کولکاتہ کے سرکاری اسپتال آر جی کر میڈیکل کالج میں ٹرینی ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے معاملے کو چار ماہ ہوچکے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد پورے بنگال میں بے مثال احتجاجی مظاہرے کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔ متاثرہ والدین سے دی وائر کی بات چیت۔
نئی دہلی: کولکاتہ کے سرکاری اسپتال آر جی کر میڈیکل کالج میں ٹرینی ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے معاملے کو چار ماہ ہو چکے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد پورے بنگال میں بے مثال احتجاجی مظاہرے کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔ جونیئر ڈاکٹروں نے بھوک ہڑتال کی تھی۔ ملک بھر سے ڈاکٹر کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
پچھلے چار مہینوں میں سے تین مہینوں کے لیے کولکاتہ کے مضافات میں واقع سود پور میں واقع متاثرہ ٹرینی ڈاکٹر کا گھر پولیس کی سخت نگرانی میں تھا۔ ان کے گھر تک پہنچنے کے لیے پولیس کی رکاوٹوں سے گزرنا اور پولیس والوں کی پوچھ گچھ عام بات تھی۔
تاہم، اب صرف تین غیر مسلح پولیس اہلکار ان کے گھر کے باہر کھڑے ہیں۔ اب نہ زیادہ تفتیش ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی انکوائری۔ سڑکیں جو کبھی احتجاجی بینروں سے ڈھکی ہوتی تھیں اب خالی پڑی ہیں۔ اس کے باوجود، رابندر ناتھ ٹیگور کے الفاظ آج بھی آنجہانی ڈاکٹر کے گھر کے سامنے لٹکے ہوئے ہیں:’جو ناانصافی کرتا ہے اور جو اسے برداشت کرتا ہے، دونوں خدا کے غضب کا شکار ہوتے ہیں۔’
ٹرینی ڈاکٹر کے والد جو کہ پیشے سے درزی ہیں، انہوں نے روزی روٹی کے لیے دوبارہ کام شروع کر دیا ہے۔ ان کی ماں کا دن آنجہانی بیٹی کی چیزوں کی دیکھ بھال میں گزرجاتا ہے۔ گزشتہ ہفتے، انہوں نے ‘ٹروتھ اینڈ جسٹس: وائس فارآر جی کر وکٹم ‘ کے عنوان سے ایک سوشل میڈیا پیج کھولا ہے۔
غمزدہ والدین نے انصاف کی امید اور ابھی انہیں انصاف کیوں نہیں ملا ہے، اس بارے میں دی وائر سے بات کی۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق دی وائر ڈاکٹر کے والدین کے ناموں کو ظاہر نہیں کر رہا ہے اور یہاں ان کی شناخت ‘والد’ اور ‘ماں’ کے طور پر پیش کر رہاہے۔
واقعہ کے چار ماہ بعد کیا آپ تحقیقات سے مطمئن ہیں؟
والد: بالکل نہیں۔ ابتدائی طور پر، پولیس نے صرف ایک شخص (سول رضاکار سنجے رائے) پر الزام لگایا۔ بعد میں سی بی آئی نے مزید دو لوگوں کو گرفتار کیا، لیکن ابھی تک چارج شیٹ داخل نہیں کی ہے۔ ہم انتظار کر رہے ہیں کہ آیا وہ ضمنی چارج شیٹ دائر کرتے ہیں۔ یہ تشویشناک ہے کہ ملک کی اعلیٰ تفتیشی ایجنسی اتنا وقت لے رہی ہے، لیکن پھر بھی ہمیں امید ہے۔ کولکاتہ پولیس نے جان بوجھ کر ثبوتوں کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی، اب سی بی آئی تحقیقات کر رہی ہے۔ اب دیکھتے ہیں یہ سب کہاں جاتا ہے۔
اب اس کیس کو سی بی آئی سنبھال رہی ہے، لیکن اب تک ان کے نتائج اور کولکاتہ پولیس کی ابتدائی تحقیقات دونوں نے ایک ہی مجرم کی طرف اشارہ کیا ہے۔ سی بی آئی کے کردار کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
والد: یہ ایک سفاکانہ قتل ہے، جو بند کمرے میں ہوا ہے۔ ہمارے پاس سی بی آئی پر بھروسہ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ ہاں شکوک و شبہات اٹھائے جا رہے ہیں لیکن ہمیں جلد انصاف کی امید ہے۔ پورا ملک اور دنیا اس معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
آپ نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ سے ملنے کی کوشش کی، لیکن نہیں مل سکے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس سے تفتیش متاثر ہوئی ہے؟
والد: یہ کہنا مشکل ہے۔ ملک کی اہم تفتیشی ایجنسی تحقیقات کر رہی ہے۔ ان کی کارروائی اور چارج شیٹ پر سوال ہیں۔ ہم امت شاہ کی توجہ چاہتے تھے کیونکہ مرکزی وزیر داخلہ کے طور پر ان کی مداخلت غیر جانبدارانہ تحقیقات کو تیز کر سکتی ہے۔ جب وہ شہر میں تھے تو ہم کولکاتہ میں سارا دن ان کا انتظار کرتے رہے لیکن ہمیں ان کے ساتھ چند منٹ بھی نہیں ملے۔ بی جے پی کے ریاستی صدر سکانت مجمدار نے ہمارے تئیں بنیادی شائستگی بھی نہیں دکھائی۔ میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تفتیش امت شاہ، بی جے پی کے دیگر اعلیٰ لیڈروں یا سی بی آئی سے متعلق ہو سکتی ہے۔ ہم صرف انصاف مانگنے ان کے پاس پہنچے تھے۔ شروع میں بی جے پی اس معاملے پر ہمارے ساتھ کھڑی تھی، مجھے نہیں معلوم کہ بعد میں ان کا موقف کیوں بدل گیا۔
کیا سی بی آئی آپ کے گھر آئی یا آپ سے پوچھ گچھ کی؟
والد: ہاں وہ ہم سے چار پانچ بار ملنے آئے اور بہت سے سوال پوچھے۔ ہم نے انہیں وہ تمام معلومات فراہم کیں جو انہوں نے مانگی تھیں۔ تاہم، ہمارے پاس اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں ہے کہ تفتیش کس طرح آگے بڑھ رہی ہے۔ وہ جو بھی پوچھتے ہیں، ہم بس اس جواب دیتے ہیں۔
اس وقت کے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے اس کیس کا ازخود نوٹس لیا تھا جب اس کی سماعت کلکتہ ہائی کورٹ میں ہو رہی تھی۔ اب کیا آپ عدالتی کارروائی کی رفتار اور سمت سے مطمئن ہیں؟
والد: چیف جسٹس نے سیل بند لفافے میں جمع کرائی گئی سات اسٹیٹس رپورٹس کا جائزہ لیا۔ ہم نہیں جانتے کہ ان میں کیا تھا۔ ان رپورٹوں کے بعد سی بی آئی کو کوئی نئی ہدایات جاری نہیں کی گئیں۔ ہم مایوس ہیں۔ جبکہ انہوں نے (اس وقت کے سی جے آئی) نے کہا تھا کہ سی بی آئی صحیح راستے پر ہے، رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد کوئی نئی ہدایات نہیں دی گئیں۔
آپ نے پہلے الزام لگایا تھا کہ پولیس نے آپ کوپیسے کی پیشکش کی اور واقعہ کے بعد آپ کو دھمکیاں دیں۔ کیا وہ اب بھی رابطے میں ہیں؟
والد: شروع میں وہ رابطے میں رہے۔ کیس سی بی آئی کے ہاتھ میں لینے کے بعد پولیس نے رابطہ کرنا بند کر دیا۔ انہوں نے ہمارے گھر کے قریب کچھ اہلکاروں کو ان وجوہات کی بنا پر تعینات کیا ہے جو صرف انہیں معلوم ہیں۔ ہمیں ریاستی پولیس پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ ہمیں ان کی ضرورت نہیں ہے۔
کیا ریاستی حکومت آپ سے رابطے میں ہے؟
والد: نہیں، کوئی سرکاری اہلکار ہم سے رابطے میں نہیں ہے۔
آپ نے الزام لگایا ہے کہ ترنمول کانگریس کے ایک مقامی کونسلر آپ کے خاندان کی خواہش کے خلاف آپ کی بیٹی کی لاش کوعجلت میں آخری رسومات کے لیے لے گئے تھے اور خاندانی دوست ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے آخری رسومات پر دستخط کیے تھے۔ کیا وہ آپ سے رابطے میں ہیں؟
ماں: انہوں نے کوشش کی، لیکن ہم نے فاصلہ بنائے رکھا۔ ہم ایسے گھٹیا لوگوں سے کوئی واسطہ نہیں رکھنا چاہتے۔
کیا اپوزیشن لیڈر اب بھی آپ سے رابطے میں ہیں؟
والد: ہاں، اپوزیشن کے تقریباً سبھی لیڈر ہم سے باقاعدگی سے ملتے ہیں۔ تاہم حکومتی نمائندوں نے خود کو مکمل طور پر دور کر رکھا ہے۔ حال ہی میں، سی پی آئی (ایم) کے سابق ایم پی تاریت بارن ٹوپدار اپنی بڑھتی عمر کے باوجود ہم سے ملے۔ دیگر اپوزیشن رہنما بھی آتے ہیں۔ یوم دستور پر، میں نے قائد حزب اختلاف (بی جے پی لیڈر) سویندو ادھیکاری اور آئی ایس ایف کے نوشاد صدیقی سے ملاقات کی۔ انہوں نے ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔
کیا آر جی کر ہسپتال کے ڈاکٹر اور ساتھی ابھی بھی رابطے میں ہیں؟
ماں: نہیں، ڈاکٹروں نے خود کو الگ تھلگ کر لیا ہے۔ تاہم دیگر کالجوں کے طلباء ہمارا ساتھ دے رہے ہیں اور اس لڑائی کو زندہ رکھنے کی بات کر رہے ہیں۔
جن دو معطل ڈاکٹروں کو جائے وقوعہ پر دیکھا گیا تھا اور ان کی دھمکی دینےکی فطرت کے الزام لگے تھے۔ان کے میڈیکل کونسل میں واپسی کوآپ کیسے دیکھتے ہیں؟
والد: ہم طلبہ کے احتجاج میں شامل ہو رہے ہیں۔ انصاف کے لیے سڑکوں پر نکلیں گے۔ ہم مزید خاموش نہیں رہیں گے۔
ایسا لگتا ہے کہ احتجاج کی رفتار ختم ہو گئی ہے۔ کیا آپ پریشان ہیں؟
والد: چار مہینے ہو گئے ہیں۔ لوگ کتنا صبر کر سکتے ہیں؟ کوشش کے باوجود کوئی پیش رفت نہ ہونے پر مظاہرین مایوسی کا شکار ہیں۔ طویل تحقیقات کے پیش نظر یہ مایوسی فطری ہے۔
کیا آپ کو اب بھی سکیورٹی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے؟
ماں: نہیں، ہمارے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں بچا۔ 9 اگست کو ہم سے سب کچھ چھین لیا گیا۔ اب ہم صرف انصاف کے منتظر ہیں۔ ہم شروع سے کہہ رہے ہیں کہ اس میں چار اور لوگ بھی ملوث تھے، ابھی تک ان کی گرفتاری یا ان سے پوچھ گچھ کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ ہم کیسے مان لیں کہ اندر سے کوئی کچھ نہیں جانتا؟
والد: ملزمان پر ابھی تک جرم ثابت نہیں ہوا، اس لیے انہیں ملزم بھی نہیں کہا جا سکتا! اور میں کیا کہہ سکتا ہوں؟ تالہ پولیس اسٹیشن کے انچارج افسر کو معطل کر دیا گیا ہے، لیکن [پرنسپل] سندیپ گھوش کے ساتھ کچھ نہیں ہوا۔ یہ سب دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔’
ماں: انصاف کے لیے آواز اٹھانے والے لوگوں کو مختلف طریقوں سے نشانہ بنایا جا رہا ہے – ان کی نوکری جانا، حملوں کا سامنا کرنا اور دوسرے طریقوں سے سزا دی جا رہی ہے۔ ریاستی پولیس کے سابق انسپکٹر جنرل پنکج دتہ کو لوگوں کے ایک گروپ نے ذہنی اذیت دی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ ان کا قتل پہلے سے منصوبہ بند طریقے سے کیا گیا تھا۔ وہ شروع سے ہمارے ساتھ کھڑےرہے‘ ان کی موت نے ہم میں خوف پیدا نہیں کیا بلکہ ہماری آنکھیں کھول دیں۔ ہم ان کی اہلیہ کے ساتھ کھڑےرہیں گے اور سڑکوں پر نکلیں گے کیونکہ سڑکیں ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔
ہم ہندوستان اور دنیا بھر کے لوگوں کے بے حد مشکور ہیں جنہوں نے میری بیٹی کو اپنی بیٹی کے طور پر دیکھا اور احتجاج میں سڑکوں پر نکل آئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ طویل تفتیش اور نئے مشتبہ افراد کی گرفتاری نہ ہونے سے شکوک اور مایوسی کیسے بڑھ جاتی ہے۔ اس کے باوجود ہم اس ملک کے آئین اور قانونی نظام کا احترام کرتے ہوئے انصاف کے انتظار اور سڑکوں پر اپنا احتجاج جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)