اتراکھنڈ کے روڑکی ضلع کے دادا جلال پور گاؤں میں 16 اپریل کو ہنومان جینتی پر نکلی ایک شوبھا یاترا کے دوران پتھراؤ ہوا تھا، جس کے نتیجے میں زیادہ تر مسلمانوں کو بھگوان پور کا علاقہ چھوڑنا پڑا ہے ۔ جو پیچھے رہ گئےہیں ، ان کا کہنا ہے کہ وہ مسلسل خوف کے سائے میں جی رہے ہیں۔
دادا جلال پور روڑکی کے بھگوان پور علاقے کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ 16 اپریل کو ہنومان جینتی کی شوبھا یاتراکے بعد یہاں تشدد کا واقعہ پیش آیا تھا۔ یہاں ہندو مسلم آبادی کی تعداد تقریباً یکساں ہے۔ علاقے میں بھاری پولیس فورس تعینات ہے۔ دکانیں بند ہیں۔ کشیدگی کا ماحول ہے۔
متعدد مسلمان گاؤں چھوڑ کر چلے گئے ہیں کیونکہ ہندوتوا لیڈروں نے سازش کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی وارننگ دی ہے، جس میں ان کے گھروں پر بلڈوزر چلانے اور دھرم سنسد کا انعقاد کرنے جیسی باتیں کہی گئی ہیں۔
ہندوتوادی رہنماؤں نے مبینہ طور پر ان کے مطالبات پورے نہیں کیے جانے اور مسلمانوں کو جیل میں نہیں ڈالنے پر احتجاجی مظاہرے کی دھمکی بھی دی ہے۔
گزشتہ دو دنوں میں کشیدگی بڑھ گئی ہے، کیونکہ مسلم علاقے کے باہر ایک بلڈوزر دیکھا گیا۔ مبینہ طور پر ریہاں کے لوگوں کو سرینڈر کرنے کو کہا گیا۔ تاہم ابھی تک کسی بھی مکان کومنہدم نہیں کیا گیا ہے۔
سوموار 18 اپریل کو بھیم آرمی کے ارکان کے ساتھ ایک میٹنگ میں سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) یوگیندر سنگھ یادو نے کہا کہ کسی بھی گھر کو نہیں گرایا جائے گا۔ موقع پر موجود مقامی پولیس فورس نے بھی اس بات کی تصدیق کی۔ اس کے باوجود لوگ دہشت میں ہیں۔
دریں اثنا، سوموار کو ہی ایک اور ہندوتوا لیڈر کالی سینا تنظیم کے دنیشانند بھارتی، انتظامیہ کو ‘پتھراؤ کرنے والوں’ کو گرفتار کرنے کے لیے الٹی میٹم دیتے ہوئےنظر آئے۔
‘کشمیر فائلز’ اور ہندو راشٹر
نوین نے بتایا کہ وہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے وابستہ ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ 16 اپریل کو کیا ہوا تو انہوں نے کہا کہ ،وہ جہادی ہیں، ہم ہندوؤں کے خلاف سازش کر رہے ہیں، یہ دکھ کی بات ہے کہ وہ یہاں کھاتے ہیں، پھر بھی ملک کو تقسیم کرنے کی بات کرتے ہیں۔
نوین کا دعویٰ ہے کہ فلم ‘دی کشمیر فائلز’ نے انہیں اپنے حقوق کے لیے لڑنے کی تحریک دی۔
نوین کہتے ہیں، فلم نے مجھے بہت متاثر کیا، میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کے اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ہندوؤں کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ ہندو راشٹر کیسا ہوگا تو نوین نے کہا، جب ہم پورے ملک میں بھگوا جھنڈا لہرائیں گے، ہر گھر میں ہنومان چالیسہ بجے گا اور یوگی آدتیہ ناتھ ہمارے لیڈر ہوں گے، وہی ہمارا ہندو راشٹر ہوگا۔
تشدد کو ایک سازش قرار دیتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا، ملک بھر میں ایک واضح پیٹرن ہے، وہ ہمارے جلوسوں پر پتھراؤ کرتے ہیں۔ یہاں بھی انہوں نے بالکل و ہی کیا۔ مسجد سے انہوں نے اسلحہ جمع کرنے کا اعلان کیا جس سے تشدد بھڑکا۔ پھر ہمیں کچھ کرنا ہی تھا۔
تاہم، دی وائر نے جتنے بھی ہندوتوا کارکن سے بات کی ہے ان میں سے کوئی بھی اس طرح کا ویڈیو نہیں دکھا سکا جس میں اس طرح کی اپیل کو سنا جا سکتا ہو۔
آخر 16 اپریل ہوا کیا تھا
گزشتہ 16 اپریل کی رات بھگوان پور علاقے کے تین ملحقہ گاؤں دادا پٹی، دادا حسن پور اور دادا جلال پور کے باشندوں نے ہنومان جینتی کے موقع پر جلوس نکالا۔
اس رات کے سوشل میڈیا پر شیئر کیے گئے ویڈیوز میں مسجد سے گزرتے ہوئے نوجوانوں کا ہجوم لاٹھیاں اٹھائے ہوئے، اونچی آواز میں میوزک بجاتے ہوئے اور فرقہ وارانہ نعرے لگاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
ویڈیو فوٹیج سے پتہ چلتا ہے کہ جیسے ہی جلوس گاؤں میں آگے بڑھا، پتھراؤ ہونے لگا اور بھگدڑ مچ گئی۔ دس افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے، حالانکہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
تاہم، مسلمانوں کی کہانی ہندوتوا کارکنوں کی کہانی سے بالکل مختلف ہے۔
رضیہ* کہتی ہیں، انہوں نے ہمارے گھروں پر پتھر پھینکے۔ ہمیں اپنی حفاظت کے لیے خود کو بند کرنا پڑا۔ انہوں نے سب کچھ توڑ دیا۔
رضیہ اپنے خاندان کی واحد فرد ہے جو تشدد کے بعد گاؤں میں ہی رہ گئی ہیں۔رضیہ کے مطابق، حملہ آوروں نے ان کے گھر میں گھسنے کی کوشش کی اور دروازے پر لاٹھیاں برسائیں، جس کے بعد وہ خود کو اور اپنے بچوں کو بچانے کے لیے چھت پر بھاگ گئی۔
وہ بتاتی ہیں کہ وہ اپنے پڑوسی کی چھت پر چڑھ گئی اور سب کچھ پرسکون ہونے تک وہیں چھپی رہیں۔
رضیہ کا کہنا ہے کہ ان کے گھر سے چاندی اور 50 ہزار روپے لوٹ لیے گئے۔
ان کے پڑوسی علیم* کی کہانی بھی ایسی ہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی بیوی کے سر پر مارا گیا اور انہیں بھی چوٹیں آئی ہیں۔
تشدد شروع ہونے کے فوراً بعد پولیس سپرنٹنڈنٹ (دیہی) پریمندر ڈوبال کی ایک ٹیم موقع پر پہنچی۔ پھرچھ مسلمان مردوں کو گرفتار کیا گیا۔
ہندو باشندوں کا کہنا ہے کہ تشدد کے تھمنے کے بعد رات ایک بجے کے قریب بی جے پی لیڈر کی قیادت میں بھیڑ نے جلوس کو جاری رکھنے پر اصرار کرنا شروع کر دیا۔
نوین کے ایک دوست سونو سینی کا کہنا ہے کہ تشدد پھوٹنے کے بعد ہمیں پوری طاقت کے ساتھ آگے بڑھنا پڑا اور ہم نے اپنی یاترا پوری کی۔
وہ کہتے ہیں، ہم پرجوش تھے، ہم ان کے خلاف گانے بجا رہے تھے، پولیس اور انتظامیہ ہمارے ساتھ تھی اور ہم نے پورے جوش و خروش سے یاترا نکالی۔
‘ہم یہ کھل کرکہہ رہے ہیں’
فرمان* کا گھر گاؤں کے کونے اور جلوس کے راستے میں پڑتا ہے۔ ان کے گھر کے باہر جلے ہوئے رکشے، ایک موٹر سائیکل اور ایک کار کی باقیات پڑی ہیں۔ فرمان کا کہنا ہے کہ یہ جلوس میں شامل لوگوں نے کیا۔
فرمان کہتے ہیں، وہ ہماری گاڑیوں کو آگ لگا کر ہمارے گھر میں داخل ہوئے، ہم نے کچھ نہیں کیا۔ لیکن ہمیں اپنی جان جانے کا ڈر تھا اس لیے ہمیں گھر کے پیچھے ایک چھوٹی سی جگہ میں چھپنا پڑا۔ اگر ہم پکڑے جاتے تو مارے جاتے۔
فرمان کا کہناہے کہ ان کے گھر کا بجلی کا میٹر بھی ٹوٹ گیا ہے اور گھر کے دیگر حصوں میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔ قیمتی سامان اور یسے بھی چوری ہو گئے۔
فرمان کا کہناہے کہ وہ اس خوف سے اپنی راتیں کھیتوں میں گزار رہے ہیں کہ کہیں دوبارہ تشدد نہ بھڑک اٹھے۔
سونو سینی نے دی وائر کو بتایا، وہ ابھی صرف گاؤں چھوڑ رہے ہیں، جلد ہی وہ دن آئے گا جب انہیں ملک بھی چھوڑنا پڑے گا۔ اب ہمیں تشدد کا سہارا لینا پڑےگا، صرف مذاکرات سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ملک کا نوجوان بیدار ہو چکا ہے۔ اب ہم انہیں مار ڈالیں گے۔
سونو کا یہ منصوبہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ وہ مزید کہتے ہیں، ان کا راشن کارڈ چھین لیا جائے، ووٹر آئی ڈی چھین لی جائے۔ یہ بات ہم آپ کے سامنے کھل کر کہہ رہے ہیں۔
سونو نے بھی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے وابستہ ہونے کا دعویٰ کیا۔
نتیجہ
مسلم خاندانوں نے پولیس کو خط لکھا ہے جس میں انہیں ہوئے نقصان اور ان کے زخمی ہونے کی تفصیلات دی گئی ہیں۔
پولیس نے اتوار 17 اپریل کو اس معاملے میں ایف آئی آر درج کی تھی۔ اب تک ایک درجن سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
ملزمین پر آئی پی سی کی دفعہ 153اے (مذہب، ذات پات، جائے پیدائش، رہائش، زبان وغیرہ کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا اور ہم آہنگی کے خلاف کام کرنا)، 195اے (جھوٹے ثبوت دینے کے لیے کسی کو دھمکانا)، دفعہ 147 (فساد) اور 148 (فساد، مہلک ہتھیار رکھنے) کے تحت الزامات درج کیے گئے ہیں۔
بانو* روتے ہوئے کہتی ہیں کہ میرے بیٹے کو پولیس اٹھا کر لے گئی ہے اور مجھے بھی مارا پیٹا گیا۔
وہ گرفتاریوں اور اپنے پوتے کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں۔ ہماری سڑکوں پر چھوٹے چھوٹے بچے گھوم رہے ہیں، وہ نہیں جانتے کہ ان کے والد کہاں ہیں، ہمارے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔
وہیں، دو ہندو خواتین شیلو اور سشیلا کہتی ہیں، ہم انصاف چاہتے ہیں۔ جو بھی قصوروار ہے اسے سامنے لایا جائے۔ ہمیں بلڈوزر کے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم چاہتے ہیں کہ مجرم پکڑے جائیں۔
سشیلا کہتی ہیں، ہمارے بچے ایک ساتھ بڑے ہوئے ہیں۔ وہ کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچا سکتے۔ مسلمانوں نے سب کچھ کیا ہے۔
*متاثرین کے نام تبدیل کیے گئے ہیں۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔