گزشتہ 15جون کو دہلی ہائی کورٹ سےضمانت ملنے کے لگ بھگ 48 گھنٹے بعد بھی نتاشا نروال، دیوانگنا کلیتا اور آصف اقبال تنہا جیل میں ہیں۔ اس بیچ پولیس نے بدھ کو سپریم کورٹ کا بھی دروازہ کھٹکھٹاکر دہلی ہائی کورٹ کے ضمانتی حکم پر فوراً روک لگانے کی اپیل کی ہے۔
نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے طلبا- کارکنوں نتاشا نروال، دیوانگنا کلیتا اور آصف اقبال تنہا کوفوراً رہا کرنے کا حکم دیا ہے، جنہیں منگل صبح کوہائی کورٹ نے ضمانت دے دی تھی۔ دراصل ضمانت دیے جانے کے بعد بھی دہلی پولیس نے انہیں رہا کرنے کے سلسلے میں مزید وقت مانگا تھا۔
انہیں ان کے پتے اور ضمانت داروں سے متعلق جانکاری مکمل نہ ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے وقت پر جیل سے رہا نہیں کیا گیا تھا۔
کڑکڑڈوما عدالت میں ایڈیشنل سیشن جج رویندر بیدی نے پتے اورضمانت داروں کی تصدیق میں تاخیر کو لےکر پولیس کی سرزنش کرتے ہوئے کہا، ‘میں کہوں گی کہ یہ اپنے آپ میں ایک صحیح وجہ نہیں ہو سکتی ہے کہ جب تک اس طرح کی رپورٹ داخل نہیں ہو جاتی، تب تک ملزم کو جیل میں رکھا جائے۔’
ملزمین کے وکیل کی جانب سے داخل حلف نامے کو دھیان میں رکھتے ہوئے عدالت نے تہاڑ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو ان کی فوراً رہائی کے لیے وارنٹ بھیجا۔ اس حلف نامیں کہا گیا تھا کہ ان کا موکل قومی دارالحکومت کے دائرہ اختیار کو نہیں چھوڑےگا۔
دہلی پولیس نے 16 جون کو ملزمین کو ضمانت پر رہا کرنے سے پہلے ان کے پتے،ضمانت داروں اور آدھار کارڈ کی تصدیق کے لیے عدالت سے مزید وقت مانگا۔ پولیس کی اس درخواست کو خارج کرتے ہوئے جج نے انہیں دہلی میں ملزمین کے پتے کو تصدیق کرنے اور جمعرات کو شام پانچ بجے رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت دی۔ وہیں دیگر صوبے میں ان کے پتے کی تصدیق پر عدالت نے انہیں 23 جون کو رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت دی۔
اس کے علاوہ عدالت نے ہائی کورٹ کےاس تبصرے کا حوالہ دیا، جس میں اس نے کہا تھا کہ ایک بار جب قید میں رکھے گئے لوگوں کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور مچلکے کے ساتھ ضمانت داروں کو پیش کیا گیا ہے، تو انہیں ‘ایک منٹ کے لیے بھی’ سلاخوں کے پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔
جج نے کہا، ‘یہ دیکھا گیا کہ اسٹیٹ کو کم از کم ممکنہ وقت کے اندر اس طرح کی تصدیق کے عمل کے لیےضروری بنیادی ڈھانچے کو یقینی بنانا چاہیے اور ایسی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی ہے، جو ایسے شخص کو اس کی آزادی سےمحروم کرنے کے لیے کافی ہو۔’
اس سے پہلے جمعرت کو تینوں طلبا اور کارکنوں نے دہلی ہائی کورٹ کا رخ کیا تھا اور حراست سے فوراً رہائی کی مانگ کی تھی۔ یواےپی اے کے تحت دائر ایک معاملے میں منگل صبح کو دہلی ہائی کورٹ کی جانب سے ضمانت پانے والے طلبا اور کارکن لگ بھگ 48 گھنٹے بعد بھی جیل میں ہیں۔
دہلی پولیس نے ہائی کورٹ سے کہا تھا کہ ان کے پتے کی تصدیق کے لیے اسے 21 جون تک کاوقت چاہیے۔
لائیولاء کے مطابق، پولیس نے ہائی کورٹ کو بتایا،‘تمام ملزمین کے باہری مستقل پتے کی تصدیق زیر التوا ہے اور وقت کی کمی کی وجہ سے پورا نہیں کیا جا سکا۔ پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ضمانت داروں کے آدھار کی تفصیلات کی تصدیق کرنے کے لیے اسے یوآئی ڈی اےآئی کی ضرورت ہے۔’
کارکنوں کی عرضی میں دہلی پولیس کے جواب کو ایک‘بیہودہ بہانہ’ کہا گیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ اگر فوراً نہیں کیا گیا تو ایڈریس کی تصدیق میں 24 گھنٹے سے زیادہ کا وقت نہیں لگ سکتا ہے۔
انڈین ایکسپریس نے عرضی سے یہ پیراگراف نقل کیا ہے:
اس طرح کے اعلان اورہدایات کے لگ بھگ 36 گھنٹے بیت چکے ہیں اور سماج میں اچھی خاصی پہچان رکھنے والے دہلی کےمعززضمانت داروں کی فوراًدستیابی کے باوجود عرضی گزار کی رہائی کو روک کر رکھنے کو یقینی بنانے کے لیے دہلی پولیس نے معمولی بہانے سے ضمانت کی تصدیق میں تاخیر کرنے کی مانگ کی ہے، جس کی وجہ اس کو ہی پتہ ہے۔
اس بیچ، پولیس نے بدھ کو سپریم کورٹ کا بھی دروازہ کھٹکھٹاکر دہلی ہائی کورٹ کے ضمانتی حکم پر فوراًروک لگانے کی گزارش کی۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ، ایس ایل پی میں پولیس نے دعویٰ کیا کہ ہائی کورٹ نے ضمانت معاملے میں‘منی ٹرائل’ کیا اور یو اے پی اے کے اہتماموں کی اہمیت کو کم کر دیا، جس کا وسیع اثر ہوگا اور ایکٹ کے تحت این آئی اے کے ذریعے درج تمام معاملوں کو متاثر کرےگا۔
پولیس نے ایس ایل پی جسٹس سدھارتھ مردل اور انوپ جئے رام بھمبھانی کےفیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا، ‘اس نے معاملے کو ایک پہلے سے سوچے ہوئے اور پوری طرح سے غلط صورت میں طے کیا، جیسے کہ موجودہ معاملہ طلبا کے ذریعے احتجاج کا ایک آسان معاملہ تھا اور چارج شیٹ میں جمع کیے گئے اور تفصیلی شواہد کے مقابلے میں سوشل میڈیا کی کہانی پر زیادہ مبنی معلوم ہوتا ہے۔’
ہائی کورٹ نے تین طلبا اور کارکنوں کے خلاف معاملے میں سرکاری کارروائی اور پولیس جانچ کے خلاف کئی سخت تبصرے کیے تھے۔
جسٹس سدھارتھ مردل اور جسٹس اےجے بھمبھانی کی بنچ نے ضمانت دیتے ہوئے کہا، ‘ہم یہ کہنے کے لیے مجبور ہیں کہ اختلاف رائے کو دبانے کی عجلت میں حکومت نے احتجاج کے آئینی حق اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے فرق کو ختم سا کر دیا ہے۔ اگر یہ ذہنیت زور پکڑتی ہے تو یہ جمہوریت کے لیے افسوسناک دن ہوگا۔’
تینوں کارکنوں کو مئی 2020 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ نچلی عدالتوں نے اس معاملے میں پہلے ان کی ضمانت عرضیاں خارج کر دی تھیں۔بتا دیں کہ نروال اور کلیتا جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کی اسٹوڈنٹ ہیں اور پنجرہ توڑ تنظیم کی ممبر ہیں۔
وہیں، تنہا جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسٹوڈنٹ ہیں۔ ان سب پر پولیس نے شمال- مشرقی دہلی میں فروری 2020 میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے لیے سازش کرنے کاالزام لگایا ہے۔کئی کارکنوں ، بین الاقوامی ایجنسیوں اور آبزرور کا ماننا ہے کہ یہ معاملہ متنازعہ سی اے اےاور این آرسی قانون کی مخالفت کرنے والوں کو نشانہ بنانے کا ایک طریقہ ہے۔
دی وائر نے بھی اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ عوامی طور پر بھڑکاؤ بیان دینے والے اور تشددکے لیے اکسانے والے کئی رائٹ ونگ رہنماؤں پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔معلوم ہو کہ دہلی دنگوں سے جڑی ایف آئی آر 59 کے تحت اب تک کل پندرہ لوگوں کو ضمانت مل چکی ہے۔
غورطلب ہے کہ 24 فروری 2020 کو شمال مشرقی دہلی میں شہریت قانون کے حامیوں اور مخالفین کے بیچ تشدد کے واقعات رونما ہوئے ، جس نے فرقہ وارانہ تصادم کی صورت اختیار کرلی تھی۔ تشدد میں کم از کم 53 لوگوں کی موت ہو گئی تھی اورتقریباً 200 لوگ زخمی ہو گئے تھے۔ ان تینوں پر اس کی ‘سازش ’ کرنے کاالزام ہے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں)
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)