دہلی کی ایک عدالت نے فیس بک پر کسانوں کی تحریک سےمتعلق مبینہ فرضی ویڈیو ڈالنے کے ایک معاملے کی شنوائی میں کہا کہ امن و امان قائم رکھنے کے لیے سرکار کے پاس سیڈیشن قانون ایک طاقتور اوزار ہے لیکن اس کو شرپسندوں کو قابو کرنے کے بہانے مخالفین کو چپ کرانے کے لیے لاگو نہیں کیا جا سکتا۔
نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے کہا کہ شرپسندوں کا منھ بند کرنے کے بہانے مخالفین کو خاموش کرنے کے لیے سیڈیشن کا قانون نہیں لگایا جا سکتا ہے۔
ایڈیشنل سیشن جج دھرمیندر رانا نے کسانوں کے احتجاج کے دوران فیس بک پر فرضی ویڈیو ڈال کر مبینہ طور پر سیڈیشن اورافواہ پھیلانے کے الزام میں دہلی پولیس کی جانب سےگرفتار دوافراد دیوی لال بردک اور سوروپ رام کو ضمانت دینے کے دوران یہ تبصرہ کیا۔
عدالت نے کہا کہ ان کے سامنےآئے معاملے میں آئی پی سی کی دفعہ 124اے (سیڈیشن) لگایا جانا ‘سنجیدہ بحث کا موضوع’ہے۔عدالت نے کہا کہ سماج میں امن وامان قائم رکھنے کے لیے سرکار کے ہاتھ میں سیڈیشن کا قانون ایک طاقتور اوزار ہے۔
جج نے 15فروری کو دیے گئے اپنے آرڈر میں کہا، ‘حالانکہ شرپسندوں کا منھ بند کرنے کے بہانے مخالفین کو خاموش کرنے کے لیے اسے لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ ظاہری طور پر قانون ایسے کسی بھی کام پر پابندی عائد کرتا ہے جس میں تشددکے ذریعےعوامی امن وامان کو بگاڑنے یا گڑبڑی پھیلانے کا رجحان ہو۔’
آرڈر میں کہا گیا کہ تشددیاکسی طرح کے پروپیگنڈہ یا توہین آمیز تبصرےیا اکساوے کے ذریعےملزمین کی جانب سے امن وامان میں کسی طرح کی گڑبڑی یا بدنظمی پھیلانے کے فقدان میں شبہ ہے کہ ملزمین پر دفعہ124(اے)کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔
"Sedition cannot be invoked to quieten the disquiet under the pretence of muzzling the miscreants", says a Delhi Court while granting bail to one-Om Prakash accused of spreading rumours on his #Facebook about #DelhiPolice.#Sedition pic.twitter.com/eVlseB5ch5
— The Leaflet (@TheLeaflet_in) February 16, 2021
جج نے کہا، ‘میرے خیال میں ملزمین کو جس ٹیگ لائن کے لیے ذمہ دار بتایا گیا ہے اسے سیدھے طور پر پڑھ کر آئی پی سی کی دفعہ124 اے لگانا سنجیدہ بحث کا موضوع ہے۔’
پولیس کے مطابق بردک نے اپنے فیس بک پیج پر ایک جعلی ویڈیو‘دہلی پولیس میں بغاوت ،تقریباً200 پولیس اہلکاروں نے اجتماعی استعفیٰ دیا’ ٹیگ لائن کے ساتھ پوسٹ کیا تھا۔استغاثہ نے کہا، پوسٹ کیا گیا ویڈیو حالانکہ خاکی پہنے کچھ لوگوں (ہوم گارڈ)کا ہے، جو جھارکھنڈ سرکار سے اپنی کچھ شکایتوں کو لےکرمظاہرہ کر رہے تھے۔
اس فیس بک پوسٹ میں رام نے ایک الگ ویڈیو شیئر کیا تھا جس میں ایسی ہی ٹیگ لائن تھی۔استغاثہ کے مطابق پوسٹ کیے گئے ویڈیو میں دہلی پولیس کے ایک سینئر اہلکاراحتجاج کی جگہ پر پولیس اہلکاروں کو کچھ بتاتے نظر آ رہے ہیں اور انہیں حالات سے مناسب طریقے سے نمٹنے کے لیےکہہ رہے ہیں۔
رام کی جانب سے پوسٹ کیے گئے ویڈیو کے سیاق میں جج نے کہا، ‘میں نے خود عدالت میں ویڈیو دیکھا ہے، جہاں یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ دہلی پولیس کے ایک سینئر اہلکار بےحداونچی آوازمیں نعرے لگا رہے ہیں اور دہلی پولیس کے اہلکاروں کا ایک گروپ ان کے بغل میں کھڑا ہے۔’
انہوں نے کہا،‘بیک گراؤنڈ میں آ رہی آوازیں بھی ماحول کے بےحد گرم ہونے کااشارہ دیتی ہیں۔ جانچ افسر کی جانب سےیہ بتایا گیا ہے کہ ملزمین نے یہ پوسٹ خود نہیں لکھی ہیں بلکہ انہوں نے صرف اسے فارورڈ کیا ہے۔’
عدالت نے دونوں ملزم افراد کو 50 ہزار کی ضمانت اور اتنی ہی رقم کے دو مچلکوں پر ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ پولیس نے اب انہیں حراست میں لےکر پوچھ تاچھ کی ضرورت ظاہر نہیں کی ہے۔عدالت نے دونوں ملزمین کو جانچ افسر کے ذریعے آگے کی جانچ کے لیے بلائے جانے پر پیش ہونے کی ہدایت بھی دی۔
عدالت نے ان سے جانچ کو متاثر کرنے یا اسے ٹالنےیا موجودہ الزامات جیسے ہی کسی دوسرے کام میں شامل نہیں ہونے کو لےکر بھی آگاہ کیا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)