سپریم کورٹ نے سوموار کو فوج میں خاتون افسروں کو مستقل کمیشن دینے کے دہلی ہائی کورٹ کے 2010 کے حکم پر عمل نہیں کرنے پر مرکزی حکومت کی تنقید کی اور فوج میں مستقل کمیشن کا انتخاب کرنے والی سبھی خاتون افسروں کو تین مہینے کے اندر مستقل کمیشن دینے کا حکم دیا۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سوموار کو فوج میں خاتون افسروں کو مستقل کمیشن دینے کے دلّی ہائی کورٹ کے 2010 کے حکم پر عمل نہیں کرنے پر مرکزی حکومت کی تنقید کی اور کہا کہ اس کے خلاف مرکز کی دلائل جنسی تعصبات پر مبنی تھیں۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، آرمڈ فورسزمیں خواتین کی خدمات کے معاملوں کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورت نے کہا کہ مرکز کو خاتون افسروں کو مستقل کمیشن دینا چاہیے۔
سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو حکم دیا کہ فوج میں مستقل کمیشن کا انتخاب کرنے والی سبھی خاتون افسروں کو تین مہینے کے اندر مستقل کمیشن دیا جائے۔ مستقل کمیشن کے لئے سپریم کورٹ کا رخ کرنے والی خاتون فوج کے افسروں نے پہلے مرکز کے ذریعے ان کو دس کمانڈ سپورٹ آرمس میں کمانڈ پوسٹ دینے پر اعتراض کیا تھا، جہاں وہ فی الحال یہ کہتے ہوئے کام کر رہے تھے کہ ان کو مستقل کمیشن والی پوسٹ نہ دینا انتہائی
رجعت پسند قدم ہوگا اور اس سے ان کے وقار کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔
سینئر وکیل ایشوریہ بھاٹی کے ذریعے دائر اپنی تحریری درخواست میں افسروں نے اس تنازعے پر بھی اعتراض کیا کہ بڑے پیمانے پر مرد فوج کی موجودہ ساخت اور فوجیوں کے پس منظر کو دیکھتے ہوئے وہ اکائیوں کی کمان میں خاتون افسر کو منظور کرنے کے لئے ذہنی طور پر تربیت یافتہ نہیں ہیں۔ گزشتہ سال یوم آزادی پر وزیر اعظم نریندر مودی نے مسلح افواج میں خاتون افسروں کے لئے مستقل خدمات عطا کرنے کے فیصلے کا اعلان کیا تھا جن کو شارٹ سروس کمیشن کے ذریعے چنا گیا تھا۔
مارچ میں وزارت دفاع نے اعلان کیا کہ شارٹ سروس کمیشن کے ذریعے شامل خاتون افسروں کو آٹھ اور شاخوں میں مستقل کمیشن کے لئے غور کیا جائےگا۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس اجئے رستوگی کی بنچ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ذہنیت بدلی ہوگی۔ کورٹ نے کہا کہ فوج میں خاتون افسروں کی تقرری ایک ترقی یافتہ عمل ہے۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر مہر لگاتے ہوئے خاتون افسروں کو فوج میں ملےگا مستقل کمیشن پر مہر لگا دی۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک نہیں لگائی گئی، پھر بھی مرکز نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو نافذ نہیں کیا۔ ہائی کورٹ کے فیصلے پر کارروائی نہ کرنے کی کوئی وجہ یا جواز نہیں ہے۔ کورٹ کے 9 سال کے فیصلے کے بعد مرکز 10 دفعات کے لئے نئی پالیسی لےکر آیا۔ کورٹ نے کہا کہ تمام شہریوں کو یکساں مواقع ، جنسی انصاف فوج میں خواتین کی حصہ داری کی رہنمائی کرےگی۔ خواتین کی جسمانی خصوصیات پر مرکز کے خیالات کو کورٹ نے خارج کر دیا۔
کورٹ نے کہا کہ مرکزی حکومت نظریہ اور ذہنیت میں تبدیلی لائے۔ فوج میں حقیقی برابری لانی ہوگی۔ 30 فیصد خواتین اصل میں جنگی علاقوں میں تعینات ہیں۔ مستقل کمیشن دینے سے انکار اسٹیریو ٹائپس تعصبات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ خواتین مردوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر کام کرتی ہیں۔ مرکز کی دلیلیں پریشان کرنے والی ہیں۔ خاتون فوج افسروں نے ملک کی شان بڑھائی ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ خاتون افسروں کو کمانڈ پوسٹنگ سے انکار کرنا صحیح نہیں ہے۔ کورٹ کے مطابق، خواتین کے لئے کمانڈ پوسٹنگ پر بلینکیٹ پابندی کو قانون کے ذریعہ برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔