
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے بہار میں ایس آئی آر کے عمل کے دوران ڈرافٹ ووٹر لسٹ سے بغیر کسی شفافیت کے 65 لاکھ سے زیادہ نام ہٹائے جانے کے الزامات پر جواب داخل کرنے کو کہا ہے۔ اے ڈی آر کی عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن یہ بتانے میں ناکام رہا کہ حذف کیے گئے ووٹرز کون تھے – کیا وہ مر چکے ہیں یا نقل مکانی کر چکے ہیں۔

سپریم کورٹ. (تصویر: دی وائر)
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بدھ کے روز الیکشن کمیشن آف انڈیا (ای سی آئی) کو ان الزامات کے جواب میں 9 اگست تک اپنا جواب داخل کرنے کی ہدایت کی ہے کہ بغیر کسی شفافیت کے ایس آئی آرکے عمل کے دوران بہار کی ڈرافٹ ووٹر لسٹ سے 65 لاکھ سے زیادہ نام حذف کردیے گئے ہیں۔
ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس اجول بھویان اور جسٹس این کوٹیشور سنگھ کی بنچ نے ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے یہ ہدایت جاری کی۔
درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ الیکشن کمیشن یہ بتانے میں ناکام رہا کہ حذف کیے گئے ووٹرز کون تھے اور کیا ان کی موت ہو چکی ہے یا وہ نقل مکانی کر چکے ہیں۔
اے ڈی آرکی طرف سے پیش ہوئے وکیل پرشانت بھوشن نے دلیل دی کہ 1 اگست کو جاری مسودہ فہرست میں اہم معلومات کا فقدان ہے۔ بھوشن نے دلیل دی، ‘اس میں یہ واضح نہیں کیا گیا ہےکہ جن 65 لاکھ ووٹروں کو ہٹایا گیا ہے وہ کون ہیں۔ یہ واضح نہیں کہ یہ مر چکے ہیں، نقل مکانی کر چکے ہیں یا کوئی اور ہیں۔ اس کے علاوہ بلاک سطح پر سیاسی جماعتوں کو فہرستوں تک رسائی نہیں دی گئی تھی۔’
انہوں نے مزید دلیل دی کہ بہت سے معاملات میں بوتھ لیول آفیسر (بی ایل او)کی سفارش کے بغیر ناموں کو فہرست میں شامل یا حذف کر دیا گیا ہے۔
وکیل نے کہا، ‘شامل کیے گئے 75 فیصد سے زیادہ لوگوں نے مطلوبہ 11 دستاویزات جمع نہیں کرائے ہیں۔ بی ایل او نے بغیر کسی دستاویز کی تصدیق کے خود ہی فارم بھردیے ہیں۔’
انہوں نے دو انتخابی حلقوں کی مثالیں دیں، جہاں تقریباً 12فیصد اندراجات کو بی ایل او کی سفارش حاصل نہیں تھی۔
اس پر بنچ نے ریمارکس دیے کہ معیاری آپریٹنگ طریقہ کار کے مطابق، ڈرافٹ ووٹر لسٹ کو بلاک سطح پر سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے ساتھ شیئر کیا جانا چاہیے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ ‘اسے یقینی بنایا جانا چاہیے۔’
اس کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن سے کہا گیا کہ وہ واضح کرے کہ مسودہ ووٹر لسٹ کی اشاعت سے قبل سیاسی جماعتوں کو کب اور کیسے تقسیم کیا گیا تھا۔
لیکن الیکشن کمیشن کے وکیل نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ڈرافٹ رول درحقیقت سیاسی جماعتوں کے ساتھ شیئر کیا گیا تھا اور عوامی طور پر دستیاب کرایا گیا تھا۔
وکیل نے کہا کہ ‘ڈرافٹ رول دستیاب کرانا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ اسے سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے ساتھ شیئر کیا گیا تھا۔’
اس پر بنچ نے کہا، ‘تو پھر اپنے جواب میں یہی بتائیے۔ جن سیاسی جماعتوں کوآپ نے ڈرافٹ رول دستیاب کرایا ہے، ان کی فہرست جمع کیجیے۔تاکہ درخواست گزار اپنے نمائندوں کے ذریعے اس کی تصدیق کر سکیں۔’
اس کے بعد بنچ نے الیکشن کمیشن سے سنیچر تک ‘تفصیلی جواب’ داخل کرنے کو کہا۔
عدالت نے مزید کہا، ‘ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ متاثر ہونے والے ہر ووٹر کو مطلع کیا جائے اور اسے ضروریات کی تعمیل کرنے کا موقع دیا جائے۔ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ مقامی انتظامیہ کو بھی ضروری معلومات ہونی چاہیے۔’
اب اس کیس کی سماعت 12 اگست کو ہونی ہے۔
اس سے قبل 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے ڈرافٹ ووٹر لسٹ کی اشاعت پر روک لگانے سے انکار کر دیا تھا، لیکن الیکشن کمیشن کو یاد دلایا تھا کہ ایس آئی آر کو شمولیت کو فروغ دینا چاہیے نہ کہ بڑے پیمانے پر اخراج کو۔
اس کے بعد، 29 جولائی کو، سپریم کورٹ نے یقین دہانی کرائی کہ اگر ایس آئی آر کے دوران بڑے پیمانے پر ووٹرز کو ووٹر لسٹ سے خارج کیا جاتا ہے، تو عدالت اس معاملے میں مداخلت کرے گی۔