جنوری2020میں سی اے اے کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پاس احتجاج کر رہے لوگوں پر ایک نابالغ نوجوان نے گولی چلائی تھی،جس میں جامعہ کا طالبعلم زخمی ہو گیا تھا۔ اب اس نوجوان پر ہریانہ کے پٹودی میں ہوئی ایک مہاپنچایت میں فرقہ وارانہ تقریر کرنے کاالزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔مقامی عدالت نے نوجوان کو ضمانت دینے سے منع کرتے ہوئے کہا کہ ہیٹ اسپیچ فیشن بن گیا ہے۔
نئی دہلی: گڑگاؤں کی ایک عدالت نے ہریانہ کے پٹودی میں مہاپنچایت کے دوران فرقہ وارانہ تقریر کرنے کےالزام میں گرفتار ہوئے جامعہ کے شوٹر کی ضمانت عرضی کو خارج کر دیا ہے۔جوڈیشیل مجسٹریٹ محمد صغیر نے سخت لفظوں میں اپنے فیصلے میں کہا کہ فرقہ وارانہ تقریر کرنا آج کل فیشن بن گیا ہے اور فرقہ وارانہ تشددکو بڑھاوا دینے والے ملک کو کووڈ 19 مہاماری سے زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔
بتا دیں کہ پچھلے سال جنوری 2020 میں شہر یت قانون(سی اے اے)کی مخالفت کر رہے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا کی بھیڑ پر گولی چلانے والے ملزم کو اس سال ہریانہ کے پٹودی میں مہاپنچایت کے دوران فرقہ وارانہ تقریرکرنے کے الزام میں 12 جولائی کو
گرفتار کیا گیا تھا۔
فیصلے میں جوڈیشیل مجسٹریٹ نے کہا کہ نفرت انگیز تقریرمضطرب کرنے سے کہیں زیادہ پریشان کرتے ہیں۔
مزید کہا گیا،‘اس کے سماجی اثرات ہو سکتے ہیں۔فرقہ وارانہ بیانات سماج کے کمزور طبقوں کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں۔ یہ سماج کے محروم طبقات پر حملے، امتیاز، بائیکاٹ ،علیحدگی، نقل مکانی، تشدد اور کئی معاملوں میں قتل عام تک کی وجہ بن سکتے ہیں۔’
عرضی گزار کے وکیل کی دلیل کو خارج کرتے ہوئے کہ ملزم نوجوان اور بے قصور ہے۔ مجسٹریٹ صغیر نے کہا، ‘عدالت کے سامنے ملزم بے قصورنوجوان لڑکا نہیں ہے، جو کچھ نہیں جانتا بلکہ وہ یہ دکھا رہا ہے کہ جو اس نے قبل میں کیا ہے، اب وہ بنا کسی ڈر کے اپنی اس نفرت کو انجام دینے کےاہل ہو گیا ہے۔ وہ اپنی اس نفرت میں بڑی تعداد میں لوگوں کو شامل کر سکتا ہے۔’
عدالت نے اس بات کا ذکر کیا کہ جانچ کرنے والےافسر کی جانب سے دی گئی جانکاری اور عرضی گزاروں کے وکیلوں کے ذریعے قبول کرنے کے مطابق یہ وہی شخص ہے، جس نے غیرقانونی ہتھیار ہوا میں لہراکر جامعہ کے طلبا پر گولی برسائی تھی۔
جامعہ معاملےکےوقت ملزم نابالغ تھا اور اس وقت یہ معاملہ دہلی کے نیو فرینڈس کالونی پولیس تھانے میں درج تھا۔
مجسٹریٹ نے کہا،‘عدالتوں کے ذریعے ملزم کو اس کے نابالغ ہونے کی وجہ سے دی گئی رعایت کو اس نے اچھے معنوں میں نہیں لیا بلکہ ایسا لگتا ہے کہ اس نے اس رعایت کو غلط تناظر میں لیا کہ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے، یہاں تک کہ آئین کی بنیادی خصوصیت کو بھی تباہ کر سکتا ہے، جس کو ہم اس کے فرقہ وارانہ بیان میں سیکولرزم کہتے ہیں۔’
فیصلے میں کہا گیا،‘ملزم نے اپنے عمل سے حقیقی خطرہ پیدا کیا ہے کہ جو بھی وہ چاہے، وہ کرےگا۔ نظم ونسق اور امن وامان بنائے رکھنے کے لیے ذمہ دار طاقتیں کیا کریں گی؟ انہوں نے اسٹیٹ اور عدالتوں سے بھی سوال کیا کہ کیا اس کے پاس قانون کی حکمرانی کو بنائے رکھنے کی قوت ہے؟’
مجسٹریٹ نے کہا، ‘ہر شہری کے پاس اپنے خیالات کے اظہار کا حق ہے لیکن دشمنی کو بڑھاوا دیتے ہوئے کسی خاص کمیونٹی کو نشانہ بنانے کا نہیں۔’
فیصلے میں کہا گیا،‘اپنی تقریر کے دوران ملزم کو بھیڑ کو اکساتے دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ غلط کام کے لیے بھیڑ کو اکسا رہا تھا،بالخصوص ایک خاص کمیونٹی کی لڑکیوں کا اغوا کرنے اور جبراًتبدیلی مذہب کے لیے اکسا رہا تھا۔’
مجسٹریٹ نے کہا،‘ایسا لگتا ہے کہ ملزم کو اپنے آباواجداد پر بہت فخر ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے ایک خاص کمیونٹی کے لوگوں کو مارنے اور اس سلسلے میں نعرے بدلنے کے لیے بھی اکسایا۔ ملزم کے ذریعے استعمال کیے گئے نعرے اور زبان واضح طور پر قابل اعتراض ہیں اور اس کا مقصد ایک خاص کمیونٹی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا اور مختلف طبقوں/مذہبی کمیونٹی کے بیچ عداوت کو بڑھاوا دینا ہے۔’
فیصلے میں کہا گیا،‘کسی بھی مہذب سماج میں اس طرح کی سرگرمیوں کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔مذہب یاذات کی بنیاد پر فرقہ وارانہ بیان آج کل فیشن بن گیا ہے۔اس طرح کے واقعات سے نمٹنے کے لیے پولیس بھی بے بس نظر آ رہی ہے۔ اس طرح کی سرگرمیاں دراصل ہمارے ملک کے سیکولرتانے بانے کو تباہ کر رہی ہیں اور آئین کے احساس کو مار رہی ہے۔’
فیصلے میں کہا گیا کہ جو بھی سماج کے امن وامان کے لیےبالخصوص مذہبی ہم آہنگی کوبگاڑنے کے لیے خطرہ ہے، اسے آزادانہ گھومنے کی منظوری نہیں دی جا سکتی۔
فیصلے میں کہا گیا،‘اس طرح کے لوگ دراصل ہمارے ملک کی سیکولر فطرت کوتباہ کر رہے ہیں اور نیشن بلڈنگ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔مذہب ، ذات پات وغیرہ کے نام پر تشدد کا لگاتار خطرہ ہے۔’
اس واقعہ کو صرف ایک نوجوان کی مذہبی عدم رواداری کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ اس کے کہیں زیادہ سنگین اور خطرناک چھپے ہوئے نتائج ہو سکتے ہیں۔اگر ملزم کو ضمانت مل جاتی ہے تو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا وجودمتاثر ہو سکتا ہے اور سماج میں اس سے غلط پیغام جائےگا کہ ہیٹ اسپیچ سماج میں قابل قبول ہیں۔
مجسٹریٹ نے کہا، ‘عام آدمی کابھروسہ بحال کرنا ہوگا کہ یہ ملک سیکولر ہے اور وہ ایسے افراد کی حمایت میں نہیں ہے جو مذہب،ذات پات کے نام پر نفرت اور دشمنی کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر سماج میں نفرت پھیلانے والے ایسےغیرسماجی عناصر کوسخت پیغام دیں کہ قانون کا راج اب بھی قائم ہے۔’
Jamia shooter bail denied by
The Wire
فیصلے میں کہا گیا،‘ملزم کو سلاخوں کے پیچھے روکنے سےایک مضبوط پیغام جائےگا کہ ہندوستان ایک تکثیری سماج ہے، جہاں سبھی مذاہب کے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں اور ان میں ایک دوسرے کے لیے احترام کا جذبہ ہے۔ عدالت یہ بھی یقینی بنائے گی کہ قانون کا راج سب سے اوپر ہو۔’
فیصلے میں کہا گیا،‘ہمارا آئین ملک کے غیرشہریوں کو بھی تحفظ دیتا ہے تو یہ اسٹیٹ کے ساتھ ساتھ عدلیہ کا بھی فرض ہے کہ وہ یہ یقینی کرے کہ کوئی بھی مذہب یا ذات کے لوگ غیرمحفوظ محسوس نہ کریں اور نفرت پھیلانے والے ایسے لوگ بنا ڈر کے کھلے عام نہیں گھوم سکتے۔’
مجسٹریٹ نے کہا، ‘ملزم جیسے لوگ کورونا مہاماری سے زیادہ خطرناک ہیں۔ کورونا بلا تفریق مذہب وملت کسی بھی شخص کی جان لے لیتا ہے۔ جس طرح کا ہیٹ اسپیچ ملزم نے دیا، اگر اس کے بعدفرقہ وارانہ تشدد ہوتا ہے تومذہب کی بنیاد پر کئی بے قصورلوگوں کی جان جائےگی۔’
مجسٹریٹ نے کہا، ‘عدالت اس سچائی سے بھی واقف ہے کہ اگر ملزم کو ضمانت پر رہا کیا گیا تو بےشک ملزم ایک بار پھر غیر آئینی اور غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں بھی ہو سکتا ہے،لیکن وہ شکایت گزار اور دیگر گواہوں کو دھمکی دےکر جانچ کو متاثر کر سکتا ہے۔’
عرضی گزار کے وکیلوں نےدلیل دی کہ اسی مہاپنچایت میں کئی دوسرے لوگوں نے بھی ہیٹ اسپیچ دیے تھے لیکن صرف عرضی گزار کو ملزم بنایا گیا اور گرفتار کیا گیا کیونکہ وہ باہری ہے اور اس کا کوئی سیاسی رابطہ نہیں ہے۔
وکیل نے یہ بھی کہا کہ دیگر مقررین(جو طاقتور شخص ہیں)نے ہیٹ اسپیچ دیے لیکن ان کے خلاف کوئی کارر وائی نہیں ہوئی۔ اس سے ان کے موکل کے لیے ہریانہ پولیس کے امتیازی رویے کا پتہ چلتا ہے۔
حالانکہ وکیل نے کسی بھی شخص کا نام نہیں لیا۔ وہ شاید بی جے پی کے ترجمان سورج پال امو کا ذکر کر رہے تھے، جنہوں نے پٹودی مہاپنچایت میں مسلمانوں کے خلاف وہاں کے مقامی لوگوں کو اکسایا تھا۔
مجسٹریٹ صغیر نے کہا کہ عدالت کو بتایا گیا کہ پولیس کو موجودہ ملزم کے خلاف ہی شکایت ملی اور اگر بعد میں جانچ کے دوران دیگر لوگوں کے خلاف کسی طرح کے ثبوت ملتے ہیں تو انہیں بھی قانون کے مطابق گرفتار کیا جائےگا۔
ملزم اور اس کی آن لائن مقبولیت میں اضافہ کا مطالعہ کرنے کے بعد صحافی کوشک راج اور عالیشان جعفری نے
دی وائر پر شائع ایک اسٹوری میں بتایا تھا کہ کس طرح سے ان کے بیانات کی ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل کی جاتی ہے۔
چار جولائی کو ہوئی اس مہاپنچایت میں ملزم نے ‘ہندوؤں سے مسلم خواتین کو اغوا کر کےلو جہاد کا بدلا لینے کو کہا تھا۔ اتنا ہی نہیں وہاں موجود لوگوں کو مسلم مخالف نعرے لگاتے بھی سنا گیا۔ملزم کو ‘جب ملے٭٭ کاٹے جا ئیں گے، تب رام رام چلائیں گے’ کہتے بھی سنا گیا۔
راج اور جعفری کی رپورٹ میں مکمل تفصیل ہے کہ کتنی بار ملزم نے سوشل میڈیا پر اس موادکو ریلیز کیا، جس میں وہ کھلے عام مسلمانوں کے خلاف تشدد کی اپیل کر رہا ہے۔ویڈیو کی ایک سیریز میں کیے گئےتشدد کا اشارہ بھی ملتا ہے اور اس کا عنوان ہے‘گئو رکشا’یا گائے کاتحفظ۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)