آل انڈیا پیپلز سائنس نیٹ ورک کے زیر اہتمام سو سے زیادہ سائنسدانوں نے ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت اور اس کے مختلف ادارے سائنسی نقطہ نظر، آزاد یا تنقیدی سوچ اور شواہد پر مبنی پالیسی سازی کی مخالفت کرتے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی۔ (تصویر بہ شکریہ: پی آئی بی)
نئی دہلی: 100 سے زائد سائنسدانوں نے سائنس اور شواہد پر مبنی سوچ کے تئیں ہندوستانی حکومت کے ‘مخالفانہ موقف’ اور اس کے ‘جھوٹے بیانیے، بے بنیاد نظریات اور ہندوستان کے اکثریتی نظریے کی پیروی کرنے کے لیے مذہبیت کا لبادہ اوڑھنے کی حمایت کی مذمت کی ہے۔
دی ٹیلی گراف کے مطابق، سائنسدانوں نے حکومت پر ‘کئی طرح سے’ اس طرح کےحملوں میں رول ادا کرنے کا الزام لگایا ہے جو عوام میں سائنسی رویوں کو مجروح کرتے ہیں، انہوں نے اکیڈمک کمیونٹی، بیوروکریسی اور سیاسی طبقے سے آئینی اقدار کے تحفظ میں مدد کرنے کی اپیل کی ہے۔
ہندوستانی آئین کا تقاضہ ہے کہ ہر شہری اپنے دیگر بنیادی فرائض کے ساتھ ساتھ سائنسی مزاج، انسان پرستی اور سوال جواب اور اصلاح کا جذبہ پیدا کرے۔
سائنسدانوں نے جمعہ کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا، ‘حکومت اور اس کے مختلف ادارے اب سائنسی نقطہ نظر، آزاد یا تنقیدی سوچ اور شواہد پر مبنی پالیسی سازی کی فعال طور پر مخالفت کر تے ہیں۔’
سائنسدانوں نے مزید کہا، ‘یہ مخالفانہ رویہ وسیع پیمانے پر اور مستقل طور پر عوام کے درمیان پہنچایا جاتا ہے، جس سے اس طرح کے رویے پیدا ہو جاتے ہیں۔’
بیان میں کسی کا نام نہیں لیا گیا، لیکن اس کا مواد — غیر ثابت شدہ یا غیر سائنسی نظریات کی تشہیر کے بارے میں تشویش کا اظہار، ، قدیم ہندوستانی علوم کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے، کووِڈ-19 کی وبا کے دوران کچھ ردعمل — نریندر مودی حکومت میں ہونے والی پیش رفت سے متعلق ہے۔
تقریباً چھ ماہ سے تیار کیے جا رہے اس بیان کو 28 فروری کو کلکتہ میں آل انڈیا پیپلز سائنس نیٹ ورک کی قومی کانفرنس میں حتمی شکل دی گئی۔ یہ نیٹ ورک 40 اداروں کا ایک کنسورشیم ہے جو عوام میں سائنسی تعلیم اور سائنسی رویوں کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔
اس بیان پر انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایسٹرو فزکس، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس ایجوکیشن اینڈ ریسرچ، نیشنل سینٹر فار بایولوجیکل سائنسز، رمن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور دیگر سمیت متعدد تعلیمی اداروں کے 100 سے زیادہ ان سروس اور ریٹائرڈ سائنسدانوں نے دستخط کیے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ حکومت اور اس کی اتحادی سماجی قوتوں نے ‘ سیڈو سائنس اور دیومالائی قصوں کو تاریخ تصور کرنے کے کے عقیدے کو بڑھاوا دیا ہے’ اور ‘اکثریتی کمیونٹی کے درمیا ن بھی متنوع مذہبی عقائد کے برخلاف ایک واحد اکثریتی مذہب اور ثقافت کی تخلیق کو فروغ دینے کے لیے جھوٹے بیانیہ کا استعمال کیا۔’
سائنسدانوں نے کہا ہے کہ تحقیق اور ترقی کے لیے حکومتی فنڈز، جب جی ڈی پی کے فیصد کے طور پر ماپا جاتا ہے، جو پہلے ہی بہت کم ہے۔ یہ ‘تاریخی نچلی سطح’ تک پہنچ گیا ہے، ان خدشات کے درمیان کہ اس سے ہندوستان کی نئی سائنسی معلومات پیدا کرنے کی صلاحیت پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا،’سستی مزدوری کے ذریعے گھریلو مطالبے کو پورا کرنے کو آتم نربھرتا (خود انحصاری) کے طور پر غلط طریقے سے پیش کیا جاتا ہے، اس طرح تحقیق اور علم کی پیداوار کی ضرورت کو کم کرکے دیکھا جاتا ہے۔’
سائنسدانوں نے حکومت پر ڈیولپمنٹ ڈیٹا اور مختلف عالمی درجہ بندیوں میں ہندوستان کی پوزیشن کو ‘غلط بنیادوں پر’ چیلنج کرنے کا الزام لگایا ہے۔ مرکز نے حالیہ برسوں میں بھوک کے بارے میں ہندوستان کی درجہ بندی کو چیلنج کیا ہے اور متعدد تعلیمی گروپوں کی طرف سے کووڈ 19 وبائی مرض کے دوران ہندوستان میں زیادہ اموات کے تخمینے کو بار بار فرضی، خیالی یا ناقص قرار دیا ہے۔
سائنسدانوں نے کہا کہ امیج مینجمنٹ سے ہٹ کر یہ رجحانات سائنسی مزاج اور شواہد پر مبنی پالیسی سازی کو کمزور کرتے ہیں اور دانشورانہ رویوں کے مخالف نظریےکو فروغ دیتے ہوئے علم پیدا کرنے والے طبقے کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘سیاسی میدان میں نمایاں شخصیات کے غیر سائنسی دعوے، خیالی تکنیکی حصولیابی کے دعوے اور قدیم ہندوستانی علم کے بارے میں مبالغہ آمیز خیالات پیش کرنا انتہائی قوم پرست بیانیہ کی تخلیق اور حمایت کرتے ہیں۔’
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس طرح کے خیالی اور فخریہ دعوے قدیم ہندوستان کی متعدد حقیقی خدمات کو کمتر بناتے ہیں۔