مغربی بنگال میں شاردا چٹ فنڈ گھوٹالہ کو لےکر گزشتہ دنوں مغربی بنگال کی ممتا بنرجی حکومت اور مرکز کی مودی حکومت میں تین دن چلے سیاسی ڈرامے کے درمیان ان لوگوں کا ایک بار بھی ذکر نہیں آیا جن کی زندگیاں اس کی وجہ سے برباد ہو گئیں۔
مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی اور شاردا گروپ کے مالک سدیپت سین۔ (فوٹو : پی ٹی آئی)
کولکاتہ: کروڑوں روپے کے شاردا چٹ فنڈ گھوٹالہ سے متعلق کولکاتہ پولیس کمشنر راجیو کمار کے گھر چھاپےماری کرنے گئی سی بی آئی کی ٹیم کو کولکاتہ پولیس کے ذریعے حراست میں لئے جانے کے بعد مغربی بنگال حکومت اور مرکز کی مودی حکومت آمنے سامنے آ گئی تھی۔ترنمول کانگریس سپریمو اور مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے بی جے پی حکومت پر وفاقی ڈھانچے کو تباہ کرنے کا الزام لگاکر دھرنا مظاہرہ کیاتھا، تو مودی حکومت نے ممتا حکومت کی مذمت کی کہ بنگال میں آئین طاق پر رکھ دیا گیا ہے۔
کولکاتہ پولیس کی کارروائی کے خلاف سی بی آئی نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا، تو
سپریم کورٹ نے پولیس کمشنر سے پوچھ تاچھ میں تعاون کی بات کہی۔ اس کے بعد ممتا بنرجی نے بھی دھرنا ختم کر دیا۔تین دن تک چلے اس سیاسی ڈرامے کا خاتمہ گزشتہ پانچ فروری کی شام کو ہو گیا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے اس پورے واقعے میں ان لاکھوں محنت کش لوگوں کا ذکر ایک بار بھی نہیں آیا، جنہوں نے بہتر کل کی امید میں اپنے خون-پسینہ کی کمائی شاردا گروپ کے ہاتھوں میں سونپ دی تھی۔ یہ محنت کش لوگ آج بھی اس امید میں جی رہے ہیں کہ سود سمیت نہیں، تو پونجی ہی ان کو مل جائے۔
مغربی بنگال کے جنوبی 24 پرگنہ ضلع کے دوردراز جینگر میں رہنے والے 49 سالہ شبھیندو داس سال 2009 میں شاردا گروپ سے جڑے تھے۔ اس وقت انہوں نے تجربے کے طور پر 10000 روپے جمع کیا تھا۔ ایک سال بعد ان کو 11 ہزار روپے ملے۔
اس سے ان کو حوصلہ ملا اور انہوں نے اپنی بیوی، بڑے بھائی، بھابھی، چاچی اور دوسرے سگے-رشتہ داروں کے نام کل 32 لاکھ روپے جمع کر دئے۔ لیکن، سال 2013 میں جب ان کے پاس کمپنی کے مالک سدیپت سین کے فرار ہونے کی خبر پہنچی، تو ان کے پیروں کے نیچے سے زمین ہی کھسک گئی۔
شبھیندو داس کہتے ہیں، میں الکٹرانک لیمپ بنانے والی ایک کمپنی میں مینجر تھا۔ مانگ کم ہونے کی وجہ سے کمپنی بند ہو گئی، تو میں بےروزگار ہو گیا۔ اسی وقت شاردا گروپ کے بارے میں پتہ چلا کہ وہاں سرمایہ کاری کرنے پر 40 فیصد تک رٹرن ملتا ہے۔ میں نے کمپنی پر بھروسہ کر لیا۔ وزیراعلیٰ ممتا بنرجی شاردا گروپ کے پروگرام میں خود شرکت کرتی تھیں، اس لئے لگا کہ یہ اچھی کمپنی ہے۔ ‘
انہوں نے کہا، مرکز اور ریاستی حکومت دونوں ہی اس معاملے میں سیاسی فائدہ لینے کے لئے ساری تکڑم کر رہی ہیں۔ لیکن، جو اس گھوٹالہ کے متاثرین ہیں، ان کی کسی کو فکر نہیں ہے۔ کون-سی کیا جانچکر رہی ہے، کس کو گرفتار کر رہی ہے، مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا پیسہ مجھے واپس مل جائے۔ ‘
دوردراز سندرون میں رہنے والے رویندر پرکائستھ بھارتیہ جیون بیمہ نگم کی نوکری چھوڑکر بےروزگار بیٹھے ہوئے تھے۔ سال 2012 میں انہوں نے شاردا کے بارے میں سنا اور اس سے جڑ گئے۔رویندر کہتے ہیں، لوگ بولتے تھے کہ بہترین رٹرن مل رہا ہے۔ میں نے سوچا کیوں نہ کچھ پیسہ لگا دیا جائے۔ اپنے خاندان کے ممبروں سے پیسے لےکر میں نے شاردا گروپ میں جمع کر دیا۔ میں نے شاردا گروپ کی ایجنسی لے لی تھی اور کئی لوگوں کو اس میں شامل کر کے سرمایہ کاری کے لئے ترغیب دی۔ ڈیڑھ سال میں قریب ایک کروڑ روپے جمع کئے گئے تھے۔ ‘
انہوں نے کہا، سندرون پچھڑا علاقہ ہے۔ آمدنی کا کوئی بڑا ذریعہ نہیں ہے یہاں۔ یہاں کے 90 فیصد لوگوں نے محنت سے کمائے روپے شاردا میں جھونک دئے تھے۔ شاردا گھوٹالہ کے جھٹکے سے لوگ اب تک باہرنہیں نکل سکے ہیں۔ ‘شاردا گروپ سال 2006 میں وجود میں آیا تھا۔ بعد میں اس گروپ نے قریب 200 الگ الگ کمپنیاں قائم کر لی تھیں اور سرمایہ کاری پر 25 سے 40 فیصد تک کے رٹرن کا لالچ دےکر لاکھوں لوگوں کو اس سے جوڑ لیا۔
شروعاتی دنوں میں سرمایہ کاروں کو اچھا رٹرن بھی دیا گیا، جس سے لوگوں کا بھروسہ قائم ہو گیا اور وہ موٹی رقم کی سرمایہ کاری کرنے لگے۔ مغربی بنگال حکومت کے وزیر اور ترنمول کانگریس کے رکن پارلیامان خود شاردا گروپ کے پروگراموں میں شرکت کرنے لگے۔ اس سے بھی لوگوں کو لگا کہ ان کا پیسہ محفوظ ہاتھوں میں ہے۔
چونکہ، اس گروپ کی زیادہ تر اکائیاں نقصان میں چل رہی تھیں اور سیاسی رسوخ والے جو لوگ اس سے جڑے ہوئے تھے، وہ موٹی رقم بطور تنخواہ لے رہے تھے، تو سال 2013 کی شروعات میں کمپنی کے پاس نقد کی قلت ہو گئی۔ ایجنٹ جب سرمایہ کاروں کے پیسے لوٹانے کو کہتے، تو بہانے بازی کی جاتی۔
شاردا چٹ فنڈ گھوٹالہ سے متاثر پردیپ گاین کی بیوی شیکھا گاین اور ان کے بچے۔
آہستہ آہستہ کمپنی کے مالک سدیپت سین اور دیگر اعلیٰ افسروں کو احساس ہونے لگا کہ کمپنی اب ڈوبنے کی حالت پر پہنچ گئی ہے، تو 10 اپریل 2013 کو سدیپت سین فرار ہو گئے۔ ایک ہفتے بعد سین کی گرفتاری کا پروانہ جاری ہوا اور کولکاتہ پولیس نے جموں و کشمیر سے ان کو گرفتار کر لیا۔ایک اندازہ کے مطابق، مغربی بنگال کے 10 لاکھ سے زیادہ سرمایہ کاروں نے شاردا گروپ میں قریب 2400 کروڑ روپے جمع کئے تھے۔ شاردا گروپ کے ڈوب جانے سے سرمایہ کاروں میں کہرام مچ گیا تھا۔ کئی ایجنٹ نے تو سرمایہ کاروں کے دباؤ میں آکر خودکشی بھی کر لی تھی۔
ایسے ہی ایک ایجنٹ تھے پردیپ گاین۔ جنوبی 24 پرگنہ ضلع کے مندر بازار تھانہ علاقے کے گاین پاڑا میں رہنے والے پردیپ نے بہت لوگوں کا پیسہ شاردا گروپ میں جمع کروایا تھا۔ کمپنی ڈوبی، تو لوگ ان سے پیسہ مانگنے ان کے گھر تک آنے لگے۔وہ لوگ آئے دن ان کے ساتھ گالی-گلوچ کرتے۔ پردیپ کے پاس جو تھوڑی زمین تھی، اس پر قبضہ کر لیا گیا۔ سرمایہ کاروں کا ظلم و ستم جب بڑھ گیا، تو وہ بیوی بچوں کے ساتھ سسرال چلے گئے۔
پردیپ کی بیوی شیکھا گاین نے بتایا،وہ لوگ سسرال بھی آنے لگے، تو ہم لوگ دوسرے رشتہ دار کے یہاں چلے گئے تھے۔ سرمایہ کاروں کے بڑھتے دباؤ اور اقتصادی حالت سے تنگ آکر ستمبر 2017 کی ایک رات پھندا لگاکر انہوں نے خودکشی کر لی۔ ‘ شیکھا گاین نے کہا کہ سرمایہ کار اب بھی آ دھمکتے ہیں اور پیسہ مانگتے ہیں۔ پردیپ کے دو بچّے ہیں، جن کی ذمہ داری اب شیکھا کے کندھوں پر ہے۔ مغربی بنگال حکومت نے سرمایہ کاروں کو راحت دینے کے لئے 500 کروڑ روپے کا فنڈ تیار کیا تھا۔ فنڈ کا کچھ حصہ سرمایہ کاروں میں بنٹا بھی، لیکن سرمایہ کاروں کے بڑے حصے کے ہاتھ پھوٹی کوڑی نہیں آئی۔
مئی 2014 میں شاردا چٹ فنڈ گھوٹالہ سپریم کورٹ میں پہنچا، تو عدالت نے سی بی آئی تفتیش کا حکم دے دیا۔ معاملے کی چھان بین کے دوران سی بی آئی نے ترنمول رکن پارلیامان کنال گھوش، سرنجئےبوس، تاپس پال اور ترنمول حکومت میں نقل وحمل کے وزیر رہے مدن مترا سمیت کئی متاثر کن لوگوں کو گرفتار کیا۔اسی معاملے کے دیگر ملزمین میں شامل ترنمول کے راجیہ سبھا رکن پارلیامان رہے مکل رائے بی جے پی میں شامل ہو گئے۔ اس گھوٹالہ کے دوسرے مستفدین ہیمنت بسوا شرما فی الحال آسام میں بی جے پی حکومت میں وزیر ہیں۔
سرمایہ کاروں کے روپے واپس دلانے کے لئے لمبے وقت سے مہم چلا رہے امانتکاری اور ایجنٹ سرکشا منچ کے سکریٹری تارک سرکار نے کہا، ‘ سرمایہ کاروں کے روپے لوٹانے کے لئے ہم نے کئی دفعہ تحریک کی۔ اس تحریک میں شامل ہونے کے لئے تمام پارٹیوں کو بلایا، لیکن ان تحریکوں میں بی جے پی اور ترنمول کانگریس کبھی بھی شامل نہیں ہوئیں۔ اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ مرکز اور ریاستی حکومت سرمایہ کاروں کے لئے کتنی فکرمند ہے۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘ سی بی آئی جانچکر رہی ہے۔ سی بی آئی کے ساتھ ہی ای ڈی اورمحصول محکمہ بھی چھان بین کر رہے ہیں۔ لیکن، سرمایہ کاروں کے روپے جلد سے جلد لوٹانے کی قواعد کسی کی طرف سے نہیں ہو رہی ہے۔ ‘یہاں یہ بھی بتا دیں کہ سال 2014 میں ہی امانتکاری اور ایجنٹ سرکشا منچ کی طرف سے سپریم کورٹ میں معاملہ دائر کیا گیا تھا۔ اس میں تنظیم نے شاردا گروپ سمیت دیگر چٹ فنڈ کمپنیوں کی وجہ سے سرمایہ کاروں کو ہوئے نقصان کا تخمینہ لگانے اور ان کمپنیوں کی جائیدادیں بیچکر سرمایہ کاروں کے روپے لوٹانے کے لئے کمیٹی بنانے کی اپیل کی تھی۔
امانتکاری اور ایجنٹ سرکشا منچ کی طرف سے مقدمہ لڑ رہے وکیل شبھاشیش چکرورتی نے کہا، ‘ سپریم کورٹ نے کلکتہ ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کو کہا تھا۔ ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی، تو قریب 140 چٹ فنڈ کمپنیوں کو لےکر دو ریٹائر ججوں شیلیندر پرساد تالکدار اور دلیپ سیٹھ کی صدارت میں دو الگ الگ کمیٹیاں بنیں۔ لیکن، چٹ فنڈ کمپنیوں کی ضبط جائیدادیں ابھی تک نہیں بیچی جا سکی ہیں۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘ ہم نے عدالت میں اپیل کی ہے کہ کورٹ ریاستی اور مرکزی حکومت کو ہدایت دے کہ وہ خود چٹ فنڈ کمپنیوں کی جائیدادیں خرید کر سرمایہ کاروں کے روپے لوٹا دیں۔ ‘غور طلب ہو کہ بنگال کانگریس کے سینئر رہنماعبدالمنان نے ہی سب سے پہلے شاردا چٹ فنڈ گھوٹالہ کی تفتیش سی بی آئی سے کرانے کی مانگ کی تھی اور سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔
عبدالمنان کہتے ہیں، جب میں نے معاملہ دائر کیا تھا، تو کوئی سیاسی رنگ نہیں دیکھا تھا۔ میری فکر تھی کہ غریب لوگوں کا پیسہ واپس مل جائے۔ چٹ فنڈ گھوٹالہ کے فائدہ اٹھانے والوں میں ترنمول اور دیگر پارٹیوں کے رہنماؤں کے ساتھ ہی کانگریس کے رہنما بھی شامل تھے۔ اس کے باوجود میں نے معاملہ دائر کیا تھا۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘ابھی ترنمول اور بی جے پی دونوں سیاسی کھیل کھیل رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے سنگین سازش ہونے کی بات کہی تھی۔ سی بی آئی اب تک اس سنگین سازش کو اجاگر نہیں کر پائی ہے۔ ‘عبدالمنان نے کہا، بی جے پی اس گھوٹالہ کو سیاسی فائدے کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ اگر سچّے دل سے ریاستی اور مرکزی حکومت کام کرے، تو سرمایہ کاروں کو پیسہ واپس مل سکتا ہے۔ ‘
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)