اس شو کو28 اگست کو رات آٹھ بجے نشرہونا تھا،لیکن جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالبعلموں کی عرضی پر دہلی ہائی کورٹ نے اسی دن اس پر روک لگا دی تھی۔اس کے بعد 9 ستمبر کو وزارت اطلاعات ونشریات نے چینل کو شو نشر کرنے کی اجازت دے دی تھی، جس کے بعد دہلی ہائی کورٹ نے اسے نوٹس بھیجا تھا، لیکن ٹیلی کاسٹ روکنے سے انکار کر دیا تھا۔

اس کے بعد اس شوکے ٹیلی کاسٹ کے بارے میں سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی گئی تھی۔ عرضی گزار کے وکیل نے اس شو کے ٹیلی کاسٹ پرعبوری روک لگانے سمیت کئی راحت مانگی تھی

15 ستمبر کی شنوائی کے دوران عدالت نے میڈیا رپورٹنگ اور آٹومیٹک کنٹرول کے گائیڈ لائن کی بات بھی اٹھائی تھی، جس کے جواب میں 17 تاریخ کی شنوائی میں سرکار کا کہنا تھا کہ پہلے ڈیجیٹل میڈیا کا ریگولیشن ہونا چاہیے، پرنٹ الکٹرانک میڈیا کے لیے خاطرخواہ ریگولیشن موجود ہیں۔

جمعہ کو سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ نے کہا کہ الکٹرانک میڈیا سے جڑے مدعے پر بڑے فلک پر بات کی جا رہی ہے، جس پر جسٹس چندرچوڑ نے ان سے مشورہ  مانگتے ہوئے کہا، ‘یہ آٹومیٹک کنٹرول کے گائیڈ لائن لانے کا اچھا موقع ہو سکتا ہے۔’

عدالت کو اس بارے میں مدد کرنے کی حامی بھرتے ہوئے مہتہ نے بنچ سے اپیل کی کہ ابھی وہ صرف سدرشن نیوز کے موجودہ معاملے کو ہی دیکھیں نہ کہ اسے پورے الکٹرانک میڈیا کے لیے ضابطہ بنانے کے لیے نہ پھیلائیں کیونکہ یہ معاملہ سی جے آئی ایس اے بوبڈے کی بنچ کےسامنےزیرسماعت ہے۔

بنچ نے سدرشن ٹی وی سے پوچھا کہ کیا میڈیا کو ‘پوری کمیونٹی کو نشانہ بنانے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔’ عدالت نے پروگرام  کو لےکر کی شکایت پرشنوائی کرنے کے دوران کہا کہ چینل خبر دکھانے کے مجازہیں لیکن‘پوری کمیونٹی کی امیج کو نہیں بگاڑ سکتا اور اس طرح کے پروگرام  کرکے انہیں الگ تھلگ نہیں کر سکتا۔

معاملے کی شنوائی کر رہی بنچ کی صدارت کر رہےجسٹس چندرچوڑ نے کہا، ‘یہ اصل  مدعا ہے۔ جب بھی آپ انہیں ایڈمنسٹریٹوسروس سے جڑتے دکھاتے ہیں، آپ آئی ایس آئی ایس(اسلامک سٹیٹ)کو دکھاتے ہیں۔ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ ایڈمنسٹریٹوسروس سے مسلمانوں کا جڑنا گہری سازش کا حصہ ہے۔ کیا میڈیا کو ایک پوری  کمیونٹی کو نشانہ بنانے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔’

بنچ نے کہا، ‘تمام امیدواروں کو ایجنڈہ  کے ساتھ دکھانا نفرت کو دکھاتا ہے اور یہ باعث تشویش ہے۔’عدالت نے کہا، ‘یہ بولنے کی آزادی نفرت میں تبدیل ہو گئی ہے۔آپ کمیونٹی کے تمام ممبروں کی ایک امیج نہیں بنا سکتے ہیں۔ آپ نے اپنے بانٹنے والے ایجنڈے کے ذریعے اچھےممبروں کو بھی الگ تھلگ کر دیا۔’

جسٹس چندرچوڑ کی بنچ میں ان کے ساتھ جسٹس اندو ملہوترا اور جسٹس کےایم جوزف بھی شامل ہیں اور ان دونوں نے بھی سدرشن نیوز کےپروگرام  میں استعمال ہوئی کچھ تصویروں پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ تصویریں‘جارحانہ’اور‘تکلیف دہ ’ ہیں اورانہیں ہٹایا جانا چاہیے۔ عدالت نے سریش چوہانکے سے پوچھا ہے کہ ان کے پاس کورٹ کے اس طرح کے خدشات کا کیا حل  ہے جو ان کےپروگرام کے ٹیلی کاسٹ کی اجازت کی عرضی پرغور کیا جانا چاہیے۔

ان کی عرضی کی جانب اشارہ کرتے ہوئےجسٹس چندرچوڑ نے کہا کہ شو کی ایک کلپ میں اسپیچ، ٹوپی داڑھی اور ہری ٹی شرٹ پہنے لوگ ہیں اور بیک گراؤنڈ میں آگ کی لپٹیں دکھائی دے رہی ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ آئی اے ایس اور آئی پی ایس ایسوسی ایشن نے تب کوئی کارروائی کیوں نہیں کی، جب اویسی نے مسلمانوں کو سول سروسز میں آنے کو کہا  اور بیک گراؤنڈ میں لپٹیں دکھائی جا رہی ہیں… وہاں حرام خور جیسےتبصرے کیے گئے ہیں…چارٹ ہیں جو دکھا رہے ہیں کہ کیسے سول سروسز میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے…اور تصویریں بھی ہیں۔’

جسٹس ملہوترا نے بھی آگ کی لپٹوں کے بیک گراؤنڈ میں ہونے اور ہری ٹی شرٹ پر اعتراض کیا اور انہیں قابل اعتراض  بتاتے ہوئے ہٹانے کو کہا۔

جسٹس جوزف نے کہا،‘ایک ایپی سوڈ میں ناظرین میں سے ایک شخص کاانٹرویو لیا گیا ہے جہاں وہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کو او بی سی ریزرویشن مل رہا ہے اور آگے یہ نہیں ملنا چاہیے، ایسا دکھاکر کیاپیغام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ بات یہ ہے کہ آپ ایک پوری کمیونٹی کو بدنام کرنا چاہتے ہیں۔’

جسٹس چندرچوڑ نے کہا،‘ہم سینسر کےرول میں نہیں ہیں، اس لیے ہم آپ کو جو کہنا ہے وہ کہنے کا موقع دینا چاہتے ہیں۔ کورٹ کے بنا بتائے آپ کو یہ کرنا ہے آپ کو بتانا ہے کہ آپ کیا کریں گے۔’انہوں نے آگے کہا، ‘ہم فری اسپیچ کی حفاطت کرنا چاہتے ہیں لیکن انسانی وقار کو بچانا ہماری آئینی ذمہ داری  ہے۔ وہ بھی اتنا ہی ضروری ہے۔’

چوہانکے کی جانب سے پیش ہوئے وکیل شیام دیوان نے کہا کہ وہ ایک حلف نامہ دائر کرکے بتائیں گے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ کورٹ نے یہ تبصرے دیوان کی اس اس اپیل پر کیےتھے جہاں انہوں نے اس پروگرام  کے بچے ہوئے ایپی سوڈ کے ٹیلی کاسٹ کی اجازت  مانگی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے سے پابندی  لگانے کا کوئی قانون نہیں ہے اور آئینی  کورٹ کا ایسا کرنا ایک خطرناک بات ہے۔ جو سپریم کورٹ کرےگا، کل وہی ہائی کورٹ کریں گے۔

دیوان نے چینل کےایڈیٹر ان چیف سریش چوہانکے کی جانب سے دائر حلف نامے کا ذکر کیا، جس میں چینل نے پروگرام کا بچاؤ کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ‘یوپی ایس سی جہاد’کا استعمال دہشت گردی  سے جڑی تنظیموں کے ذریعےزکوۃ فاؤنڈیشن کو ملے چندے کی بنیاد پر کیا ہے۔

زکوۃ فاؤنڈیشن سول سروسز میں شامل ہونے کے خواہش مندطالبعلموں، جن میں اکثر مسلمان ہوتے ہیں کو کتابیں  اور تربیت دیتا ہے۔بنچ نے دیوان سے کہا کہ عدالت کو دہشت گردی  سے وابستہ تنظیموں کے ذریعےمالی معاونت کی  انویسٹی گیٹو جرنلزم سے پریشانی  نہیں ہے لیکن یہ نہیں کہا جانا چاہیے کہ مسلم ایجنڈہ  کے تحت یوپی ایس سی میں جا رہے ہیں۔

بنچ نے کہا، ‘میڈیا میں پیغام جانا چاہیے کہ خاص کمیونٹی کو نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔ ہمیں مستقبل کے ملک کو دیکھنا ہے جو متحداور متنوع ہو۔’عدالت نے کہا، ‘یہ پیغام میڈیا کو جانا چاہیے کہ ملک  ایسے ایجنڈے سےزندہ نہیں رہ سکتا۔ ہم عدالت ہیں اور ہم نے دیکھا کہ ایمرجنسی کے دوران کیا ہوا اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ انسانی وقار محفوظ رہے۔’

ویڈیو کانفریس سے ہوئی شنوائی کے دوران شیام دیوان نے کہا کہ چینل کو کوئی پریشانی نہیں ہے اگر کسی بھی کمیونٹی  کا شخص صلاحیت کی بنیادپر یوپی ایس سی سے جڑتا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘چینل ٹیلی کاسٹ پورا کرنا چاہتا ہے۔ ہم کہیں بھاگے نہیں جا رہے ہیں۔ اب تک چار ایپی سوڈ دیکھے گئے ہیں اور پورے سیاق میں اس کو دیکھا جانا چاہیے نہ کہ کسی لفظ کی بنیادپر عدالت کو ٹیلی کاسٹ سے پہلے پابندی  لگانے کے اپنے اختیار کا استعمال کرنا چاہیے۔’

حالانکہ بنچ نے کہا، ‘بیانات کو دیکھیے۔ناظرین سب باتیں بتا دیں گے جو اس پروگرام کے توسط سے بتایا گیا ہے۔ ہمیں غیر سرکاری تنظیم یامالی امداد کےذرائع سے پریشانی نہیں ہے۔ یہاں مدعا یہ ہےآپ پوری کمیونٹی پر اثر ڈالیں گے کیونکہ آپ یو پی ایس سی  کو لےکر یہ کر رہے ہیں۔’

 (خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)