منی پور میں حالیہ تشدد کے درمیان جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ برادریوں کے بیچ تنازعات کی تاریخ والی اس ریاست کو سنبھالنے میں اگر وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ ذرا سابھی احتیاط سے کام لیتے تو حالیہ کشیدگی کے لیے ذمہ دار بہت سی وجوہات سے بچا جا سکتا تھا۔
منی پور میں حالیہ کشیدگی کے دوران آگ زنی(وسط میں) وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ اور وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/ پی آئی بی)
نئی دہلی: ہر بار کی طرح منی پور ایک بار پھر غلط وجہوں سے
سرخیوں میں ہے۔ اس شمال–مشرقی ریاست کے بارے میں جشن منانے کے لیے بہت کچھ ہے۔ یہ ہندوستان کا ایک خوبصورت حصہ ہے، جس کی آبادی پہاڑیوں اور وادیوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ثقافتی تنوع سے مالا مال اس ریاست نے ملک کو بعض ایسے کھلاڑی بھی دیے ہیں، جنہوں نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی ہے۔
تاہم، تشدد اکثر منی پور میں لوٹ کرآتا ہے – بنیادی طور پر طویل عرصے سے ان سلجھے انٹر–کمیونٹی تنازعات سے پیدا ہونے والی بدامنی کے باعث، جو کبھی ریاست اور کبھی مرکز، دونوں سطحوں پر ان سے وابستہ مسائل کو حل نہ کرنے کے سیاسی عزائم کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
اس کے نتیجے میں برادریوں کے درمیان خلیج وسیع ہوتی ہے اور جان و مال کا نقصان ہوتاہے۔ بعض اوقات، کُکی-زوگروپوں اور ان کے پڑوس میں ناگاؤں کے درمیان بے حد خراب تنازعات پھوٹ پڑتے ہیں، اورکبھی یہی کُکی-زو گروپ اور ناگا، ریاست کی اکثریتی برادری میتیئی کےآمنے سامنے ہوتے ہیں۔
معاملہ کسی کے بھی درمیان ہو، سب سے پہلے ریاست کا امن وامان ہی متاثر ہوتا ہے۔
گزشتہ 3 مئی کو منی پور ایک بار پھر خبروں میں آیا – ریاست میں آگ زنی ، ہجومی تشدد اور اموات ، جو کہ کُکی-زو اور میتیئی برادریوں کے درمیان تصادم اورجھڑپوں کا نتیجہ تھے۔ اس تشدد کو تین دن ہوچکے ہیں اور ریاست میں
تقریباً 54 اموات کی تصدیق ہوچکی ہے، ریاست بھر میں سیکورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات ہے اور بتایا جارہا ہے کہ صورتحال پرقابو پا یا جارہا ہے۔ ایسے میں ان وجوہات کی چھان بین ضروری ہے،جن کے نتیجے میں یہ سب دیکھنے کو مل رہا ہے۔
میتیئی کمیونٹی کو شیڈول ٹرائب کا درجہ دینے کی مخالفت
منی پور میں3 اور 4 مئی کا تشدد ریاست کے قبائل کی مخالفت کا براہ راست نتیجہ ہیں،جس میں میتیئی کے ایک طبقے نے انہیں بھی درج فہرست قبائل (ایس ٹی)کی فہرست میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ منی پور ہائی کورٹ نے اپریل کے آخر میں اکثریتی برادری کی مانگ کو منظوری دے دی اور ریاستی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ قبائلی امور کی مرکزی وزارت کو اس کی سفارش کرے۔ اس کے بعد سے ریاست کی چھوٹی قبائلی برادریوں میں اپنے آئینی تحفظات سے محروم ہوجانے کا خوف بڑھ گیا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ریاست میں اکثریتی برادری کے طور پر میتیئی یقیناً سماجی، سیاسی، تعلیمی اور اقتصادی لحاظ سے دیگر قبائل، خاص طور پر کُکی-زومی گروپ کے مقابلے میں بہتر پوزیشن میں ہیں۔ ریاست کی زیادہ تر قبائلی آبادی اس گروہ سے تعلق رکھتی ہے۔ لہٰذا، چھوٹے قبائل میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ ایس ٹی کا درجہ ہی واحد برتری ہے، جو انہیں اکثریتی برادری پر حاصل ہے۔
ایک اور وجہ جس نے موجودہ تشدد میں اہم کردار ادا کیا ہے وہ ہے ہائی کورٹ کا آل ٹرائبل اسٹوڈنٹس یونین آف منی پور (اے ٹی ایس یو ایم) کے صدر اور ریاستی اسمبلی کی ہل ایریا کمیتیئی (ایچ اے سی) کے چیئرمین کو اس کےفیصلے کی تنقید کرنے پرشوکاز نوٹس جاری کرنا۔ پہاڑی علاقے کے رہنماؤں اور طلبہ یونین کے سربراہوں نے دی وائر کو بتایا کہ انہوں نے ہائی کورٹ کے نوٹس کو عدالت کی طرف سے میتیئی کمیونٹی کی توثیق کے طور پر دیکھا۔
یہ اے ٹی ایس یو ایم ہی تھاجس نے 3 مئی کو ریاست کے تمام پہاڑی اضلاع میں میتیئی کو ایس ٹی کا درجہ دینے کے خلاف قبائلی یکجہتی مارچ کا اہتمام کیا تھا۔ چورا چاند پور ضلع میں ایسے ہی ایک مارچ کے دوران تشدد پھوٹ پڑا، جو ریاست کے مختلف حصوں میں ایک یا دوسری کمیونٹی کو نشانہ بناتے ہوئے مشتعل ہجومی تشدد میں بدل گیا۔
یہاں یہ غورکرنا بھی ضروری ہے کہ ایس ٹی درجے کے لیےمیتیئی کے ایک طبقے کی مانگ بھی اپنے روایتی مادر وطن ، وادی کے علاقے میں اپنی برتری کھونے کے خوف پر مبنی ہے۔ اپنی روایتی زمین پر حق کو پہاڑی قبائل میں اتنا ہی مقدس مانا جاتا ہے جتنا کہ وادی میں۔
اب اس ڈر کے ساتھ کچھ عرصہ قبل ریاست بھر میں انر لائن پرمٹ (آئی ایل پی) کے نفاذ کے میتیئی کمیونٹی کے مطالبے کو شامل کریں – جسے نریندر مودی حکومت نے نافذ کیا – تو آپ کو اکثریتی برادری کے مسلسل تشویش میں مبتلا رہنے کی پوری تصویرنظرآ جائے گی۔
اگرچہ میتیئی ریاست کی آبادی میں50فیصد سے کچھ زیادہ حصہ رکھتے ہیں، لیکن پھر بھی وہ ایک چھوٹی برادری ہیں، اور اس وجہ سے دوسری برادریوں کے تسلط کے خوف سے آزاد نہیں ہیں۔ دوسروں پر اپنا تسلط کھونے کا ایسا ہی خوف آسام کے لوگوں کو بھی ستاتا ہے، جو آسام میں اکثریتی برادری ہونے کے باوجود ایسا ہی محسوس کرتے ہیں۔
آسامیوں کا ایک طبقہ بھی مودی حکومت سے آئی ایل پی کا مطالبہ کر رہا ہے اور اپنی روایتی ہولڈنگز کے تحفظ کے اہتمام کا مطالبہ کر رہا ہے۔ دوسروں کا یہ خوف شمال–مشرق میں اکثریتی اور اقلیتی دونوں برادریوں میں پھیلا ہوا ہے اور آسام میں 1980 کی دہائی کے طلبہ کی تحریک سمیت کئی بین برادری تنازعات اور تحریکوں کی جڑ ثابت ہوا ہے۔
این بیرین حکومت کا کُکی زومی گروپوں کے ساتھ امن معاہدہ کو منسوخ کر نا
حالیہ تشدد کی ایک اور وجہ کُکی زومی قبائل کا غصہ ہے، جس کی وجہ این بیرین سنگھ کی قیادت والی بی جے پی حکومت کا گزشتہ مارچ میں ان کی مسلح تنظیموں – یونائیٹڈ پیپلز فرنٹ (یو پی ایف) اور کُکی نیشنل آرگنائزیشن (کے این او) – کے ساتھ سسپنشن آف آپریشنز (ایس او او) کے
معاہدے کو واپس لینا ہے۔
ریاستی حکومت نے 10 مارچ کو کابینہ کی میٹنگ میں یہ فیصلہ لیا اور مرکزی حکومت کو اس کے بارے میں مطلع کیا گیا۔ لازمی طور پراس کا مطلب یہ تھا کہ ریاستی حکومت مرکز کی طرف سے مقرر کردہ مذاکرات کار کے ذریعےان مسلح گروپوں اور نریندر مودی حکومت کے درمیان جاری سہ فریقی امن مذاکرات سے دستبردار ہو رہی تھی۔ مودی حکومت نے 2017 کے اسمبلی انتخابات کے دوران ان مذاکرات کی شروعات کی تھی۔
تاہم، مرکزی حکومت نے جلد ہی ریاستی حکومت کے حالیہ فیصلے کی حمایت کرنے میں
ہچکچاہٹ کا اظہار کیا، جس سے بیرین حکومت ایک عجیب و غریب حالت میں آ گئی ۔
سال 2016 کے وسط سے، جب مودی حکومت نے کُکی عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ بات چیت میں دلچسپی ظاہر کی، تب سے کُکی-زو برادری امن کے تصفیے میں مرکزی حکومت پر اعتماد کر رہی ہے اور ان کو لگتا تھا کہ انہیں کسی طرف کی اپنی حکومت ملے گی، جیسے آسام میں بوڈو برادری کو دیا گیا تھا۔ لہٰذا، منی پورحکومت کے مذاکرات سے اچانک دستبرداری نے قبائلی گروہوں کو یہ پیغام دیا کہ اکثریتی میتیئی برادری (وزیر اعلیٰ بھی ایک میتیئی ہیں) انہیں کسی بھی طرح کی خود مختاری دینے کے خلاف ہے۔
اس فیصلے کو بی جے پی کے وزیر اعلیٰ کے ایک ناسمجھ سیاسی فیصلے کے طور پر دیکھا گیا، وہ بھی ایسی ریاست میں جہاں پہاڑی اور وادی کے علاقوں کے درمیان باہمی عدم اعتماد کی وجہ سےفرقہ وارانہ تنازعات کی تاریخ رہی ہے۔
انسداد تجاوزات مہم
دریں اثنا، این بیرین حکومت کے خلاف چوراچاند پور اور ٹینگنوپال کے پہاڑی اضلاع میں مسلسل احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ ریاستی حکومت نے محسوس کیا کہ انہیں مسلح کُکی گروپوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان مظاہروں کا اہتمام انڈیجینس ٹرائبل لیڈرز فورم نے ریاستی حکومت کی طرف سے متعدد لوگوں کو بھیجے گئے بے دخلی کے نوٹس کے جواب میں کیا تھا، جن میں کچھ گرجا گھر بھی شامل تھے۔ نوٹس میں حکومت نے کہا تھا کہ انہیں ہٹ جانا چاہیے کیونکہ وہ جنگل کی زمین پر تجاوزات کر رہے ہیں۔
2022 میں امپھال ایسٹ میں انسداد تجاوزات مہم۔ (تصویر بہ شکریہ: Twitter/@pyc_manipur)
احتجاج کی وجہ کو ‘غیر آئینی’ اور ‘غیر قانونی’ قرار دیتے ہوئے، ریاستی حکومت نے دونوں اضلاع کے ڈپٹی کمشنر اور ایس پی کو ریلیوں کی اجازت دینے کے لیے وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا۔
کُکی پہاڑیوں میں اسے حکومت کی طرف سے اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا۔
گرجا گھروں پر حملے
متعدد خبروں کے مطابق، ریاستی حکومت کی طرف سے تجاوزات کے خلاف مہم میں
تین گرجا گھروں کو مسمار کر دیا گیا۔ اس کارروائی نے عیسائی اکثریتی قبائلی آبادی کے دل میں ریاست کی دوسری اکثریتی برادری، جو زیادہ تر ویشنوہیں، کے لیے اس شکوک و شبہات کو جنم دیا کہ وہ ان کی عبادت گاہوں کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔
منی پور سے آنے والی حالیہ خبروں میں بھی گرجا گھروں پر ہجوم کے حملوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، جس سے بی جے پی مقتدرہ ریاست میں فرقہ وارانہ تنازعہ کو ایک مذہبی زاویہ بھی مل گیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں میتیئی کمیونٹی میں ہندوتوا گروپ نظر آنے لگے ہیں۔
بنگلور منی پور اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی طرف سے 3 مئی کے تصادم کے ردعمل میں جاری کردہ بیان زمینی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔
ایسوسی ایشن نے ریزرو جنگلاتی علاقوں کے تحفظ کے لیے بیرین حکومت کی ‘پُر عزم مہم’ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ‘کُکی عسکریت پسندوں کے ذریعے ہندو گاؤں جلا دیے گئے اور بے قصور لوگوں کی جان لے لی گئی ۔ ‘ہندو گاؤں’ کی اصطلاح کے استعمال نے تنازعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کا کام کیا ہے۔
عددی طاقت کی سیاست اور ہمسایہ ملک میانمار میں تناؤ
بنگلور منی پور اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی طرف سے جاری کردہ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 3 مئی کو ‘کُکی انتہا پسندوں اور ڈرگ کارٹیل کے تعاون سے غیر قانونی برمی تارکین وطن نے موریہہ، ٹوربنگ اور چوراچاند پور میں پرامن ہندو منی پوری بستیوں کو نذر آتش کر دیا’۔
یہ سچ ہے کہ ان علاقوں میں میتیئی کی بستیوں پر حملے کیے گئے ہیں اور ان کے گھروں کو جلا دیا گیا، جس سے لوگ نقل مکانی کومجبور ہوئے۔ لیکن اسے ‘اکثریتی برادری بنام اقلیتی برادری’ کی لڑائی کے بجائے ‘عیسائی بنام ہندو’ لڑائی کے طور پر پیش کرنا ایک المیہ کو الگ سمت میں موڑنا ہے – جس میں دونوں فریق کے کئی بے قصور لوگوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔
بیان کے کچھ دوسرے لفظوں پر بھی غور کیا جانا چاہیے- ‘غیر قانونی برمی تارکین وطن’ اور ‘ڈرگ کارٹیل’۔
وادی کے پہاڑی علاقوں میں کُکی زومی برادریوں کے ذریعے برمی شہریوں کو ‘غیر قانونی طور پر’ پناہ دینے کے بارے میں شبہ کچھ عرصے سے عام ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دونوں کے آباؤ اجداد ایک ہی تھے اور وہ پہاڑی علاقوں میں اپنی آبادی بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پہاڑی علاقوں میں وادی کے مقابلے زیادہ زمین ہے۔اس کے اور ایس ٹی کا درجہ ملنے کا مطلب ہے کہ منی پور کے غیر قبائلی انہیں حسد کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
کوئی بھی میتیئی پہاڑی اضلاع میں زمین نہیں خرید سکتا، لیکن قبائل وادی کے علاقے میں زمین لے سکتے ہیں- جو روایتی طور پر میتیئی کا مادر وطن ہے۔ یہ بھی ایک پہلو ہے جس نے تشویش کو جنم دیا ہے۔
میانمار میں حالیہ خانہ جنگی کے بعد یہ کوئی راز نہیں ہے کہ مہاجرین منی پور سمیت ملک کی سرحد سے ملحق کچھ ہندوستانی ریاستوں میں گھس پیٹھ کر رہے ہیں – اس طرح اکثریتی برادری کے ایک طبقے میں خوف و ہراس ہے – جو پہلے کبھی نہیں تھا۔
بیرین حکومت مختلف اقدامات کے ذریعے اس خوف کو ہوا دے رہی ہے، جس میں یہ کہنا بھی شامل ہے کہ کُکی کے مسلح گروپوں کے رہنماؤں میں سے ایک میانمار کا شہری ہے اور اس ملک کا سابق رہنما ہے۔ پھر اس نے کہا کہ کُکی عسکریت پسند گروپ میانمار کے پناہ گزینوں کو لا رہے ہیں۔ حال ہی میں بیرین حکومت کے کہنے پر ایسے کسی بھی امکان کو روکنے کے لیے بین الاقوامی سرحدپر نیم فوجی دستے تعینات کیے گئے ہیں۔
ڈرگ کارٹیل کے بارے میں بات کریں ، تو وزیر اعلیٰ نے کُکی عسکریت پسندوں پر الزام لگایا کہ وہ پہاڑی اضلاع کے جنگلاتی علاقوں میں اپنی بے دخلی مہم کو جواز فراہم کرنے کے لیے افیون کی کاشت کر رہے ہیں۔ اگرچہ اس میں کچھ سچائی ہو سکتی ہے لیکن یہ بات بھی چونکا دینے والی ہے کہ حال ہی میں بیرین حکومت پر ایک سابق اعلیٰ پولیس افسر نے منشیات کی اسمگلنگ کے معاملے میں نرم رویہ اختیار کرنے اور پہاڑی علاقوں میں ڈرگ مافیا کی حمایت کرنے کا الزام لگایا تھا۔
بیرین کا وزیر اعلیٰ ہونا
اگر چیف منسٹر تنازعات کی تاریخ سے بھری اس ریاست کو سنبھالنے میں تھوڑی سی بھی احتیاط برتتے تو ان میں سے بہت سی وجوہات سے بچا جا سکتا تھا۔ اس کے بجائے، ان کے زیادہ تر اقدامات تفرقہ انگیز سیاست کے طور پر سامنے آئے اور واضح طور پر ان کا مقصد ووٹ کے لیے اکثریتی برادری کو راغب کرنا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ زیادہ تر اسمبلی سیٹیں وادی کے علاقوں میں ہیں۔
زیادہ تر شمال–مشرقی ریاستوں میں بین کمیونٹی تنازعہ ایک حقیقت ہے۔ اس لیے اس خطے کو ایسے لیڈروں کی ضرورت ہے جو امن کے لیے لوگوں کو متحد کر سکیں۔ بیرین اس معاملے میں پوری طرح ناکام نظر آتے ہیں۔ آج کے بیرین، اس بیرین سے بہت مختلف ہیں،جنہوں نے 2017 میں وادی میں امپھال کے بجائے پہاڑیوں میں کابینہ کی میٹنگ کر کے کام کی شروعات کی تھی۔
بیرین کی قیادت پر ان کی اپنی پارٹی کے اندر ہونے والے حالیہ احتجاج بھی ایوان کو ایک ساتھ رکھنے میں ان کی ناکامی کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب بی جے پی کے ایم ایل اے اپنے ہی وزیر اعلیٰ کے خلاف کھڑے ہوئے ہوں۔
امن مذاکرات کومکمل کرنے میں مرکزی حکومت کی ناکامی
نئی دہلی کُکی-زو قبائل کے اندر پیدا ہونے والی ناراضگی کے لیے بھی ذمہ دار ہے۔
کُکی زومی مسلح گروپ 2008 سے جنگ بندی میں ہیں۔ 2016 میں ان گروپوں کے ساتھ امن مذاکرات شروع کرنے کے لیے کمیونٹی کی طرف سے مودی حکومت کی تعریف کی گئی تھی، لیکن گزشتہ سات سالوں میں اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے – جس سے صرف یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بی جے پی نے 2017 میں انتخابات کے مد نظر کمیونٹی کا دل جیتنے کے لیے ہی امن مذاکرات کی شروعات کی تھی؟
ترقیاتی کاموں کا نہ ہونا
منی پور میں ترقیاتی کاموں کا فقدان بھی پہاڑی اور وادی علاقوں کے درمیان تنازعات کی ایک وجہ ہے۔
پچھلے کچھ سالوں میں زیادہ تر ترقیاتی کام صرف وادی کے علاقوں میں ہوئے ہیں، اس طرح پہاڑی قبائل میں اکثریتی برادری کے تئیں کافی ناراضگی پائی جاتی ہے، کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ ان کےعلاقوں کو پسماندہ رکھنے کے لیے ایک سوچی سمجھی ‘سازش’ چل رہی ہے۔
پہاڑی اور وادی کے درمیان بہتر تعلقات کو فروغ دینے میں مدد کے لیے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو فوری طور پر اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ پرامن بقائے باہمی کے لیے یہ اشد ضروری ہے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)