ایسا نڈر، سچا، محبت کرنے والا اور محبت کا گیت گانے والا اب کہاں سے آئے گا۔ کسی سے نہ دبنے والا، ہر شخص پر شفقت کرنے والا، زبان کا فیاض، شاعروں کا والی، غزل کا امام، ادب کاخدمت گزار۔ کیسی سچی بات ایک عزیز نے کہی کہ سیاست کوئلہ کا کاروبار ہے جس میں سبھی کا ہاتھ اور بہتوں کا منھ کالا ہوتا ہے سوائے حسرت کے۔
حسرت موہانی، فوٹو: وکی پیڈیا
ان کی گول چھدری ڈاڑھی، ان کی باریک آواز، ان کی چھوٹے تال کی عینک، بغیر پھندنے کی ترکی ٹوپی، گھسی پسی چپل، موزوں سے کوئی سروکار نہیں، موٹے کھدر کی ملگجی پیوند لگی کاواک سی شیروانی جس کے اکثر بٹن ٹوٹے یا غائب، ہاتھ میں بدرنگ ساجوٹ کاایک جھولا، دری تکیہ اور موٹی چادر، مختصر بستر، ٹیڑھا میڑھا پرانا چھوٹا سا ایک ٹرنک اور تاملوٹ، یہ تھے حسرت۔
لیکن کس قیامت کا یہ آدمی تھا۔ محشرِ خیال نہیں محشرِ عمل۔ جس بات کو اپنے نزدیک حق سمجھتاتھا اس کو کسی بغیر تامل کے، بغیر گھٹائے بڑھائے، بغیر ہموار کیے بغیر مصلحت یا موقع کا انتظار کیے، بے ساختہ زبان، بغیر پلک جھپکائے ، مخاطب افلاطون ہو یا فرعون، اس کے سامنے کہہ ڈالنا حسرت کے لیے معمولی بات تھی۔
ایسا نڈر، سچا، محبت کرنے والا اور محبت کا گیت گانے والا اب کہاں سے آئے گا۔ کسی سے نہ دبنے والا، ہر شخص پر شفقت کرنے والا، زبان کا فیاض، شاعروں کا والی، غزل کا امام، ادب کاخدمت گزار۔ کیسی سچی بات ایک عزیز نے کہی کہ سیاست کوئلہ کا کاروبار ہے جس میں سبھی کا ہاتھ اور بہتوں کا منھ کالا ہوتا ہے سوائے حسرت کے۔
حسرت شخص کے اعتبار سے نہایت انتہا پسند واقع ہوئے تھے ان کے یہاں تضاد کی بھی کمی نہیں لیکن ان کی شاعری میں جو توازن، تازگی اور ترنم ملتا ہے وہ کم شعرا کے نصیب میں آیا ہے۔ مذہب اور سیاست میں کٹر ہونے کے باوجود شاعری میں حسرت کس درجہ شیریں نوا اور شریف النفس اور زندگی میں کیسے درویش صفت اور تیغ اصیل تھے۔
حسرت علی گڑھ کالج کے بڑے ذہین اور ہونہار طالبعلم تھے۔ انگریز دشمنی میں نکالے گئے۔ علی گڑھ میں سودیشی کپڑے کی دکان رکھ لی۔ غالب پر حاشیہ لکھا، اردوئے معلّٰی کی ایڈیٹری کرتے رہے اور ان مشغلوں سے جو کچھ روکھا پھیکا میسر آجاتا اسی پر اکتفا کرتے اور دنیا کی تمام عیش و کامرانی کو ٹھکرائے، فریب و فرعونیت پر گرجتے اور حسن و عشق کا راگ گاتے رہے۔
کسی صاحب دولت کا زہرہ نہ تھا کہ محبت اور مسکنت کے اس بوریہ نشین اور عزیمت اور صداقت کے اس نقیب و ناخدا سے آنکھ ملاسکے۔ دیسی کھرے مٹیالے کاغذ پر اردو کے مشاہیر، کم نصیب گوشہ گیر اور تقریباً بھلائے ہوئے شعرا کے کلام کا انتخاب شائع اور ان کی خدمات کو اجاگر کرتے رہے۔
وہ زمانہ علی گڑھ کالج کے بڑے دبدبے اور طنطنے کا دور تھا۔ کیسے کیسے طلبا یہاں تھے جو بڑے بڑوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ بحیثیت طالبعلم حسرت یہاں جس ہیئت کذائی سے تشریف لائے اور جس طرح ان کا مذاق اڑایا گیا وہ آج تک زبان زد ہے۔ بازو پر امام ضامن بندھا ہوا، مشروع کا پاجامہ، ایک بڑا پان دان، ساتھ لڑکوں میں خالہ اماں کے نام سے مشہور ہوگئے۔
لیکن یہی حسرت اپنی ذہانت، جرأت اور صداقت میں ایسے کھرے ثابت ہوئے کہ ساتھیوں کی آنکھ کا تارا بن گئے۔ علی گڑھ کالج میں بحیثیت طالبعلم، بدیسی حکومت سے سب سے پہلے خالہ اماں ہی نے ٹکر لی۔ کالج میں ہلچل مچ گئی اور حسرت نکالے گئے۔
اس زمانہ میں بغاوت اور آزادی کے کھرے علمبردار جنوب میں بال گنگا دھر تلک، مشرق میں اروند گھوش اور شمال میں لالا لاجپت رائے تھے۔ یوپی میں حسرت نے اس مشعل کو علی گڑھ سے روشن کیا۔
کسی کا اس زمانے میں حسرت سے تعلق رکھنا انگریزی حکومت کے قہر و عتاب کا موجب ہوتا تھا۔ لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے علی گڑھ کالج کے اچھے سے اچھے طالب علم حسرت کی خدمت میں عقیدت کا نذرانہ پیش کرنے ضرور حاضر ہوتے اور اس پر فخر کرتے کہ حسرت نے ان کو اپنے بوریے پر بٹھایا۔ شفقت اور محبت کی باتیں کیں اور ا پنا کلام سنایا۔ اساتذۂ سخن کے کلام اور شعر و ادب کی باریکیوں اور نزاکتوں سے آشنا کیا۔
گزشتہ 35-36 سال میں جو لوگ علی گڑھ سے فارغ التحصیل ہوکر پبلک لائف میں داخل ہوئے اور نام پیدا کیا ان میں کوئی ایسا نہیں جس کو میں نے بہت قریب سے نہ دیکھا ہو اور ان کو اچھی طرح جانتا پہچانتا نہ ہوں۔ علی گڑھ میں رہتے بستے ایک عمر ہوئی۔ یہاں کی زندگی کا کون سا ایسا پہلو ہے جو نظر سے نہ گزرا ہو اور کون سی نعمتیں ہیں جو یہاں میسر نہیں آئیں۔ یہاں کے اکثر طالبعلم سیاسی عقائد کی بناپر یہاں سے نکالے بھی گئے۔
ایسوں کا یہاں سے بیزار ہونا فطری تھا لیکن اس وقت دو ہستیاں ایسی یاد آتی ہیں جو یہاں سے جس عقیدے کی بناپر نکالی گئیں اس کی انھوں نے تمام عمر پیروی کی، ہزار عقوبتیں جھیلیں لیکن اپنے راستے سے نہ ہٹے۔ ان میں ایک حسرت ہیں’خالہ جان’کے عہد سے لے کر خاتمہ بالخیر ہونے تک بے غرضی، جفاطلبی، حق گوئی، خدا ترسی اور آزادی کے راستہ کو لمحہ بھر کے لیے بھی نہیں چھوڑا۔
کیسے کیسے آلام اور آزمائش سے گزرے۔ دو چار سال نہیں، نصف صدی سے اوپر، لیکن دامن کہیں سے ملوث ہوا، نہ اپنی نظر کو نیچی ہونے دیا نہ اپنے عقیدت مندوں کی نظر کو۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
اپنی قید و بند کی زندگی کا حال انھوں نے اپنے رسالے‘اردوئے معلّٰی’میں بالاقساط لکھا ہے جس میں اس عہد کے حالات و حوادث اور جیل خانے کی زندگی سے متعلق بڑے پتے کی باتیں لکھیں ہیں، پڑھنے کی چیز ہے۔
کئی سال ہوئے حسرت نے علی گڑھ میں شعر و شاعری سے متعلق اپنا نقطۂ نظر ایک مقالے کی شکل میں پیش کیا تھا۔ یونین میں شائقین کا بڑا اچھا اور ستھرا مجمع تھا۔ حسرت نے بڑی تفصیل اور بڑی قابلیت سے شاعری کی اقسام بتائی تھیں۔ بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو حسرت سے بڑی عقیدت رکھتے تھے لیکن حسرت نے ہر طرح کی شاعری پر جس شاعرانہ نقطۂ نظر اور عالمانہ اندازِ فکر سے جو باتیں بیان کی تھیں اور ان کے جواز پر زور دیا تھا ان سے بعض ثقات کے معتقدات کو جھٹکے لگے۔
ان کو اس پر تعجب ہوا کہ حسرت جو زندگی میں اتنے خشک اور سپاٹ مذہبی معتقدات میں اتنے کٹر اور سیاسی نقطۂ نظر میں اتنے بے لچک تھے وہ غیر ثقہ شاعری کی حمایت کیسے کر رہے تھے۔ یہ بات تعجب کی ضرور تھی کہ جو شخص کہیں اور کسی سے مفاہمت نہ کرتا ہو وہ شاعری میں اتنی ڈھیل دیتا ہو۔
شاعری میں حسرت کانقطۂ نظریہ تھا کہ شاعری کا معیار شاعری ہی ہے کچھ اور نہیں۔ ابھی ایک عزیز نے ایک دور دراز مقام سے استصواب رائے کیا تھا کہ حسرت یا مصحفی کا کلام یونیورسٹی کے نصاب میں داخل ہونا چاہیےیا نہیں۔ اس لیے کہ بعضوں کے نزدیک دونوں کے ہاں فحاشی اور برہنگی ملتی ہے۔ خط پڑھ کر مجھے حسرت ہی کا ایک شعر بے اختیار یاد آگیا؛
رعنائی خیال کو ٹھہرا دیا گناہ
زاہدبھی کس قدر ہے مذاقِ سخن سے دور
مجھے یہاں اس استفسار پر کچھ کہنا نہیں ہے لیکن اتنا کہہ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ یونیورسٹی میں شاعر اور شاعری سے طلبا کو روشناس کیا جاتا ہے۔ متفرق اور مخصوص اشعار کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ دوسرے یہ کہ اردو غزل گوئی پر ایمان لائے بغیر ہم اپنے شعر و ادب کے معیار و منزلت سے آشنا نہیں ہوسکتے اور جہاں تک غزل گوئی کا تعلق ہے حسرت شروع سے آخر تک تقریباً نصف صدی سے اوپر اپنے معاصرین میں سب سے ممتاز، منفرد اور محترم رہے ہیں۔ سب سے بدنام صنفِ سخن کو سب سے پرآشوب عہد میں حسرت نے جس طرح بچایا اور سب سے ممتاز رکھا وہ حسرت کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔
چنانچہ میرا خیال ہے کہ ابھی ایک نامعلوم مدت تک غزل گوئی کے معیار حسرت ہی رہیں گے۔ یہی بات نظم گوئی کے سلسلے میں اقبال کے بارے میں وثوق سے کہی جاسکتی ہے۔ خود حسرت کی پیروی کوئی کرپائے یا نہیں۔ جس یونیورسٹی کے طلبا کے بارے میں یہ اندیشہ ہو کہ حسرت کی غزل پڑھ کر بداطوار ہوجائیں گے۔ میری رائے میں اس یونیورسٹی کو بند اور اس کے اساتذہ کو کچھ اور نہیں تو تعلیم کے کام سے ہمیشہ کے لیے محروم کردینا چاہیے۔
کوئی پندرہ سولہ سال ادھر کی بات ہے، ایک دفعہ سفر میں حسرت کا ساتھ ہوگیا۔ میں دنیا کی ہر تکلیف برداشت کرسکتا ہوں، تھرڈ کلاس کی بھیڑ سے جانبرنہیں ہوسکتا۔ حسرت حسب معمول تھرڈ کلاس میں سفر کر رہے تھے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ جس ڈبہ میں وہ سفر کر رہے تھے اس کا کیا حال تھا، کتنی بھیڑ تھی، کیسے لوگ تھے اور کیسا تکلیف دہ موسم تھا لیکن حسرت کے بشرہ یا بات چیت سے متعلق ظاہر نہیں ہوتا تھا کہ ان کو شمہ برابر بھی کوئی تکلیف تھی۔
گاڑی ٹھہرتی تو میں پلیٹ فارم پر اتر کر ان کو دیکھ آتا۔ جب دیکھتا ہجوم میں اضافہ پاتا۔ مجھے دیکھ پاتے تو ہنس کر پکارتے اور ایسا معلوم ہوتا جیسے اس سے دلچسپ اور آرام دہ سفر انھوں نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ ایک دفعہ جاکر دیکھتا ہوں تو ان کے کندھے پر کسی غریب کی چھوٹی سی بچی چتھڑے لگائے ہوئے بیٹھی ہے اور حسرت صاحب اپنی پوٹلی کھولے ہوئے کھانا کھارہے ہیں اور بچی کو بھی کھلا رہے ہیں۔
میں نے کہا حسرت صاحب یہ کیا ہے؟ کہنے لگے کوئی بات نہیں۔ بھیڑزیادہ ہوگئی تھی، اندیشہ تھا کہ بچی کچل نہ جائے۔ میں نے کہا حسرت صاحب کاش اس وقت آپ کا فوٹو لیا جاسکتا اور اس کے نیچے لکھ دیا جاتا‘ہندوستان میں شاعری’کہنے لگے جی نہیں اس کے نیچے لکھا جاتا ’ہندوستان میں بھوک۔‘
اردو پی ایچ ڈی کا زبانی امتحان لینے حسرت علی گڑھ تشریف لائے تھے، اسی سج دھج سے جس کا ذکر اوپر کرچکا ہوں۔ سفر خرچ کا بِل فارم دستخط کے لیے پیش کیا گیا تو بولے یہ فرسٹ کلاس کرایہ کیسا؟ میں تو تھرڈ کلاس میں سفر کیاکرتا ہوں۔ دراصل میں دہلی جارہا تھا، پروگرام ایسا رکھا تھا کہ یہاں اتر پڑوں اور امتحان لے کر آگے بڑھ جاؤں، پھر یہ کرایہ کیسا؟ ٹھہرنے کا الاؤنس کیوں؟ طعام و قیام تو آپ کے ہاں رہا۔ بڑی دیر تک بڑے مزے کی رد و قدح ہوتی رہی اور علی گڑھ سے اپنی الفت کااظہار کرتے رہے۔ حسرت بڑے زندہ دل اور خوش گفتار تھے۔
میں نے کہا، مولانا یہ روپیہ تو آپ میری خاطر لے لیں اور میرے ہی اوپر اپنے ہاتھ سے صرف کردیں۔ بولے ہاں یہ ہوسکتا ہے ’بتائیے کیسے؟‘ میں نے کہا میرے لیے ایک ویسا ہی یونی فارم بنوادیجیے جیسا کہ آپ پہنتے رہے ہیں۔ بے اختیار ہنس پڑے، پھر بولے یونی فارم کیا کیجیے گا۔ میں نے کہا دشمنوں کا خیال ہے کہ آپ اپنے بعد اپنا خلیفہ مجھ ہی کونامزد کریں گے۔ اس وقت یہ سجادہ میرے کام آئے گا۔ بولے خرقہ یا سجادہ۔ میں نے کہا نہ خرقہ نہ سجادہ۔ ان کا کاروبار سب ہی کرتے ہیں۔ آپ کی یونی فارم میں تو آپ کاخلیفہ خانقاہ بردوش نظر آئے گا۔ بہت محظوظ ہوئے رہ رہ کر ہنستے اور داد دیتے رہے۔
حسرت ہندوستانی پارلیمنٹ کے ممبر تھے لیکن ان کے اپنے اندازِ درویشانہ میں کوئی فرق نہ آیا۔ نہ ممبروں کی آرام دہ کشادہ اور پرفضا قیام گاہ، نہ ٹیلی فون، نہ موٹر، نہ تفریح، نہ دعوت، نہ دید و بازدید۔ ایک غیر معروف شکستہ مسجد میں چٹائی پر قیام رہتا تھا۔ فرش پر آس پاس اخبارات، کاغذات اور فائلیں۔ وقت آیا تو کسی دکان پر جاکر کھانا کھالیا۔ کاغذات جھولے میں ڈالے پارلیمنٹ پہنچ گئے۔ راستہ اکثر پیدل ہی طے کرتے اور موقع جان پڑتا تو پارلیمنٹ میں ایسی دوٹوک اور بے لاگ تقریر کرتے کہ در وبام گونج اٹھتے۔
تنم می بلرزد چو یاد آورم
دہلی میں ایک نیم سرکاری سیاسی قسم کااجتماع تھا۔ بعض اہم اور نازک مسائل زیر بحث تھے۔ شام کو عصرانہ تھا۔ اعیان و اکابر جمع تھے۔ حسرت بھی مدعو تھے۔ ایسے موقع پرایسی پارٹیاں صرف چائے پینے پلانے کے لیے نہیں ہوتی اور باتیں بھی مدنظر ہوتی ہیں۔ آرائش و زیبائش، جاہ و حشم، سازوسامان، تکلف و تواضع، صاحبان ثروت، ماہرین سیاست، اکابر علم و حکمت اپنے اپنے وزن اور وقار کے ساتھ اور خواتین مع اپنی تمام جلوہ سامانیوں کے موجود تھیں۔
’فضا آراستہ چمن پیراستہ‘ اتنے میں ایک طرف سے حسرت نمودار ہوئے۔ اس سج دھج سے جو صرف ان کی تھی۔ اسی وقار درویشی اور اندازِ قلندری سے جو ان کا مسلک تھا اور اسی شعلہ سامانی و شبنم افشانی کے ساتھ جو ان کی زندگی تھی۔ مجمع میں ایک لہر سی دوڑ گئی۔ ہر شخص نے بڑے لطف و احترام سے حسرت کی پذیرائی کی اور دیکھتے دیکھتے وہ سب کی توجہ اور تپاک کا مرکز بن گئے۔
شائستہ فقرے، لطف کی باتیں، عقیدت ومحبت کی پیش کش۔ ایسا معلوم ہونے لگا جیسے یہ تقریب حسرت ہی کے خیرمقدم کے لیے منعقد ہوئی تھی، فرمائش شروع ہوگئی، حسرت نے شعر سنانا شروع کردیے۔ حسرت زیادہ تر اپنا کلام تحت اللفظ سناتے تھے بالکل جیسے باتیں کرتے ہیں۔ مگر معلوم نہیں کیوں کبھی کبھی ترنم بھی فرمانے لگتے جس پر مجھے ہمیشہ ہنسی آجاتی۔ ان کا ترنم ایسا ہوتا جیسے کوئی معصوم بچہ ترنم کے ہر اصول سے بیگانہ محض ترنم کی نقل کر رہا ہو۔
حسرت اپنا کلام سنارہے تھے۔ سارے اکابر ان کے گرد جمع ہوگئے۔ محفل کا رنگ ہی بدل گیا۔ تھوڑی دیر تک ذہن میں کچھ اور باتیں آتی رہیں اور اپنا اپنا نقش چھوڑتی چلی گئیں۔ سارا گردوپیش جو دولت، امارت اور نفاست کا ترجمان اور آئینہ دار تھا۔ ایک شخص کی موجودگی سے کیا سے کیا ہوگیا اور ا س مرد ِدرویش کے جلال اور اس کی شاعری کے جلو میں وہ سارا اہتمام کس درجہ سطحی اور ضمنی معلوم ہونے لگا۔
کتنی ایسی باتیں ذہن میں آئیں جن کو باضابطہ اور بامعنی تحریر کا جامہ پہنانا ناممکن ہونے لگا۔ یکایک اقبال کی ایک نظم کے نقوش تصور میں ابھرنے لگے اور بے اختیار یاد آنے لگا؛
اس کا مقام بلند اس کا خیال عظیم
اس کا سرور اس کا شوق، اس کا نیاز اس کا ناز
خاکی و نوری نہاد بندۂ مولیٰ صفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز
اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دل فریب اس کی نگہ دل نواز
نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز
نقطۂ پر کارِ حق، مردِ خدا کا یقیں
اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز
عقل کی منزل ہے وہ عشق کا حاصل ہے وہ
حلقۂ آفاق میں گرمئی محفل ہے وہ
آہ وہ مردانِ حق! وہ عربی شہ سوار
حاملِ‘‘خلقِ عظیم’’صاحبِ صدق و یقیں
جن کی حکومت سے ہے فاش یہ رمزِ غریب
سلطنتِ اہلِ دل، فقر ہے شاہی نہیں
جن کی نگاہوں نے کی تربیتِ شرق و غرب
ظلمتِ یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر
(بہ شکریہ؛ انتخاب رشیداحمد صدیقی،اترپردیش اردو اکادمی)