وشو ہندو پریشد کے پروگرام میں الہ آباد ہائی کورٹ کے جج بولے- ملک اکثریت کی خواہش  کے مطابق چلے گا

الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر کمار یادو نے وشو ہندو پریشد کے پروگرام میں کئی متنازعہ بیانات دیے، جس میں ایک خاص مذہب کے بارے میں بھی کئی قابل اعتراض باتیں کہی گئیں۔ سوشل میڈیا پر کئی جماعتوں کے رہنماؤں نے ان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر کمار یادو نے وشو ہندو پریشد کے پروگرام میں کئی متنازعہ بیانات دیے، جس میں ایک خاص مذہب کے بارے میں بھی کئی قابل اعتراض باتیں کہی گئیں۔ سوشل میڈیا پر کئی جماعتوں کے رہنماؤں نے ان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

جسٹس شیکھر یادو (تصویر بہ شکریہ: اسپیشل ارینجمنٹ)

جسٹس شیکھر یادو (تصویر بہ شکریہ: اسپیشل ارینجمنٹ)

نئی دہلی: الہ آباد ہائی کورٹ کے دو جج اتوار (8 دسمبر) کو الہ آباد میں وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کی جانب  سے منعقد ایک تقریب کا حصہ تھے، جس میں ‘وقف بورڈ ایکٹ’ اور ‘تبدیلی مذہب ‘ کے موضوعات پر تبادلہ خیال کیا جانا تھا۔

رپورٹ کے مطابق ، ہائی کورٹ کے لائبریری ہال میں منعقد ہونے والے اس پروگرام کا اہتمام وی ایچ پی کے ‘کاشی پرانت’ (وارانسی) کے قانونی سیل اور ہائی کورٹ یونٹ (الہ آباد) نے کیا تھا۔ اس پروگرام میں ہائی کورٹ کے جج جسٹس شیکھر کمار یادو نے یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی) کی ضرورت پر بھی تقریر کی۔

یو سی سی کی آئینی ضرورت پر بات کرتے ہوئے جسٹس شیکھر کمار یادو نے کہا کہ یو سی سی مساوات اور انصاف کے اصولوں پر مبنی ہے اور سیکولرازم ایک طویل عرصے سے ہندوستان میں بحث کا موضوع رہا ہے۔

جسٹس یادو 2026 میں ریٹائر ہونے والے ہیں۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ یو سی سی کا بنیادی مقصد مختلف مذاہب اور برادریوں پر مبنی غیر مساوی قانونی نظام کو ختم کرکے سماجی ہم آہنگی، صنفی مساوات اور سیکولرازم کو فروغ دینا ہے۔ اس کے ساتھ، یہ ضابطہ نہ صرف برادریوں کے درمیان بلکہ ایک کمیونٹی کے اندر بھی قوانین کی یکسانیت کو یقینی بناتا ہے۔

ہندوستان  اکثریت کی خواہش کے مطابق چلے گا

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، جسٹس یادو نے پروگرام میں کہا کہ ہندو، مسلمانوں سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ وہ ان ثقافت کی پیروی کریں، لیکن وہ چاہتے ہیں کہ وہ اس کی توہین نہ کریں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے، تین طلاق یا حلالہ پر عمل کرنے کا کوئی بہانہ نہیں رہ گیا ہے۔ یہ چیزیں  اب نہیں چلیں گی۔ یہاں تک کہ انہوں نے مسلمانوں کے ایک طبقے کے لیے متنازعہ اصطلاح ‘کٹھ ملا’ کا استعمال بھی  کیا اور انھیں ملک کے لیے ‘مہلک’ قرار دیا۔

جسٹس شیکھر کمار یادو نے سوالیہ لہجے میں کہا کہ ہم اپنے بچوں کو پیدائش سے ہی رواداری اور رحم کھانے کا درس دیتے ہیں۔ ہم انہیں جانوروں اور فطرت سے پیار کرنا سکھاتے ہیں۔ ہم دوسروں کے دکھ سے دکھی ہوتے ہیں۔ لیکن آپ ایسا محسوس نہیں کرتے۔ ایسا کیوں ہے؟ جب آپ اپنے بچوں کےسامنے جانوروں کو ذبح کریں گے تو وہ رواداری اور رحم کھانا کیسے سیکھیں گے؟

انہوں نے مزید کہا کہ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ ہندوستان ہے اور یہ اپنی اکثریت کی خواہشات کے مطابق چلے گا۔

جسٹس یادو نے مزید کہا کہ ہندو ہونے کے ناطے ہم اپنے مذہب کا احترام کرتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم دوسرے مذاہب یا عقائد کے تئیں کوئی بری خواہش رکھتے ہیں۔ انہوں نے دیگر مذہبی پیروکاروں کو بھی اسی راستے پر چلنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم آپ سے شادی کرتے ہوئے آگ کے سات چکر لگانے کی امید نہیں رکھتے۔ ہم نہیں چاہتے کہ آپ گنگا میں ڈبکی لگائیں۔ لیکن، ہم آپ سے توقع کرتے ہیں کہ آپ ملک کی ثقافت، دیوتاؤں اور عظیم رہنماؤں کی توہین نہ کریں۔

جسٹس یادو نے کہا کہ ہندو ہونا ان کی پہلی پہچان ہے۔ انہوں نے وی ایچ پی کے اجتماع کو یقین دلایا کہ ‘جس طرح رام مندر ایودھیا میں ہمارے آباؤ اجداد کی برسوں کی قربانیوں کے بعد بنایا گیا تھا، اسی طرح یکساں سول کوڈ بھی جلد ہی حقیقت بن جائے گا۔’

پروگرام کے آغاز میں جسٹس یادو نے اپنے خطاب میں گائے، گنگا اور گیتا کو ہندوستانی ثقافت کی شناخت قرار دیا اور اپنی تقریر کے آخر میں بی جے پی کے نعرے ‘ایک رہیں گے تو سیف رہیں گے’ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ اسے استعمال نہیں کرے گا لیکن ہم یہ ضرور بتانا چاہیں گے کہ ایک بار جب ہر کسی کو ہندو ہونے کی قدروں کا احساس ہو جائے تو پھر کوئی ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

جسٹس یادو نے سوشل میڈیا پر تنقید کی

جسٹس یادو کی باتوں  کو لے کر سوشل میڈیا پر سیاسی ردعمل بھی سامنے آ رہا ہے۔ جسٹس یادو کی حمایت کرتے ہوئے بی جے پی ایم ایل اے شلبھ منی ترپاٹھی نے انہیں سلام کیا ہے، جبکہ ترنمول کانگریس ایم پی مہوا موئترا اور اے آئی ایم آئی ایم ایم پی اسد الدین اویسی نے ان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

بی جے پی لیڈر شلبھ ترپاٹھی نے لکھا، ‘کٹھ ملے ملک کے لیے مہلک ہیں، ہمیں ان سے ہوشیار رہنا چاہیے’، اس سچ کو بولنے کے لیے ہمت ہونی چاہیے۔ شری کرشن ونشی یادو جی کو سلام۔’

مہوا موئترا نے ایکس پر کہا، ‘ہائی کورٹ کے موجودہ جج نے وی ایچ پی کی تقریب میں حصہ لیا، کہا کہ ملک ہندوؤں کے مطابق چلے گا۔ اور ہم اپنے آئین کے 75 سال مکمل ہونے کا جشن منا رہے ہیں! سپریم کورٹ، معزز سی جے آئی – کوئی از خود نوٹس لے؟

اے آئی ایم آئی ایم کے رکن پارلیامنٹ اسد الدین اویسی نے کہا کہ یہ ‘بدقسمتی’ ہے کہ ہائی کورٹ کے جج نے وشو ہندو پریشد جیسی تنظیم کی کانفرنس میں شرکت کی، جس پر مختلف مواقع پر پابندی لگائی گئی تھی۔

انہوں نے مزید کہا، ‘یہ آر ایس ایس سے وابستہ ایک تنظیم ہے، جس پر ولبھ بھائی پٹیل نے ‘نفرت اور تشدد کی طاقت’ ہونے کی وجہ سے پابندی لگا دی تھی۔ اس ‘تقریر’ کی آسانی سے تردید کی جا سکتی ہے، لیکن ان کے آنر کو یہ یاد دلانا زیادہ ضروری ہے کہ ہندوستان کا آئین عدالتی آزادی اور غیر جانبداری کا تقاضہ کرتا ہے۔’

اسی دوران سینئر وکیل اندرا جئے سنگھ نے وی ایچ پی کے پروگرام میں جسٹس یادو کی شرکت پر تنقید کی۔ انہوں نے ایکس پر کہا، ‘ایک موجودہ جج کے لیے ایک ہندو تنظیم کی جانب سے اپنے سیاسی ایجنڈے پر منعقد ہونے والے پروگرام میں فعال طور پر شرکت کرنا کتنا شرمناک ہے۔’

ایک اور جج جسٹس دنیش پاٹھک نے چراغ جلا کر تقریب کا افتتاح کرنا تھا۔ تاہم ان کی موجودگی کی کوئی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

اس میٹنگ میں جونپور، سلطان پور، پرتاپ گڑھ، امیٹھی، الہ آباد، کوشامبی، بھدوہی، مرزا پور، چندولی، سون بھدرا، غازی پور اور وارانسی سے وی ایچ پی کے کاشی صوبے کے قانونی سیل کے ارکان نے حصہ لیا۔

سرکاری وکیل اے کے سنڈ اور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، الہ آباد کے صدر انل تیواری نے بھی اس پروگرام میں اپنی بات رکھی، جسے وشو ہندو پریشد کے ذرائع نے بند کمرے کا پروگرام بتایا۔

اس سے قبل بھی تنازعات کا شکار رہے ہیں

واضح ہو کہ جسٹس شیکھر کمار یادو ماضی میں اپنے متنازعہ تبصروں کی وجہ سے سرخیوں میں رہے ہیں۔ انہیں خاص طور پر ہندو مت اور دیومالائی کہانیوں کے عناصر کی حمایت کرتے ہوئے  دیکھا جاتا ہے۔

سال2021 میں سنبھل کے ایک مسلمان شخص کو گائے چوری کرنے اور اسے اپنے ساتھیوں کے ساتھ گائے کو ذبح کرنے کے الزام میں ضمانت دینے سے انکار کرتے ہوئے یادو نے کہا تھا کہ گائے کو ‘قومی جانور’ قرار دیا جانا چاہیے اور گائے کے تحفظ کو ہندوؤں کا بنیادی حق بنایا جانا چاہیے۔

اپنے 12 صفحات کے حکم نامے میں، جو ہندی میں لکھا گیا ہے اور دیومالائی کہانیوں سے بھرا ہوا ہے، جسٹس یادو نے کہا تھا کہ سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ گائے واحد جانور ہے جو آکسیجن لیتی اورخارج کرتی ہے۔

اسی سلسلے میں انہوں نے یہ بھی دلیل دی تھی کہ گائے کے ذبیحہ کے ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے لیے پارلیامنٹ کو قانون لانا چاہیے۔ تب انہوں نے کہا تھا کہ جب ملک کے عقیدے اور ثقافت کو ٹھیس پہنچتی ہے تو ملک کمزور ہو جاتا ہے۔’

اسی سال اکتوبر میں جسٹس یادو نے ایک اور حکم میں تبصرہ کیا تھا کہ رام اور کرشن جیسے ہندو دیوتاؤں کے ساتھ ساتھ رامائن اور گیتا کے مصنفین، والمیکی اور وید ویاس کو پارلیامنٹ میں ایک قانون کے ذریعے قومی اعزاز دیا جانا چاہیے۔ یادو نے ہندو سماج کے ساتھ ساتھ دنیا کی فلاح و بہبود کے لیے ان دیوتاؤں اور دیومالائی کردار کی بھی تعریف کی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان عناصر کو ملک کے تمام اسکولوں میں لازمی مضمون بنایا جائے۔

جسٹس یادو دسمبر 2021 میں ایک بار پھر سرخیوں میں آئے تھے، جب انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی اور الیکشن کمیشن سے درخواست کی کہ سیاسی جماعتوں کے جلسوں اور ریلی پر فوری طور پر پابندی لگائی جائے اور کووڈ-19 کے اومیکرون کے بڑھتے ہوئے معاملات کی وجہ سے 2022 کے اتر پردیش اسمبلی انتخابات کو ملتوی کرنے پر غور کیا جائے۔

یادو نے تب تبصرہ کیا تھا کہ ‘جان ہے تو جہان ہے’۔

تاہم، الہ آباد میں منعقدہ پروگرام میں وی ایچ پی کے قانونی سیل کے قومی کنوینر ابھیشیک اترے مہمان خصوصی تھے اور انہوں نے وقف ترمیمی بل پر تقریر کی۔ اترے نے کہا کہ بنگلہ دیش میں حالیہ سیاسی ہنگامہ آرائی کے بعد ایک وہاں اقلیتوں کو مبینہ طور پر نشانہ بنانے کے تناظر میں ‘دوسرے کشمیر’ کو دیکھا جا سکتا ہے۔

اترے نے کہا، ‘ہم سب کو اپنی شناخت کی حفاظت کے لیے متحد رہنا ہوگا۔’

صدارتی تقریر کرنے والے سرکاری وکیل سینڈ نے کہا کہ وقف بورڈ نے کئی دیگر تنظیموں کی زمینوں پر قبضہ کر لیا ہے۔