سپریم کورٹ نے عمر خالد اور دیگر کی درخواست ضمانت پر سماعت 22 ستمبر تک ملتوی کی

02:07 PM Sep 22, 2025 | دی وائر اسٹاف

سپریم کورٹ نے دہلی فسادات سازش کیس میں عمر خالد، شرجیل امام، میران حیدر، گلفشاں فاطمہ اور شفا الرحمان کی درخواست ضمانت پر سماعت 22 ستمبر تک ملتوی کر دی ہے۔اس سے قبل 12 ستمبر کو اسی عدالت نے فائل دیر سے ملنے کا حوالہ دیتے ہوئےشنوائی  ملتوی کر دی تھی۔

سپریم کورٹ. (تصویر: سنتوشی مرکام/دی وائر)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ (19 ستمبر) کو عمر خالد، شرجیل امام، میران حیدر، گلفشاں فاطمہ اور شفا الرحمان کی جانب سے دہلی فسادات کی سازش کیس میں ضمانت کی درخواستوں کی سماعت 22 ستمبر (سوموار) تک ملتوی کر دی۔

لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق، یہ درخواستیں جسٹس اروند کمار اور جسٹس منموہن کی بنچ کے سامنے درج تھیں۔

سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر ہونے کے بعد یہ دوسری بار سماعت ملتوی ہوئی ہے۔ اس سے قبل 12 ستمبر کو سپریم کورٹ نے ان درخواستوں کی سماعت یہ کہتے ہوئے ملتوی کر دی تھی کہ ان معاملوں کو لینے میں مشکلات پیش آئیں کیونکہ سپلیمنٹری لسٹ کی فائلیں 2:30 بجے موصول ہوئی تھیں۔

اس سے قبل 2 ستمبر کو دہلی ہائی کورٹ نے خالد، امام، حیدر اور فاطمہ سمیت نو افراد کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کر دی تھیں۔ جسٹس نوین چاولہ اور جسٹس شالندر کور کی ڈویژن بنچ نے تمام اپیلوں کو خارج کر دیا۔ ٹرائل کورٹ کی جانب سے ضمانت کی درخواستیں مسترد ہونے کے بعد ان سب نے ہائی کورٹ میں اپنی اپیل دائر کی تھی۔

جن دیگر درخواست گزاروں کی اپیل خارج کی گئی، ان میں اطہر خان، خالد سیفی، محمد سلیم خان، شفا الرحمان اور شاداب احمد شامل ہیں۔ تمام ملزمان کو 2020 کے پہلے نو مہینوں میں گرفتار کیا گیا تھا۔

جس دن ہائی کورٹ کی بنچ نے نو لوگوں کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کی تھیں، اسی دن دہلی ہائی کورٹ کی ایک الگ بنچ نے اس معاملے میں ایک اور ملزم تسلیم احمد کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ اس بنچ میں جسٹس سبرامنیم پرساد اور ہریش ویدیا ناتھن شنکر شامل تھے۔

ان کارکنوں کا جیل میں گزرا وقت متعدد اپیلوں کے مسترد ہونے، بار بار سماعت کے ملتوی ہونے اور عدالتوں کے انکار سے بھرا رہا ہے، جسے دنیا بھر کے حقوق کے کارکنوں نے انصاف کے ساتھ مذاق قرار دیا ہے۔

انتہائی متنازعہ ایف آئی آر 59/2020 دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے تعزیرات ہند (آئی پی سی) اور غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کی کئی دفعات کے تحت درج کی تھی۔ اس تشدد کی تحقیقات میں دہلی پولیس کے جانبدارانہ کردار کے بارے میں مسلسل سوال اٹھ رہے ہیں۔

دہلی پولیس کا معاملہ بنیادی طور پر اس بات پر منحصر ہے کہ یہ کارکن شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف ملک گیر احتجاج کے دوران بنائے گئے وہاٹس ایپ گروپ میں موجود تھے یا ان میں شریک تھے۔

غور طلب ہے کہ عمر خالد 14 ستمبر 2020 کو اپنی گرفتاری کے بعد سے جیل میں ہیں۔ ان پر 2020 کے فسادات کے پیچھے بڑی سازش سے متعلق ایک کیس میں غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت الزام عائد کیا گیا ہے۔ ان دنگوں میں 53 افراد ہلاک اور 700 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔

معلوم ہو کہ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف مظاہروں کے دوران تشدد پھوٹ پڑا تھا۔

عمر اور کیس کے دیگر ملزمان نے اپنے خلاف تمام الزامات سے انکار کیا ہے۔ وہ 2020 سے جیل میں ہیں اور نچلی عدالت کی جانب سے ان کی ضمانت کی درخواست مسترد ہونے کے بعد ضمانت کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

تاہم، فسادات سے متعلق دہلی پولیس کی تحقیقات کو عالمی سطح پر متعصبانہ اور شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو نشانہ بنانے کے طور پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

دسمبر 2022 کے اوائل میں دہلی کی ایک عدالت نے  عمر خالد اور کارکن خالد سیفی کو 2020 کے فسادات سے متعلق ایک کیس میں  بری کر دیا تھا ۔