سلمان رشدی نے مودی حکومت میں بڑھتے ہندو راشٹرواد اور اظہار رائے کی آزادی پر حملوں پر تشویش کا اظہار کیا

مشہور زمانہ مصنف سلمان رشدی نے بلومبرگ کو انٹرویو دیتے ہوئے  ہندوستان میں بڑھتی ہوئی ہندو قوم پرستی، مسلمانوں کی امیج کو نشانہ بنائے جانے اور صحافیوں - مصنفین پر دباؤ کے حوالے سےتشویش کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے کئی دہائیوں قبل ان خطرات کے آثار دیکھ لیے تھے، جن کی تصدیق اب ہو رہی ہے۔

مشہور زمانہ مصنف سلمان رشدی نے بلومبرگ کو انٹرویو دیتے ہوئے  ہندوستان میں بڑھتی ہوئی ہندو قوم پرستی، مسلمانوں کی امیج کو نشانہ بنائے جانے اور صحافیوں – مصنفین پر دباؤ کے حوالے سےتشویش کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے کئی دہائیوں قبل ان خطرات کے آثار دیکھ لیے تھے، جن کی تصدیق اب ہو رہی ہے۔

سلمان رشدی۔تصویربہ شکریہ: پین امریکہ

نئی دہلی: مشہور زمانہ مصنف سلمان رشدی نے حال ہی میں ہندوستان میں اظہار رائے کی آزادی پر حملوں اور وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بڑھتی ہوئی ہندو قوم پرستی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

بلومبرگ کے ساتھ ایک انٹرویو میں رشدی نے کہا کہ وہ مسلمانوں کی امیج کو لے کر اور ہندوستانی ادیبوں، صحافیوں اور ماہرین تعلیم پر بڑھتے ہوئے دباؤ کے سلسلے میں فکر مند ہیں۔

رشدی نے انٹرویو میں کہا،’میں اس بارے میں بہت فکر مند ہوں۔ ہندوستان میں میرے بہت سے دوست ہیں۔ ہر کوئی صحافیوں، ادیبوں، دانشوروں، پروفیسروں وغیرہ کی آزادی پر ہونے والے حملوں کے بارے میں فکر مند ہے۔’

انہوں نے کہا کہ ملک کی پہچان کو نئے سرے سے تشکیل دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ ملک کی تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی خواہش ہے، بنیادی طور پر یہ کہنے کے لیے کہ ہندو اچھے ہیں اور مسلمان برے ۔وی ایس نائپال نے ایک بار اسے ‘زخمی تہذیب’ کہا تھا، یہ خیال کہ ہندوستان ایک ہندو تہذیب ہے جو مسلمانوں کی آمد سے زخمی ہوئی ۔ اس سوچ  کوبہت زیادہ بڑھاوا مل رہا ہے۔

دہائیوں پہلے اپنے بیانات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘مجھے لگتا ہے کہ اگر آپ مصنف ہیں، اگر آپ توجہ دیتے ہیں، تو کبھی کبھی آپ چیزوں کو آتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں، اور مجھے لگتا ہے کہ میں یہی کر رہا تھا، میں توجہ دے رہا تھا۔’

رشدی کے بیان کا سیاق و سباق یہ ہے کہ انہوں نے کئی دہائیوں پہلے ہندوستان میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی، نفرت اور آزادیوں پر حملوں کو بھانپ لیا تھا۔

رشدی پر 2022 میں ہوا تھا حملہ

رشدی 1988 میں دی سٹینک ورسزکی اشاعت کے بعد سے ایران کے جاری کردہ فتوے کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ خطرہ دوبارہ اگست 2022 میں پرتشدد شکل میں سامنے آیا، جب مغربی نیویارک میں ایک لیکچر سے عین قبل ان پر حملہ کر کے زخمی کر دیا گیا۔ حملے سے صحت یاب ہونے کے بعد مصنف کی ایک آنکھ کی بینائی ختم ہوگئی اور اب وہ اپنا ایک ہاتھ بھی استعمال کرنے سے قاصر ہیں۔

حملہ آور، 27 سالہ ہادی مطر، بعد میں قتل کی کوشش اور حملے کا مجرم پایا گیا اور اسے 25 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

ہندوستان اور  سٹینک ورسز

قابل ذکر ہے کہ ہندوستان نے اکتوبر 1988 میں رشدی کے ناول دی سٹینک ورسز کی درآمد پر پابندی لگا دی تھی۔یہ حکم راجیو گاندھی کی حکومت کے دوران وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کردہ کسٹم نوٹس کے تحت نافذ کیا گیا تھا۔ حکومت نے دلیل دی  تھی کہ مسلم کمیونٹی، جو اس کتاب کو مذہبی جذبات کے خلاف سمجھتی ہے، اس پر سخت ردعمل کا اظہار کر سکتی ہے۔

دہلی ہائی کورٹ نے 5 نومبر 2024 کو اس 37 سال پرانی درآمدی پابندی کو مؤثر طریقے سے ہٹا دیا۔

رشدی 1947 میں ممبئی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے انگلینڈ کے بورڈنگ اسکول میں تعلیم حاصل کی اور پھر کیمبرج یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ انہیں ان کی ادبی خدمات پر 2007 میں ‘نائٹ’ کا خطاب دیا گیا۔