طالبان مقتدرہ افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی ہندوستان کے آٹھ روزہ دورے پر ہیں۔ 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے یہ طالبان کا ہندوستان کا اعلیٰ سطحی دورہ ہے۔ یہ ہندوستان کے لیے افغانستان میں اپنی سرمایہ کاری اور سلامتی کے مفادات کو آگے بڑھانے کا صحیح وقت ہے۔
ایس جئے شنکر نے جمعہ کو طالبان کے وزیر خارجہ کو انسانی امداد کے طور پر پانچ ایمبولینس تحفے میں دیں۔تصویر: ایکس
نئی دہلی: طالبان مقتدرہ افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی جمعرات (9 اکتوبر) کو ہندوستان کے ایک ہفتے کے دورے پر نئی دہلی پہنچے۔ 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے یہ کسی طالبان عہدیدار کا ہندوستان کا اعلیٰ ترین دورہ ہے۔ اپنے آٹھ روزہ قیام کے دوران متقی ہندوستانی وزیر خارجہ ایس جئے شنکر اور دیگر حکام سے سفارتی، تجارتی اور اقتصادی شراکت داری پر بات چیت کریں گے۔
جمعہ کے روز متقی نے اپنے وفد کے ساتھ، جس میں افغان تجارت اور وزارت خارجہ کے حکام بھی شامل تھے، ہندوستان کے وزیر خارجہ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے دوران، جئے شنکر نے ایک اہم اعلان کیا؛ انہوں نے
کہا کہ ہندوستان افغانستان میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنے جا رہا ہے ۔
ہندوستان نے 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے اور امریکی قیادت میں نیٹو کے انخلا کے بعد کابل میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا تھا۔ تاہم، ایک سال بعدتجارت، طبی امداد اور امدادی کاموں کے لیے ایک چھوٹا مشن دوبارہ کھولا گیا تھا۔ اب اسے پھر سے بحال کرنے کی بات کہی گئی ہے۔
متقی کا ہندوستان کا یہ دورہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کی طالبان پرپابندیوں کی کمیٹی کی طرف سے دی گئی خصوصی اجازت سے ممکن ہوا، جس نے متقی پر عائد سفری پابندی کو عارضی طور پر ہٹا دیا ہے۔ یہ استثنیٰ 30 ستمبر کو منظور کیا گیا تھا، جس کے تحت انہیں 9 سے 16 اکتوبر تک ہندوستان کا دورہ کرنے کی اجازت دی گئی۔
متقی کا دورہ ہندوستان گزشتہ ماہ مجوزہ تھا، لیکن اقوام متحدہ کی پابندیوں کی وجہ سے اسے ملتوی کر دیا گیا تھا۔ متقی کو یو این ایس سی کی قرارداد 1988 (2011) کے تحت ممنوعہ افرادکی فہرست میں شامل ہیں، اور اس لیے انہیں سفر کرنے کے لیے خصوصی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس فہرست میں کئی دوسرے طالبان رہنما بھی شامل ہیں۔
جمعہ کو متقی اور ان کے وفد نے ہندوستانی وزیر خارجہ ایس جئے شنکر سے ملاقات کی۔ تصویر : ایکس
ہندوستان پہنچنے پر متقی کا استقبال وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کیا۔ انہوں نے ایکس پر لکھا،’ہم ان کے ساتھ دو طرفہ تعلقات اور خطے کے مسائل پر نتیجہ خیز بات چیت کی امید کرتے ہیں۔’
متقی ہندوستانی تاجر برادری کے نمائندوں سے بھی بات چیت کرنے والے ہیں۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق ، متقی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال سے بھی ملاقات کریں گے۔
ان کے پروگرام میں دارالعلوم دیوبند اور تاج محل کا دورہ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ وہ ہندوستان میں مقیم افغان کمیونٹی اور کاروباری گروپوں سے بھی ملاقات کریں گے۔
اس بات چیت کے کیا معنی ہیں؟
اہم سوال یہ ہے کہ جب ہندوستان نے طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا تو اس اعلیٰ سطحی مذاکرات سے کیا اشارہ ملتا ہے؟
متقی کے دورے سے عین قبل ہندوستان نے منگل کو ماسکو فارمیٹ کنسلٹیشن میٹنگ میں طالبان، پاکستان، چین اور روس کے ساتھ مل کر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی اس تجویز کی
مخالفت کی جس میں انہوں نے افغانستان کے بگرام ایئربیس کو امریکی کنٹرول میں لینے کی بات کہی تھی ۔
ماسکو فارمیٹ کنسلٹیشن میں شریک ممالک نے ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا، ‘انہوں نے (اجلاس میں شریک ممالک) اس بات پر زور دیا کہ کسی بھی ملک کی جانب سے افغانستان یا اس کے پڑوسی ممالک میں اپنے فوجی ڈھانچے کو تعینات کرنے کی کوششیں ناقابل قبول ہیں، کیونکہ یہ علاقائی امن اور استحکام کے مفاد میں نہیں ہے۔’
یہ افغانستان پر ماسکو فارمیٹ کنسلٹیشن کا ساتواں اجلاس تھا، جو ماسکو میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں ہندوستان،ایران،چین،پاکستان،روس،ازبیکستان، قزاقستان، تاجکستان اور کرغزستان سمیت کئی ممالک نے شرکت کی۔
پہلی بار متقی کی قیادت میں افغان وفد نے بطور رکن اجلاس میں شرکت کی۔
متقی کا یہ ہندوستان کا دورہ 15 مئی کو جئے شنکر کے ساتھ ہوئی ان کی اس بات چیت کے بعد ہو رہا ہے، جوپہلگام دہشت گردانہ حملے اور آپریشن سیندور کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق کے بعد ہوئی تھی۔ یہ بات چیت طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان ہونے والا پہلا سیاسی مکالمہ تھا۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق ، ‘پاکستان کے ساتھ طالبان کے تعلقات میں کشیدگی کے بعد یہ بات چیت طالبان کو یہ دکھانے کا موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ اسلام آباد پر منحصر نہیں ہیں اور وہ اپنی خود مختار شناخت بنا رہے ہیں۔’
امیر خان متقی کون ہیں؟
انڈین ایکسپریس کے مطابق،متقی کی زندگی کافی دلچسپ رہی ہے۔ 1970 میں صوبہ ہلمند میں پیدا ہونے والے متقی کا خاندان اصل میں پکتیا سے تھا۔
افغانستان پر سوویت کے حملے کے بعد وہ نو سال کی عمر میں پاکستان چلے گئے تھے، جہاں انہوں نے افغان مہاجرین کے اسکولوں میں مذہبی اور روایتی تعلیم حاصل کی۔ اپنے ابتدائی سالوں میں انہوں نے کمیونسٹ حکمرانی کے خلاف جدوجہد میں فعال کردار ادا کیا تھا۔
متقی نے 1994 میں طالبان تحریک کے عروج کے بعد شمولیت اختیار کی۔ طالبان کے قندھار پر کنٹرول کے بعد متقی کو قندھار ریڈیو اسٹیشن کا ڈائریکٹر اور طالبان ہائی کونسل کا رکن مقرر کیا گیا۔
مارچ 2000 میں انہیں وزیر تعلیم مقرر کیا گیا، اس عہدے پر وہ 2001 میں امریکی حملے تک رہے تھے۔
ہندوستان اب طالبان سے مذاکرات کیوں بڑھا رہا ہے؟
جون 2022 میں ہندوستانی حکام کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات میں متقی نے کہا تھا کہ ‘ہندوستان کی مدد ہمارے لیے ہمیشہ خوش آئند ہے۔’
طالبان کے ایک سینئر عہدیدار نے اس وقت کہا تھا کہ ‘امریکہ نے افغانستان میں اپنے مفادات کے لیے کام کیا، جبکہ ہندوستان نے افغان عوام کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے مدد کی۔’
طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی ہندوستانی وزیر خارجہ ایس جئے شنکر کے ساتھ۔ تصویر: ایکس
دریں اثنا، گزشتہ چند سالوں میں عالمی سیاست مکمل طور پر بدل چکی ہے۔ پاکستان کبھی طالبان کا اتحادی تھا، لیکن اب دونوں کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ ایران کمزور ہو ا ہے؛ روس یوکرین کے ساتھ جنگ میں مصروف ہے۔ اور ڈونالڈ ٹرمپ کے دوسرے دور حکومت میں امریکہ کا موقف بھی بدل گیا ہے۔ چین طالبان کے ساتھ سفارتی تعلقات مضبوط کر رہا ہے۔ اس لیے، یہ ہندوستان کے لیے افغانستان میں اپنی سرمایہ کاری اور سلامتی کے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے اسٹریٹجک طور پر صحیح وقت سمجھا جا رہا ہے۔
بگرام ایئربیس کے معاملے پر طالبان کے ساتھ ہندوستان کا موقف ظاہر کرتا ہے کہ اس بدلتے ہوئے سیاسی ماحول میں نئی دہلی اپنی پالیسی میں بڑی تبدیلیاں کرنے کے لیے تیار ہے۔
گزشتہ ماہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے طالبان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ کابل سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بگرام ایئر بیس کو امریکہ کو واپس کر دیں۔ یہ وہی ایئربیس ہے جو 2001 کے بعد امریکہ کی ’وار آن ٹیرر‘ کا اہم مرکز تھا۔
ٹرمپ نے 18 ستمبر کو برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا۔ ہم نے اسے طالبان کویوں ہی دے دیا۔ اب ہم اسے واپس چاہتے ہیں۔’
اس کے دو دن بعد انہوں نے اپنے پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر لکھا تھا، ‘ اگر افغانستان نے بگرام ایئربیس ہمیں واپس نہیں کیا تو بہت برا ہو گا۔’
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ردعمل دیتے ہوئے کہا تھاکہ، ‘افغان اپنی زمین کسی بھی حالت میں کسی اور کے حوالے نہیں کریں گے۔’
متقی نے جئے شنکر سے ملاقات کے دوران کیا کہا؟
بات چیت کے دوران جئے شنکر نے کہا کہ ہندوستان ‘افغانستان کی خودمختاری، علاقائی سالمیت اور آزادی کے لیے پوری طرح پرعزم ہے۔’
انہوں نے کہا کہ ہندوستان اور افغانستان ‘ترقی اور خوشحالی کے لیے مشترکہ عزائم’ رکھتے ہیں، لیکن دونوں کو ‘سرحد پار دہشت گردی کے مشترکہ خطرے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔’
مشترکہ بیان کے مطابق ، دونوں وزراء نے ‘علاقائی ممالک سے ہونے والے ہر قسم کے دہشت گرد حملوں کی واضح الفاظ میں مذمت کی۔’
اپنے ابتدائی تبصرے میں متقی نے کہا کہ طالبان نے کبھی بھی ہندوستان کے خلاف کوئی بیان جاری نہیں کیا، حتیٰ کہ سابقہ اسلامی جمہوریہ حکومت کے ساتھ تنازعہ کے دوران بھی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ‘امریکی قبضے کے دوران بہت سے اتار چڑھاؤ آئے لیکن اس دوران ہم نے کبھی بھی ہندوستان کے خلاف کوئی بیان جاری نہیں کیا بلکہ ہم نے ہمیشہ ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش کی ہے۔’
متقی نے یہ بھی اعادہ کیا کہ کابل انتظامیہ ‘کسی کو بھی کسی دوسرے ملک کو دھمکی دینے یا افغان سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔’
انہوں نے کہا کہ طالبان انتظامیہ نے ‘اسلامک اسٹیٹ (داعش)’ سے منسلک عناصر کے خلاف ‘سخت اقدامات’ کیے ہیں۔ متقی نے اس بات پر زور دیا کہ علاقائی ممالک کو اس طرح کے خطرات سے نمٹنے کے لیے تعاون بڑھانا چاہیے، تاکہ دونوں ممالک کی مشترکہ خوشحالی کو یقینی بنایا جا سکے۔
بعد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے متقی نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان مسائل کو طاقت سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح ہم ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں اسی طرح ہم پاکستان کے ساتھ بھی بہتر تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ تعلقات صرف اس صورت میں استوار ہو سکتے ہیں جب دونوں فریق کوشش کریں کوئی ایک فریق اکیلے یہ نہیں کر سکتا۔’