مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے ایک جج کو مبینہ طور پر بدنام کرنے کے کے لیے دو وکلاء سمیت دیگرکو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے سپریم کورٹ نےکہا کہ ہوسکتا ہے کہ جج نے غلط فیصلہ دیا ہو، جسے بعد میں رد کیاجاسکتا ہے،لیکن انہیں بدنام کرنے کی کوشش کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ کو کہا کہ عدالتوں کو بدنام کرنے کے’ رجحان’ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے ماہی گیری کے حقوق کی لیز سے متعلق ایک معاملے میں مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کےایک جج کو مبینہ طور پر بدنام کرنے کے الزام میں دو وکلاء سمیت دیگر کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا۔
سپریم کورٹ نے اس بات پر سخت اعتراض کیا کہ عدالتوں کو مبینہ طور پر بدنام کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
عدالت نے کہا کہ کوئی بھی جج ‘غلطی سے بالاتر’ نہیں ہے اور یہ ممکن ہے کہ اس نے کوئی غلط فیصلہ دیا ہو، جسے بعد میں رد کیا جا سکتا ہے، لیکن جج کو بدنام کرنے کی کوشش کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
زبانی ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس ایس کے کول اور جسٹس اے ایس اوکا کی بنچ نے کہا، ‘عدالتوں کو بدنام کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔’
یہ بنچ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کی ایک ڈویژن بنچ کے اگست میں جاری فیصلے کے خلاف ایک عرضی پر سماعت کر رہی تھی۔ اس بنچ میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی شامل تھے۔
بنچ نے ایک ایڈوکیٹ آن ریکارڈ (اے او آر) اور عرضی گزار کی جانب سےعرضی دائر کرنے والے وکیل کو بھی نوٹس جاری کیااور ان سے یہ واضح کرنے کو کہا کہ کیوں نہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔
خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق درخواست گزار کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل نے کہا کہ وہ درخواست میں اصلاح کریں گے۔
عدالت عظمیٰ کی بنچ نے کہا، کوئی فیصلہ صحیح ہو سکتا ہے، غلط بھی ہو سکتا ہے۔ یہ مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ وہ ہے جو آپ نے کہا جس نے ہمیں پریشان کیا۔ جب درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ یہ اس کی طرف سے ‘قانونی غلطی’ ہے تو بنچ نے کہا، ‘مدعی کو آپ کےاس ایڈوینچر کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ‘
وکیل نے کہا کہ وہ 35 سال سے پریکٹس کر رہے ہیں اوراپیل کی کہ براہ کرم، میرا مستقبل خراب نہ کریں۔ اس پر بنچ نے وکیل سے یہ کہتے ہوئے حلف نامہ داخل کرنے کو کہا کہ عدالت نے توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ آپ جو چاہیں کہہ کر بچ نہیں سکتے۔
بنچ نے کہا کہ اے او آر صرف پٹیشن پر دستخط کرنے کے لیے نہیں ہے۔ بنچ نے کہا، کیا ہم صرف اس پر دستخط کرنے کے لیے اے او آر بنا رہے ہیں؟ انہیں یہ واضح کرنا ہوگا۔
بنچ نے مزید کہا، ‘ہو سکتا ہے کسی جج نے غلط فیصلہ دیا ہو۔ ہم اسے الگ رکھ سکتے ہیں۔ایک جج کی رائے اس کی رائے ہے۔ ہم غلطی سے پرے نہیں ہیں۔ ہم سے بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں۔
جب وکیل نے استدعا کی کہ انہیں درخواست میں ترمیم کرنے کی اجازت دی جائے تو بنچ نے کہا کہ جب تک حلف نامہ داخل نہیں کیا جاتا وہ اس کی اجازت نہیں دے گی۔ عدالت عظمیٰ اس معاملے کی سماعت دسمبر میں کرے گی۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)