دہلی کے شاہین باغ میں مظاہرے کے دوران چار مہینے کے بچہ کی موت کے بعد بہادری کے لیےایوارڈپانے والی 12سالہ اسٹوڈنٹ جین گنرتن سداورتے نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر کہا کہ اس طرح کے مظاہرے میں بچوں کو شامل کرنے کی منظوری نہ دی جائے۔
شاہین باغ (فوٹو : رائٹرس)
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے شاہین باغ میں 30 جنوری کو ایک بچہ کی موت کے مد نظر احتجاج اور مظاہرےمیں بچوں اور نوزائیدہ کو لانے سے روکنے کو اپنے علم میں لیا ہے۔سپریم کورٹ کی ویب سائٹ کے مطابق، اس معاملے پر (سی جے آئی ایس اے بوبڈے کی صدارت میں 10 فروری کو شنوائی ہوگی۔بتا دیں کہ 30 جنوری کو شاہین باغ سے لوٹنے کے بعد
چار مہینے کے ایک بچہ کی موت ہو گئی تھی۔ بچہ کے اہل خانہ اس کو شاہین باغ میں شہریت قانون (سی اےاے)کے خلاف جاری مظاہرے میں لے گئے تھے۔اس پر ممبئی کی 12 سالہ جین گنرتن سداورتے نے چیف جسٹس آف انڈیا کو خط لکھ کر بچوں کے مظاہرے میں حصہ لینے کو بے رحمی اور زیادتی بتاتے ہوئے اس پر روک لگانے کی ہدایت دینے کی اپیل کی تھی۔
اس خط میں چار مہینے کے بچہ کی موت کے معاملے کی چھان بین کرنے کرنے کو کہا گیا کیونکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کی وجہ کا تذکرہ نہیں ہے۔
ساتویں جماعت میں پڑھنے والی سداورتے نے سپریم کورٹ کو لکھے اپنے خط میں کہا، ‘چار مہینے کے بچہ کی زندگی کے حق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اس کو سردی اور بخار ہوا تھا۔ اس کی ماں روزانہ شاہین باغ مظاہرے میں جاتی تھی اور بچہ کی جان چلی گئی۔ مظاہرے کے دوران بچوں کو لے جایا جا رہا ہے اور بچوں کی زندگی خطرے میں پڑ رہی ہے۔مظاہرہ کے دوران انہیں خطرہ ہے اور انہیں ان کے جینے کے حق کے ساتھ ساتھ بچوں کے حق سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔ بچوں کو ایسی جگہ پر جانے سے روکنے کی ضرورت ہے۔ مستقبل میں ایسے وقعات نہ ہوں، اس کے لیے ضروری ہے کہ سپریم کورٹ اس سے متعلق گائیڈ لائن بنائے۔’
اس پر سپریم کورٹ نے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خط کو عرضی مان کر بچہ کی موت کے معاملے کو اپنی جانکاری میں لیا ہے۔ اب شاہین باغ میں سڑک سے مظاہرین کو ہٹانے کی مانگ والی عرضی کے ساتھ اس معاملے پر بھی سوموار کو شنوائی ہوگی۔
عرضی گزار سداورتے کو صدر جمہوریہ سے اس سال بہادری کاایوارڈ ملا تھا۔ سداورتے نے 2018 میں ممبئی میں کرسٹل ٹاور آگ زنی میں اپنے اہل خانہ سمیت 17 لوگوں کی جان بچائی تھی۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)