راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوس بولے نے کہا کہ ہمیں اس بات کا دکھ ہونا چاہیے کہ 20 کروڑ لوگ خط افلاس سے نیچے ہیں اور 23 کروڑ لوگ یومیہ 375 روپے سے بھی کم کما رہے ہیں۔ غریبی ہمارے سامنے ایک قوی ہیکل دیو کی طرح چیلنج بن کر کھڑی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ اس شیطان کو ختم کیا جائے۔
آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوس بولے۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوس بولے نے اتوار کو ملک میں بے روزگاری اور آمدنی میں عدم مساوات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے سامنے غربت ایک عفریت کی طرح چیلنج بن کر ابھر رہی ہے۔
ہوس بولے نے سنگھ سے وابستہ سودیشی جاگرن منچ (ایس جے ایم )کےزیر اہتمام منعقدہ ایک ویبی نار میں کہا، ہمیں اس بات کا دکھ ہونا چاہیے کہ 20 کروڑ لوگ خط افلاس سے نیچے ہیں اور 23 کروڑ لوگ یومیہ 375 روپے سے بھی کم کما رہے ہیں۔ غربت ہمارے سامنے ایک عفریت کی طرح چیلنج ہے۔ یہ ضروری ہے کہ اس شیطان کو ختم کیا جائے۔
آر ایس ایس لیڈر نے کہا کہ غربت کے علاوہ عدم مساوات اور بے روزگاری دو چیلنجز ہیں جن سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں چار کروڑ بے روزگار ہیں،جن میں سے 2.2 کروڑ دیہی علاقوں اور 1.8 کروڑ شہری علاقوں میں بے روزگار ہیں۔ لیبر فورس کے سروے میں بے روزگاری کی شرح 7.6 فیصد بتائی گئی ہے۔ ہمیں روزگار پیدا کرنے کے لیے نہ صرف کل ہند منصوبوں کی ضرورت ہے بلکہ مقامی اسکیموں کی بھی ضرورت ہے۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق، معاشی وجوہات سےنقل مکانی اور دیہاتوں میں ملازمتوں کی کمی کے معاملے پر آر ایس ایس لیڈر نے کہا کہ لیبر فورس سروے میں بے روزگاری کی شرح 7.6 فیصد ہے اور نوکریوں کے بارے میں ذہنیت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا، تمام نوکریوں کو قابل احترام سمجھے جانے کی ضرورت ہے اور اس ذہنیت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کہ صرف سفید پوش نوکریاں ہی قابل احترام ہیں۔
ہوس بولے نے کاٹیج صنعتوں کو بحال کرنے اور دیہی علاقوں میں ان کی رسائی بڑھانے کے لیے مہارت کے شعبے میں مزید اقدامات کی تجویز بھی پیش کی۔
انہوں نے کہا، اسکل ٹریننگ نہ صرف شہروں پر مبنی ہو سکتی ہے، بلکہ اس میں دیہی علاقوں کی مہارتوں کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا۔ آپ کو لگتا ہے کہ سماج میں صرف شفید پوش نوکریاں ہی قابل احترام ہیں۔ لیکن کڑی محنت والی نوکریاں بھی اہم ہیں، ہر قسم کی نوکریوں کا احترام کیا جانا چاہیے۔ کسی کو چھوٹا یا بڑا نہیں سمجھنا چاہیے۔ کیا صرف افسر اور کاروباری بننا ممکن ہے، کیا ہمیں محنتی لوگوں کی ضرورت نہیں ہے؟
آر ایس ایس اور اس کے اتحادی حکومت پر اپنی اقتصادی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے اور سودیشی پر زور دینے، گھریلو پیداوار بڑھانے اور مقامی تجارت اور مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے کے لیے درآمدات میں کٹوتی کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔
انہوں نے کہا، ہندوستان میں ایک وقت تھا جب ہم اپنی خوراک کی ضروریات کے لیے دوسرے ممالک پر انحصار کرتے تھے۔ آج ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں، بلکہ خود کفیل ہیں اور اپنے پڑوس میں سری لنکا جیسے ممالک کی مدد کرنے کے قابل ہیں۔
آمدنی کےعدم مساوات کے تناظر میں ہوس بولے نے سوال کیا کہ کیا یہ اچھی بات ہے کہ ٹاپ چھ معیشتوں میں شامل ہونے کے باوجود ملک کی نصف آبادی کو کل آمدنی کا صرف 13 فیصد حصہ ملتا ہے۔
خود انحصاری کے لیے حکومت کے زور کا ذکر کرتے ہوئے ہوس بولے نے کہا کہ مقامی وسائل، مواد اور ہنر کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)