اسپوٹس اتھارٹی آف انڈیا: 10 سال میں جنسی استحصال کے 45 معاملے، 29 معاملے کوچ کے خلاف

انڈین اسپورٹس اتھارٹی کی 24 الگ الگ اکائیوں میں کئی معاملوں میں ملزمین کو معمولی سزا دےکر چھوڑ دیا گیا، جس میں تبادلوں سے لےکرتنخواہ یا پنشن میں معمولی کٹوتی تک کی سزا ہوئی۔ وہیں، تقریباً ایک درجن شکایتوں کی تفتیش سالوں سے چلی آ رہی ہے، جس میں ابھی تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

اسپورٹس اتھارٹی آف انڈیا کی 24 الگ الگ اکائیوں میں کئی معاملوں میں ملزمین کو معمولی سزا دےکر چھوڑ دیا گیا، جس میں تبادلوں سے لےکرتنخواہ یا پنشن میں معمولی کٹوتی تک کی سزا ہوئی۔ وہیں، تقریباً ایک درجن شکایتوں کی تفتیش سالوں سے چلی آ رہی ہے، جس میں ابھی تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

(فوٹو: رائٹرس)

(فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: پچھلے 10 سالوں میں انڈین اسپورٹس  اتھارٹی کی 24 الگ الگ اکائیوں میں جنسی استحصال کے کم سے کم 45 معاملے سامنے آ چکےہیں۔انڈین ایکسپریس کے ذریعے آر ٹی آئی اور سرکاری رپورٹ سےاس کا انکشاف ہوا ہے۔کئی معاملوں میں ملزمین کو معمولی سزا دےکر چھوڑ دیاگیا، جس میں تبادلوں سے لےکر تنخواہ یا پنشن میں معمولی کٹوتی تک کی سزا ہوئی۔وہیں، تقریباً ایک درجن شکایتوں کی تفتیش سالوں سے چلی آ رہی ہے، جس میں ابھی تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق، رپورٹ کیے گئے 45 معاملوں میں سے29 کوچ کے خلاف ہیں۔ وومین امپاورمنٹ پر ایک پارلیامانی کمیٹی کی رپورٹ میں گزشتہ سال فروری میں کہا گیا تھا کہ “تعداد زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ کئی بار کوچ کے خلاف معاملے درج ہی نہیں ہوتے ہیں۔ اس میں آگے کہا گیا،”یہ شرمناک ہے کہ سرپرست اور گائیڈ خود شکاری بن جا رہا ہے۔اسپورٹس اتھارٹی آف انڈیا نے اس معاملے میں انڈین ایکسپریس کے ذریعے بھیجے گئے تفصیلی سوال نامے کا جواب نہیں دیا۔

حالانکہ، تنظیم کے سابق ڈائریکٹر جنرل، جی جی تھامسن نےکہا کہ کھلاڑی اکثر اپنی شکایتں واپس لے لیتے ہیں یا اپنے بیان بدل لیتے ہیں کیونکہ ان کے کیریئر پر اثر پڑنے کا ڈر ہوتا ہے، جس سے ان کے لئے کارروائی کرنامشکل ہو جاتا ہے۔مارچ 2013 سے جنوری 2015 تک اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل رہنےوالے تھامسن نے کہا، ‘ ان میں سے زیادہ تر لڑکیاں غریب پس منظر سے آتی ہیں۔ اس لئےان کو اپنا بیان بدلنے یا اپنی شکایت واپس لینے کے لئے راضی کیا جاتا ہے یا دباؤبنایا جاتا ہے۔ ‘

انہوں نے کہا، ‘ لڑکیاں دیکھتی ہیں کہ کھیل میں ان کامستقبل کوچ کے ہاتھوں میں ہے، جو کئی لوگوں کے لئے غریبی سے باہر آنے کا راستہ ہوتا ہے۔ اس لئے وہ اکثر ہار مان لیتی ہیں۔ ‘اسپورٹس اتھارٹی آف انڈیا مراکز پر درج معاملوں میں چھیڑچھاڑ سے لےکر جسمانی استحصال تک شامل ہیں۔ ایسے معاملے جمناسٹک، ایتھلیٹکس، مکہ بازی اورکشتی جیسے کھیلوں میں سامنے آتے ہیں۔

اس میں سے جہاں کچھ ملزمین کو بری کر دیا گیا تھا تو کئی دیگر لوگوں کے خلاف پوچھ تاچھ سالوں سے چل رہی ہے اور یہاں تک کہ وہ جوان ایتھلیٹوں کو بھی صلاح دیتے ہیں۔ایسا ایک معاملہ جنوری 2014 میں سامنے آیا تھا، جس میں ہریانہ کے حصار میں واقع اتھارٹی کے ٹریننگ سینٹر میں پانچ لڑکیوں نے اپنے کوچ پر ‘ورلڈ کس ڈے ‘کے موقع پر دبوچنے اور کس کرنے کا الزام لگایا۔ تمام نابالغ لڑکیوں نے کوچ کے خلاف مقدمہ دائر کیا لیکن پنچایت کی دخل کے بعد واپس لے لیا۔

تیس سال بعد اتھارٹی  کی ایک جنسی استحصال کمیٹی نے کوچ کوقصوروار پایا۔حالانکہ، تب تک کوچ ریٹائر ہو چکا تھا۔ وہیں، مرکزی انتظامیہ اتھارٹی کی چنڈی گڑھ بنچ کے ذریعے پاس ایک حکم کے مطابق کوچ پر 1981 سے بد سلوکی کے کئی الزام لگ چکے تھے۔ وہیں سزا کے طور پر اس کے ایک سال کی پنشن سے دس فیصدحصہ کاٹا گیا تھا۔