ہندوستانی مسلمان کو درپیش مسائل کے حل کے لئے سر سید سے کیا سیکھا جا سکتا ہے؟

سرسید کے دور میں گئو کشی کو لے کربڑے پیمانے پر فسادات پھوٹ پڑے تھے، ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے سرسید نے اپنے ہم وطنوں سے باہمی مفاہمت کا طریقہ اختیار کیا اور مختلف اخبارات و رسائل میں گائے کے ذبیحہ کو مسلمانوں سے ترک کرنے کی اپیل جاری کی۔

سرسید کے دور میں گئو کشی کو لے کربڑے پیمانے پر فسادات پھوٹ پڑے تھے، ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے سرسید نے اپنے ہم وطنوں  سے باہمی مفاہمت کا طریقہ اختیار کیا اور مختلف اخبارات و رسائل میں گائے کے ذبیحہ کو مسلمانوں سے ترک کرنے کی اپیل جاری کی۔

sir syed_amu

ہر سال کی طرح آج بھی بانی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سرسید کے یوم پیدائش 17/اکتوبر کے موقع پر ان کو یاد کیا جا رہا ہے۔ اس موقع سے ہمیں ان کی خدمات کا پھر سے جائزہ لینا چاہئے تاکہ عصر حاضر میں ہندوستانی مسلمان جن سنگین حالات اور حادثات سے دوچار ہیں ان کا حل سرسید کے وژن اور مشن کی روشنی میں تلاش کیا جا سکے۔

آج ہمارے ملک کے مختلف حصوں میں خاص طور پر ہندی بولنے والی ریاستوں میں‘گائے اور جئے شری رام’کے نام پر پر تشدد ہجوم کے ذریعہ جس طرح بے قصور لوگوں کا قتل کیا جارہا ہے وہ نہ صرف مسلم فرقہ کے لیے لمحہ  فکریہ ہے بلکہ جمہوری اور سیکولر نظام حکومت کے لیے بھی ایک بد نما داغ ہے۔

سرسید کے دور میں گئو کشی کو لے کربڑے پیمانے پر فسادات پھوٹ پڑے تھے، ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے سرسید نے اپنے ہم وطنوں  سے باہمی مفاہمت کا طریقہ اختیار کیا اور مختلف اخبارات و رسائل میں گائے کے ذبیحہ کو مسلمانوں سے ترک کرنے کی اپیل جاری کی۔ خاص کر عید الضحیٰ کے موقع پر مسلمانوں سے کہا کہ وہ ہندو فرقہ کے احساسات اور جذبات کا احترام کرتے ہوئے گائے کی قربانی سے پرہیز کریں۔ خود اپنے ادارے میں گائے کے گوشت کے استعمال پر مکمل پابندی لگا کر غیر مسلموں کا دل جیتنے میں کامیاب ہوئے۔

سرسید کا دور مذہبی مناظروں کا دور تھا،سرسید نے مناظروں کی جگہ مذاکروں اور مکالموں کو اہمیت دی اور انٹر فیتھ ڈائیلاگ کے ذریعہ اسلام اور مسلم دشمن عناصر سے بھی ربطِ باہمی کی فضا پیدا کی جس کی وجہ سے سرسید کو غیر مسلموں کا بھی بھرپور تعاون حاصل ہوا۔ مثال کے طور پرجب وہ بنارس میں تعینات تھے، آریہ سماج تحریک کے بانی سوامی دیانند سرسوتی کو انہوں نے اپنی رہائش گاہ پر مدعو کرکے ویدوں کے منتر پڑھوائے کیونکہ بنارس سناتن دھرم کا سب سے بڑا مرکز تھا اور دیا نند سرسوتی ایک خدا کی عبادت کے تصور کو لے کر منظرِ عام پر آئے تھے۔ سرسید کی اس حکمت عملی کی وجہ سے پنجاب کے آریہ سماجی سرسید کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور سرسید کو سب سے زیادہ کامیابی پنجاب میں ہی حاصل ہوئی۔ وہ اہلِ پنجاب کو’زندہ دلانِ پنجاب’خیال کرتے تھے۔

ہندوستانی مسلمان مختلف طبقاتی اور مسلکی جھگڑوں میں گرفتار ہیں، شیعہ، سنی، دیوبندی اور بریلوی کے نظریاتی اختلافات بڑھتے جا رہے ہیں۔ سرسید کسی بھی طرح کے مسلکی جھگڑے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے جب دینی نصاب تیار کرنے کے لیے اپنے عہد کے ممتاز عالم مولانا قاسم نانوتوی سے درخواست کی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس شرط پر نصاب تیار کریں گے کہ اس ادارے میں صرف سنی طلباکو ہی تعلیم کی سہولیات فراہم کی جائیں جس پر سرسید نے صفائی سے کہہ دیا تھا کہ ان کے ادارے کے دروازے ہر شخص کے لیے کھلے رہیں گے، حتیٰ کہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی کوئی تفریق نہیں برتی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ آج پورے ملک میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جامع مسجد واحد ایسی مسجد ہے جہاں سنی اور شیعہ دونوں اپنے اپنے طریقے سے عبادت کرتے ہیں۔ اسی طرح سرسید نے شیخ عبد القادر جیلانی، امام غزالی اور امام ربانی مجددالف ثانی کی مثالوں کو اپنے سامنے رکھا کیونکہ ان بزرگانِ دین کو بھی اپنی مصلحانہ کوششوں میں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

جامع مسجد، اے ایم ہو/ فوٹو بشکریہ : ڈیپارٹمنٹ آف ماس کمیونیکیشن، اے ایم یو

جامع مسجد، اے ایم ہو/ فوٹو بشکریہ : ڈیپارٹمنٹ آف ماس کمیونیکیشن، اے ایم یو

سرسید اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ ہر نئی تحریک اختلافات کی آغوش میں ہی پرورش پاتی ہے۔ سرسید کی مذہبی اور جدید فکر کے مخالف مولانا اکبر آبادی نے شیعہ و سنی کو ایک مرکز پر یکجا ہوتے دیکھا تو انہیں اعتراف کرنا پڑا؛

شکر ہے سنی و شیعہ کا ارادہ نیک ہے

طرزِ طاعت دو سہی، ترکیبِ کالج ایک ہے

سرسید جس دورمیں پیدا ہوئے اس دور کے اپنے تقاضے تھے۔ سرسید عقل سلیم نہیں’عقل کلیم’ کے مالک تھے۔ لہٰذا ان کی عقل کسی بھی موقع پر کلام کرنے سے باز نہیں آئی۔ وہ مسلمانوں کو ملاؤں کی گرفت سے نکالنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنے دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیےیکم فروری 1884 کو لاہور کے ایک جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا

‘ہمارے بزرگوں کو نہایت آسانی تھی کہ مسجدوں اور خانقاہوں کے حجروں میں بیٹھے بیٹھے قیاس، دلائل اور عقل کو عقلِ براہین سے توڑتے پھوڑتے رہیں اور ان کو ہرگز تسلیم نہ کریں۔ مگر اس زمانے میں نئی صورت پیدا ہوئی ہے جو اس زمانے کے فلسفہ و حکمت کی تحقیقات سے بالکل علیٰحدہ ہے، اب مسائلِ طبعی تجربے سے ثابت کیے جاتے ہیں اور وہ ہم کو دکھائے جاتے ہیں۔ یہ مسائل ایسے نہیں جو قیاس دلائل سے اٹھا دیے جائیں۔’

سرسید اپنے دور کے سب سے بڑے نباض تھے جنہوں نے اپنے زمانے کی رفتار کے رجحان کونہ صرف پہچانا بلکہ اس کا حل بھی تلاش کیا۔ سرسید کے جن کاموں نے شہرتِ دوام حاصل کی اور جن اصلاحی تحریکوں کو قبولِ عام کی سند ملی وہ زیادہ تر تعلیمی، مذہبی اور معاشرتی حیثیت کی حامل ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی تمام ترکوششوں کے محرک اول وہ سیاسی اسباب تھے جو انیسویں صدی کے نصف آخر میں نشو ونما پا رہے تھے اور جو پہلی مرتبہ 1857 کے ہیجان عام میں ظاہر ہوئے۔ بقول منشی سراج الدین،1857 کے غدر نے سرسید احمد خاں کی طبیعت کے ساتھ وہی کام کیا جو ایک بجلی گرنے کے واقعے نے لوتھر کے ساتھ کیا تھا۔ اس عظیم سانحہ سے ابھرنے کے لیے انہوں نے اپنی پوری زندگی ملک و ملت کے لیے وقف کر دی۔

سرسید اعلیٰ تعلیم کو سیاسی اقتدار کے حصول کا ایک اہم ذریعہ تصور کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جیسے جیسے جدید تعلیم کو فروغ حاصل ہوگا، ہندوستانیوں میں سیاسی بیداری خود بخود پیدا ہو جائے گی۔ اگر وہ تعلیم حاصل نہیں کر سکیں گے تو نہ وہ سیاسی داؤں پیچ جان سکیں گے اور نہ اپنے حقوق کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ اپنے عہد کے سیاسی تناظر میں وہ یہ سمجھتے تھے کہ تعلیم کے ذریعہ ہی سیاسی حقوق کی بازیافت ہو سکتی ہے۔ امرتسر کے ایک جلسہ کوخطاب کرتے ہوئے سرسید نے کہا تھا کہ اگر گورنمنٹ نے ہمارے کچھ حقوق اب تک ہم کو نہیں دیے ہیں جن کی ہم کو شکایت ہے تو بھی ہائر ایجوکیشن وہ چیز ہے کہ خواہ مخواہ مخطوطا طوعاً و کرہاً ہم کو دلا دے گی۔

سرسید ہندوستان میں ایک ایسے جمہوری نظام کا خواب دیکھ رہے تھے جس کی شبیہ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں پیش کی ہے؛

‘گورنمنٹ کا فرض ہے کہ جن لوگوں پر وہ حکومت کرتی ہے، جو ان کا کسب و پیشہ و معاش ہے، خواہ آزادی مذہب و آزادی رائے اور آزادی زندگی سے، ان کی محافظ ہو، غیر مساوی قوتوں سے کسی کو نقصان نہ پہنچنے دے….جس گورنمنٹ میں یہ چیزیں نہیں ہیں، وہ گورنمنٹ نامہذب و ناتربیت یافتہ ہوتی ہے اور ا س ملک میں کبھی امن نہیں رہتا۔ ملک کی، مال کی، دولت کی، قوم کی، رعایا کی کبھی ترقی نہیں ہوتی۔’

سرسید کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ سیاست شدت چاہتی ہے اور تعلیم مدت چاہتی ہے۔ سیاست میں اشتعال پیدا ہوتا ہے جبکہ تعلیم سے اعتدال۔ انہوں نے کہا تھا کہ جب اس ملک کی عوام تعلیم یافتہ ہوجائیں گے تو وہ خود قانون بنائیں گے اور ملک کے اقتدار اور اختیار میں بھرپور نمائندگی کریں گے۔ سرسید کا یہ خواب آزاد ہندوستان کی شکل میں پورا ضرور ہوا لیکن 2019کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ممبران کی ایک بڑی تعداد مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے اور مختلف عدالتوں میں ان کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں۔ ان ممبران پارلیامنٹ میں بعض ایسے افراد بھی ہیں جو نہ صرف ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کے مخالف ہیں بلکہ فسطائی ذہن کے حامل ہیں۔ ایسے منتخب اراکین نہ صرف جمہوریت بلکہ ملک کے مستقبل کے لیے بھی سنگین خطرہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:کیا ماڈرن ایجوکیشن کے پیروکار سر سید احمد خان عورتوں کی تعلیم کے خلاف تھے؟

آج ہندوستانی مسلمان نہ صرف سیاست کے میدان میں بے وزن ہو گئے ہیں بلکہ ناخواندگی اور پسماندگی کی وجہ سے زندگی کے ہر میدان میں پچھڑتے جا رہے ہیں۔ ہمیں حکومت سے مطالبہ کرنے کے بجائے خود اپنا احتساب کرنا چاہئے اور اس سلسلے میں سرسید کے نسخہ کیمیا کو اپنانا چاہئے۔

آج ہندوستان کے اکثریتی طبقہ کے ایک بڑے گروہ کی رائے مسلمانوں کے خلاف ہے جس کا اظہار ماب لنچنگ، ٹی وی مباحثوں اور سوشل میڈیا پر دیکھا جا سکتا ہے۔ سرسید ان چند بیدار ذہن لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اپنے دور کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے انسٹی ٹیوٹ گزٹ اور تہذیب الاخلاق کی مدد سے رائے عامہ کو مسلمانوں کے حق میں ہموار کیا۔ انہوں نے نہ صرف مسلمانوں کو علم و آگہی کا پیغام دیا بلکہ اہل وطن اور انگریزوں کے ساتھ اپنے تعلقات اور معاملات کو استوار کرکے خوشگوار معاشرت کے ماحول کی آبیاری کی۔آج کی اصطلاح میں وہ سب سے بڑے رابطہ کار تھے اور ان کی صحافتی کاوشیں آج بھی اردو صحافیوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔

سرسید نے اپنی پوری تحریک کے دوران مسلمانوں کے لیے حکومت پر بھروسہ کرنے اور مالی امداد حاصل کرنے کے بجائے ‘اپنی مدد آپ’ کے تصور کو پیش کیا تھا۔ سرسید کے دور کی تمام عمارتوں پر لگے کتبوں کا بغور مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ سرسید نے چندہ جمع کرنے کے لیے کیا کیا جتن کیے تھے۔ 8/جنوری1877کو محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے سنگِ بنیاد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سرسید احمد خاں نے کہا تھا؛

‘ہندوستان کی تاریخ میں یہ اول ہی موقع ہے کہ یہ کالج نہ کسی خاص شخص کی فیاضی یا علمی شوق سے اور نہ کسی بادشاہ کی شاہانہ سرپرستی سے بنا ہے بلکہ کل قوم کی متفقہ خواہشوں اور مجتمع کوششوں سے قائم ہوا ہے۔ اس کالج کی بنا اس بات پر ہے جو سابق میں اس ملک کو پہلے کبھی دیکھنی نصیب نہیں ہوئی۔ یہ کالج بے تعصبی اور ترقی کے اصول پر مبنی ہے جس کی نظیر مشرق کی تواریخ میں نہیں پائی جاتی ہے۔’

مسلمانوں کی علمی عظمت کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے سرسیدیہ بھی چاہتے تھے کہ علی گڑھ اپنے اقتدار کو اس طرح کام میں لائے کہ اس کے مشعلِ علم اطرافِ ہند میں مسلمان گھروں میں علمی چراغ روشن کرے اور مسلمانوں میں وہ بصیرت، اولوالعزمی اور بلند نظری پیدا ہو جائے جو ان کو ترقی یافتہ قوموں میں اپنی جگہ پیدا کرنے کے قابل بنائے اور ان کی قدامت پسندی، تنگ خیالی اور توہمات کو دور کر سکے۔

آج سرسید کے نام کی تسبیح پڑھنے والوں اور مجاوروں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے مگر ان کی شخصیت اور کارناموں کی پیروی اور تقلید کرنے والوں کی کمی ہے۔ سرسید کو سب سے شاندار خراج عقیدت یہی ہوگا کہ ہم ان کی تعلیمات سے روشنی حاصل کریں اور عصر حاضر کے مسائل کا حل سرسید کی تعلیمات میں تلاش کریں۔

ممتاز دانش ور پروفیسر محمد مجیب کا کہنا تھا؛

‘سرسید کی معنویت پر گفتگو کرنا اس وجہ سے ضروری اور مفید معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی میں ان پر کفر کے فتوے لگے تھے۔ ان کے کفر نے ایمان کی راہیں کھول دیں جنہیں اندھی تقلید نے بند کر دیا تھا لیکن سرسید کی نکالی ہوئی راہیں بھی بند گلیاں ہو جائیں گی اگر ہم یہ بھول جائیں کہ راستہ آگے چلنے کے لیے ہوتا ہے، ایک جگہ بیٹھ جانے کے لیے نہیں۔’

زندگی کے کسی دائرہ فکر و عمل میں سرسید کی عظمت اور ان کی شخصیت کے گہرے اور پائیدار اثرات کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی سیرت اور افکار میں کوئی بات ایسی  ضرور تھی کہ ان کو قومی اور ملی زندگی کے کسی دائرے سے نکال کر پھینکنا تو درکنار، انہیں نظر انداز کرنا بھی ممکن نہ ہو سکا۔ ان کی عظمت کا سورج آج بھی نصف النہار پر ہے اور پوری دنیا میں اور ہر مذہب اور ہر طبقہ فکر میں ان سے محبت کرنے والوں کی تعداد کو شمار نہیں کیا جا سکتا۔

(مضمون نگار اردو اکادمی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کےڈائریکٹر ہیں۔)

Next Article

چھتیس گڑھ: ہندوتوا ہجوم کا عیسائی خاندان پر حملہ، پولیس کا ایف آئی آر درج کرنے سے انکار

کوردھا میں ایک عیسائی اسکول چلانے والے عیسائی خاندان کو 18 مئی کو چرچ سروس کے دوران ہندوتوا ہجوم کے پرتشدد حملے کے بعد روپوش ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ متاثرین کا الزام ہے کہ یہ واقعہ برسوں کی ہراسانی اور جبراً وصولی کا نتیجہ ہے، جو پولیس کی بے عملی اور سیاسی مداخلت کے باعث اور بھی بڑھ گیا ہے۔

گزشتہ 18مئی کو  عیسائی اسکول پر ہندوتوا  ہجوم کے حملے کے ویڈیو کا اسکرین شاٹ۔

کوردھا: چھتیس گڑھ کے کوردھا میں ایک عیسائی اسکول چلانے والے عیسائی خاندان کو 18 مئی کو اتوار کی چرچ سروس کے دوران ہندوتوا  ہجوم کے پرتشدد حملے کے بعد روپوش ہونے کو مجبور ہونا پڑا۔

آن لائن نشر ہونے والے ویڈیو کی تصدیق کی گئی  اور اس میں بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے اراکین کو ہولی کنگڈم انگلش ہائر سیکنڈری اسکول میں داخل ہوتے، ملازمین کے ساتھ مارپیٹ کرتے اور جبراً تبدیلی مذہب کا الزام لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے – ایک ایسا دعویٰ جس کے لیے حملہ آوروں نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔

تاہم، متاثرین کا الزام ہے کہ یہ پورا واقعہ برسوں سے جاری ہراسانی اور جبراً وصولی کا نتیجہ ہے، جو اب پولیس کی بے عملی اور سیاسی مداخلت کے باعث اور بڑھ گیا ہے۔

‘ہم کئی دہائیوں سے یہاں عبادت کرتے آ رہے ہیں؛ اب ہم مجرم ہیں؟

گزشتہ 18مئی کو، صبح قریب 11:40 بجے، بجرنگ دل اور وی ایچ پی کے تقریباً 80-100 ارکان اسکول کے احاطے میں داخل ہوئے، جہاں اتوار کی چرچ سروس  چل رہی تھی۔ مبینہ طور پر، ہجوم نے’جئے شری رام’ کے نعرے لگاتے ہوئےعبادت گاہ میں گھس کر خواتین اور نابالغوں کوسمیت وہاں موجود لوگوں کو مارا پیٹا، اور ‘بیت الخلاء’ میں چھپی بچیوں کو ڈرایا دھمکایا گیا۔

ہولی کنگڈم اسکول کے پرنسپل، پادری جوز تھامس، 35 سال سے زیادہ سے کوردھا میں مقیم ہیں۔ ان کے بیٹے جوشوآ جوز تھامس بتاتے ہیں، ‘ہمارا خاندان تمام برادریوں کو تعلیم فراہم کرنے کے مقصد سے اس اسکول کو چلا رہا ہے۔ لیکن اس بار انہوں نے میری ماں اور چھوٹے بھائی کو زدوکوب کیا۔ میرے والد کو گرفتار کر لیا گیا۔ اب ہم چھپ کر رہ رہے ہیں۔ اور پولیس ہماری شکایت درج نہیں کرے گی۔’

ایک ویڈیو بیان میں پادری تھامس کہتے ہیں، ‘کئی آئی اے ایس افسران، پولیس افسران، ڈاکٹر، انجینئر اور سی اے (چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ) نے یہاں سے اپنی تعلیم مکمل کی ہے۔ یہ 35 سال پرانا اسکول ہے۔’

گزشتہ 18مئی کے واقعے کے ویڈیو میں مقامی پولیس اور میڈیا حملے کے دوران وہاں نظر  آ رہے ہیں۔ تاہم، پولیس نہ صرف مبینہ طور پر تشدد کو روکنے میں ناکام رہی، بلکہ انہوں نے مبینہ طور پر جبری تبدیلی مذہب  کے الزام کی حمایت کرنے کے لیے وہاں موجود لوگوں کو اپنے بیانات بدلنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔

بتایا گیا ہے کہ پولیس نے حملے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی قبضے میں لے لی ہے، تاہم، اسے عام نہیں کیا گیا ہے۔

سرکاری دباؤ

حملے کے ایک دن بعدپولیس نے پادری جوز کو مبینہ ‘سی سی ٹی وی تحقیقات’ کے لیے بلایا اور انہیں نامعلوم الزامات کے تحت گرفتار کر لیا۔

مبینہ طور پر بغیر وارنٹ کے ان کے فون کی تلاشی لی گئی اور ان کی بیوی کو بھی طلب کیا گیا۔ ضمانت ملنے کے بعد پادری جوز کو کار کی ڈکی میں چھپ کر کوردھا سے بھاگنا پڑا کیونکہ بجرنگ دل کے لوگ ان سے نمٹنے کے لیے عدالت کے باہر جمع ہو گئےتھے۔

کئی کوششوں کے باوجود پولیس نے حملہ آوروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے خاندان کو منع کر دیا ہے۔

جوشوآنے الزام لگایا کہ ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (اے ایس پی) بگھیل اور ایس پی دھرمیندر سنگھ سمیت مقامی پولیس اہلکار ‘سرکاری دباؤ’ میں کام کر رہے تھے۔

اس دوران بی جے پی کے ضلع صدر راجندر چندرونشی اور ریاستی وزیر داخلہ وجئے شرما سمیت سیاسی لیڈروں پر حملہ آوروں کو تحفظ فراہم کرنے کا الزام  بھی لگایا جا رہا ہے۔

ایک ویڈیو میں ایک مقامی خاتون اہلکار، جو بجرنگ دل کے مردوں کے ساتھ بحث کرتی نظر آرہی ہے، کو تبدیلی مذہب کے ‘ہزاروں معاملوں  کی جانچ’ کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ تاہم، ایسی کوئی خصوصی مثال کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔

جبراً وصولی کی کوشش

جوشواآکا دعویٰ ہے کہ تشدد کے پیچھے اصل وجہ فیس کا تنازعہ تھا۔ بی جے پی لیڈر راجندر چندرونشی نے اسکول کو فون کیا تھا اور بی جے پی کے ایک حامی کے بچے کے لیے ٹرانسفر سرٹیفکیٹ طلب کیا تھا، حالانکہ فیس دو سال سے ادا نہیں کی گئی تھی اور نہ ہی کوئی رسمی درخواست دی گئی تھی۔ اسکول نے انکار کیا تو دباؤ اور بڑھ گیا۔

خاندان کا دعویٰ ہے کہ اس کےبعد انہیں دھمکیوں، تاوان کے مطالبات کا سامنا کرنا پڑا – جس میں تبدیلی مذہب کے بیانیے کو دبانے کے لیے 1 لاکھ روپے کا مطالبہ بھی شامل تھا –اس کے ساتھ ہی  میڈیا کی طرف سے بھی پریشان کیا گیا۔

بتایا گیاہے کہ 6 مئی تک بجرنگ دل اور وی ایچ پی کے کارکنوں نے ایک مقامی آن لائن چینل کے ساتھ مل کر کلکٹریٹ پر احتجاج شروع کر دیا اور اسکول بند کرنے کی اپیل کی۔

بالآخر اسکول نے دباؤ میں آکر سرٹیفکیٹ جاری کر دیا، لیکن حملے یہیں نہیں رکے۔

ہراساں کرنے کا ایک پیٹرن ہے

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ تھامس فیملی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ 2010-11 میں پادری جوز کو جھوٹے الزامات میں 10 دنوں کے لیے جیل میں رکھاگیا تھا، جس کے بعد انہیں عدالتوں نے بری کر دیا تھا۔

اس کے بعد سال 2022 میں 100 لوگوں کے ہجوم نے اسکول کے رہائشی علاقے کے کچھ حصوں کو مسمار کر دیا۔ خاندان کا الزام ہے کہ انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ جیسی ایجنسیوں نے ان کے بینک کھاتوں کو بغیر کسی مناسب کارروائی کے منجمد کر دیا،یہ سب’انہیں باہر نکالنے کی ایک بڑی سیاسی کوشش’ کے حصے کے طور پر کیا گیا۔

ہجوم اب بھی مبینہ طور پر عدالتوں، تھانوں اور اسکول کے باہر روزانہ جمع ہوتا ہے۔

جوشوآ نے کہا، ‘وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے کوردھا  نہیں چھوڑا تو وہ ہمیں مار ڈالیں گے۔ کوئی بھی دوست ہمارا ساتھ نہیں دے رہا ہے۔ یہاں تک کہ جن کانگریسی لیڈروں سے ہم نے رابطہ کیا وہ بھی مدد کرنے سے ڈر رہے ہیں۔’

ڈی ایم سے ملاقات کے بعد جوشوآ کی ماں نے ایک شادی کی تقریب میں چھتیس گڑھ کے وزیر داخلہ وجئے شرما سے براہ راست بات کرنے کی کوشش کی۔ جوشوآ کہتے ہیں،’انہوں نے ان سے بات کی اور انہوں نے کہا، ‘ہم دیکھیں گے’، لیکن تب سے یہ بد سے بدتر ہوتا چلا گیا ۔’

حکام خاموش ہیں

ویڈیو، عینی شاہدین کے بیانات اور جوشوآ کی مفصل تحریری شکایت سمیت متعدد شواہد کے باوجود پولیس نے حملہ آوروں کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کی ہے۔

خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ ایک افسر کا تبادلہ کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کے علاوہ بھیڑ کی قیادت کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔

گزشتہ اتوار کو کوردھا میں کئی گرجا گھر بند رہے، جوشوآ نے کہا۔’لوگ خوفزدہ ہیں۔ یہاں تک کہ جو ہمارے ساتھ کھڑے تھے وہ بھی خود کو دور کر رہے ہیں۔ ہر کوئی صورتحال کے پرسکون ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔’

( انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

اڈانی گروپ پر ایران سے پیٹرو کیمیکل درآمد کرنے کا شبہ، امریکہ نے شروع کی جانچ: رپورٹ

امریکی محکمہ انصاف نے اڈانی گروپ کےاس کردار کی تحقیقات شروع کی ہے جس میں اس پر ایران سے ایل پی جی درآمد کرنے کا شبہ ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق، کچھ ٹینکروں کی سرگرمیوں اور دستاویزوں میں بے ضابطگیوں کی جانچ کی جارہی ہے۔

گوتم اڈانی۔تصویر بہ شکریہ: انسٹاگرام

نئی دہلی: امریکی محکمہ انصاف نے (یو ایس ڈپارٹمنٹ آف جسٹس) نے اڈانی گروپ کے اس کردار کی جانچ شروع کی ہے، جس میں اس پر ایران سے پیٹرو کیمیکل مصنوعات (خصوصی طور پر ایل پی جی) درآمد کرنے کا شک ہے۔یہ جانکاری  وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ میں دی گئی ہے۔ یہ جانچ ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب اڈانی گروپ بدعنوانی کے ایک الگ معاملے میں سمجھوتے کی کوشش کر رہا ہے۔

ان الزامات کو ‘بے بنیاد’ قرار دیتے ہوئے اڈانی گروپ نے امریکی پابندیوں کو جھانسہ دینے یا ایرانی ایل پی جی کی تجارت میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔ اڈانی کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ وہ ایسی کسی امریکی تحقیقات سے واقف نہیں ہیں۔

ترجمان نے کہا، ‘وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کی ٹائمنگ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس کا مقصد محکمہ انصاف کی جانب سے جاری پراسیکیوشن کو متاثر کرنا ہے۔’

وال اسٹریٹ جرنل نے قبل ازیں 13 اپریل کو خبر دی تھی کہ گوتم اڈانی کے وکیلوں نے امریکی محکمہ انصاف سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کے خلاف درج فوجداری مقدمات کو خارج کردیں۔ ان معاملات میں اڈانی پر ہندوستان میں شمسی توانائی کے ٹھیکے حاصل کرنے کے لیے 250 ملین امریکی ڈالر کی رشوت دینے کا الزام ہے۔

ان الزامات کو اکتوبر 2024 میں عام کیا گیا تھا، جس میں اڈانی، ان کے بھتیجے ساگر اڈانی اور تین کمپنیوں کے چھ دیگر عہدیداروں کا نام شامل تھا۔

ایک متوازی مقدمے میں یو ایس سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن(ایس ای سی) نے گوتم اور ساگر اڈانی پر وفاقی سیکیورٹیز قوانین کی اینٹی فراڈ دفعات کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔

پانچ مئی کو بلیومبرگ نے بتایا تھاکہ اڈانی کے وکیلوں اور ٹرمپ انتظامیہ کے اہلکاروں کے درمیان بات چیت تیز ہو گئی ہے اور آنے والے ایک مہینے میں کسی نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے۔

وال اسٹریٹ جرنل کی2 جون کی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ امریکی استغاثہ اڈانی انٹرپرائزز کے لیے ایل پی جی کی نقل و حمل کے لیے استعمال ہونے والے کچھ ٹینکروں کی سرگرمیوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔

وال اسٹریٹ جرنل نے خلیجی بندرگاہوں اور اڈانی کے زیر انتظام مندرا بندرگاہ کے درمیان سفر کرنے والے ایل پی جی ٹینکروں کے ایک گروپ کا بھی پتہ لگایا۔ رپورٹ کے مطابق، انہیں ان  جہازوں کی نقل و حرکت کو چھپانے کی کوشش کے کچھ واضح نشانات ملے، جن میں جہاز کی لوکیشن بتانے والے خودکار شناختی نظام (اے ائی ایس) میں ہیرپھیرکرنا شامل ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ایرانی تیل اور گیس کی مصنوعات کے خریدار اکثر عمان اور عراق میں بنے فرضی دستاویزوں کا استعمال کرتے ہیں۔

اس جانچ کا فوکس پاناما میں رجسٹرڈ ٹینکر جہازپر ہے جسے ایس ایم ایس بروزکہا جاتا ہے، جسے بعد میں نیل کا نام دیا گیا۔ اے آئی ایس کے اعداد و شمار کے مطابق، یہ جہاز 3 اپریل کو عراق کی خور الزبیر بندرگاہ پر تھا۔ لیکن اسی دن کی سیٹلائٹ تصاویر میں جہاز کا کوئی نشان نظر نہیں آیا۔ اس کے بجائے، اسی طرح کی بناوٹ والا ایک جہاز ایران کے ٹومبک میں ایل پی جی ٹرمینل پر کھڑا نظر آیا۔ چار دن بعد، ٹینکر متحدہ عرب امارات کے ساحل پر نظر آیا اور اس کے ڈیٹا سے پتہ چلا کہ یہ پانی میں کچھ  نیچے بیٹھا ہوا تھا – جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں مال لدا ہوا تھا۔

جہاز نے عمان کی بندرگاہ سہار کے قریب لنگر انداز ہونے کا اشارہ بھیجا تھا، لیکن اسے کبھی وہاں لنگر انداز ہوتے نہیں دیکھا گیا۔ دو دن بعد،اڈانی گلوبل پی ٹی ای نے جہاز سے تقریباً 11250 میٹرک ٹن ایل پی جی لوڈ کرنے اور اسے ہندوستان کی مندرا بندرگاہ تک پہنچانے کا معاہدہ کیا۔ ہندوستانی کسٹم ریکارڈ کے مطابق، 17 اپریل کو، اڈانی انٹرپرائزز نےایک ایسا ہی مال درآمد کیا،جس کی  قیمت 70 لاکھ ڈالر سے کچھ زیادہ تھی ۔

ایس ایم ایس بروز (اب نیل) کے دستاویزوں میں اس سے قبل بھی کئی تضادات پائے گئے ہیں۔ جون 2024 کی ایک بنگلہ دیشی بندرگاہ کے دستاویز میں اس کا ذکر ایرانی نژاد ایل پی جی کی ڈیلیوری کے لیے کیا گیا تھا، جبکہ اے آئی ایس ڈیٹا میں اسے عراق کی جانب جاتے ہوئے دکھایا گیا تھا -یہ پیٹرن اپریل والے معاملے سے میل کھاتاہے۔

اڈانی کی مندرا بندرگاہ سے منسلک تین دیگر ایل پی جی ٹینکروں کی سرگرمیوں میں بھی بے ضابطگیوں کا پتہ چلا ہے۔ ایک جہاز، جو اسی کمپنی کے ذریعے چلایا جاتا ہے جو نیل کا انتظام کرتی ہے، وہ امریکی سینیٹ کی اس واچ لسٹ میں شامل تھی  جس میں ایرانی تیل اور گیس لے جانے والے جہازوں کا نام ہے ۔ ایک اور جہاز نے خور الزبیر کی بندرگاہ پر پہنچنے کا دعویٰ کیا، لیکن سیٹلائٹ امیج میں وہ وہاں نظرنہیں آیا۔ چوتھا جہاز، جو بار بارمندرا میں ڈاک کرتا ہے،  امریکی محکمہ توانائی کی 2024 کی رپورٹ میں ایرانی پیٹرولیم برآمد کرنے والے کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔

اڈانی گروپ نے وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ کو پوری طرح سے خارج کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ایل پی جی کا کاروبار ‘آپریشنل اوراہم نہیں ہے’ – یہ اڈانی انٹرپرائزز کی 11.7 بلین ڈالرکی کل سالانہ آمدنی کا صرف 1.46 فیصد ہے۔

گروپ نے کہا کہ وہ تمام ایل پی جی قابل اعتماد بین الاقوامی سپلائرز کے ساتھ معاہدوں کے ذریعے خریدتا ہے، او ایف اے سی کی پابندیوں والی  فہرست میں شامل کسی بھی کمپنی کے ساتھ تجارت نہیں کرتا ہےاورشپنگ کا کام تھرڈ-پارٹی لاجسٹکس کمپنیوں کے ذریعے اور بین الاقوامی ضابطوں کے مطابق کرواتاہے۔

وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ میں مذکور کنسائنمنٹس کا جواب دیتے ہوئے اڈانی نے کہا کہ یہ ایک معمول کا تجارتی لین دین تھا، جس کا انتظام تھرڈ-پارٹی لاجسٹکس پارٹنر نے کیا، اور دستاویزات میں سہار (عمان) کو کنسائنمنٹ کا سورس بتایا گیا ہے۔

اڈانی گروپ نے یہ بھی کہا، ‘ہم ان جہازوں (جیسے ایس ایم ایس بروز/نیل)کے مالک، آپریٹر یا ٹریکر نہیں ہیں اور نہ ہی ہم نے ان سے معاہدہ کیا ہے، اس لیے ہم ان کی موجودہ یا ماضی کی کسی بھی سرگرمی پر تبصرہ نہیں کر سکتے ۔’

گروپ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ایک حقیقی درآمد کرنے والے کی تمام ذمہ داریاں پوری کی گئی ہیں۔

Next Article

کرناٹک: سوشل میڈیا پر ’مسلمانوں کی نسل کشی‘ کی اپیل کرنے والے بی جے پی لیڈر کے خلاف معاملہ درج

سنیچر کو کرناٹک کے بی جے پی لیڈرمنی کانت نریندر راٹھوڑکےفیس بک اکاؤنٹ پر شیئر کیے گئے ایک ویڈیو میں وہ مسلم کمیونٹی کے خاتمے کی اپیل کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ‘لو جہاد’ کے ملزموں  کو بھی آٹھ دن کے اندر  ختم کرنے کی اپیل  کرتے نظر آ رہے ہیں۔

منی کانت نریندر راٹھوڑ۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: کرناٹک بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما منی کانت نریندر راٹھوڑ کے خلاف سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے مسلم کمیونٹی کے بارے میں متنازعہ تبصرہ کرنے پر معاملہ درج کیا گیا ہے۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، سنیچر کو راٹھوڑ کے فیس بک اکاؤنٹ پر شیئر کیے گئے ایک ویڈیو میں انہیں لمبانی زبان میں اشتعال انگیز تبصرہ کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔ ویڈیو میں مسلم کمیونٹی کو ختم کرنے کی اپیل کی گئی ہے اور ‘لو جہاد’ کے ملزموں کو بھی آٹھ دن کے اندر ختم کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔

اخبار نے اس ویڈیو کی صداقت کی تصدیق کی ہے۔

معلوم ہو کہ ‘لو جہاد’ کی اصطلاح ہندو رائٹ ونگ کی تنظیمیں استعمال کرتی ہیں اور اسے حکومت یا عدالتوں نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس اصطلاح کو اکثر ‘مسلم مخالف’ بیان بازی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

اس سلسلے میں سید علیم الٰہی نامی شخص نے سنیچر (31 مئی) کو کلبرگ سینٹرل پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی ہے۔

منی کانت کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس)کی دفعہ 196 (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 197 (قومی یکجہتی کے لیے نقصاندہ الزام، دعوے)، 299 (جان بوجھ کر اور بدنیتی پر مبنی کام، جن کا مقصد کسی بھی طبقے کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا)، 351 (مجرمانہ دھمکی) اور دیگر متعلقہ دفعات کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔

واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے کلبرگی پولیس کمشنر شرنپا ایس ڈی نے کہا، ‘راٹھوڑ نے مبینہ طور پر ایک اشتعال انگیز ویڈیو فیس بک پر اپلوڈ کیا ہے۔ ہم معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں اور سزا کی حد کا تعین کرنے کے لیے شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔’

Next Article

اتراکھنڈ: انکیتا بھنڈاری قتل کیس میں بی جے پی کے سابق وزیر کے بیٹے سمیت تین مجرم قرار، عمر قید

ستمبر 2022 میں پوڑی گڑھوال کے ایک ریزورٹ میں کام کرنے والی  19 سالہ انکیتا بھنڈاری کاقتل کر دیا گیا تھا۔ اس معاملے میں ریزورٹ کے مالک اور بی جے پی سے نکالے گئے لیڈر ونود آریہ کے بیٹے پلکت آریہ اور ان کے دو عملے کے ارکان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اب انہیں مقامی عدالت نے مجرم قرار دیا ہے۔

انکیتا بھنڈاری کے قتل میں ملوث افراد کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرہ۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی:  جمعہ (30 مئی) کو پوڑی کی ایک عدالت نے اتراکھنڈ کے مشہورزمانہ انکیتا بھنڈاری قتل کیس میں تینوں ملزمان کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج رینا نیگی نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سابق رہنما ونود آریہ کے بیٹے پلکیت سمیت تین ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی۔ اس کے ساتھ ہی  پچاس پچاس ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔

اس سے قبل جمعہ کی صبح انکیتا کی ماں سونی دیوی نے کہا، ‘میں مطالبہ کرتی ہوں کہ ملزمین کو پھانسی دی جائے… میں اپنی بہنوں سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ اس کے(انکیتا کے) والدین کا ساتھ دیں…’

انکیتا کے والد بیریندر بھنڈاری نے بھی ملزمین کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ 2023 میں سی ایم پشکر سنگھ دھامی نے انکیتا کے نام پر نرسنگ کالج بنانے کی بات کی تھی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔

معلوم ہو کہ 19 سالہ انکیتا بھنڈاری پوڑی گڑھوال کے ایک ریزورٹ میں کام کرتی تھیں اور 18 ستمبر 2022 کو انہیں اس لیے قتل کر دیا گیا تھاکہ انہوں نے مبینہ طور پر کسی وی آئی پی مہمان کو ‘خصوصی خدمات’ (جنسی کام کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح) فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

انکیتا کےقتل کے چھ دن بعد اس کی لاش ایک نہر سے برآمد ہوئی تھی۔ ریزورٹ کے مالک اور بی جے پی کے نکالے گئے لیڈر ونود آریہ کے بیٹے پلکت آریہ اور ان کے عملے کے ارکان – سوربھ بھاسکر اور انکت گپتا کو انکیتا کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

اس دوران کلیدی ملزم پلکت نے خود کو بے قصور ظاہر کرنے کے لیے ریونیو ڈپارٹمنٹ میں انکیتا کی گمشدگی کی رپورٹ بھی درج کروائی تھی۔ انکیتا کے اہل خانہ نے الزام لگایا تھاکہ ریونیو پولیس شروع میں اس معاملے میں خاموش رہی اور بعد میں 22 ستمبر کو کیس کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

اس معاملے میں، خواتین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی مشترکہ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے 2023 میں ایک رپورٹ بھی جاری کی تھی، جس میں ایس آئی ٹی پر تحقیقات میں جان بوجھ کر لاپرواہی برتنے اوروننترا ریزورٹ پر بلڈوزر چلانے، پولیس ریمانڈ کی مانگ نہ کرنے اور ریونیو پولیس سے لے کراتراکھنڈ پولیس کے گول مول کردار پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔

قابل ذکر ہے کہ اس دوران اتراکھنڈ پولیس نے انکیتا بھنڈاری قتل کیس میں انصاف کے لیے آواز اٹھانے والے آزاد صحافی اور ‘جاگو اتراکھنڈ’ کے ایڈیٹر آشوتوش نیگی کو بھی گرفتار کیا تھا اور کہا تھا کہ پولیس کو ان جیسے نام نہاد ایکٹوسٹ کی منشا پر شک ہے۔ ان کا ایجنڈا انصاف کا حصول نہیں بلکہ معاشرے میں انتشار اور خلفشار پیدا کرنا ہے۔

اس معاملے میں ایس آئی ٹی کی جانچ کے بعد استغاثہ نے 500 صفحات کی چارج شیٹ عدالت میں داخل کی تھی ۔ خاندان نے نے معاملے میں حکومت کی جانب سے پیروی کر رہے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر جتیندر راوت کی منشا پر بھی سوال اٹھائے تھے،  جس کے بعد انہوں نے خود کو کیس سے الگ کرلیا تھا۔ اس معاملے میں تاخیر کو لے کر حکومت اور انتظامیہ پر مسلسل سوالات اٹھ رہے تھے۔

تقریباً دو سال آٹھ ماہ تک جاری رہنے والے مقدمے کی سماعت میں استغاثہ کی جانب سے تفتیشی افسر سمیت 47 گواہان کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ 19 مئی کو استغاثہ کے وکیل اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر نے دفاع کے دلائل کا جواب دیا اور اس کے ساتھ ہی سماعت مکمل ہوگئی۔

اس کے بعد عدالت نے فریقین کے دلائل اور بحث سننے کے بعد فیصلہ سنانے کے لیے 30 مئی کی تاریخ مقرر کی تھی۔

Next Article

آپریشن سیندور کے ساتھ کھیل رہے ہیں سیاسی ہولی، مودی اپنی بیوی کو سیندور کیوں نہیں دیتے: ممتا

وزیر اعظم نریندر مودی نے علی پور دوار میں ایک ریلی میں مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات کے لیے انتخابی بگل بجاتے ہوئے آپریشن سیندور کو درگا پوجا کے دوران ہونے والے ‘سیندور کھیلا’ سے جوڑا تھا۔ اس پر سی ایم ممتا بنرجی نے کہا کہ وہ آپریشن کے نام کےساتھ ‘سیاسی ہولی’ کھیل رہے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی اور بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے علی پور دوار میں ایک ریلی میں، جہاں انہوں نے ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) حکومت پر بدعنوانی اور تشدد کا الزام لگاتے ہوئے آپریشن سیندور کا علامتی استعمال جاری رکھا، وزیر اعظم کی جانب سے اگلے سال  ہونے والےمغربی بنگال اسمبلی انتخابات کے لیے انتخابی بگل بجانے کے چند گھنٹے بعد ہی مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے ان پر سخت حملہ کیا ۔

پاکستان پر ہندوستان کے فوجی حملے کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے کا الزام لگاتے ہوئے بنرجی نے کہا کہ مودی آپریشن کے نام کے ساتھ ‘سیاسی ہولی’ کھیل رہے ہیں، جبکہ حزب اختلاف کے اراکین  پہلگام دہشت گردانہ حملے، آپریشن سیندور اور اس کے نتیجے میں پاکستان کے ساتھ فوجی جھڑپ کے بعد مرکز کی سفارتی کوششوں کے تحت بیرون ملک میں ہیں ۔

وزیر اعظم کےآپریشن سیندور کےسیاسی استعمال کے خلاف اپوزیشن لیڈر کی طرف سے پہلی  بار عوامی طور پر مذمت کرتے ہوئے بنرجی نے بنگال بی جے پی کے سربراہ اور مرکزی وزیر سکانت مجمدار پر وزیر اعظم کی موجودگی میں ‘آپریشن سیندور جیسا آپریشن مغربی بنگال’ کرنے کا وعدہ کرنے پر حملہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ سیندور خواتین کے احترام کی علامت ہے، وزیراعظم کو خواتین کا احترام کرنا چاہیے اور پوچھا کہ وہ پہلے اپنی اہلیہ کو سیندور کیوں نہیں دے رہے ہیں۔

ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بنرجی نے کہا، ‘آپریشن سیندور کا نام ایک سیاسی مقصد کے ساتھ دیا گیا ہے۔ لیکن میں اس بارے میں کچھ نہیں کہوں گی۔ جب تمام اپوزیشن لیڈر بیرون ملک مادروطن کے لیے بول رہے ہیں ، اس وقت  وزیراعظم سیاسی ہولی کھیلنے آئے ہیں- یہ وزیراعظم کو زیب نہیں دیتا۔’

انہوں نے کہا،’آپ جھوٹ کا کوڑا پھیلا رہے ہیں۔ وہ ملک کو لوٹتے ہیں اور بھاگتے ہیں۔ اس طرح سے بات کرنا اچھا نہیں لگتا۔ آپریشن سیندور کے بارے میں، اگرچہ میرے پاس کوئی تبصرہ نہیں ہے، براہ کرم یاد رکھیں کہ ہر عورت احترام  کی مستحق ہے۔ وہ اپنے شوہروں سے سیندور لیتی ہیں۔ پی ایم مودی کسی کے شوہر نہیں ہیں، آپ  پہلےاپنی بیوی کو سیندور کیوں نہیں دیتے؟ مجھے افسوس ہے کہ مجھے ان تمام معاملات میں نہیں جانا چاہیے، لیکن آپ نے ہمیں آپریشن سیندور اور آپریشن بنگال کے نام پر منہ کھولنے پر مجبور کیا۔ ‘

آپریشن سیندور کی طرح آپریشن مغربی بنگال’: سکانت مجمدار

علی پور دوار میں اپنی ریلی میں مودی کا تعارف کراتے ہوئے سکانت مجمدار نے کہا، ‘پاکستان نے ہماری ماؤں اور بہنوں کے سروں سے سیندور مٹا دیا تھا۔ نریندر مودی نے اس کا بدلہ لے لیا ہے۔ میرے سامنے بی جے پی کے ہزاروں کارکن آنے والے دنوں میں مودی جی کے سپاہی بنیں گے، آپریشن سیندور کی طرح ’آپریشن مغربی بنگال‘ کو انجام دیں گے اور ترنمول کو بنگال کی کھاڑی میں پھینک دیں گے۔’

مودی نے اپنی تقریر میں آپریشن سیندور کو ‘سیندور کھیلا’ سے جوڑا، جو بنگال میں دس روزہ درگا پوجا تہوار کے اختتام پر منایا جاتاہے، جس میں خواتین وجئے دشمی کے دن ایک دوسرے کو سیندور لگاتی ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘آج جب میں ‘سیندور کھیلا’ کی سرزمین پر آیا ہوں، تو فطری طور پر دہشت گردی کے خلاف ہندوستان کے نئے عزم پر بات کروں گا۔ دہشت گردوں نے ہماری بہنوں کا سیندور مٹا نے کی جرأت کی۔ اس لیے ہماری فوج نے انہیں سیندور کی طاقت کا احساس دلایا۔ ہم نے پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کیے جس کے بارے میں پاکستان سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔’

بنرجی نے مودی پر جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ قومی اتحاد کے ایسے وقت میں وزیر اعظم کے اس طرح کے تبصروں کو سننا ‘افسوسناک’ ہے جب بیرون ملک اپوزیشن لیڈر ایک آواز میں بول رہے ہیں۔ انہوں نے کل الیکشن کرانے کا چیلنج بھی دیا۔

انہوں نے کہا، ‘ مودی جی  نے آج جو کہا،اس سے ہم نہ صرف حیران ہیں، بلکہ وزیر اعظم کی آواز سن کر بہت دکھی بھی ہیں، جب تمام اپوزیشن (لیڈر) دنیا کے سامنے ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں، وہ ملک کے مفاد، قومی مفاد کے تحفظ کے لیے جرأت مندانہ فیصلے لے رہے ہیں۔ ہم ملک کی حفاظت کریں گے کیونکہ یہ ہماری مادر وطن ہے۔ لیکن کیا یہ وقت ہے کہ ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے وزراء ان کی موجودگی میں یہ کہیں کہ وہ آپریشن سیندور کی طرح آپریشن بنگال کریں گے؟ میں انہیں چیلنج کرتی ہوں۔ اگر ان میں ہمت ہے تو کل الیکشن کروائیں، ہم تیار ہیں اور بنگال آپ کا چیلنج قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔’

گزشتہ ہفتے گجرات میں اپنے خطاب کی طرح مودی نے آپریشن سیندور کے دوران مسلح افواج کی کارروائیوں کا حوالہ دینا جاری رکھا اور ایک بار پھر اپنے بار بار دہرائے جانے والے نعرے کو دہرایا، ‘گھر میں گھس کے مارا۔’

اس بار انہوں نے کہا کہ آپریشن سیندور کے بعد پاکستان کو سمجھ لینا چاہیے کہ ‘ تین بارگھر میں گھس کر مارا ہے تمہیں۔’

مودی نے کہا، ‘جب براہ راست جنگ ہوتی ہے تو ان کی (پاکستان کی) شکست یقینی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی فوج دہشت گردوں سے مدد لیتی ہے۔ لیکن پہلگام حملے کے بعد ہندوستان نے دنیا کو بتا دیا ہے۔ پاکستان کو سمجھ لینا چاہیے کہ ‘تین بار گھر میں گھس کر مارا ہے تمہیں’۔ یہ بنگال ٹائیگر کی سرزمین سے 140 کروڑ ہندوستانیوں کا اعلان ہے – آپریشن سیندور ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔’

مودی نے اپنے خطاب میں ترنمول کانگریس حکومت پر مرشد آباد میں تشدد اور اساتذہ کی بھرتی گھوٹالہ کی سازش کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ بنگال کے لوگ بے رحم حکومت نہیں چاہتے۔

انہوں نے کہا، ‘لوگ ‘بے رحم حکومت’ نہیں چاہتے۔ وہ تبدیلی اور گڈ گورننس چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پورا بنگال کہہ رہا ہے کہ وہ اب ظلم اور بدعنوانی نہیں چاہیے۔’

ممتا نے مودی پر تقسیم کی سیاست کرنے کا الزام لگایا

بنرجی نے کہا، ‘براہ کرم یاد رکھیں، وقت ایک عنصر ہے۔ آپ کو وقت یاد رکھنا چاہیے۔ ہمارے نمائندے ابھیشیک بنرجی بھی ٹیم میں شامل ہیں۔ اور وہ ہر روز دہشت گردی کے خلاف بول رہے ہیں۔ اسی وقت، مودی، بطور وزیر اعظم نہیں بلکہ بی جے پی صدر کے طور پر، آپ (بنگال میں) حکومت پر تنقید کر رہے ہیں، جو آپ کو مکمل حمایت دے رہی ہے، ملک کی حفاظت کر رہی ہے۔ آپ حکومت پر الزام لگا رہے ہیں اور اس وقت آپ اپوزیشن کو قصوروار ٹھہرانا چاہتے ہیں، تاکہ بی جے پی جملہ پارٹی کے لیڈر کی طرح چیزوں کی سیاست کی جا سکے۔’

بنرجی نے کہا کہ بنگال کی حکومت ‘بے رحم’ نہیں ہے جیسا کہ وزیر اعظم نے کہا ہے، اور مودی پر تفرقہ انگیز سیاست کرنے  کا الزام لگایا۔

انہوں نے کہا، انہوں نے اتنے وقت تک حکومت کی ہے، انہوں نے کیا دیا ہے؟ وہ تقسیم کرکے حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ وہ تقسیم کی سیاست کرتے ہیں۔’

انہوں نے کہا، ‘ایک بار جب وہ خود کو چائے والا کہتے ہیں، پھر وہ خود کو چوکیدار کہتے ہیں ( 2019 میں مودی نے خود کو چوکیدار کہا تھا )۔ اب، وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سیندور فروخت کریں گے۔ سیندور اس طرح  فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ سیندور غرورکا معاملہ ہے۔’

پہلگام دہشت گردانہ حملے کو انجام دینے والے دہشت گردوں کو پکڑنے کے لیے حکومت کی طرف سے کی گئی کارروائی پر سوال اٹھاتے ہوئے بنرجی نے پوچھا کہ وہ اب کہاں ہیں۔ اس حملے میں 26 شہری مارے گئے تھے۔

انہوں نے کہا، ‘کیا کسی نے پہلگام میں متاثرہ خواتین کے سیندور چھیننے والے دہشت گردوں کودیکھا ہے؟ کیا انہوں نے انہیں پکڑا ہے؟ امریکہ کا لفظ سنتے ہی وہ خاموش ہو جاتے ہیں۔’ انہوں نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 10 مئی کی جنگ بندی کی ثالثی کے دعووں پر مودی کی مسلسل خاموشی کا حوالہ بھی دیا۔

بنرجی نے وزیر اعظم کو ٹیلی ویژن پر سیدھےمقابلے کا چیلنج بھی دیا اور کہا کہ مودی اپنا ٹیلی پرامپٹر بھی لا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘اگر آپ اتنے بہادر ہیں تو ٹیلی ویژن پر پریس کانفرنس کے لیے آئیں۔ ہم آپ کے ساتھ سیدھا مقابلہ کریں گے، جس موضوع پر بھی آپ چاہیں گے۔ اگر آپ چاہیں تو آپ اپنا ٹیلی پرامپٹر بھی لا سکتے ہیں۔’

مودی پر الزام ہے کہ وہ  اپنی عوامی تقریروں میں ٹیلی پرامپٹر کا استعمال کرتے ہیں، کیونکہ وہ غیر رسمی انٹرویوز اور پریس کانفرنس سے خطاب کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)