آگرہ ضلع میں دیوان جی کی بیگم شاہی مسجد کے متولی کا الزام ہے کہ 22 جنوری کو لاٹھیوں کے ساتھ 1000-1500 لوگ زبردستی مسجد میں داخل ہوگئے، وہاں بھگوا جھنڈے لگائے اور مذہبی نعرے بھی لگائے گئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں اب تک 11 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ تاہم، ان کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔
دیوان جی کی بیگم شاہی مسجد۔ (تصویر: رعنا صفوی)
نئی دہلی: اترپردیش کے آگرہ ضلع میں مغلیہ عہد کی مسجد کے اوپر اور اندر بھگوا جھنڈا لگانے کے الزام میں پولیس نے 11 لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔
یہ واقعہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ایودھیا میں رام مندر کی پران—پرتشٹھا کی تقریب مکمل کرنے کے فوراً بعد دائیں بازو کے کارکنوں کی طرف سے نکالی گئی ‘شوبھا یاترا’ کے دوران پیش آیا۔
آگرہ کے تاج گنج پولیس اسٹیشن میں 23 جنوری کو رات 00:36 بجے درج کی گئی ایف آئی آر کے مطابق، بلوچ پورہ میں دیوان جی کی بیگم شاہی مسجد کے متولی نے الزام لگایا ہے کہ 22 جنوری کو تقریباً 1000-1500 لوگ ‘لاٹھی ڈنڈے’ کے ساتھ دوپہر کو تقریباً 3:30 بجے زبردستی مسجد میں داخل ہوگئے۔
متولی ظہیر الدین نے کہا، ‘انہوں نے مسجد میں مکمل افراتفری کی صورتحال پیدا کردی۔’ دی وائر کے ذریعے دیکھی گئی اپنی پولیس شکایت میں ظہیر الدین نے کہا ہے کہ ‘سماج دشمن عناصر’ نے میناروں، دیواروں اور مسجد کے احاطے میں بھگوا جھنڈے لہرائے۔’ ظہیر الدین نے کہا، ‘انہوں نے مسجد کی بے حرمتی کی۔’
ظہیر الدین نے الزام لگایا کہ شرپسندوں نے مذہبی نعرے بھی لگائے اور مسجد کے اندر موجود لوگوں کو دھمکیاں دیں۔ ایف آئی آر میں ان کے حوالے سے کہا گیا ہے، ‘وہ ڈھٹائی سے دوسرے مذہب کے لیے ناشائستہ زبان کا استعمال کر رہے تھے۔’
قابل ذکر ہے کہ 1000-1500 نامعلوم افراد کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر میں آئی پی سی کی دفعہ 147 (دنگا)، 148 (دنگا، مہلک ہتھیاروں سے مسلح)، 452 (چوٹ یا حملے کی تیاری کے بعد جرم) اور 505 (2) (عوامی طور پرفساد پھیلانے والے بیان) لگائی گئی ہے۔
تاج گنج تھانے کے انچارج جسویر سنگھ نے کہا ہے کہ انہوں نے اس واقعے کے لیے اب تک 11 لوگوں کو گرفتار کیا ہے اور ان کی شناخت کی بنیاد پر دیگر کی تلاش جاری ہے۔ افسر نے کہا، ‘تفتیش جاری ہے۔’
انہوں نے یہ بھی کہا کہ گرفتار افراد کا تعلق کسی تنظیم سے نہیں ہے۔ تاہم، دی وائر ابھی تک آزادانہ طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کر پایا ہے۔
گرفتارکیے گئے لوگوں کے نام ابھی ظاہر نہیں کیے گئے ہیں ۔
ظہیر الدین نے اپنی پولیس شکایت میں یہ بھی کہا کہ یہ حرکت شہر میں ‘ماحول کو خراب کرنے’ کے ارادے سے کی گئی تھی۔ انہوں نے ذکر کیا کہ مسجد کے قریب موجود لوگوں نے کسی بھی فرقہ وارانہ تصادم کو روکنے کے لیے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور ‘غیر اخلاقی رویے کو برداشت کیا’۔
آگرہ کا روضہ دیوان جی بیگم اور مسجد آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے آگرہ سرکل کے تحت یادگاروں کی فہرست میں شامل ہے۔ اے ایس آئی نے بتایا کہ روضہ خواجہ غیاث الدین قاضی وانی کی بیٹی دیوان جی بیگم کا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘وہ آصف خان کی بیوی اور ممتاز محل کی ماں تھیں۔’
اے ایس آئی کا کہنا ہے کہ مسجد کی تعمیر کا سال فارسی کتبہ میں 1677 درج کیا گیا تھا اور یہ شاہجہانی طرز تعمیر کی نمائندگی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘مسجد ایک بہت اونچے چبوترے پر کھڑی ہے۔ یہ منصوبہ بندی میں مستطیل ہے اور سرخ ریت کے پتھر سے بنی ہوئی ہے۔’
اے ایس آئی کا کہنا ہے کہ روضہ کھنڈر میں تبدیل ہوچکا ہے اور مقبرے کا اوپری ڈھانچہ گر چکا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘اگرچہ قبرگاہ برقرار ہے، قبر غائب ہے۔ فاؤنڈیشن کی دیوار پر موجود نشانات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک مربع بلند پلیٹ فارم پر بنایا گیا تھا۔ عمارت چار کونے والے ٹاوروں سے گھری ہوئی ہے۔’
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )