روڑکی تشدد: ابھی مسلمانوں نے گھر چھوڑا ہے، انہیں ملک بھی چھوڑنا ہوگا

ویڈیو: اتراکھنڈ کے روڑکی ضلع کے دادا جلال پور گاؤں میں 16 اپریل کو ہنومان جینتی پر نکالے گئے جلوس کے دوران پتھراؤ کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ متاثرین سے بات چیت۔

ویڈیو:  اتراکھنڈ کے روڑکی ضلع کے دادا جلال پور گاؤں میں 16 اپریل کو ہنومان جینتی پر نکالے گئے جلوس کے دوران پتھراؤ کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ متاثرین سے بات چیت۔

Next Article

ایل آئی سی نے اڈانی پورٹس کو دیے 5000 کروڑ، راہل گاندھی بولے – پیسہ عوام کا، فائدہ اڈانی کا

سرکاری انشورنس کمپنی ایل آئی سی نے اڈانی پورٹس کو 15 سال کے لیے 5000 کروڑ روپے کا قرض دیا ہے، جس پر ہر سال 7.75 فیصد سود ملےگا۔ راہل گاندھی نے اسے عوام کے پیسے کا استعمال کرکے ایک پرائیویٹ کمپنی کو فائدہ پہنچانے کا اقدام قرار دیا ہے۔ خبروں کے مطابق، یہ ڈیل نجی طور پر اوپن مارکیٹ سے باہر کی گئی ہے۔

راہل گاندھی۔تصویر بہ شکریہ: فیس بک

نئی دہلی: سرکاری ملکیت والی لائف انشورنس کارپوریشن آف انڈیا (ایل آئی سی) نے اڈانی پورٹس اینڈ اسپیشل اکنامک زون (اے پی ایس ای زیڈ) کے 5000 کروڑ روپے کے بانڈ کو مکمل طور پرسبسکرائب کر لیا ہے۔ یہ سودا 7.75فیصد کے کوپن ریٹ پر ہوا ہے۔

اس کے بارے میں کانگریس رہنما راہل گاندھی نے منگل (3 جون 2025) کو حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عوام کا پیسہ نجی کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ راہل گاندھی نے الزام لگایا کہ ایل آئی سی نے عام لوگوں سے انشورنس پریمیم کے طور پر اکٹھا کیا گیا پیسہ اڈانی گروپ میں لگایا ہے۔

انہوں نے ایکس پر لکھا، ‘پیسہ، پالیسی، پریمیم آپ کا۔ سیکورٹی، سہولت، فائدہ اڈانی کا!

راہل گاندھی نے اس پوسٹ کے ساتھ بلومبرگ کی ایک رپورٹ بھی شیئر کی ، جس میں کہا گیا ہے کہ ایل آئی سی نے اڈانی پورٹس اینڈ اسپیشل اکنامک زون لمیٹڈ کے ذریعہ جاری کردہ 5000 کروڑ روپے کے بانڈز اکیلے ہی خریدے ہیں۔ یعنی اس بانڈ کا صرف ایک خریدار تھا – ایل آئی سی۔

آسان لفظوں میں کہیں تو، اکیلے ایل آئی سی نے اڈانی کی کمپنی کو 5000 کروڑ روپے کا قرض دیا ہے، جسے 15 سال بعد واپس کرنا ہوگا اور اسے ہر سال 7.75 فیصد سود ملے گا۔

رپورٹ کے مطابق، اڈانی پورٹس اس رقم کو اپنے کاروباری اخراجات کو پورا کرنے اور پہلے لیے گئے غیر ملکی قرضوں (ڈالر کے قرضوں) کی ادائیگی کے لیے استعمال کرے گی۔

اڈانی پورٹس اینڈ اسپیشل اکنامک زون لمیٹڈنے بھی گزشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس نے اب تک کی سب سے بڑی گھریلو بانڈ فروخت کے ذریعے 5000 کروڑ روپے اکٹھے کیے ہیں۔ یہ رقم ایل آئی سی سے 15 سالہ مدت کے نان کنورٹیبل ڈیبینچرز (این سی ڈی) کے ذریعے جمع کی گئی ہے۔

گزشتہ ہفتے بزنس اسٹینڈرڈ نے ایک رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے لکھا تھا، ‘اس بانڈ ایشو میں صرف ایک بولی ایل آئی سی کی طرف سےآئی تھی اور یہ پہلے سے طے شدہ اور نجی طور پر بات چیت کے ذریعےطے شدہ ڈیل تھی۔ کوئی اور بولی نہیں آئی۔ اور چونکہ اسے اوپن مارکیٹ میں جاری نہیں کیا گیا تھا، اس لیے اس میں ‘گرین شو آپشن’ (اضافی سرمایہ کاری کا آپشن) نہیں تھا۔’

رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے مزید کہا گیا ہے کہ اگر کمپنی اسے اوپن مارکیٹ میں لاتی تو اسے اس سےبھی  زیادہ شرح سود ادا کرنا پڑتی اور شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے صرف ایل آئی سی سے رجوع کیا۔

‘پندرہ سال کی مدت کے بانڈ عام طور پر بینکوں کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ دیگر انشورنس کمپنیاں یا پراویڈنٹ فنڈ کے ادارے حصہ لے سکتے تھے، لیکن اڈانی نے اس لین دین کے لیے صرف ایل آئی سی سے رجوع کیا۔’

Next Article

کرناٹک: سوشل میڈیا پر ’مسلمانوں کی نسل کشی‘ کی اپیل کرنے والے بی جے پی لیڈر کے خلاف معاملہ درج

سنیچر کو کرناٹک کے بی جے پی لیڈرمنی کانت نریندر راٹھوڑکےفیس بک اکاؤنٹ پر شیئر کیے گئے ایک ویڈیو میں وہ مسلم کمیونٹی کے خاتمے کی اپیل کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ‘لو جہاد’ کے ملزموں  کو بھی آٹھ دن کے اندر  ختم کرنے کی اپیل  کرتے نظر آ رہے ہیں۔

منی کانت نریندر راٹھوڑ۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: کرناٹک بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما منی کانت نریندر راٹھوڑ کے خلاف سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے مسلم کمیونٹی کے بارے میں متنازعہ تبصرہ کرنے پر معاملہ درج کیا گیا ہے۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، سنیچر کو راٹھوڑ کے فیس بک اکاؤنٹ پر شیئر کیے گئے ایک ویڈیو میں انہیں لمبانی زبان میں اشتعال انگیز تبصرہ کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔ ویڈیو میں مسلم کمیونٹی کو ختم کرنے کی اپیل کی گئی ہے اور ‘لو جہاد’ کے ملزموں کو بھی آٹھ دن کے اندر ختم کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔

اخبار نے اس ویڈیو کی صداقت کی تصدیق کی ہے۔

معلوم ہو کہ ‘لو جہاد’ کی اصطلاح ہندو رائٹ ونگ کی تنظیمیں استعمال کرتی ہیں اور اسے حکومت یا عدالتوں نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس اصطلاح کو اکثر ‘مسلم مخالف’ بیان بازی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

اس سلسلے میں سید علیم الٰہی نامی شخص نے سنیچر (31 مئی) کو کلبرگ سینٹرل پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی ہے۔

منی کانت کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس)کی دفعہ 196 (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 197 (قومی یکجہتی کے لیے نقصاندہ الزام، دعوے)، 299 (جان بوجھ کر اور بدنیتی پر مبنی کام، جن کا مقصد کسی بھی طبقے کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا)، 351 (مجرمانہ دھمکی) اور دیگر متعلقہ دفعات کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔

واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے کلبرگی پولیس کمشنر شرنپا ایس ڈی نے کہا، ‘راٹھوڑ نے مبینہ طور پر ایک اشتعال انگیز ویڈیو فیس بک پر اپلوڈ کیا ہے۔ ہم معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں اور سزا کی حد کا تعین کرنے کے لیے شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔’

Next Article

ایران میں اغوا تین ہندوستانی شہری پاکستانی ایجنٹوں کے چنگل سے آزاد کرائے گئے

آسٹریلیا جانے کے لیے ایران پہنچے پنجاب کے تین افراد کو پاکستانی ایجنٹوں نے اغوا کر لیا تھا۔ اغوا کاروں نے ان کے اہل خانہ کو ویڈیو کال کر کے رقم کا مطالبہ کیا تھا۔ اب خبر آئی ہے کہ ایرانی پولیس نے ان تینوں کو بچا لیا ہے۔

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

جالندھر: پنجاب کے تین افراد کو ایک ہفتے تک لاپتہ رہنےکے بعد ایرانی پولیس نےبچا لیا ہے۔ یہ تمام افراد ورک پرمٹ ویزے پر آسٹریلیا جا رہے تھے، لیکن انہیں ایران کے دارالحکومت تہران سے پاکستانی ڈونکروں نے اغوا کر لیا  تھا۔

ان تین نوجوانوں کی شناخت نواں شہر کے جسپال سنگھ (32)، ہوشیار پور کے امرتپال سنگھ (23) اور سنگرور کے حسن پریت سنگھ (23) کے طور پر کی گئی ہے۔ یہ سب یکم مئی 2025 کو تہران ایئرپورٹ پہنچنے کے بعد لاپتہ ہوگئے تھے۔

ذرائع نے دی وائر کو بتایا کہ اتوار (1 جون) کی شام کو ایرانی پولیس نے دارالحکومت تہران میں اغوا کاروں کے ٹھکانے پر چھاپہ مارا اور ان سب کو بازیاب کرالیا۔ ‘وہ اب اپنے خاندانوں سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ ہندوستانی سفارت خانہ ان کا علاج کروا رہا ہے اور ایگزٹ فارمیلیٹی کے بعد انہیں ہندوستان واپس لایا جائے گا۔’

پولیس حکام نے تصدیق کی ہے کہ اغوا کار بنیادی طور پر پاکستانی شہریوں کا ایک گروہ تھا۔ چھاپے کے دوران کچھ پاکستانی شہریوں کو بھی بازیاب کرایا گیا، جنہیں اسی گینگ نے اغوا کیا تھا۔

ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ تینوں ہندوستانیوں کو چاقو سے زخمی کیا گیا تھااور گینگ کے ارکان نے انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

معلوم ہو کہ پاکستان کی ایران کے ساتھ تقریباً 900 کلومیٹر کی سرحد لگتی ہے، جس کی وجہ سے سرحد عبور کرنا نسبتاً آسان ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ‘ایران سے پاکستان میں ڈیزل کی بڑی اسمگلنگ ہوتی ہے اور اس میں بہت سے گروہ ملوث ہیں۔’

تین جون کی شام دو افراد نے اپنے اہل خانہ سے مختصر بات چیت کی۔ پاکستانی انسانی اسمگلروں نے ان نوجوانوں کو تہران کے ہوائی اڈے سے اغوا کیا تھا اور ایک کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا تھا، جسے بعد میں کم کر کے 54 لاکھ روپے کر دیا گیا، یعنی ہر نوجوان کے لیے 18 لاکھ روپے۔

خاندان کے افراد نے بتایا تھا، ‘ڈونکروں (انسانی اسمگلروں یا اغوا کاروں کے لیے استعمال ہونے والی مقامی اصطلاح) نے ہمارے بیٹوں کو اغوا کیا اور ان پر تشدد کیا۔ وہ ویڈیو کال کراتے تھے اور ہم سے 18 لاکھ روپے مانگتے تھے۔ کال کے دوران ہمارے بیٹے برہنہ ہوتے تھے اور ان کے جسموں پر گہرے زخم اور کٹے ہوئے نشانات صاف دکھائی دے رہے تھے۔’

دی وائر سے بات کرتے ہوئےہوشیار پور کے رہنے والے امرت پال سنگھ کے کزن یدھویر سنگھ نے بتایا کہ انہیں 3 جون کی شام 5:30 سے ​​6 بجے کے درمیان امرت پال کا فون آیا تھا۔ ‘بہت مختصر گفتگو میں امرت پال نے مجھے صرف اتنا بتایا کہ انہیں بچا لیا گیا ہے اور انہیں تہران میں ہندوستانی سفارت خانے لے جایا جا رہا ہے۔’

یدھویر نے یہ بھی بتایا کہ امرت پال نے کہا کہ وہ اگلی صبح یعنی 4 جون 2025 کو دوبارہ کال کریں گے۔

اسی طرح حسن پریت سنگھ کے کزن من پریت سنگھ نے بھی کہا کہ ان کا بھائی محفوظ ہے اور اسے بچا لیا گیا ہے۔

تاہم جسپال سنگھ کے بھائی اشوک کمار نے دی وائر کو بتایا کہ انہیں میڈیا سے نوجوانوں کے ریسکیو آپریشن کے بارے میں معلوم ہوا۔ ‘ہمیں اپنے بھائی کی محفوظ رہائی کا علم میڈیا رپورٹس سے ہی ہوا، خاص طور پر کچھ پنجابی اخبارات سے۔ ابھی تک، ہمیں میرے بھائی یا پنجاب پولیس کے کسی افسر کا کوئی فون نہیں آیا۔’

اشوک نے کہا کہ ان کے بھائی کے بچنے کی خبر پورے خاندان کے لیے بڑی راحت کی بات ہے۔ ‘ہم نے ہر لمحہ اس کے لیے دعا کی۔ اب ہم صرف ان کی کال یا کسی سرکاری اہلکار کی تصدیق کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ ہماری پریشانیاں دور ہو ں۔’ انہوں نے کہا.

اس سے قبل 28 مئی کو تہران میں ہندوستانی سفارت خانے نے ایکس پر ایک بیان جاری کیا تھا  جس میں کہا گیا تھا کہ ایران میں تین ہندوستانی لاپتہ ہیں اور ان کا سراغ لگانے کی کوششیں جاری ہیں۔

بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) 2023 کی دفعہ 143، 318 (4)، 61 (2) اور پنجاب ٹریول پروفیشنلز (ریگولیشن) ایکٹ 2014 کی دفعہ 13 کے تحت ہوشیار پور کے تین ٹریول ایجنٹوں – دھیرج اٹوال، کمل اٹوال اور سویتا سویا کے خلاف  نوجوانوں کے اہل خانہ کی شکایت پر ایف آئی آردرج کی گئی تھی۔

اشوک کمار نے پہلے یہ بھی بتایا تھا کہ انہوں نے اور دیگر دو نوجوانوں کے بھائیوں نے پیسے اکٹھے کرکے ٹریول ایجنٹ دھیرج اٹوال کو خود چنڈی گڑھ کے ہوائی اڈے پر ڈراپ کیا تھا۔ یہ ایجنٹ 4 مئی 2025 کو ایک پرواز میں سوار ہونے کے بعد سے لاپتہ ہے جو مبینہ طور پر ایران جا رہی تھی۔

‘دھیرج شروع میں تین دن تک ہمارے ساتھ رابطے میں تھا۔ پھر اس نے کہا کہ وہ تینوں کی تلاش میں ایران جا رہا ہے اور تب سے لاپتہ ہے۔ اس کا چھوٹا بھائی کمل اٹوال بھی لاپتہ ہے۔ گاؤں میں ان کا گھر بھی بند ہے، ‘ انہوں نے کہا۔

( انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

اڈانی گروپ پر ایران سے پیٹرو کیمیکل درآمد کرنے کا شبہ، امریکہ نے شروع کی جانچ: رپورٹ

امریکی محکمہ انصاف نے اڈانی گروپ کےاس کردار کی تحقیقات شروع کی ہے جس میں اس پر ایران سے ایل پی جی درآمد کرنے کا شبہ ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق، کچھ ٹینکروں کی سرگرمیوں اور دستاویزوں میں بے ضابطگیوں کی جانچ کی جارہی ہے۔

گوتم اڈانی۔تصویر بہ شکریہ: انسٹاگرام

نئی دہلی: امریکی محکمہ انصاف نے (یو ایس ڈپارٹمنٹ آف جسٹس) نے اڈانی گروپ کے اس کردار کی جانچ شروع کی ہے، جس میں اس پر ایران سے پیٹرو کیمیکل مصنوعات (خصوصی طور پر ایل پی جی) درآمد کرنے کا شک ہے۔یہ جانکاری  وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ میں دی گئی ہے۔ یہ جانچ ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب اڈانی گروپ بدعنوانی کے ایک الگ معاملے میں سمجھوتے کی کوشش کر رہا ہے۔

ان الزامات کو ‘بے بنیاد’ قرار دیتے ہوئے اڈانی گروپ نے امریکی پابندیوں کو جھانسہ دینے یا ایرانی ایل پی جی کی تجارت میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔ اڈانی کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ وہ ایسی کسی امریکی تحقیقات سے واقف نہیں ہیں۔

ترجمان نے کہا، ‘وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کی ٹائمنگ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس کا مقصد محکمہ انصاف کی جانب سے جاری پراسیکیوشن کو متاثر کرنا ہے۔’

وال اسٹریٹ جرنل نے قبل ازیں 13 اپریل کو خبر دی تھی کہ گوتم اڈانی کے وکیلوں نے امریکی محکمہ انصاف سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کے خلاف درج فوجداری مقدمات کو خارج کردیں۔ ان معاملات میں اڈانی پر ہندوستان میں شمسی توانائی کے ٹھیکے حاصل کرنے کے لیے 250 ملین امریکی ڈالر کی رشوت دینے کا الزام ہے۔

ان الزامات کو اکتوبر 2024 میں عام کیا گیا تھا، جس میں اڈانی، ان کے بھتیجے ساگر اڈانی اور تین کمپنیوں کے چھ دیگر عہدیداروں کا نام شامل تھا۔

ایک متوازی مقدمے میں یو ایس سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن(ایس ای سی) نے گوتم اور ساگر اڈانی پر وفاقی سیکیورٹیز قوانین کی اینٹی فراڈ دفعات کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔

پانچ مئی کو بلیومبرگ نے بتایا تھاکہ اڈانی کے وکیلوں اور ٹرمپ انتظامیہ کے اہلکاروں کے درمیان بات چیت تیز ہو گئی ہے اور آنے والے ایک مہینے میں کسی نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے۔

وال اسٹریٹ جرنل کی2 جون کی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ امریکی استغاثہ اڈانی انٹرپرائزز کے لیے ایل پی جی کی نقل و حمل کے لیے استعمال ہونے والے کچھ ٹینکروں کی سرگرمیوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔

وال اسٹریٹ جرنل نے خلیجی بندرگاہوں اور اڈانی کے زیر انتظام مندرا بندرگاہ کے درمیان سفر کرنے والے ایل پی جی ٹینکروں کے ایک گروپ کا بھی پتہ لگایا۔ رپورٹ کے مطابق، انہیں ان  جہازوں کی نقل و حرکت کو چھپانے کی کوشش کے کچھ واضح نشانات ملے، جن میں جہاز کی لوکیشن بتانے والے خودکار شناختی نظام (اے ائی ایس) میں ہیرپھیرکرنا شامل ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ایرانی تیل اور گیس کی مصنوعات کے خریدار اکثر عمان اور عراق میں بنے فرضی دستاویزوں کا استعمال کرتے ہیں۔

اس جانچ کا فوکس پاناما میں رجسٹرڈ ٹینکر جہازپر ہے جسے ایس ایم ایس بروزکہا جاتا ہے، جسے بعد میں نیل کا نام دیا گیا۔ اے آئی ایس کے اعداد و شمار کے مطابق، یہ جہاز 3 اپریل کو عراق کی خور الزبیر بندرگاہ پر تھا۔ لیکن اسی دن کی سیٹلائٹ تصاویر میں جہاز کا کوئی نشان نظر نہیں آیا۔ اس کے بجائے، اسی طرح کی بناوٹ والا ایک جہاز ایران کے ٹومبک میں ایل پی جی ٹرمینل پر کھڑا نظر آیا۔ چار دن بعد، ٹینکر متحدہ عرب امارات کے ساحل پر نظر آیا اور اس کے ڈیٹا سے پتہ چلا کہ یہ پانی میں کچھ  نیچے بیٹھا ہوا تھا – جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں مال لدا ہوا تھا۔

جہاز نے عمان کی بندرگاہ سہار کے قریب لنگر انداز ہونے کا اشارہ بھیجا تھا، لیکن اسے کبھی وہاں لنگر انداز ہوتے نہیں دیکھا گیا۔ دو دن بعد،اڈانی گلوبل پی ٹی ای نے جہاز سے تقریباً 11250 میٹرک ٹن ایل پی جی لوڈ کرنے اور اسے ہندوستان کی مندرا بندرگاہ تک پہنچانے کا معاہدہ کیا۔ ہندوستانی کسٹم ریکارڈ کے مطابق، 17 اپریل کو، اڈانی انٹرپرائزز نےایک ایسا ہی مال درآمد کیا،جس کی  قیمت 70 لاکھ ڈالر سے کچھ زیادہ تھی ۔

ایس ایم ایس بروز (اب نیل) کے دستاویزوں میں اس سے قبل بھی کئی تضادات پائے گئے ہیں۔ جون 2024 کی ایک بنگلہ دیشی بندرگاہ کے دستاویز میں اس کا ذکر ایرانی نژاد ایل پی جی کی ڈیلیوری کے لیے کیا گیا تھا، جبکہ اے آئی ایس ڈیٹا میں اسے عراق کی جانب جاتے ہوئے دکھایا گیا تھا -یہ پیٹرن اپریل والے معاملے سے میل کھاتاہے۔

اڈانی کی مندرا بندرگاہ سے منسلک تین دیگر ایل پی جی ٹینکروں کی سرگرمیوں میں بھی بے ضابطگیوں کا پتہ چلا ہے۔ ایک جہاز، جو اسی کمپنی کے ذریعے چلایا جاتا ہے جو نیل کا انتظام کرتی ہے، وہ امریکی سینیٹ کی اس واچ لسٹ میں شامل تھی  جس میں ایرانی تیل اور گیس لے جانے والے جہازوں کا نام ہے ۔ ایک اور جہاز نے خور الزبیر کی بندرگاہ پر پہنچنے کا دعویٰ کیا، لیکن سیٹلائٹ امیج میں وہ وہاں نظرنہیں آیا۔ چوتھا جہاز، جو بار بارمندرا میں ڈاک کرتا ہے،  امریکی محکمہ توانائی کی 2024 کی رپورٹ میں ایرانی پیٹرولیم برآمد کرنے والے کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔

اڈانی گروپ نے وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ کو پوری طرح سے خارج کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ایل پی جی کا کاروبار ‘آپریشنل اوراہم نہیں ہے’ – یہ اڈانی انٹرپرائزز کی 11.7 بلین ڈالرکی کل سالانہ آمدنی کا صرف 1.46 فیصد ہے۔

گروپ نے کہا کہ وہ تمام ایل پی جی قابل اعتماد بین الاقوامی سپلائرز کے ساتھ معاہدوں کے ذریعے خریدتا ہے، او ایف اے سی کی پابندیوں والی  فہرست میں شامل کسی بھی کمپنی کے ساتھ تجارت نہیں کرتا ہےاورشپنگ کا کام تھرڈ-پارٹی لاجسٹکس کمپنیوں کے ذریعے اور بین الاقوامی ضابطوں کے مطابق کرواتاہے۔

وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ میں مذکور کنسائنمنٹس کا جواب دیتے ہوئے اڈانی نے کہا کہ یہ ایک معمول کا تجارتی لین دین تھا، جس کا انتظام تھرڈ-پارٹی لاجسٹکس پارٹنر نے کیا، اور دستاویزات میں سہار (عمان) کو کنسائنمنٹ کا سورس بتایا گیا ہے۔

اڈانی گروپ نے یہ بھی کہا، ‘ہم ان جہازوں (جیسے ایس ایم ایس بروز/نیل)کے مالک، آپریٹر یا ٹریکر نہیں ہیں اور نہ ہی ہم نے ان سے معاہدہ کیا ہے، اس لیے ہم ان کی موجودہ یا ماضی کی کسی بھی سرگرمی پر تبصرہ نہیں کر سکتے ۔’

گروپ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ایک حقیقی درآمد کرنے والے کی تمام ذمہ داریاں پوری کی گئی ہیں۔

Next Article

دہلی:  پی ڈبلیو ڈی نے ناراضگی کے بعد حفاظتی انتظامات کے بغیر نالیاں صاف کرنے والے ملازمین کی تصویریں ہٹائیں

دہلی پی ڈبلیو ڈی نے سوشل میڈیا پر حفاظتی انتظامات اور آلات کے بغیر نالیوں کی صفائی کرتے ملازمین کی تصویریں پوسٹ کی تھیں، جنہیں تنقید کے بعد ہٹا دیا گیا۔تصویروں میں ملازمین کو بغیر جوتے، دستانے اور ماسک کے کام کرتے دکھایا گیا تھا۔ ماہرین اور سماجی کارکنوں نے اسے دستی صفائی کے قانون کی خلاف ورزی کہا ہے۔

(علامتی تصویر: ارپیتا سنگھ اور مینک چاولہ)

نئی دہلی: دہلی کے پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) نے اپریل اور مئی میں نالیوں کی صفائی کرنے والے عملے کی کئی تصاویر سوشل میڈیا، خصوصی طور پر ایکس پر پوسٹ کی تھیں۔

تاہم، منگل (3 جون) کو ان میں سے ایک پوسٹ کے وائرل ہونے اور اس حوالے سےتنقید کا نشانہ بننے کے بعد محکمے نے ان تصاویر کو اپنے سوشل میڈیا سے ہٹا دیا۔ان تصویروں میں ملازمین کو دستانے، جوتے، چشمے، ماسک یا کسی دوسرے حفاظتی انتظامات کے بغیر نالیوں کی صفائی کرتے ہوئےدیکھا گیا ۔

کچھ تصویروں میں صفائی اہلکار کو بغیر شرٹ اور چپل -جوتے کے بغیردیکھا گیا، جس سے ان کی صحت پر پڑنے والے اثرات کو لے کر سوال اٹھے۔ ساتھ ہی پوچھاجانے لگا کہ کیا دستی صفائی قانون کے دائرے میں آتی ہے؟

فیڈریشن آف آل انڈیا میڈیکل ایسوسی ایشن کے قومی صدر ڈاکٹر اکشے ڈونگاردیو نے کہا،’یہ جلد کی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے، پھیپھڑوں کے انفیکشن کو بڑھا سکتا ہے، اور اگر طویل عرصے تک احتیاط کے بغیرکیا گیا تو یہ مہلک بھی ہو سکتا ہے ۔’

غور طلب ہے کہ رواں سال کے شروع میں دہلی حکومت نے نیشنل گرین ٹریبونل (این جی ٹی) سے وعدہ کیا تھا کہ وہ 31 مئی تک ریاست کے 23 اہم نالیوں کی سلٹ(گاد) نکال دے گی۔ وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا اور پی ڈبلیو ڈی کے وزیر پرویش ورما نے گزشتہ ماہ محکمے کے افسران سے ملاقات کی تاکہ ڈیڈ لائن  پر اس کی صفائی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اسی وجہ سے پوری دہلی میں نالیوں کی صفائی کی جا رہی ہے۔

نومبر 2024 میں این جی ٹی نے دہلی حکومت سے رپورٹ طلب کی تھی کہ وہ نالیوں میں بنا صاف کیے جا رہے سیوریج کے بہاؤ کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہے۔ ٹربیونل نے تب کہا تھا کہ دہلی جل بورڈ اور دہلی میونسپل کارپوریشن (ایم سی ڈی) ‘گٹر کے پانی کو صاف پانی کی نالیوں میں بہنے کی اجازت دینے کے لیے ذمہ دار ہیں، جس سے یمنا ندی آلودہ ہوتی ہے… اور صحت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔’

پچھلے سال پلہ علاقے میں ایک پانچ سالہ بچی کے نالے میں ڈوبنے سے موت ہوجانےکے بعد این جی ٹی کو یہ بھی پتہ چلا تھا کہ شمالی دہلی کے قریب ایک بارش کے پانی والے نالے میں سیوریج کا بہاؤ ہو رہا تھا کیونکہ وہاں سیوریج کا کوئی نظام نہیں تھا۔

ملازمین کو حفاظتی انتظامات فراہم نہیں کیے جاتے

دی وائر نے ارجن نگر اور حوض خاص کے قریب ایک نالے کا دورہ کیا اور دیکھا کہ گندا پانی بہہ رہا تھا اور پانی کا ایک پائپ ٹوٹا ہوا تھا، جبکہ سلٹ نکالنے کا کام اس دن روک دیا گیا تھا۔

موقع پر موجود تین مختلف ذرائع نے بتایا کہ ملازمین وہاں سے جا چکے ہیں۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ اس نالے کی صفائی  ہاتھ سے بھی ہوتی ہے اور مشین سے بھی۔

رپورٹر نے علاقے میں دو مقامات پر چار صفائی اہلکار سے ملاقات کی، جنہوں نے بتایا کہ ان کے پاس صفائی کے لیے حفاظتی انتظامات نہیں ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ڈبلیو ڈی کی طرف سے پوسٹ کی گئی اور بعد میں ہٹا دی گئی کم از کم 12 تصویروں میں ملازمین حفاظتی انتظامات کے بغیر دیکھے گئے۔

اتر پردیش کے کاس گنج ضلع سے تعلق رکھنے والے تین صفائی اہلکار نے دی وائر کو بتایا کہ وہ جہاں کام کرتے ہیں – جنوبی دہلی کی ایک پوش کالونی – وہاں گندا پانی بارش کے پانی کے نالوں میں نہیں ملتا، لیکن شہر کے دیگر حصوں میں ایساہوتا ہے۔

جیت کمار( 45سالہ)، جو بے گھر ہیں اور اب صفائی  کا کام کرتے ہیں، نے کہا کہ انہوں نے نالوں کی صفائی اس لیے چھوڑ دی کیونکہ یہ کام بہت خطرناک ہے اور اجرت بہت کم ہے – انہیں ایک دن کے کام کے 500 روپے ملتے ہیں، لیکن نوکری کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا، ‘آپ کبھی نہیں جان سکتے کہ کب آپ کا ہاتھ کٹ جائے، زہریلی گیس اندر چلی جائے، یاآنکھوں میں کچرے کی چھینٹ پڑنے سے آپ اندھے ہو جائیں… وہاں کانچ اور دھات کے ٹکڑے ہو سکتے ہیں۔’

کاس گنج سے آئے مزدوروں نے جیت کمار کے اس دعوے کی تصدیق کی کہ انہیں ایک دن کے 500 روپے ملتے ہیں۔

‘دستانے، جوتے اور صاف پانی تو سب سے بنیادی ضروریات ہیں۔ ‘ جیت کمار نے کہا،۔’اگر کوئی چیز آنکھوں میں چلی جائے تو اسے فوری طور پر دھونے کے لیے صاف پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔’

جب دی وائر نے مزدوروں سے پوچھا کہ کیا انہیں حفاظتی آلات ملتے ہیں ، تو انہوں نے شروع میں ‘ہاں ‘میں کہا، لیکن نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے اعتراف کیا کہ انہیں ایسا کوئی سامان فراہم نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے کہا، ‘ہمارے پاس جو واحد حفاظتی سامان  وہ  ایم سی ڈی کی ہری جیکٹ ہیں ،تاکہ عوام اور پولیس ہمیں پہچان سکے۔’

سرکار کے ایک ذرائع نے بتایا کہ صفائی کا زیادہ تر کام مشینوں کے ذریعے کیا جاتا ہے، لیکن جہاں مشینیں نہیں جا سکتیں، وہ ہاتھ سے کی جاتی ہیں۔

دہلی کی وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا نے بھی کچھ ایسا ہی کہا۔ انڈین ایکسپریس نے منگل کو ان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ‘دیکھیے، ہر نالے کی حالت مختلف  ہوتی ہے۔ مشینیں ہر جگہ کام نہیں کرتیں اور انسان بھی ہر جگہ کام نہیں کر سکتے۔ ایسی جگہیں ہیں جہاں مشینیں نہیں پہنچ سکتیں۔ فی الحال حکومت کا مقصد تمام نالوں کو مکمل طور پر صاف کرنا ہے، اور یہ کام عدالت کی ہدایات کے مطابق پوری سنجیدگی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔’

اگرچہ تصویروں میں نظر آنے والے نالے درحقیقت اسٹارم واٹر ڈرین ہیں اور حکام کے مطابق دستی صفائی کے قانون کے تحت نہیں آتے، لیکن مزدوروں کی گواہی، کارکنوں کی آراء اور این جی ٹی کے تبصرے زیادہ پیچیدہ تصویر پیش کرتے  ہیں۔

دستی صفائی کی تعریف ایسی جگہوں پر تکنیکی ذرائع کے استعمال کے بغیر ہاتھ سے انسانی غلاظت کو صاف کرنے کے طور پر کی گئی ہے جیسے کہ گندے بیت الخلا، کھلے گڑھے یا نالے جن میں غلاظت بہتی ہے، ریلوے کی پٹریوں پر، یا کسی دوسری جگہ جو مرکزی یا ریاستی حکومتوں کے ذریعہ مطلع کیا جاسکتا ہے۔

دستی صفائی کرنے والوں اور ان کی بحالی ایکٹ (مینوئل اسکیوینجرس ایکٹ)، 2013 کے مطابق، ضروری آلات اور حفاظتی انتظامات کےبغیر کسی شخص کو دستی صفائی کے لیے ملازم رکھنا غیر قانونی ہے۔ یہ قانون گٹروں اور سیپٹک ٹینکوں کی ‘خطرناک صفائی’ کی بھی تعریف کرتا ہے – یعنی انہیں بنا ضروری حفاظتی انتظامات اور آلات کے بغیر ہاتھ سے صاف کرنا۔ یہ کسی بھی شخص کو اس طرح کی صفائی کے لیے مزدوررکھنے کوغیر قانونی قرار دیتاہے۔

صفائی کرمچاری آندولن کے کنوینر بیزواڑا ولسن نے حکام کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ یہ صرف ‘بارش کے پانی کے نالے’ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکام خواہ کچھ بھی کہتے ہوں ان میں صرف گاد ہے، لیکن’اگر آپ اس کا رنگ دیکھیں تو یہ صرف گاد ہی نہیں بلکہ سیوریج بھی ہے، یہ کالا ہے، سب جانتے ہیں کہ یہ کیا ہے…’

ولسن نے سوال کیا،’لوگ مر کیوں رہے ہیں؟’یہ الزام لگاتے ہوئے کہ دستی صفائی دہلی کے کئی حصوں میں موت کا باعث بن رہی ہے۔

اپوزیشن نے مذمت کی

پی ڈبلیو ڈی کی ان تصویروں پر اپوزیشن لیڈروں نے بھی سخت تنقید کی ہے۔

راشٹریہ جنتا دل کے ایم پی منوج جھا نے لکھا، ‘یہ خوفناک تصویریں ان لوگوں کے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑتی ہیں جو ‘ڈبل/ٹرپل انجن’ والی حکومت کی شان میں ڈوبے ہوئے ہیں۔’

عام آدمی پارٹی کے سابق ایم ایل اے سوربھ بھاردواج نے الزام لگایا کہ ‘بی جے پی حکومت’ کی دلتوں اور غریبوں کا استحصال کرنے کی تاریخ رہی ہے۔ انہوں نے ایکس پر لکھا، ‘ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہیے۔’

پی ٹی آئی نے رپورٹ کیا کہ پی ڈبلیو ڈی نے ایک جونیئر انجینئر کو برخاست کر دیا، کیونکہ اس کی نگرانی میں مزدروں نے حفاظتی انتظامات کے بغیر کام کیا تھا ۔

( انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)