شیام بینگل کا ایک یادگاری لیکچر: سیکولرازم اور مقبول ہندوستانی سنیما
02:49 PM Dec 27, 2024 | شیام بینگل
’گرم ہوا‘پہلی فلم تھی جس میں تقسیم ملک کے فوراً بعد ہندوستانی مسلمانوں کے تجربے کو سلیقے سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔گرم ہواکے بننے سے پہلے تک مقبول ہندی فلموں میں خاص کر مسلم کرداروں کو ٹوکن کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔
اگر مقبول عام سنیما (پاپولر سنیما)نے آزمودہ فارمولوں کی بنیاد پر عمل کیا جن میں مذہبی اور نسلی اقلیتوں نے شاذ و نادر ہی کسی فلم میں مرکزی کردار ادا کیا ہے (اگر کسی فلم میں ایک مسلمان کو ہیرو کی حیثیت سے پیش کیا جاتا تو صرف ایک مسلم معاشرے اور مسلم ماحول میں ایسا ہونا ممکن تھا)، تو ‘جدید سنیما’ کی یہ خصوصیت تھی کہ بازار کے دباؤ سے آزاد ہو کر اس نے بہت سے نازک سماجی موضوعات کو اختیار کیا۔1969ء میں ‘فلم انسٹی ٹیوٹ کے ایک گریجویٹ، منی کول نے اپنی فلم، اس کی روٹی، بنائی جس میں ایک سکھ نے مرکزی کردار ادا کیا جو بذات خود مقبول ہندی فلم کے بے شناخت ہندو ہیرو کے خلاف ایک سیاسی اعلان ثابت ہوا۔
فلم فائنینس کارپوریشن کے مالی تعاون سے بنائی گئی اہم ترین فلموں میں ایک ایم۔ ایس۔ ستھیو کی فلم ‘گرم ہوا’ (1973) تھی۔ یہ پہلی فلم تھی جس میں تقسیم ملک کے فوراً بعد ہندوستانی مسلمانوں کے تجربے کو سلیقے سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ جیسا کہ اس سے پہلے میں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ‘گرم ہوا’ کے بننے سے پہلے تک مقبول ہندی فلموں میں خاص کر مسلم کرداروں کو ٹوکن (علامت) کے طور پر پیش کیا جاتا تھا اور اکثر ان میں کسی طرح کا عیب نہیں پایا جاتا تھا۔ اس طرح ان کو مؤثر انداز میں “غیر” بنا کر اپنے فرقے سے الگ حیثیت سے پیش کیا جاتا تھا۔
عصمت چغتائی کے ایک مختصر افسانے کی بنیاد پر کیفی اعظمی کی تحریر کردہ فلم’ گرم ہوا’ میں شمالی ہند سے تعلق رکھنے والے ایک مسلم خاندان کی تکلیف دہ صورت حال کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو تقسم ملک کے وقت پیدا شدہ غیر معمولی حالات پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتا ہے۔ اس خاندان کو یہ تکلیف دہ فیصلہ کرنا تھا کہ ایسی حالت میں اسے اپنے آبائی وطن آگرہ (ہندوستان) میں رہنا چاہیے یا ترک وطن کر کے پاکستان چلا جانا چاہیے۔
اس فلم کی کہانی میں ایک بڑے مشترکہ خاندان کی تقسیم کا نقشہ کھینچا گیا ہے جس کے ممبر مختلف وجوہات کی بنا پر انفرادی طور سے پاکستان روانہ ہوجاتے ہیں مگر اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کے برخلاف، فلم کا ہیرو سلیم مرزا اس نئے مسلم ملک کو ہجرت کرنے سے انکار کرتا ہے کیونکہ اسے اس مقام سے یعنی آگرہ سے گہری انسیت ہے۔
یہ فلم اس بات کا سراغ لگاتی ہے کہ تقسیم ہند کے بعد مسلمانوں کے خلاف شک اور عدم اعتماد کی فضا میں سلیم مرزا کی قوت برداشت جواب دے گئی اور آخرکار نوبت یہاں تک پہونچی کہ اس کو یہ تکلیف دہ فیصلہ کرنا پڑا کہ جو لوگ بھی خاندان کے بچ گئے ہیں ان کے ساتھ وہ بھی ترک وطن کر کے یہاں سے چلا جائے۔ بہر کیف، مظلوموں کی وفاداری کی تصدیق و توثیق کرنےوالے ایک کمیونسٹ جلوس سے متاثر ہو کر، فلم کے آخری مرحلے میں، مرزا اور اس کا چھوٹا بیٹا سکندر اپنی تمام مشقت اور پریشانی کے باوجود اپنا فیصلہ تبدیل کردیتے ہیں۔
اگرچہ اس کا اختتام انتہائی مثبت انداز میں سیکولر قوم پرستی کا عکاس ہے، تاہم ‘گرم ہوا’ تنہا ایسی فلم ہے جس نے مسلمانوں کی اس تکلیف دہ صورت حال کی تصویر کشی کی ہے جو انھیں تقسیم ہند کے نتیجے میں آزادی کے بعد کے ابتدائی سالوں میں پیش آئی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مسلم فرقے کے ایک طبقے کی جانب سے اس فلم کو بڑی پریشانی اٹھانی پڑی جنہوں نے گورنمنٹ سے اس فلم پر پابندی عائد کرنے کی اپیل کردی۔ خود فلموں کو دکھانے کی اجازت دینے والے حضرات (سینسرز) کوئی فیصلہ نہ کرسکے لہٰذا فلم بننے کے برسوں بعد آخرکار اسے نمائش کے لیے جاری کیا گیا۔ اس فلم کو پورے ملک میں ٹیلی ویژن کے ذریعہ ہی دیکھنے کا موقع حاصل ہوسکا۔
اگر حکومت کے مالی تعاون سے چلنے والی ایجنسیوں کا نظام ایک طرف ‘گرم ہوا’ جیسی فلموں کی تیاری میں مددگار ثابت ہوا تو میری رائے میں تاریخی صورت حال کا بھی ایسی فلم کے بننے میں اہم کردار رہا ہے۔ یہ بات غیر اہم نہیں ہے کہ ‘گرم ہوا’ 1971ء میں بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد بنائی گئی تھی۔ آزادی کے بعد ابتدائی بیس سال تک مسلمانوں کے لیے ترک وطن اور ہجرت کا زمانہ تھا کیونکہ اس وقت بھی پاکستان ان کی توجہ کا مرکز تھا لیکن یہ رجحان اچانک بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد پورے طور پر غائب ہوگیا۔
اس کے علاوہ لسانی بنیاد پر مبنی۔ اس بار پاکستان کی۔ اس نئی تقسیم نے بھی ہندوستانی مسلمانوں کی الجھنوں کو کسی حد تک کم کرنے میں مدد کی۔ ہندوستان کے تئیں مسلمانوں کی وفاداری اب شکوک کے دائرے سے باہر اور قوم پرستی کی الجھن سے دور ہو سکی، لہذا اب ستھیو ایسے موضوع کا انتخاب کرسکتے تھے جسے اس وقت تک نظر انداز کیا جارہا تھا یا زیادہ تر معروف فلم ساز جس کا محض ایک ہلکا سا اشارہ دیتے تھے۔ کیونکہ 1971ء سے پہلے اس قسم کی فلم بنانا ناممکن تھا۔