سری لنکا نے قومی سلامتی کا حوالہ دیتے ہوئے ان پابندیوں کےمنصوبے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے پہلے پچھلے ہفتے سوئٹزرلینڈ نے عوامی مقامات پر پوری طرح سے چہرہ چھپانے یا برقع پہننے پر پابندی لگانے کے لیے ووٹنگ کی تھی۔ 51.2 فیصدی رائے دہندگان نے اس تجویز کی حمایت کی تھی۔
نئی دہلی:سری لنکا برقع پہننے اور ملک کے 1000سے زائد مدرسوں کو بند کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ اس نےقومی سلامتی کا حوالہ دیتے ہوئے ان پابندیوں کےمنصوبے کو لےکرسنیچرکو اعلان کیا۔پبلک سکیورٹی کے وزیر سراتھ ویراسیکرا نے کہا کہ انہوں نے برقع پہننے پر پابندی لگانے کی کابینہ کی گزارش پرجمعہ کودستخط کیے۔
ایک بودھ مندر میں منعقدپروگرام میں بہت زیادہ تفصیلات پیش کیے بغیر پبلک سکیورٹی کے وزیر سراتھ ویراسیکرا نے کہا، ‘برقعے کا قومی سلامتی پر براہ راست اثر ہے۔’انہوں نے کہا، ‘شروعاتی دنوں میں ہماری کئی مسلمان دوست تھیں۔ حالانکہ مسلم خواتین اور لڑکیوں نے کبھی برقع نہیں پہنا۔ یہ ایک طرح کی مذہبی شدت پسندی ہے جو حال ہی میں سامنے آئی ہے۔ ہم اس پر جلد پابندی عائد کریں گے۔’
سری لنکا میں 2019 میں ایسٹر سنڈے کے دن چرچ اور ہوٹلوں میں ہوئے بم حملوں کے بعد برقع پہننے پر عارضی روک لگا دی گئی تھی۔ ان حملوں میں 260 سے زیادہ لوگو کی موت ہوئی تھی۔وزیر نے یہ بھی کہا کہ سرکار 1000 سےزیادہ مدرسوں پر بھی پابندی لگائےگی کیونکہ یہ محکموں کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہیں اور قومی تعلیمی پالیسی کے مطابق نہیں ہیں۔
بی بی سی اردو کی ایک خبر کے مطابق،وزیرکا کہنا تھا کہ ؛ہر کوئی سکول کھول کر جو چاہے بچوں کو پڑھا نہیں سکتا۔ اس کا حکومت کی تعلیمی پالیسی سے مطابقت رکھنا ضروری ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر غیر اندراج شدہ سکول صرف عربی زبان اور قرآن پڑھاتے ہیں جو کہ ٹھیک بات نہیں ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ؛ دریں اثنامسلم کونسل آف سری لنکا کے نائب صدر حلمی احمد کا کہنا تھا کہ ’اگر حکام کو برقعے میں لوگوں کو پہچاننے میں مسئلہ ہے تو کسی کو شناخت کے لیے اسے اتارنے میں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر کسی کے پاس یہ حق ہے کہ وہ اپنا چہرہ ڈھانپے۔ ‘اسے حقوق کے نظریے سے دیکھا جانا چاہے نہ کہ مذہبی تناظر میں۔‘
انھوں نے کہا کہ مدرسوں میں سے بیشتر حکومت کے پاس اندراج شدہ ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ شاید پانچ فیصد ایسے ہوں جن کا اندراج نہیں ہو اور ان کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔
بتادیں کہ سری لنکا کی آبادی تقریباً دو کروڑ بیس لاکھ ہے، جن میں سے مسلمانوں کی آبادی تقریباً نو فیصد، ہندوؤں کی 15 فیصدی اور بودھوں کی 70 فیصد سے زیادہ آبادی ہے۔اس سے پہلے پچھلے ہفتے سوئٹزرلینڈ نے شدت پسند اسلام پر لگام لگانے کے لیے عوامی مقامات پر پوری طرح سے چہرہ ڈھانپنے یا برقع پہننے پر پابندی لگانے کے لیے ووٹنگ کی تھی۔ حالانکہ اپوزیشن نے اس کی مخالفت کی تھی۔
سرکاری اعداد وشمارمیں پتہ چلا تھا کہ 51.2 فیصدی رائے دہندگان نے اس تجویزکی حمایت کی تھی۔ حالانکہ، تجویز میں برقع یا حجاب لفظ کا استعمال نہیں کیا گیا تھا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)