پریم چند جب شہر جاتے گاؤں کی تلخیوں کو ساتھ لے جاتے، گھر گاؤں میں نہیں تھا ان کے دل میں تھا، جہاں رہتے گاؤں ان کے ساتھ رہتا، جب گاؤں میں رہتے تو شہر کی فضا ذہن کو گرفت میں لیے رہتی۔ اسکول کی عمارت ابھرتی، کتابوں کے جملے سرسراتے لیکن شہر کی تکلیف گاؤں کی تکلیف میں جذب نہیں ہوتی۔ ذہن دونوں جانب رہتا۔ دونوں طرف اذیتیں ہی تھیں۔ شہر اور گاؤں دونوں کے راستے دماغ میں ملتے تھے یہی ایک مرکز تھا۔
پریم چند۔ (پیدائش: 31 جولائی 1880 – وفات: 08 اکتوبر 1936) (تصویر بہ شکریہ: ریختہ ڈاٹ او آر جی)
پریم چند نے گاؤں کی زندگی کو اپنا محبوب موضوع بنایا، لیکن ان کی زندگی میں بعض شہروں کی فضائیں بھی اہمیت رکھتی ہیں۔ گورکھپور، کانپور، بنارس، بمبئی، الہ آباد اور واردھا وغیرہ کی اہمیت لمہی، جمن پور اور مہوبہ اور دوسرے علاقوں سے کم نہیں ہے۔ لمہی اور مہوبہ میں رہنے کی وجہ سے مختلف دیہاتوں کو اچھی طرح دیکھنے کا موقع ملا اور دیہی معاشرے کے نشیب و فراز سے واقف ہوئے۔
خصوصاً جب 1908ء میں ڈپٹی انسپکٹر مدارس بن کر مہوبہ (ضلع ہمیرپور) آئے۔ یہ زمانہ ان کی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس لیے کہ اسی زمانے میں انھوں نے کسانوں کی زندگی کو قریب سے دیکھا اور محسوس کیا۔
تعلیم و تربیت، تلاش روزگار اور ملازمت میں بعض شہروں نے ان کی زندگی پر بڑا گہرا اثر ڈالا ہے۔ ذہنی نشو و نما میں ان شہروں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے والد کے ساتھ گورکھپور آئے۔ اس وقت عمر تیرہ سال تھی۔ چھٹی جماعت میں داخلہ لیا اور باقاعدہ تعلیم شروع کی اور ساتھ ہی ادبی ذوق بھی پیدا ہوا۔ ’’طلسم ہوش رُبا‘‘ کی پراسرار زندگی اسی شہر میں ملی۔
اس جانب فراق گورکھپوری صاحب نے اس طرح اشارہ کیا ہے؛
’’درحقیقت ان قصوں اور کہانیوں کو جس دلچسپی اور اشتیاق سے انھوں نے سنا تھا اس سے ان کے قوتِ بیان میں روانی اور وضاحت کے انداز جذب ہو گئے۔‘‘
خود پریم چند لکھتے ہیں؛
اس وقت میری عمر تیرہ سال ہو گی۔ ہندی بالکل نہ جانتا تھا۔ اردو کے ناول پڑھنے کا جنون تھا۔ مولانا شرر، پنڈت رتن ناتھ سرشار، مرزا رسوا، مولوی محمد علی ہردوئی نواسی اس وقت کے مقبول ترین ناول نویس تھے۔ ان کی چیزیں یہاں مل جاتی تھیں۔ اسکول کی یاد بھولی جاتی تھی۔ کتاب ختم کر کے ہی دم لیتا تھا۔ اس زمانے میں رینالڈ کے ناولوں کی دھوم تھی۔ اردو میں ان کے ترجمے دھڑا دھڑ نکل رہے تھے اور ہاتھوں ہاتھ بکتے تھے۔ میں بھی ان کا عاشق تھا اور پنڈت رتن ناتھ سرشار سے تو سیری نہ ہوتی تھی۔ ان کی تمام کتابیں میں نے پڑھ ڈالیں۔
ان دنوں میرے پتا جی گورکھپور میں رہتے تھے اور میں بھی گورکھپور کے اسکول میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا جو تیسرا درجہ کہلاتا تھا۔ ریتی پر ایک کتب فروش بدھی لال رہتا تھا۔ میں اس کی دکان پر جا بیٹھتا تھا۔ اس کے اسٹاک سے ناول لے لے کر پڑھتا تھا مگر دکان پر سارے دن تو بیٹھ نہ سکتا تھا۔ اس لیے میں اس کی دکان سے انگریزی کی کنجیاں اور خلاصے لے کر اپنے اسکول کے لڑکوں کے ہاتھ بیچا کرتا تھا اور اس کے معاوضے میں ناول دکان سے لا کر پڑھتا تھا اور تین برسوں میں میں نے سینکڑوں ہی ناول پڑھ ڈالے ہوں گے جب ناولوں کا اسٹاک ختم ہو گیا تو میں نے نول کشور پریس سے نکلے ہوئے پرانوں کے اردو ترجمے بھی پڑھے اور ’’طلسم ہوش ربا‘‘ کے کئی حصے بھی پڑھے۔
اس عظیم طلسمی کتاب کے 17 حصے اس وقت نکل چکے تھے اور ایک حصہ بڑے سبر رائل کی شکل میں دو دو ہزار صفحات سے کم نہ ہوگا اور ان 17 حصوں کے بعد اس کتاب کے مختلف موضوعات پر پچیسیوں حصے چھپ چکے تھے۔ ان میں سے بھی میں نے کئی پڑھے، جس نے اتنے بڑے گرنتھ کی تخلیق کی اس کی قوتِ تخلیق کی قدر زور دار ہو گی۔ اس کا صرف قیاس ہی کیا جا سکتا ہے۔
کہتے ہیں یہ کہانیاں مولانا فیضی نے اکبر کی تفریح طبع کے لیے فارسی میں لکھی تھیں اس میں کس قدر صداقت ہے کہہ نہیں سکتا لیکن اتنی طویل کہانی شاید ہی دنیا کی کسی زبان میں ہو۔ (میری پہلی تخلیق)
اسی شہر میں ’’طلسم ہوش ربا‘‘ سنا اور پڑھا۔ شرر، سرشار اور مرزا رسوا وغیرہ کے فن سے قریب ہوئے۔ رینالڈ کے اردو ترجمے پڑھے۔ تین برسوں میں ناول، افسانہ، مذہب اور فلسفے کی انگنت کتابیں پڑھیں۔
ذہنی نشو و نما میں ان کے عمل دخل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس عمر میں ایسی ریاضت کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ پرانوں کے ترجمے بھی سامنے آئے اور انھوں نے اپنے کلچر کی عظمت کا اندازہ کیا۔ لکھنے کا شوق بھی اسی شہر میں پیدا ہوا۔ ان کا ذہن ان ادبی تخلیقا ت سے متاثر ہو چکا تھا۔ تخیل مختلف سیاروں کی روشنی میں سفر کر رہا تھا۔
اس زمانے میں لکھنے کی طرف مائل نہ ہوتے تو شاید یہ تعجب کی بات ہوتی۔ تیرہ سال سے پندرہ سال کی عمر تک ظاہر ہے شعور میں پختگی پیدا ہونے کا کوئی سوال نہیں ہے لیکن لکھنے کی طرف اس عمر سے مائل رہے اور اسی منزل سے آہستہ آہستہ دوسری منزل کی جانب بڑھے۔
پریم چند کہتے ہیں؛
میں لکھتا اور پھاڑتا، لکھتا اور پھاڑتا، کبھی کبھی میرے پتا جی حقہ پیتے پیتے میری کوٹھری میں بھی آ جاتے تھے جو کچھ بھی لکھ کر رکھتا وہ دیکھ لیتے اور پوچھتے ’’نواب کچھ لکھ رہے ہو‘‘ میں شرما کر گڑ جاتا مگر اس وشے (موضوع) میں پتا جی کی کوئی دلچسپی نہ تھی کیونکہ ایک تو انھیں کام کے مارے چھٹی نہ ملتی تھی دوسرے اس وشے کے وہ جانکار بھی نہ تھے۔ (پریم چند گھر میں،ص3)
ایک جانب یہ دنیا تھی اور دوسری جانب اسکول کی کتابیں تھیں۔ تاریخ اور ریاضی سے گھبراتے تھے، لکھتے ہیں؛
انگریزی کے سوا اور کسی مضمون میں پاس ہونے کی امید نہ تھی اور حساب و ریاضی سے تو میری روح کانپتی تھی جو کچھ یاد تھا وہ بھی بھول گیا تھا۔
پندرہ سولہ سال کی عمر میں بنارس گئے۔ تنہائی کا گہرا احساس اور زندگی کی تلخیاں ساتھ تھیں، گاؤں سے شہر پڑھنے جاتے اور صرف پانچ روپے ماہوار پر جو گھر سے ملتے تھے گزارا کرتے۔ گاؤں اور شہر دونوں کی زندگی ایک ساتھ تھی۔ درمیان میں صرف ایک راستہ تھا، یہ راستہ ان کے افسانوں میں بھی ملتا ہے۔ دن شہر میں گزرتا رات گاؤں میں بسر ہوتی۔
چاچی جو ان کے ساتھ گاؤں سے آئی تھیں، صبح کو تھوڑا سا گڑ دے دیتیں۔ گھر سے کسی قسم کی مدد ملنے کی امید نہیں تھی۔ رات کو ٹاٹ بچھا کر جب پڑھتے تو اکثر یہ خیال آتا کہ انھیں پرائیویٹ پڑھنا چاہیے۔ شہر میں تعلیم حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔
گاؤں کے مقابلے میں شہر کی زندگی اور خصوصاً اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم کتنی مختلف تھی اس حقیقت کا احساس پہلی بار شدت سے ہوا۔ اسی زمانے میں ان کی شادی ہوئی اور والد کا انتقال ہوا۔
وکیل بننے کا خواب دیکھا تھا اور شہر میں تعلیم حاصل کر کے اپنے خواب کو پورا کرنا چاہتے تھے لیکن امید کی کوئی کرن نظر نہیں آ رہی تھی۔ میٹرک پاس کر نے کے بعد کالج میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن ناکامی ہوئی اس لیے کہ ریاضی کو ان کے دماغ سے ضد تھی۔ ریاضی کے ہندسوں سے صلح کرنا چاہتے تھے، لہٰذا انھوں نے شہر میں رہنا پسند کیا۔
پانچ روپے ماہوار پر ایک وکیل صاحب کے بچوں کو پڑھانا شروع کیا۔ پانچ روپے سے صرف ڈھائی روپے خرچ کرتے اور باقی گھر بھیج دیتے۔ بھنے ہوئے چنے کھاتے اور ادھار لیتے، یہاں انھوں نے اپنی پسندیدہ کتابیں بھی فروخت کیں۔ چنارگڑھ کی زندگی کا حال اس طرح بیان کرتے ہیں؛
میں جاڑے کے دنوں میں گھر سے چنارگڑھ آیا تھا۔ وجے بہادر ساتھ تھے۔ ان کے پتا جیوت تو تھے مگر انھوں نے اپنے لڑکے کو بھی میرے سر پر رکھ دیا۔ میں وہاں پانچ روپے کا ٹیوشن بھی کرتا تھا، کھانے وغیرہ کا انتظام وجے بہادر ہی کرتے تھے۔ پیسے جو ملتے تھے وہ تو پہلے ہی خرچ ہو جاتے تھے پھر ادھار پر چلتا تھا، میدہ اگر ایک روپیہ کا آتا تو چار چھ روز میں ختم ہو جاتا تھا، پھر ادھار پر چلتا تھا۔ ایک بار کی بات ہے میں گھر آیا، چار پانچ دن گھر رہا، جس روز مجھے جانا تھا چاچی سے روپیہ مانگا بولی ’’خرچ ہو گئے‘‘ گاؤں میں کس سے ادھار لیتا، گاؤں کے بہت پہلے میں اور وجے بہادر چل دیے۔ میں نے اپنا گرم کوٹ شہر میں دو روپے میں بیچا جو کہ ایک سال پہلے بڑی مشکل سے بنایا تھا۔ جاڑوں کے دن تھے، گرم کوٹ تھا، سوتی پہن کر اسے بڑے جتن سے رکھا تھا، تب میں چنارگڑھ وجے بہادر کے ساتھ پہنچا۔(پریم چند گھر میں، ص9)
جب شہر جاتے گاؤں کی تلخیوں کو ساتھ لے جاتے، گھر گاؤں میں نہیں تھا ان کے دل میں تھا، جہاں رہتے گاؤں ان کے ساتھ رہتا، جب گاؤں میں رہتے تو شہر کی فضا ذہن کو گرفت میں لیے رہتی۔ اسکول کی عمارت ابھرتی، کتابوں کے جملے سرسراتے لیکن شہر کی تکلیف گاؤں کی تکلیف میں جذب نہیں ہوتی۔ ذہن دونوں جانب رہتا۔ دونوں طرف اذیتیں ہی تھیں۔ شہر اور گاؤں دونوں کے راستے دماغ میں ملتے تھے یہی ایک مرکز تھا ۔
سال 1899ء میں پریم چند ایک پرائمری اسکول کے اسسٹنٹ ٹیچر ہوئے۔ اٹھارہ روپے تنخواہ ملتی تھی۔ ان روپوں سے کافی سہارا ملا ہوا تھا۔ انٹر کے امتحان میں دو بار شریک ہوئے۔ لیکن ریاضی کے پرچے میں فیل ہو گئے۔ 1902 میں ٹریننگ کے لیے الہ آباد بھیج دیے گئے۔ الہ آباد کی زندگی بھی تلخیوں سے بھرپور تھی۔ اس زندگی کا نچوڑ یہ ہے؛
جب میں الہ آباد گیا تو مجھے دس روپے ملتے تھے۔ دس روپے میں میں سات روپے گھر بھیج دیتا تھا۔ پانچ روپے کا ٹیوشن کر کے آٹھ روپے میں اپنا گزارا کرتا تھا۔ صبح اٹھ کر ہاتھ منہ دھوکر روٹی پکاتا، روٹیاں سینک کر اسکول جاتا… یہ دو سال کے دن ادھار کھاتے بیتا۔
اسی زمانے میں طویل قصہ ’’کرشنا‘‘ لکھا تھا جو انڈین پریس سے چھپا۔ 1904ء میں جونیئر انگلش ٹیچرس سرٹیفکیٹ کا امتحان اول درجے میں پاس کیا۔ ایک طرف امید کی کرن نظر آ رہی تھی دوسری طرف گھرکی حالت اتنی ابتر ہو گئی تھی کہ ذہن الجھا ہوا تھا۔
چاچی ان کی بیوی کی شکایت کر کے ان کے کان بھر رہی تھیں۔ پریم چند کی نظر اپنی ابھرتی ہوئی انفرادیت اور اپنے مستقبل پر تھی، لہٰذا ایسی صورت میں انھیں ایسی کوئی بات پسند نہ تھی کہ جس سے اُن کا اٹھا ہوا کوئی قدم بوجھل ہو جائے۔ بگڑے ہوئے حالات اور بگڑے، بیوی سے الجھے اور وجے بہادر سے کہا انھیں پہنچا دیں اور بیوی چلی گئیں۔
ادبی زندگی کا آغاز ہو چکا تھا۔ دو چھوٹے چھوٹے قصے (کرشنا اور ہم خرماں و ہم ثواب) شائع ہو چکے تھے۔ ماڈل اسکول میں ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے اور پھر پرتاپ گڑھ ہائی اسکول چلے آئے۔ 1905ء میں کانپور تبادلہ ہو گیا۔
گورنمنٹ ہائی اسکول کانپور میں ایک سیدھے سادے نیک ہندوستانی اسکول ماسٹرکی زندگی بسرکی۔ کانپور میں ’زمانہ‘ اور ’آزاد‘ نے ان کی نگارشات شائع کیں۔ افسانوں کے علاوہ سیاسی اور ادبی تبصرے بھی لکھتے رہے۔
شا کر میرٹھی (منشی پیارے لال) نے لکھا ہے؛ سیاسی معاملات میں ان کا دماغ خوب کام کرتا تھا۔ رسالہ ’زمانہ‘ میں اہم سیاسی واقعات و حالات پر ایک ماہانہ تبصرہ ’’رفتارِ زمانہ‘‘ کے نام سے شائع ہوا کرتا تھا۔ یہ تبصرہ زمانہ کی خصوصیات میں تھا اور لوگ توجہ و شوق سے اس کو پڑھتے تھے۔08- 1907ء کے بعض تبصروں کا بڑا جزو منشی پریم چند ہی لکھتے تھے۔ انھوں نے بعض کتابوں پر تنقیدیں بھی لکھیں اور وہ تنقیدیں ’’زمانہ‘‘ کی بہترین تنقیدوں میں شمار کی جا سکتی ہیں۔ پریم چند کے دو ڈرامے اور پندرہ سوانحی مضامین بھی ماہنامہ ’’زمانہ‘‘ اور ہفتہ وار ’’آزاد‘‘ میں ملتے ہیں۔ منشی دیانرائن نگم کی صحبت کا بھی اچھا اثر ہوا۔ ان کے علاوہ نوبت رائے نظر اور درگا سہائے اور چند دوسرے ان کے حلقۂ احباب میں تھے۔ ان کی شام اکثر ایک ساتھ گزرتی تھی۔ اس کا ذکر منشی دیانرائن نگم نے ’’زمانہ‘‘ پریم چند نمبر(ص81) میں کیا ہے۔
شعور میں پختگی آ رہی تھی۔ زندگی کے مسائل سامنے آئے۔ سیاسی اور سماجی حقیقتوں کا احساس گہرا ہوا۔ کانپور کی زندگی نے پریم چند کو ایک نظر بخشی۔ اسلوب کے معاملے میں ان کی الجھن اسی زمانے میں شروع ہوئی۔ 1914ء تک اپنے اسلوب سے مطمئن نظر نہیں آتے۔ ’’سوزِ وطن‘‘ زمانہ پریس سے شائع ہوا جس کی کاپیاں ضبط کر کے نذر آتش کر دی گئیں۔ ضلع ہمیرپور کے کلکٹر نے کہا ’’تمہاری کہانیوں میں سٹریشن بھرا ہوا ہے، اگر انگریزی راج میں تم نہ ہوتے تو آج تمہارے دونوں ہاتھ تراش لیے جاتے تم کہانیوں کے ذریعہ بغاوت پھیلا رہے ہو، اس کا اثر پریم چند پر بہت ہوا۔ ایک طرف لکھنے کی خواہش تھی اور دوسری طرف پریشانی۔ شیورانی دیوی سے کہا ’’لکھوں گا نہیں لیکن فرضی نام سے لکھوں گا۔ ‘‘
اپنے احباب سے بھی اس سلسلے میں گفتگو کی۔ منشی پیارے لال شا کر میرٹھی لکھتے ہیں؛
سال 1910 یا 1911ء کا ذکر ہے۔ منشی صاحب اس زمانے میں ڈپٹی انسپکٹر مدارس تھے اور ہمیرپور میں قیام تھا۔ کسی خاص ضرورت سے مجھے کانپور جانا پڑا۔ اتفاق سے بازار میں منشی پریم چند سے ملاقات ہوگئی۔ ایک گھنٹے تک ساتھ رہا۔ اسی ایک گھنٹے میں دنیا بھر کی باتیں ہو گئیں۔
میں نے ’سوزِ وطن‘ کے بارے میں کیفیت دریافت کی تو کہا ’’کیا کہوں، بڑی مصیبت میں پھنس گیا تھا۔ وہ تو خیریت ہوئی کہ کتابیں دے کر پیچھا چھوٹ گیا ورنہ جان پر آن بنی تھی، اس کے بعد جان بچی لاکھوں پائے کہہ کر زور کا قہقہہ لگایا اس کے بعد فرمایا ’’منشی دیانرائن نگم کے مطبع سے پہلی کتاب ’’سوزِ وطن‘‘ شائع ہوئی تھی معلوم نہیں کیا وجہ ہوئی کہ کتاب پر پبلشر اور پرنٹر کا نام نہیں چھپا۔ ظاہر ہے کہ ایسی غلطی عمداً نہیں ہوا کرتی۔ مگر سنتا کون ہے۔ جانچ پڑتال ہوئی تو اس سلسلے میں میرا نام بھی کھل گیا۔ خود ہی سوچو کہ ایک سرکاری ملازم اور ’سوزِ وطن‘ ایسی مسموم کتاب کا مصنف! توبہ توبہ، وہ تو اچھا ہوا کہ کتابوں پربلا ٹل گئی ورنہ کیا عجب تھا کہ مانڈلے کی ہوا کھانی پڑتی۔
اس کے بعد پریم چند نے دوسو پینتالیس (245) کے قریب افسانے لکھے۔ ان کی آزادی کی آواز صرف انگریزوں سے نجات حاصل کر نے کے لیے نہیں تھی بلکہ ہندوستانیوں کو بھی نفسیاتی، معاشی اور سیاسی الجھنوں سے آزاد کرنے کے لیے تھی۔
شریمتی شیورانی دیوی نے لکھا ہے کہ 1913ء کے لگ بھگ انھوں نے ہندی میں کہانیاں لکھنی شروع کیں، کسی کہانی کا ترجمہ ہندی میں کرتے، کسی کا اردو میں، جولائی 1915ء میں بستی کے نارمل اسکول میں ان کا تقرر ہوا۔ ایک برس سے پیچش کے مرض میں گرفتار تھے۔ صحت خراب ہو رہی تھی۔ مختلف علاقوں کے دورے اور معائنے سے کچھ پریشان ہو گئے تھے۔ اس لیے پھر اسکول ماسٹر کی زندگی بسرکی۔
اس وقت تک ’کرشنا‘، ’ہم خرما و ہم ثواب‘، جلوۂ ایثار‘، ’سوزِ وطن‘ اور پریم پچیسی شائع ہو چکے تھے۔ بستی ہی میں پرائیویٹ ایف اے پاس کیا۔ انھوں نے شیورانی دیوی سے کہا تھا ’’رانی یہ ہندوستان ہے، قلم کے بل پر روٹیاں چلانا بہت مشکل ہے۔‘‘ یہ جملہ ان کے تجربے کا نچوڑ ہے لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ اس زمانے میں انھوں نے قلم کے بل پر اپنا گزارا کیا۔ روزنامہ ’’پرتاپ‘‘ کانپور اور ’’سرسوتی‘‘ الہ آباد میں ہندی افسانے شائع ہوتے۔ مضامین چھپتے تو انھیں معمولی سا معاوضہ بھی مل جاتا۔ رقم زیادہ نہ ہوتی پھر بھی اسے سہارا سمجھ رہے تھے۔ تنخواہ پچاس روپے تھی۔ پوری تنخواہ چاچی اور سوتیلے بھائی کی تعلیم پر خرچ کرتے رہے۔ اردو زبان انھیں ایسے وقت میں سہارا نہ دے سکی تو وہ اس سے کسی حد تک بدگمان بھی ہو گئے تھے۔
اگست 1918ء میں پریم چند کا تبادلہ گورکھپور ہوا۔ ازدواجی زندگی میں اسی وقت توازن آیا۔ شریمتی شیورانی دیوی کو بھی گھر بسانے کا موقع ملا۔ 1919ء میں بی اے پا س کیا۔ ایم اے کی تیاری کر رہے تھے لیکن صحت اچھی نہ رہی پھریہ امتحان خواب ہی بن گیا۔
سرکاری ملازمت سے اکتا چکے تھے۔ ڈپٹی انسپکٹر مدارس کی زندگی پسند نہ آئی لہٰذا انھوں نے پھر ماسٹر بننا چاہا، افسری کے بارے میں اکثر شیورانی دیوی سے کہا کرتے تھے کہ وہ اس سے دور ہونا چاہتے ہیں۔ یہ زمانہ پریم چند کی زندگی کا نقطہ عروج ہے۔
صحت خراب تھی، بیماری میں عزیزوں کی ہمدردی حاصل نہیں ہے، نفس پرستی اور خود غرضی سے نفرت سی ہو گئی تھی۔ لوٹ کھسوٹ کیوں ہے؟ نظامِ زندگی میں یہ کمزوریاں کیوں ہیں؟ ان باتوں پر یوں تو نظر ابتدا سے تھی اب یہ نظر پختہ ہو گئی۔
تلک اور گاندھی بھی ہیرو بنے۔ ملازمت سے آزادی حاصل کر کے آزاد زندگی بسر کر نے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ پھر ایک جگہ سکون سے نہ رہ سکے۔ شکست ہوتی رہی اور پھر اُٹھتے رہے۔ آخری زمانے میں ’’ہنس‘‘ وہ آئینہ ہے کہ جس میں وہ اپنی ذات کو دیکھتے نظر آتے ہیں۔ 1920ء سے1936ء تک زندگی مسلسل کشمکش اور الجھنوں میں گرفتار رہے۔ 1934ء میں حد درجہ پریشان تھے۔ آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ اسی سال جون میں جب اجنتاسِنی ٹون فلم کمپنی نے انھیں بمبئی بلایا تو چلے گئے۔ وہاں بھی انفرادیت لہرائی اور ایک ہی سال بعد یعنی 1935ء میں بنارس واپس آ گئے۔
زندگی بڑی کافر ہے اس لیے عزیز بھی ہے، آخری سانس لیتے ہوئے گیٹے نے کہا تھا: ’’روشنی، اور زیادہ روشنی‘‘ پریم چند کی آخری شب بھی روشنی کی آرزو میں گزری۔ ’’ہنس‘‘ کو اپنی سوچ اور فکر کا آئینہ تصور کرتے رہے اسے زندہ رکھنا چاہتے تھے۔ ’’ہنس کیسے چلے گا؟ نہیں چلے گا تو کیا ہو گا؟‘‘ بار بار جتندرجی سے اس طرح سوال کرتے رہے۔ نہیں چاہتے تھے کہ یہ آئینہ ٹوٹ جائے۔
(مشمولہ ؛ فکشن کے فنکار پریم چند)