سی جے آئی چندر چوڑ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے انتظامی فیصلوں پر بار ایسوسی ایشن نے اٹھائے سوال

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ کے لوگو اور 'لیڈی جسٹس' کے مجسمے میں کی گئی تبدیلیوں کے خلاف ایک قرارداد بھی منظور کی ہے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ کے لوگو اور ‘لیڈی جسٹس’ کے مجسمے میں کی گئی تبدیلیوں کے خلاف ایک قرارداد بھی منظور کی ہے۔

سی جے آئی ڈی وائی چندر چوڑ۔ (اسکرین گریب بہ شکریہ: یوٹیوب)

سی جے آئی ڈی وائی چندر چوڑ۔ (اسکرین گریب بہ شکریہ: یوٹیوب)

نئی دہلی: چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) ڈی وائی چندر چوڑ کی ریٹائرمنٹ میں صرف چند دن باقی ہیں۔ ایسے میں سپریم کورٹ میں حالیہ دنوں میں کئی اہم تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا گیا ہے، جن کو لے کر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) نے سوال اٹھائے ہیں۔

معلوم ہو کہ سپریم کورٹ میں ‘لیڈی جسٹس’ کے مجسمے کو نئے سرے سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس کے پرانے مجسمے میں روایتی طور پر ایک خاتون کی آنکھوں پر پٹی تھی جس کے ہاتھ میں تلوار تھی، لیکن اب نئے مجسمے کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں اور اس کے ہاتھ میں تلوار کی جگہ آئین ہے۔

سپریم کورٹ میں ان تبدیلیوں کے فیصلوں کی سربراہی کرنے والے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کو اس سلسلے میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نےایک خط لکھا ہے اور سخت اعتراض ظاہر کیا ہے۔ ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ یہ فیصلے یکطرفہ ہیں اور ایس سی بی اے سے مشاورت کے بغیر لیے گئے ہیں۔ ایس سی بی اے نے سپریم کورٹ کے لوگو اور ‘لیڈی جسٹس’ کے مجسمے میں کی گئی تبدیلیوں کے خلاف ایک قرارداد بھی منظور کی ہے۔

اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ‘سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو کمیٹی نے پایا ہے کہ حال ہی میں سپریم کورٹ نے بار سے مشاورت کے بغیر اپنے لوگو اور لیڈی جسٹس کے مجسمے میں بعض انقلابی تبدیلیاں یکطرفہ طریقے سے کی ہیں۔ انصاف کی انتظامیہ میں ہم برابر کے اسٹیک ہولڈرز ہیں، لیکن جب یہ تبدیلیاں تجویز کی گئیں تو انہیں کبھی ہمارےنوٹس میں نہیں لایا گیا۔ ہم ان تبدیلیوں کے پیچھے کی منطق سے بالکل بے خبر ہیں۔’

راجیہ سبھا کے رکن پارلیامنٹ اور سینئر وکیل کپل سبل کی قیادت میں ایس سی بی اے نے ججوں کی سابق لائبریری کی جگہ میوزیم قائم کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر بھی سوال اٹھایا ہے۔

دی وائرکے رابطہ کرنے پر کپل سبل نے اس پیش رفت کی تصدیق کی۔ جبکہ ذرائع نے بتایا کہ تجویز کی ایک کاپی پہلے ہی سی جے آئی کو بھیجی جا چکی ہے۔

اس قرارداد پر جس پر ایس سی بی اے کے تقریباً تمام ایگزیکٹو کمیٹی ممبران نے دستخط کیےہیں، کہا  گیاہےکہ ‘اب سابقہ ججز لائبریری کی جگہ ایک میوزیم بنانے کی تجویز دی گئی ہے، جبکہ ہم نے ممبران کے لیے ایک لائبریری، کیفے کم لاؤنج کا مطالبہ کیا تھا۔ کیونکہ موجودہ کیفے ٹیریا بار کے اراکین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔’

اس میں مزید کہا گیا، ‘ہم متفقہ طور پر ہائی سکیورٹی والے علاقے میں مجوزہ میوزیم کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کے بجائے اپنے ممبروں کے لیے لائبریری اور ایک کیفے کم لاؤنج کا مطالبہ کرتے ہیں۔’

معلوم ہو کہ سی جے آئی چندر چوڑ نے لیڈی جسٹس کے نئے مجسمے کی نقاب کشائی کے دوران کہا تھا، ‘قانون اندھا نہیں؛ یہ سب کو یکساں طور پر دیکھتا ہے۔’

سی جے آئی کے دفتر کے ایک سینئر افسر نے تلوار کو آئین کے مجسمے سے بدلنے کے پیچھے منطق کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ تلوار تشدد کی علامت ہے، لیکن عدالتیں آئینی قوانین کے مطابق انصاف فراہم کرتی ہیں۔ نئے مجسمے کا مقصد اس اصول کی عکاسی کرنا ہے۔

اس سلسلے میں ایس سی بی اے کے سابق صدر اور سینئر ایڈوکیٹ آدیش سی اگروال نے کہا کہ چنددنوں میں سبکدوش ہونے والے سی جے آئی کو ایسا فیصلہ لینے سے پہلے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشورہ کرنا چاہیے تھا۔

غورطلب  ہے کہ سی جے آئی  کی میعاد 10 نومبر کو ختم ہو رہی ہے۔ وہ گزشتہ چند ہفتوں میں عدالت کے باہر اپنے متنازعہ بیانات اور اقدامات کی وجہ سے تنقید کی زد میں ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایک تقریب میں سی جے آئی  چندرچوڑ نے دعویٰ کیا کہ رام جنم بھومی-بابری مسجد تنازعہ کا حل تلاش کرنے میں بھگوان نے ان کی رہنمائی کی۔

انہوں نے کہا تھا، ‘اکثر ہمارے پاس فیصلہ کے لیے معاملے ہوتے ہیں، لیکن ہم کسی حل تک نہیں پہنچ پاتے ہیں، ایسا ہی کچھ ایودھیا (رام جنم بھومی-بابری مسجد) تنازعہ کے دوران ہوا تھا، جو تین ماہ تک  میرے سامنے تھا۔ ‘ میں بھگوان  کے سامنے بیٹھا اور ان سے کہا کہ انہیں اس کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔’

جیسا کہ دی وائر نے پہلے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ  سی جے آئی نے سپریم کورٹ میں کالجیم سے سپریم کورٹ  میں واحد خالی اسامی کو پر کرنے کے لیےکو ایک سینئر وکیل کے نام کی سفارش کی تھی، جس میں وہ ناکام رہے۔ تاہم، ایسا کرنے کی کوشش میں انہوں  نے واضح طور پر چیف جسٹس کی حیثیت سے اپنے جانشین کے طور پر جسٹس سنجیو کھنہ کے نام کی سفارش کرنے میں تاخیر کر دی تھی۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔