صحافی صدیق کپن اور تین دیگر افرادکو اکتوبر 2020 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا، جب وہ اتر پردیش میں ہاتھرس گینگ ریپ کیس کی رپورٹنگ کے لیے جا رہے تھے۔ یوپی پولیس نے کپن کے خلاف ذات پات کی بنیاد پر فسادات بھڑکانے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کے الزام میں مقدمہ درج کیا تھا۔ اس کے بعد ان پر سیڈیشن اور یو اے پی اے کے تحت مقدمات بھی شامل کیے گئے تھے۔
کیرل کے صحافی صدیقی کپن۔ (فوٹو بی شکریہ: ٹوئٹر/@vssanakan)
نئی دہلی: دو سال سے زیادہ جیل میں رہنے اور ضمانت ملنے کے تقریباً ایک ماہ بعد بعد کیرالہ کے صحافی صدیق کپن کو جیل سے رہا کر دیا گیا۔ ان کو رہا کرنے کے حکم پر عدالت کے دستخط کرنے کے ایک دن بعدجمعرات (2 فروری) کو وہ جیل سے باہر آگئے۔
بدھ کو اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤ کی اسپیشل پی ایم ایل اے (منی لانڈرنگ کی روک تھام ایکٹ) عدالت میں ایک ایک لاکھ روپے کے دو ضمانتی مچلکے داخل کیے گئے۔ لکھنؤ ڈسٹرکٹ جیل کے جیلر راجندر سنگھ نے بتایا کہ کپن کو جمعرات کی صبح تقریباً 9:15 بجے جیل سے رہا کیا گیا۔
جیل سے باہر آنے کے بعد
این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کپن نے کہا، ‘میں سخت قوانین کے خلاف اپنی لڑائی جاری رکھوں گا۔ انہوں نے ضمانت ملنے کے بعد بھی مجھے جیل میں رکھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے جیل میں رہنے سے کس کو فائدہ ہو رہا ہے۔ یہ دو سال بہت کٹھن تھے لیکن میں کبھی ڈرا نہیں۔
کپن نے صحافیوں کو بتایا،’میں 28 ماہ بعد جیل سے باہر آیا ہوں۔ میں کافی جدوجہد کے بعد باہر آیا ہوں۔ میں خوش ہوں، میڈیا کا بہت تعاون ملا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ وہاں (ہاتھرس) کیوں گئے تھے تو کپن نے کہا کہ وہ وہاں ‘رپورٹنگ’ کے لیے گئے تھے۔ اپنے ساتھیوں کے بارے میں کپن نے کہا کہ وہ طالبعلم تھے۔ ان کے پاس سے کچھ (قابل اعتراض) مواد ملنے کی اطلاعات پر کپن نے کہا، کچھ نہیں، میرے پاس صرف ایک لیپ ٹاپ، موبائل، دو قلم اور ایک نوٹ پیڈ تھا۔
معلوم ہو کہ کپن، ملیالم نیوز پورٹل ‘اجیمکھم’ کے نمائندے اور کیرالہ یونین آف ورکنگ جرنلسٹس کی دہلی یونٹ کے سکریٹری کو 5 اکتوبر 2020 کو تین دیگر افراد کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔
کپن اس وقت ہاتھرس ایک 19 سالہ دلت لڑکی کے ریپ کے بعد ہسپتال میں ہوئی موت کی رپورٹنگ کے لیےوہاں جا رہے تھے۔ ان پر الزام ہے کہ وہ امن و امان کو خراب کرنے کے لیے ہاتھرس جا رہے تھے۔
14 ہاتھرس میں 14 ستمبر 2020 کو ایک دلت لڑکی کے ساتھ چار افراد نے گینگ ریپ کیا تھا اور اس کے بعد اس کو قتل کر دیا تھا۔
صدیق کپن کو تین دیگر افراد – عتیق الرحمان، مسعود احمد اور ان کے کار ڈرائیور محمد عالم۔ کے ساتھ یوپی پولیس نے متھرا سے گرفتار کیا تھا۔ ان کی گرفتاری کے دو دن بعد یوپی پولیس نے کپن کے خلاف ذات پات کی بنیاد پر فسادات بھڑکانے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کا مقدمہ درج کیا تھا۔ اس کے بعدان پرسیڈیشن کے الزامات اور یو اے پی اے کے تحت بھی مقدمات شامل کیے گئے تھے۔
کپن پر تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 124 اے (سیڈیشن)، 153 اے (گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) اور 295 اے (مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا)، یو اے پی اے کی دفعہ 14 اور 17، انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ اے کی دفعہ 65، دفعہ 72 اور 76 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
جہاں پولیس نے الزام لگایا ہے کہ کپن علاقے میں امن و امان کو خراب کرنے کی سازش کا حصہ تھا، ان کے وکلاء نے دعویٰ کیا کہ وہ ایک دلت لڑکی سے متعلق کیس کی رپورٹ کرنے جا رہے تھے۔
سپریم کورٹ نے 9 ستمبر 2022 کو یو اے پی اے کیس میں کپن کو ضمانت دے دی تھی۔ تاہم، کپن کو ان کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی وجہ سے رہا نہیں کیا گیا تھا۔ 31 اکتوبر کو لکھنؤ کی ایک مقامی عدالت نے منی لانڈرنگ کیس میں کپن کی ضمانت خارج کر دی تھی۔
ای ڈی نے فروری 2021 میں کپن کے خلاف ایک مقدمہ درج کیا تھا۔ مرکزی ایجنسی نے کپن، رحمان، احمد اور عالم پر فسادات بھڑکانے کے لیے کالعدم تنظیم پی ایف آئی سے پیسہ لینے کا الزام لگایا تھا۔ انہیں دسمبر 2022 کے آخر میں اس معاملے میں ضمانت مل گئی تھی۔
تحقیقات کے دوران ای ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ ہاتھرس کیس کے بعد ماحول خراب کرنے کے لیے پی ایف آئی کے اراکین کو 1.38 کروڑ روپے دیے گئے تھے۔ الزام ہے کہ کپن نے پی ایف آئی ممبران کی بلیک منی کو وہائٹ کرنے میں مدد کی تھی۔
کپن کی رہائی سے بیوی اور بچے خوش
تقریباً ڈھائی سال کا اذیت ناک انتظار صدیق کپن کی اہلیہ ریحانہ اور ان کے بچوں کے لیے جمعرات کو اس وقت خوشی کے لمحے میں بدل گئی جب وہ جیل سے رہائی کے بعد کپن سے دوبارہ ملے۔
کپن 28 ماہ بعد جمعرات کی صبح لکھنؤ ڈسٹرکٹ جیل سے باہر آئے۔ رہائی کے فوراً بعد کپن نے کہا، ‘میں دہلی جا رہا ہوں۔ مجھے وہاں چھ ہفتے رہنا ہے۔
جب پوچھا گیا کہ جیل میں زندگی کیسی گزری، کپن نے کہا،میں نے بہت جدوجہد کی۔ان کے وکیل محمد دانش کے ایس کے مطابق کپن نے تقریباً ڈھائی سال جیل میں گزارے۔
کپن کی بیوی ریحانہ نے کہا، ‘کپن کو دونوں کیسوں میں ضمانت ملے کئی ماہ ہوچکے ہیں۔ ہائی کورٹ نے یو اے پی اے کیس میں ضمانت دے دی تھی اور ان کی بے گناہی سامنے آگئی۔ ڈھائی سال کوئی کم وقت نہیں ہے۔ ہم نے بہت درد اور تکلیف برداشت کیا ہے۔ لیکن مجھے خوشی ہے کہ دیر سے ہی سہی انصاف ملا۔ میں دہراتی ہوں کہ کپن ایک میڈیا پرسن ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ بچے اب کیسا محسوس کر رہے ہیں، ریحانہ نے کہا، ہمارے بچے ان (کپن) کے استقبال کے لیے انتظار کر رہے ہیں۔ ان کی خوشی چھین لی گئی تھی۔ وہ ہر روز ان کا انتظار کرتے تھے۔ کیا وہ اپنے باپ کو بھول سکتے ہیں؟ وہ فخر سے کہتے ہیں، صدیق کپن، ایک صحافی، ان کے والد ہیں۔
کپن کے بڑے بیٹے مزمل نے کہا، ‘میرے والد ایک میڈیا پرسن ہیں۔ ڈھائی سال سے میرے والد کے لیے اتنی اذیت کی وجہ کیا ہے؟ ہم ان کی آزادی کا انتظار کرتے رہے۔ میں بہت خوش ہوں ان تمام لوگوں کا شکریہ جو ہمارے ساتھ ہیں۔
تاہم، کپن کی والدہ خدیجہ اپنے بیٹے کو گھر واپس دیکھنے کے لیے اب زندہ نہیں ہیں۔ ان کا انتقال جون 2021 میں ہوا۔ ریحانہ نے بتایا کہ جب وہ جیل میں تھے تب ان کی والدہ کا انتقال ہوا۔ وہ کپن کو دیکھنے کے لیے اب وہاں نہیں ہیں۔
دریں اثنا، محمد دانش کے ایس نے کہا کہ کپن 5 اکتوبر 2020 سے جیل میں تھے۔ انہوں نے کہا کہ کپن کو کووڈ کے علاج کے لیے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) دہلی میں داخل کرایا گیا تھا اور وہ اپنی بیمار ماں سے ملنے گھر بھی گئے تھے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)