دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ موجودہ قوانین کے تحت کسی بھی طرح کی غیر معینہ مدت کی بھوک ہڑتال کی منظوری دینے کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ اس لیے سونم وانگچک اور دوسرے لوگوں کو جنتر منتر پر بھوک ہڑتال کی منظوری نہیں دی جا سکتی۔
سونم وانگچک اور دیگر لداخ بھون میں بھوک ہڑتال پر۔ (تصویر بہ شکریہ: اسکرین گریب X/@Wangchuk66)
نئی دہلی: لداخ میں ماحولیاتی کارکن سونم وانگچک اور ان کے ساتھیوں کو دہلی پولیس کی جانب سے جنتر منتر پربھوک ہڑتال کی منظوری نہیں ملی، اس کے بعد ان تمام لوگوں نے دہلی کے لداخ بھون میں غیر معینہ مدت کے لیے بھوک ہڑتال شروع کر دی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ، دہلی پولیس نے اتوار (6 اکتوبر) کواپیکس باڈی لیہہ کے کوآرڈینیٹر جگمت پلجور، جو اس مارچ کے کنوینر میں سے ایک ہیں، کو مطلع کیا کہ موجودہ قوانین کے تحت کسی بھی طرح کی غیر معینہ کی ہڑتال اور بھوک ہڑتال کی منظوری دینے کا کوئی جواز موجودنہیں ہے۔ اس لیے سونم وانگچک اور دیگر کو جنتر منتر پربھوک ہڑتال کی منظوری نہیں دی جا سکتی۔
ایڈیشنل پولیس کمشنر انیش رائے کے ایک خط میں کہا گیا ہے، ‘جیسا کہ درخواست سے واضح ہے، موجودہ قوانین، قواعد اور رہنما خطوط کے تحت کوئی ایسا اہتمام نہیں ہے جس کے تحت کسی بھی طرح کی ‘بھوک ہڑتال’ کی اجازت دی جاسکے، اجتماعی تقریب کی تو بات ہی چھوڑ دیں ۔’
رائے کے پلجور کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ اس پروگرام کے آغاز یا اختتام کے لیے کوئی ٹائم لائن نہیں دی گئی ہے، جو سپریم کورٹ کے جاری کردہ 2017 اور 2018 کے احکامات کی بنیاد پر بنائے گئے رہنما خطوط کے خلاف ہے۔
خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ رہنما خطوط کے مطابق جنتر منتر پر کسی بھی مظاہرے کے لیے درخواست طے شدہ تقریب سے کم از کم 10 دن پہلے دی جانی چاہیے۔
مزید برآں، رہنما خطوط میں کہا گیا ہے کہ تقریب صبح 10 بجے سے شام 5 بجے کے درمیان ہونی چاہیے۔ لیکن دہلی پولیس کو سوشل اور الکٹرانک میڈیا کے ذریعے ‘ان پٹ’ موصول ہوئے ہیں کہ ‘مجوزہ پروگرام کی قیادت نے کہا ہے کہ یہ غیر معینہ مدت کے لیے ہے’ اور اس کا نتیجہ کچھ شرائط کی تکمیل پر مبنی ہوگا۔ اس سے بالکل واضح ہے کہ یہ مجوزہ بھوک ہڑتال طویل عرصے تک جاری رہنے والی ہے۔
ہندوستان میں گاندھی کے راستے پر چلنے کا کوئی وسیلہ نہیں ہے: وانگچک
اس سلسلے میں وانگچک نے سوشل میڈیا پر اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ اپنے ملک میں گاندھی کے راستے پر چلنا اتنا مشکل کیوں ہے؟
سونم وانگچک نے اتوار کو ایکس پر لکھا، ‘ایک اور ناکامی، ایک اور مایوسی۔ بالآخر آج صبح ہمیں احتجاج کے لیے سرکاری طور پر طے شدہ مقام کے لیے یہ مایوس کن خط موصول ہوا۔ ہم ایک رسمی جگہ پر امن طریقے سے بھوک ہڑتال کرناچاہتے تھے۔ لیکن گزشتہ 2-3 دنوں سے ہمیں ایسی کوئی جگہ نہیں دی گئی۔ ہمیں لداخ بھون میں قید رکھا گیا ہے۔ ہم یہیں سے بھوک ہڑتال کر رہے ہیں۔’
سونم نے مزید کہا، ‘ہمارے سینکڑوں لوگ لیہہ سے دہلی چل کر آئے ہیں۔ ان میں خواتین، سابق فوجی اور 75 سال بزرگ بھی شامل ہیں۔ ہم سب لداخ بھون میں غیر معینہ مدت کے لیے بھوک ہڑتال پر بیٹھیں گے۔’
اس سے قبل، ماحولیاتی کارکن
سونم وانگچک نے جمعہ (4 اکتوبر) کی شام دہلی کے لداخ بھون میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اگر انہیں اور ان کے ساتھیوں کو وزیر اعظم، صدر یا وزیر داخلہ جیسے اعلیٰ رہنماؤں سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی تو وہ ایک بار پھر بھوک ہڑتال پر مجبور ہوں گے۔
وانگچک نے تب کہا تھا کہ انہیں صدر، وزیر اعظم یا مرکزی وزیر داخلہ سے ملاقات کے ان کے مطالبے پر حکومت کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا، حالانکہ انہیں یقین دہانی کرائی گئی تھی۔
معلوم ہو کہ اس سے پہلے سونم وانگچک اور ان کے ساتھ مارچ کرنے والے سینکڑوں کارکنوں کو 30 ستمبر کی رات دہلی سے پہلے سنگھو بارڈر پر حراست میں لینے کے بعد وانگچک اور دیگر نے جیل میں ہی ہڑتال شروع کر دی تھی۔ یہ تمام لوگ تقریباً 48 گھنٹے بھوک ہڑتال پر تھے ۔
اس کے بعد دہلی پولس کے ذریعے راج گھاٹ لائے جانے کے بعد وانگچک اور دیگر نے 2 اکتوبر کی رات کو اپنی ہڑتال ختم کر دی تھی۔
معلوم ہو کہ وانگچک لداخ کو مکمل ریاست کا درجہ دینے اور اسے آئین کے چھٹے شیڈول میں شامل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے دہلی کی طرف مارچ کر رہے تھے۔ یکم ستمبر کو لیہہ سے شروع ہونے والا یہ مارچ تقریباً ایک ہزار کلومیٹر لمبا تھا اور طے شدہ شیڈول کے مطابق اسے 2 اکتوبر یعنی گاندھی جینتی کو باپو کی سمادھی پہنچنا تھا۔ لیکن اس سے پہلے ہی پولیس نے مارچ کو روک دیا اور ان لوگوں کو حراست میں لے لیا گیا۔
اس دورے کا ایک مقصد لداخ کے حساسیت اور ماحولیاتی نظام کو بچانا بھی ہے، جس کے لیے مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ کوئی بھی ترقیاتی پروجیکٹ اس کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا جائے، کیونکہ یہ خطہ پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلی کے مضر اثرات کا سامنا کر رہا ہے۔