ہلہ بول؛ صفدر ہاشمی کا وہ ڈرامہ جسے کھیلنے کے دوران ان پر قاتلانہ حملہ ہوا…

یوم وفات پر خاص: اہم بات یہ ہے کہ صفدر کی آخری رسومات کی ادائیگی کے بعد جن ناٹیہ نے ان پر حملہ ہونے والی جگہ پر دوسرے دن ہلہ بول ناٹک ہزاروں لوگوں کے درمیان جوش سے کیا تھا۔

یوم وفات پر خاص: اہم بات یہ ہے کہ صفدر کی آخری رسومات کی ادائیگی کے بعد جن ناٹیہ نے ان پر حملہ ہونے والی جگہ پر دوسرے دن ہلہ بول ناٹک  ہزاروں لوگوں کے درمیان جوش سے کیا تھا۔

صفدر ہاشمی، ٖفوٹو بہ شکریہ: سہمت

صفدر ہاشمی، ٖفوٹو بہ شکریہ: سہمت

صفدر ہاشمی  12 اپریل 1954کو پید ا ہوئے ۔کمیونسٹ پارٹی کے سرگرم کارکن رہے صفدر پریکم جنوری 1989 کو نکڑ ناٹک کے دوران قاتلانہ حملہ(مبینہ طور پر حملے میں کانگریس کا ہاتھ  بتایا جاتا ہے)کیا گیا۔

حملے کے دوسرے دن 2جنوری کو ایک ہسپتال میں ان  کی موت ہوگئی۔انہوں نے سینٹ اسٹیفن کالج دہلی سے انگلش میں ماسٹر ڈگری حاصل کی تھی ۔ وہ کچھ دنوں تک درس وتدریس بھی وابستہ رہے۔

معروف ادیب زبیر رضوی نے ان کا سوانحی خاکہ مرتب  کرتے ہوئےاپنی کتاب’ عصری ہندوستانی تھیٹر’ میں لکھا ہے کہ ؛ ‘سری نگر میں یونیورسٹی سے وابستگی کے دنوں میں وہاں نکڑ ناٹک بھی کیے۔ کلکتے میں پریس آفیسر بھی رہےاس دوران انہوں نے فلم اور ڈرامہ فیسٹول بھی کیے۔ 1983 میں استعفیٰ دے دیا اور پوری  طرح تھیٹر سے خود کو وابستہ کر دیا اور رنگ منچ کو ثقافتی اور سماجی بیداری پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا۔’

صفدر ہاشمی نے محنت کشوں کے مسائل اور ان کی بہتر زندگی کی جدوجہد کے لیے رنگ منچ کا خوب استعمال کیا۔انہوں نے اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جن ناٹیہ منچ کی بنیاد بھی رکھی۔ انہوں نے متعدد ڈرامے لکھےاور نظمیں بھی کہیں ۔

 زبیر رضوی کے بقول؛ مشین، ہتھیارے ، عورت، سمرتھ کو نہیں دوش گوسائیں، راجہ باجہ اور ہلہ بول جیسے وہ نکڑ ناٹک تھے جن کے16سو سے زیادہ شوزعوام کے روبرو کیے۔

صفدر نے بچوں کے  لیے بھی نظمیں لکھیں۔انہوں نے اپنے ڈراموں کے ذریعے فرقہ وارایت، مہنگائی۔ بدعنوانی، استحصال، تعلیمی پالیسی کے موضوعات کو اٹھایا اور عوامی بیداری کے لیے سرگرم رہے۔

زبیر رضوی لکھتے ہیں کہ؛

انہوں نے (صفدر) حبیب تنویر کے ساتھ مل کر پریم چند کی کہانی ستیہ گرہ کو موٹے رام کا ستیہ گرہ کے نام سے ڈرامائی روپ دیا… ان پر قاتلانہ حملہ یکم جنوری 1989کو دلی کے صاحب آباد کی ایک مزدور بستی میں اس وقت ہوا جب وہ ہلہ بول، ناٹک کھیل رہے تھے اس حملہ کے دوسرے دن 2 جنوری کو دلی کے ایک ہسپتال میں انہوں نے دم توڑ دیا۔ اہم بات یہ ہے کہ صفدر کی آخری رسومات کی ادائیگی کے بعد جن ناٹیہ نے ان پر حملہ ہونے والی جگہ پر دوسرے دن ہلہ بول ناٹک  ہزاروں لوگوں کے درمیان جوش سے کیا تھا۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ممتاز اداکارہ اور سماجی کارکن شبانہ اعظمی نے دہلی  میں صفدرہاشمی کے دردناک قتل کے بعد انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں اسٹیج سے یہ کہہ کر اپنا احتجاج درج کیا تھا کہ، ایک طرف تو یہ حکومت فلم فیسٹیول کرتی ہے اور دوسری طرف ہمارے کلچرل ایکٹیوسٹ صفدر ہاشمی کو جب حکمراں پارٹی کے غنڈے جان سے مار دیتے ہیں تو اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتی۔

حالاں کہ بعد میں سزا کے طور پر سرکاری ریڈیو اور ٹی وی پر شبانہ اعظمی کا پروگرام بند کر دیا گیاتھا،  بعد میں اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کے کہنے پر اس پابندی کو ہٹایا گیا۔

صفدر ہاشمی کے یوم وفات پر ہم ان کا وہی ڈرامہ ‘ہلہ بول ‘ مارکسسٹ ڈاٹ پی کے کے شکریے کے ساتھ قارئین  کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں، جس کی پیشکش کے دوران  ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا اور وہ  شہید ہوگئے۔ (ادارہ)


ہلہ بول

سب نعرے لگا رہے ہیں

(بول مجھورے ہلہ بول…ہلہ بول، ہلہ بول…ہر زور ظلم کی ٹکر میں سنگھرش ہمارا نعرہ ہے…ابھی تو یہ انگڑائی ہے، آگے اور لڑائی ہے…دم ہے کتنا دمن میں تیرے، دیکھ لیا ہے دیکھیں گے…جگہ ہے کتنی جیل میں تیری، دیکھ لیا ہے دیکھیں گے)

پولیس والا: ٹھہرو، ٹھہرو، ٹھہرو…اے میں کہتا ہوں چُپ ہو جاؤ! ابے سنا نہیں، میں کیا کہہ رہا ہوں…ابے او کرانتی کاری…چُپ ہو جا بے! ایسے نہیں مانے گا (ڈنڈا مارتا ہے تھیٹر والوں کو اور فن کار چیختا ہے)…کیوں بے کیا ہو رہا ہے؟

پہلا فن کار: ڈرامہ کر رہے ہیں۔

پولیس والا: ڈیراما! سالے ہمیں چوتیا سمجھتا ہے؟

فن کار: نہیں تو۔

پولیس والا: پھر!

پہلافن کار: پھر کیا (سب فن کار مل کر بولتے ہیں پھر کیا)

پولیس والا: ڈیراما ایسے کیا جاتا ہے؟…نعرے لگا کے، لال جھنڈے اٹھا کے، ہاتھ میں پوسٹر لے کے…بھاگو سالے سب یہاں سے نہیں تو سب کو حوالات میں ڈال دوں گا۔

پہلا فن کار: آپ یقین مانیے ہم ڈرامہ ہی کر رہے ہیں، آپ پوچھ لیجیے ان سب لوگوں سے…ارے حوالدار صاحب ہم سب کلاکار ہیں ’جَن ناٹیہ منچ‘کے کلاکار… (سب مل کر کہتے ہیں: ہاں، جَن ناٹیہ منچ آف انٹرنیشنل فیم)

پولیس والا: اچھا، اچھا، اچھااا…تو ڈیراما کر رہے تھے۔

سب جواب دیتے ہیں (جی ہاں)

پولیس والا: تو کرو ساباس…پر ذرا بڑھیا سا کرنا۔

پہلا فن کار: تو آپ ایک طرف ہو جایئے، ہم ابھی شروع کرتے ہیں…چلو بھائی…انقلاب زندہ باد (سب جواب دیتے ہیں، زندہ باد…زندہ باد! … سی آئی ٹی یو زندہ باد، زندہ باد…زندہ باد!)

پولیس والا: اوئے اوئے اوئے ابے اوئے! چُپ چُپ چُپ!…یہ کیا ہو رہا ہے؟ ڈیراما کر ڈیراما…یہ نعرے وارے نہیں چلیں گے۔

پہلافن کار: پر ہمارے ڈرامے میں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔

پولیس والا: تمہارے ڈیرامے میں ہوتا ہوگا، ہمارے علاقے میں نہیں ہوتا…سات دن کی ہڑتال کے ٹَیم سے ہی سختی کے آرڈر آگئے ہیں…ایس ایچ او صاحب کا آرڈر ہے آرڈر کہ سالا کوئی سی آئی ٹی یو کا نام بھی لیتا دکھے تو فوراً حوالات میں ڈال دو…بعد میں پوچھو کہ مانگتا کیا ہے۔

پہلافن کار: پر ہمارے ڈرامے میں تو نعرے لگانے ہی پڑیں گے۔

(سب مل کر کہتے ہیں: پر ہمارے ڈرامے میں تو نعرے لگانے ہی پڑیں گے حوالدار صاحب)

پولیس والا: نئیں! میرے علاقے میں نہیں ہوگا۔

پہلافن کار: پھر؟

پولیس والا: پھر کیا؟

پہلافن کار: پھر ہم ڈرامہ کیسے کریں؟

پولیس والا: ابے جیسے ڈیراما کیا جاتا ہے ویسے…کوئی پیار محبت کا، عاسق محبوبہ کا کھیل دکھاؤ…اور کیسے! کچھ ناچ گانا ہو، ہنسی مذاق ہو، کچھ یہ ہو کچھ وہ ہو…کیوں (لڑکی کی طرف دیکھ کر کہتا ہے)؟

پہلافن کار: ہاں سمجھ گیا۔

پولیس والا: کیا؟

پہلافن کار: عاسق ماسوقا کا ناٹک!

پولیس والا: ہاں…

پہلافن کار: نعرے نہیں…

پولیس والا: ہاں نعرے نہیں۔

پہلافن کار: اچھا ٹھیک ہے۔۔جیسا آپ کا حکم…ہم آپ کو عاشق معشوقہ والا ناٹک ہی دکھائیں گے…تو ساتھیو؛ حوالدار صاحب نعروں والا انقلابی ناٹک کرنے کی اجازت تو دیتے نہیں، اس لیے ہم آپ کو پیار محبت والا ناٹک دکھاتے ہیں۔

(سب مل کر گاتے ہیں: آ میرے ہم جولی آ…کھیلیں آنکھ مچولی آ…گلیوں میں چوباروں میں باغوں میں بہاروں میں ہووو…میں ڈھونڈوں تو چُھپ جا…میں آآؤں…نہ ن…آ آؤں…نہ نہ…میں آآؤں…آجا…کہ چُکی کے پیچھے جا بیٹھی… چھپ کے میری محبوبہ، کہ، پکڑی گئی…کہ، پکڑی گئی)

اشو: جوگی۔

جوگی: ہاں اشو؟

اشو: پِتا جی سے کب بات کرے گا؟

جوگی: کچھ دن اور ٹھہر جا اشو۔

اشو: دو سال تو ہو گئے تجھے اس طرح دو سال دو سال کرتے کرتے۔

جوگی: اشو تو سمجھتی کیوں نہیں ہے، ابھی میری تنخواہ اتنی کم ہے تجھے رکھوں گا کیسے؟

اشو: تیری تنخواہ کب بڑھے گی؟ پہلے تو تُو کہتا تھا کہ سات دن کی ہڑتال کے بعد پتہ چلے گا…مجھ سے اب اور انتظار نہیں ہوتا۔

جوگی: اب دیکھ اشو؛ اتنی بڑی ہڑتال ہوئی ہے، 13 لاکھ مزدوروں نے رات دن چکہ جام رکھا ہے…دیکھتی نہیں مالک کتنے گھبرا گئے ہیں۔ بس اب سنگھرش کو اور تیز کرنے کی بات ہے پھر دیکھیو ایک ہی جھٹکے میں سرکار بھی گھٹنے ٹیک دے گی۔

اشو: سچی؟

جوگی: سچی۔

اشو: ایمان سے؟

جوگی: ایمان سے۔

اشو: کھا میری قسم۔

جوگی: تیری قسم (سر پر ہاتھ رکھ کے)

اشو: بائی گاڈ؟

جوگی: بائی گاڈ!

پولیس والا: اوئے…ابے اوئے! کیا ہو رہا ہے؟ سالو؛ پیار محبت کے پرچار میں بھی سی آئی ٹی یوکا ناٹک شروع کر دیا تم لوگوں نے! یہ سب نہیں چلے گا۔

اشو: او حوالدار صاحب آپ تو حد کر رہے ہیں…اب ہمارا ہیرو مزدور ہے 7 دن تک سی آئی ٹی یو کے جھنڈے تلے اتنی بہادری سے لڑا ہے، توسی آئی ٹی یوکا نام تو لے گا نا…اور آپ کس کس کا منہ بند کروائیں گے…آج تو ہر مزدور کی زبان پہ سی آئی ٹی یو کا ہی نام ہے۔

پولیس والا: نہ؛ ہمارے علاقے میں نہیں ہوگا۔

پہلافن کار: مطلب؟

پولیس والا: مطلب یہ کہ ہمارے علاقے کے عاسق کو عاسق کی طرح رہنا ہوگا…اِدھر اُدھر کی ہانکے گا تو سالے کو حوالات میں ڈال دوں گا۔

پہلافن کار: ٹھیک ہے حولدار صاحب وہ سی آئی ٹی یو کا نام نہیں لے گا، پر اپنی تنخواہ کی بات تو کر سکتا ہے؟

پولیس والا: ابے یہ عاسق ہے یا منیم جو اپنی ماسوقا سے تنخواہ کی بات کرتا ہے…ابے اس سے کہہ کہ عاسقی کرنی ہے تو ٹھیک سے کرے اور جو نہیں ہوتی تو ہم دکھا دیتے ہیں کیسے ہوتی ہے (اشو کے قریب ہوتا ہے)۔

پہلافن کار: نن نن نہ نہ، آپ تکلیف نہ کریں، وہ کر لے گا…کر لو گے نا بھائی؟

جوگی: ہہہ ہاں ہاں ہاں جی جی کر لوں گا کر لوں گا بالکل بالکل۔

پہلافن کار: تو بھائیو بہنوں، ہم ناٹک میں پھر تھوڑا پری ورتن کر رہے ہیں…یہ تو حوالدار صاحب کی مہربانی سے سینسر ہوگیا…چلو بھائی پھر سے شروع کرو۔

اشو: جوگی۔

جوگی: ہاں اشو۔

اشو: تو آج پِتا جی سے بات کرے گا نا؟

جوگی: ہاں اشو تجھے زبان دی ہے تو ضرور کروں گا۔

اشو: دیکھ گھبرائیو نہیں، ذرا ڈٹ کے بات کریو، جیسے کامریڈ نتھو مینجمنٹ سے بات کرتے ہیں۔

پولیس والا: اے! چھوری چھوری…یہ کیا ہو رہا ہے! یہ کامریڈ وامریڈ کہاں سے آگیا ہیں؟

اشو: اچھا غلطی ہوگئی بھیا سوری…(دوبارہ ڈائیلاگ بولنا شروع کرتی ہے) دیکھ گھبرائیو نہیں، ذرا ڈٹ کے بات کرئیو، جیسے بھگوان رام راجہ جنَت سے بات کرتے ہیں۔

جوگی: تو فکر مت کر، میں تیرے پِتا جی کو یوں…یوں اپنی انگلی پہ لپیٹ لوں گا…بس تو دیکھتی جا تیرا جوگی کس مٹی کا بنا ہے۔

(والد کے پاس جاتے ہیں)

اشو: بابا… بابا

والد: آئی کون مر گیا، کیوں گلا پھاڑ رہی ہے؟

اشو: کوئی تم سے ملنے آیا ہے۔

والد: کوئی لین دار ہوگا…کہہ دے گھر پہ نہیں ہے۔

اشو: نہیں نہیں لین دار نہیں ہے…کوئی…اور ہے۔

والد: کون ہے؟ کون ہے بھائی؟

اشو: (گھبراتے ہوئے جوگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) یہ۔

والد: میں تو تجھے پہچانتا نہیں…ابے کیا بات ہے؟ گونگا ہے کیا؟

(جوگی کی بولتی بند ہو جاتی ہے)

والد: بولے گا بھی یا یوں ہی سُوکتا کھڑا رہے گا؟

جوگی: جج جج جج جج جوگی۔

والد: یوگی؟

جوگی: جی وہ جج جج جج جوگی نام ہے جی میرا…جوگندر سنگھ معنی جوگی جوگندر جوگندر جوگی جوگندر…

والد: ارے کیا گوبھی چوکندر گوبھی چوکندر لگا رکھی ہے؟ بول کس کام سے آیا ہے؟

جوگی: یوں ہی آگیا تھا جی…بس ایسے ہی جی…معنی ٹائم پاس…معنی میں چلتا ہوں جی۔

(اشو حیران و پریشان ہوتی ہے)

والد: ابے رُک! جاتا کہاں ہے…بول کس مطلب سے آیا تھا؟ مجھے سسُرا کوئی چور اُچکّا لاگے ہے۔

اشو: نہیں یہ چور نہیں ہے بابا۔

والد: تُو کیسے جانتی ہے اسے؟

اشو: (لڑکھڑا کر بولتی ہے) یہ معنے جوگی، معنے میرے میں، معنے میرے سے، معنے تم سے، معنے اماں سے…

والد: ارے یہ کیا مانے وانے لگا رکھی ہے…ٹھیک سے بول۔

والدہ: تم بھی حد کرتے ہو۔

(والدہ، والد کے کان میں کچھ کہتی ہے…کُھس پُس کُھس پُس کُھس پُس)

والد: اچھا تو یہ چکر ہے، تو تُو میری بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔

جوگی: جی معنے…معنے…میں بھی وہی کہنے جا رہا تھا۔

والد: یہ معنے وعنے چھوڑ اصلی بات پہ آجا۔

جوگی: جی میں اسے پلکوں پہ بٹھا کے رکھوں گا…رانی بناؤں گا جی…پورے ٹبر پہ راج کرے گی جی۔

والد: یہ ڈائیلاگ بازی رہنے دے…بتا کام کیا کرتا ہے؟

جوگی: جی وہ فیکٹری میں کام کرتا ہوں۔

والدہ: (اُمید بھرے لہجے میں) ہیں کیا کام کرتا ہے رے…منیجر ہے؟

جوگی: جی نہیں اس سے تھوڑا نیچے۔

والد: سپر وائزر؟

جوگی: نن نن نہیں تھوڑا اور نیچے۔

والدہ: ڈیپارٹ انچارج؟

جوگی: بب بب بب بس تھوڑا اور نیچے۔

والد: اکاؤنٹنٹ؟

جوگی: تھوڑا اور نیچے جی۔

(والد اور والدہ مل کر: تھوڑاا… اورر…نیچے…تو کیا ورکر ہے؟)

جوگی: جی مسین مین۔

(والد اور والدہ مل کر کہتے ہیں: جی مسین مین)

والد: (طنزاََ) ہہمم مجھے پتہ تھا ایسے ہی گئے گزرے سے آئے گا رشتہ ہماری بیٹی کے لیے۔

(والد اور والدہ: کُھس پُھس…کُھس پُھس…کُھس پُھس)

جوگی: جی تو میں رشتہ پکا سمجھوں پھر؟

والد: آہ! تیرا رشتہ پکا کروں…سالے…دو کوڑی کے ورکر…فقیر کی اولاد…سالے 562 روپے پاتا ہے اور سپنے دیکھتا ہے شادی کرنے کے۔

والدہ: بڑا آیا شادی کرنے والا…ہمیں اپنی بٹیا کو جیتے جی نہیں مارنا تیرے سے شادی کرا کے۔

اشو: بابا…ارے اماں جی اسے مت مارو…اسے چھوڑ دو۔

(سب مل کر گاتے ہیں)

جوتے ماروں…562

تھپڑ ماروں…562

لاتیں ماروں…562

ایسی تیسی…562

نون، تیل کا…562

بھاؤ بتا دوں…562

جوگی: چپ! بس…ہاتھ مت اٹھانا کہے دیتا ہوں۔

والد: جرور اٹھاؤں گا…100 بار اٹھاؤں گا…562 بار اٹھاؤں گا۔

جوگی: میں کہے دیتا ہوں اشو روک لے اپنے بابا کو نہیں تو خون پی جاؤں گا بڑُھؤ کا۔

والد: سالے تیری یہ مجال، مجھے دھمکاتا ہے…تجھے تو گِن گِن کے جوتے لگاؤں گا۔

اشو: پہلے مجھے مارو بعد میں جوگی پر ہاتھ اٹھانا۔

والدہ: اے بیٹی تو مت پڑ مردوں کے جھگڑے میں…اِدھر آجا۔

اشو: چھوڑ دو مجھے اور کان کھول کے سن لو؛ میں سادی کروں گی تو جوگی سے نہیں تو پوری زندگی کنواری بیٹھی رہوں گی۔

والدہ: ہائے بیٹی یہ کیا کہتی ہے…ایسی منحوس بات کیوں جبان پہ لاتی ہے…اس مُوئے 562 کے ورکر سے سادی کا خیال من سے نکال دے۔

والد: بٹیا ذرا سوچ تو سہی 562 میں یہ کیا خود کھائے گا کیا تجھے کھلائے گا۔

والدہ: اتنی کم تنخواہ پانے والا سال دو سال میں بھگوان کو پیارا ہو جائے گا…تو بھری جوانی میں بیوہ ہو جائے گی۔
والد: دہلی میں ورکر کا کیا حال ہے تجھے نہیں معلوم بیٹی۔

والدہ: آج نوکری ہے، کل نہیں ہے۔

والد: آج اس فیکٹری میں کلوژر کل اُس میں تالہ بندی۔

والدہ: گندی بستیوں میں بسیرا…نہ بجلی نہ پانی۔

والد: غنڈے بدمعاشوں کا ڈیرا۔

والدہ: روز روز پولیس کی مار کھانا۔

والد: اور (فلاں) جیل میں رات بتان…بٹیا عقل سے کام لے…یہ خیال چھوڑ دے۔

والدہ: مزدور سے سادی کرنے کا مطلب ہے جیتے جی مر جانا۔

اشو: میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی…میری سادی جوگی سے نہ ہوئی تو میں جان دے دوں گی۔

(والد اور والدہ زور زور سے:کُھس پُھس…کُھس پُھس…کُھس پُھس)

والد: اے اے جوگی بیٹا…دیکھ؛ ہم تیرے کوئی دشمن نہیں ہیں…تو شریف اور محنتی لڑکا لگتا ہے۔

والدہ: پر ہمیں اپنی بیٹی کے بارے میں بھی سوچنا ہے نا بیٹا۔

جوگی: جی میں نے سب سوچ لیا ہے ماتا جی…میں بیڑی، سرگٹ، چائے سب چھوڑ دوں گا جی۔

والد: یہ بچپنے کی بات چھوڑ دے بیٹا…مزدور پیشہ آدمی بیڑی چائے چھوڑ دے گا تو 8 گھنٹے محنت کیسے کرے گا۔

جوگی: میں گھر پیسے بھیجنا بند کر دوں گا جی…بس میں آنا جانا چھوڑ کے پیدل کام پہ آؤں گا…جج جی سام کو کوئی اور نوکری کر لوں گا جی۔

والد: ہاں ہاں تا کہ تو دو چار ہی سال میں بھگوان کو پیارا ہو جائے۔

والدہ: تاکہ تیری بیوی بیوہ ہو جائے۔

والد: اور یہ بے کار کی باتیں ہیں…میں نے حساب لگا کے دیکھ لیا ہے کہ اس شہر میں ہجار گیارہ سو سے کم میں کوئی نہیں رہ سکتا۔

والدہ: آدمی تو دور، جانور بھی نہیں رہ سکتا۔

جوگی: جی وہ یونین والے بھی یہی تو کہتے ہیں…کہ تنخواہ کم سے کم 1050 تو ہونی ہی چاہیے۔

والدہ: بالکل صحیح کہتے ہیں!

والد: تو بٹوا؛ کوئی ایسی نوکری پکڑ جس میں 1050 ملتے ہوں…پھر ہم اشو کی شادی تم سے خوشی خوشی کر دیں گے۔

اشو: پر ایسی نوکری ملے گی کہاں؟

جوگی: سب جگہ تو 562 ہی ملتے ہیں۔

والدہ: تو بیٹا؛ تُو مالک سے کہہ سن کر اپنی تنخواہ بڑھانے کی کوسس تو کر۔

جوگی: اجی ہاں ماتا جی…سالوں نے رو رو کر دو سال میں 73 روپے بڑھائے ہیں وہ بھی اتنی لمبی لڑائی کے بعد…اب اس سات دن کی ہڑتال کے بعد مالک تو ڈر کر بڑھانے کو تیار بھی ہیں پر سرکار کے کان پر ابھی تک جوں بھی نہیں رینگ رہی۔

(والد اور والدہ: تو بیٹا؛ ہاتھ پہ ہاتھ دھر کے مت بیٹھو اپنی لڑائی کو اور تیز کرو)

جوگی: اجی وہ تو آپ کے بتائے بغیر بھی کر ہی رہے ہیں…اب تو سارے کے سارے مزدور سی آئی ٹی یو کے ممبر بنیں گے اور اس کا جھنڈا لے کر لمبی لڑائی لڑیں گے۔

پولیس والا: پھر…سالو میں کچھ کہہ نہیں رہا تو تم تو پھیلتے ہی جا رہے ہو…بہت ہو گیا…اٹھاؤ اپنا تام توبڑا اور چلتے پھرتے نظر آؤ یہاں سے۔