شموئل احمد (1943-2022) کی نہ صرف اردو ادب پر بلکہ عالمی ادب پر بھی گہری نظر تھی۔ شموئل احمد جیسا بے باک اور نڈر افسانہ نگار بننا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ افسانے اور ناول لکھے جاتے رہیں گے لیکن شموئل جیسا شاید ہی کوئی دوسرا پیدا ہو۔
کہانی شروع ہوتی ہے 7 ستمبر 2012سے جب شموئل احمد صاحب سے میری پہلی دفعہ گفتگو ہوئی تھی۔ میں نے انھیں سلام کیا لیکن کئی دنوں تک انتظار کے باوجود ان کے سلام کا جواب نہیں آیا۔پھر 15 مارچ 2013 کو انھیں فیس بک پر آن لائن دیکھ کر سلام کیا تو ان کا جواب آیا۔میں نے ان سے درخواست کی کہ آپ کا انٹرویو لینا ہے اردو دنیا کے لیے، بتائیں آپ کا قیام کہاں ہے، انھوں نے کہا کہ فی الحال پونے میں ہوں۔میں نے فوراً کہا کہ وہاں رفیق جعفر صاحب ہیں انھیں کہہ رہا ہوں وہ جاکر آپ کا انٹرویو لے لیں گے۔ وہ بولے کہ ٹھیک ہے۔ میں نے رفیق جعفر کو کہہ دیا اور وہ شموئل احمد سے ملنے پہنچ گئے اور پھر ایک شاندار انٹرویو لیا اور اردو فکشن اور اردو ادب کے ہم عصر منظرنامے پر شموئل صاحب کے تاثرات اور خیالات سے اردو والوں کو آگاہی ہوئی۔
ان دنوں وہ پونے اور پٹنہ آتے جاتے رہتے تھے کیوں کہ پٹنہ میں کسی ٹیلی فلم میں بھی کام کر رہے تھے اور اس کی شوٹنگ کے سلسلے میں پٹنہ جانا رہتا تھا۔کچھ دنوں بعد بہت خوشی خوشی مجھے فون کیا اور کہنے لگے کہ پٹنہ دوردرشن نے ایک ٹیلی فلم مرگ ترشنا بنائی ہے جس کی کہانی اسکرین پلے اور مکالمے میں نے لکھے ہیں۔ وہ مکمل ہوگئی ہے۔ ان کا انٹرویو جب چھپ کر آیا تو اردو دنیا کی کاپی دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور مجھے شکریہ کہنے کے لیے بھی فون کیا جس پر میں نے جواب دیا کہ یہ آپ کا رسالہ ہے اور اس کے صفحات پر آپ جیسے عظیم فکشن نگار کے انٹرویو سے اس کے معیار اور وقار میں اضافہ ہوا ہے۔2013 میں ہی میں فکر وتحقیق کا نیا افسانہ نمبر ترتیب دے رہا تھا، اس خصوصی نمبر کے لیے جب ان سے درخواست کی اور ان سے ایک طویل مضمون کی درخواست کی ساتھ ہی یہ بھی گزارش کہ سرکاری رسالہ ہے تو اس کی پالیسی کو نظرمیں رکھتے ہوئے ہی مضمون لکھیں گے۔
اس ضخیم اور یادگار نمبر کے لیے انھوں نے اردو افسانے کی بے وفا عورتیں کے عنوان سے ایک نایاب مضمون عنایت کیا جس کی بڑی پذیرائی ہوئی۔اس دوران ان کے تقریباً ایک درجن تنقیدی مضامین ہوگئے تھے، انھوں نے ایک دن مجھ سے کہا کہ خان صاحب میں اپنے تنقیدی مضامین کا مجموعہ شائع کرنا چاہتا ہوں۔ میرے دس بے حد اہم مضامین ہیں، کیا ان کے لیے قومی اردو کونسل سے تعاون مل سکتا ہے۔میں نے اس سلسلے میں ان کی مناسب رہنمائی کردی اور بتادیا کہ آپ مالی تعاون کے لیے یا پھر کتاب کی اشاعت کے بعد تھوک خریداری کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ ایک دن کہنے لگے کہ میں علم نجوم پر ایک مہان گرنتھ کی رچنا کرنا چاہتا ہوں کشف النجوم جو 2000صفحات پر مبنی ہوگی۔ اس پروجیکٹ کو اگر قومی اردو کونسل تعاون دے دے تو بہت بڑا کام ہوجائے گا جس پر میں نے کہا کہ کونسل کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے اور میں خود اس سلسلے میں ڈائریکٹر سے بات کروں گا۔ پھر کئی دنوں تک ان سے گفتگو نہیں ہوئی۔
اچانک جنوری 2014 کی 14 تاریخ کو ان کا پیغام آیا کہ خان صاحب آج کل آپ گھاس نہیں ڈالتے ہیں مجھے۔ جس پر میں نے جواب دیا کہ آپ کے سامنے میں طفل مکتب ہوں اور دعائیں اور نیک خواہشات مجھے آپ سے چاہیے۔ بھلا میری کیا بساط جو آپ کو نظرانداز کروں جس پر وہ کہنے لگے کہ ارے مذاق کر رہا تھا یار۔ادب میں فحاشی کے مسئلے پر بھی انھوں نے لکھا اور اطلاع دی۔چہارسو کا شموئل احمد نمبر آیا تو مجھے کہا کہ اگر ممکن ہو تو تبصرہ کردیں۔ان دنوں وہ اپنا سوانحی ناول اے دل آوارہ بھی مکمل کرچکے تھے ا ور اس کی اشاعت کے سلسلے میں پریشان تھے۔قومی اردو کونسل نے اس کے لیے مالی تعاون کو منظوری دی اور پھر یہ ناول منظر پر آیا۔
اپنا جو بھی مضمون ان دنوں وہ لکھتے تھے سب سے پہلے مجھے بھیجتے اور کہتے کہ آپ کے یہاں سے معاوضہ ملتا ہے اس لیے آپ کو ہی بھیجوں گا۔ جب میں منع کردیتا تو کہیں اور بھیج دیتے۔اردو کی چند نفسیاتی کہانیاں نامی مضمون بھی بھیجا جو اردو دنیا میں شائع ہوا۔جب بھی مجھ سے بات کرتے تو کہتے خان صاحب یا ہیلو خان۔ میں نے بھی ان کے انداز میں انھیں بڑے خان کہنا شروع کردیا۔جب بھی وہ ہیلو خان کہتے میں انھیں جواب دیتا کہ یس بڑے خان صاحب۔شموئل احمد کی نہ صرف اردو ادب پر بلکہ عالمی ادب پر بھی گہری نظر تھی۔ 100 عالمی افسانے بھی انھوں نے ترتیب دیے تھے۔یہ ہنڈریڈ گریٹیسٹ اسٹوریز آف دی ورلڈ کا اردو ترجمہ تھا۔
انھوں نے یہ بھی اطلاع دی کہ اس پروجیکٹ پر دس لاکھ کا خرچ آئے گا۔ کیا کونسل اتنا دے سکے گی۔ان دنوں شموئل صاحب مجھ سے کچھ زیادہ ہی قریب تھے، جو بھی لکھتے اس کے بارے میں بتاتے اور کئی دفعہ اپنے ذاتی معاملات بھی بتاتے۔ اپنے نواسے کے لیے ایک رشتۃ تلاش کر رہے تھے تو مجھ سے کہا کہ خان فیملی میں ایک رشتہ بتاؤ لیکن لڑکی ورکنگ ہونی چاہئے لڑکا دہلی میں انجینئر ہے۔پاکستان ادب کے آئینے میں جب لکھی تو اس کی ایک کاپی خاص طور سے مجھے بھیجی اور تیسرے چوتھے دن ان کا فون آگیا کہ کیسی لگی کتاب۔میں نے ویسے ہی گول مول جواب دیا کہ بے حد محنت سے لکھی ہے اور اچھی کتاب ہے تو اس پر بہت سخت لہجے میں کہنے لگے کہ آپ نے بھی وہی بات کردی۔ صاف کہہ دیتے کہ ابھی پڑھی نہیں ہے۔میں خاموش ہوگیا کہ اسی میں بھلائی تھی۔
بعد میں پڑھنے کے بعد میں نے انہیں اپنی رائے سے آگاہ کیا تو خوش ہوئے اور بولے کہ اب لگا کہ کتاب پڑھی ہے آپ نے۔بہار کے ایک افسانہ نگار اور ادبی صحافی کے حوالے سے ایک دن کہنے لگے کہ ایسے لوگوں کو چھیڑنے میں مزا آتا ہے۔ وہ افسانہ نگار بلبلا اٹھا ہے اور مجھے بلاک بھی کردیا ہے۔افسانہ فورم ان دنوں بہت مقبول تھا اور اس میں ایک بحث چھڑ گئی تھی جس میں کئی افسانہ نگار اور ناقدین شامل تھے۔ آخر کار اس فورم کو بند کردینا پڑا۔شموئل صاحب کا افسانہ فورم میں اہم رول تھا۔
شموئل احمد ایک سچے فنکار تھے۔ انھیں بات سے بات پیدا کرنا یا باتوں میں مزاح پیدا کرنا خوب آتا تھا۔ وہ بہت بڑے افسانہ نگار تھے لیکن ان میں کچھ عادتیں حرکتیں ایسی بچوں والی دیکھیں جو عمر کے اس مقام پر شاید ہی کوئی کرتا ہو۔بچپن میں جس طرح بھڑ کے چھتے میں بچے پتھر مارکر دور ہٹ جاتے ہیں اور دور سے بیٹھ پرکر اس راستے سے گذرنے والوں کی اچھل کود کو انجوائے کرتے ہیں۔یہی حال شموئل احمد کا تھا۔ ایک شگوفہ چھوڑدیا اور پھر تماشہ دیکھ رہے ہیں اور سب سے الگ الگ رائے لے رہے اور اپنی رائے دے رہے۔جب اے دل آوارہ مجھے بھیجی تو میں نے انھیں اپنی رائے دی کہ آپ کا بے باک لہجہ اور خوبصورت و منفرد اسلوب نے اس سوانحی ناول کو ایک الگ حسن دیا ہے۔ فاطمہ بوا کا جن، شرابی روزے دار کی داستان، جیوتشی کا انداز بیان، رانچی کی کہانی۔۔۔۔ان دنوں روزے چل رہے تھے۔جب اے دل آوارہ کے حوالے سے یہ سب بتایا تو کہنے لگے کہ رمضان میں شیطان بند رہتا ہے اور آپ رانچی گھوم رہے ہیں۔ان کا ناول اے دل آوارہ اپنی طرز کا منفرد سوانحی ناول ہے۔یوں تو یہ ان کی داستان حیات ہے لیکن اس میں خوب خوب چٹخارے دیے گئے ہیں۔
ایک دن کہنے لگے کہ آپ کا چیلا(جب کہ وہ ریٹائرڈ ادیب ہیں جن کا شموئل احمد صاحب کی کتاب پر تبصرہ چھپ چکا تھا) مجھ سے اے دل آوارہ مانگ رہا پڑھنے کو۔میں نے کہا کہ بھیج دیں تو بولے کہ جلدی ہی بھیجوں گا۔اے دل آوارہ جب پاکستان سے شائع ہوئی تو اس کی اطلاع مجھے دی، وہ وہاں اس کی اشاعت سے وہ بہت خوش تھے۔اپنی تصنیف کشف النجوم سے برج حمل پر لکھا گیا اپنا مضمون مجھے بھیجا اور اسے شائع کرنے کی درخواست کی لیکن جب تک میں اسے چھاپنے کو فائنل کرتا تب تک وہ زبان و ادب میں شائع ہوگیا۔اس دوران ان کا افسانوی سفر بھی جاری تھا اور گھر واپسی جب لکھا تو مجھے خاص طور سے پڑھنے کو کہا اور بولے بڑی دھانسو کہانی ہے ضرور پڑھیں۔2016 میں ان کا ناول گرداب جب چھپا تو اس کی دو کاپیاں مجھے بھیجیں اور یہ کہتے ہوئے پڑھنے کی تاکید کی کہ ضرور پڑھیے گا گرداب سے باہر نکلنا مشکل ہوگا۔جب میں نے پڑھنا شروع کیا اور شروع کے پچیس صفحات پڑھ لیے تو ان سے پوچھا کہ کیا ہندو اساطیر اورعلم نجوم کو شامل کرنا ضروری تھا؟کیوں کہ ناول پڑھتے ہوئے قاری بھٹک جاتا ہے، تسلسل ٹوٹ جاتا ہے اور آپ کرداروں کی زندگی دکھاتے ہوئے ستاروں کی باتیں کرنے لگتے ہیں جس پر وہ ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ کہ تسلسل نہیں ٹوٹتا بلکہ مزے میں خلل پڑ جاتا ہے۔
ان کے ناول کے مطالعے کے دوران بھی ان سے گفتگو ہوتی رہی تھی اور ناول پر بہت ساری باتیں ہوئیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ گرداب کی عورت کچھ زیادہ جلدی نہیں پگھل گئی، ساجی کا ملنا اور فلیٹ کی منظرکشی لاجواب ہے۔ میں نے جنس کی منظرکشی پر بھی سوال اٹھائے تو کہنے لگے کہ مجھے مولوی برداشت نہیں کرسکتا۔میں نے کہا کہ مولوی یا صوفی؟ تو بولے کہ صوفی تو اس ناول کو پڑھ کر خوش ہوگا کیوں کہ میں خود ایک صوفی ہوں لیکن حسین الحق جیسے مولوی میرے ناول کو پسند نہیں کریں گے۔ جب میں نے گرداب پورا پڑھ لیا تو انھیں اپنی رائے غیرجانب داری سے بھیج دی جو کچھ یوں تھی۔”جناب!گرداب پورا پڑھ لیا ہے۔ پڑھ کر ایک عجیب سی اذیت اور کرب میں گرفتار ہوں۔ آپ نے ناول کا اتنا دردناک انجام کیوں دیا، کوئی اور رخ بھی تو دے سکتے تھے،حد ہے جناب۔۔۔کہیں ایسے بھی کسی عورت کو مارا جاتا ہے۔ بھلے ہی وہ عورت آپ پر قبضہ کرنے لگی تھی حاوی ہورہی تھی، کوئی دوسرا انجام دے دیتے، میری ناقص سمجھ میں تو یہی آرہا کہ بہت بے چارگی،کرب اور تکلیف میں اس نے اپنی زندگی کو الوداع کہا اور ہاں ایک بات یہ بھی کھٹک رہی کہ کمار کے بارے میں اس کی بیٹیوں نے کبھی کوئی اعتراض کیوں نہیں کیا؟آخر یہ کیسے ممکن ہے۔کسی کو قتل کردینا محض ایک ٹیروٹ کارڈ پر منحصر کرتا ہے۔درجات کو سمجھ میں آتا ہے، منصوبہ اور شبنم بڑی ہیں تو انھیں کیسے پتہ نہیں چلا۔ کرداروں کے نام بھی آپ نے عجیب وغریب رکھے ہیں۔۔۔۔۔خیر ان باتوں کے پیچھے آپ کا اپنا جواز ہوگا۔
میرے اس تبصرے پر انھوں نے صفائی دی کہ میں خود اس کی موت سے غمگین ہوں، کمار کی بیٹیاں چھوٹی عمر کی ہیں اور اس نے اپنی بیٹیوں کو خود آزادی دے رکھی ہے۔اس کے بعد پھر اس ناول پر انھوں نے مزید گفتگو نہیں کی۔ایک دن کہنے لگے کہ گرداب پر پروفیسر قنبر علی خاں کا تبصرہ آپ کو بھیجا جائے گا۔ شاید منفی ہو لیکن مجھے اعتراض نہیں ہے کیوں کہ ضروری نہیں کہ ہر آدمی تعریف ہی کرے، گرداب کو سمجھنے کے لیے پیار، نفرت کی نفسیات کو سمجھنا ہوگا اور fetish کی نفسیات جاننی ہوگی جس سے اردو دنیا ناواقف ہے۔ کچھ دنوں بعد بتایا کہ ڈاکٹر فیاض احمد وجیہہ نے میرے ناول پر شاندار تبصرہ کیا ہے اور حقیقی معنوں میں میرے ناول کو انھوں نے ہی سمجھا ہے۔
فکر وتحقیق کے ناول نمبر کے لیے ان کے اپنے تجربات پر مبنی ایک دو صفحے کا مضمون میں نے مانگا تو فوراً بھیج دیا۔14 اکتوبر2016 کو جب میں نے انھیں 12.30 بجے آن لائن دیکھا تو میسج کیا کہ جمعہ کا دن ہے سر، کئی لوگ وضو کرنے کے بعد بھی فیس بک پر جھانک لیتے ہیں۔ اس پر انھوں نے لکھا۔تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں…
جب دوحہ عالمی ایوارڈ کا علان ہوا اور وہ قطر جانے والے تھے تو مجھ سے بولے ایک خطرناک مضمون لکھا ہے وہ جلدی ہی بھیجوں گا، ناول نگاری کا فن، ساتھ ہی ایک انٹرویو کا ذکر کیا کہ بہتControversial ہے اسے اپنے رسالے میں چھاپ دیں، جس پر میں نے انکار کردیا کہ آپ کا انٹرویو پہلے ہی چھپ چکا ہے اور اوپر سے انٹرویو کی جو خوبی آپ نے بتائی ہے تو اس کا یہاں شائع ہونا مشکل ہے۔کچھ دنوں بعد ان کا فون آیا کہ میں ناول نگاری کے فن پر ایک مضمون لکھ رہا تھا جو مکمل ہوگیا ہے لیکن میرے اس مضمون سے ذوقی اور بہار کے ایک ناول نگار کو برا لگے گا۔ مضمون پڑھنے کی ان کی تاکید پر میں نے مطالعے کے بعد اپنی رائے دی کہ۔ ذوقی صاحب کے حوالے سے لکھی باتوں سے متفق ہوں، وہ سچ میں بے جا نصیحتیں کرنے لگتے ہیں اور غیر ضروری باتوں سے ناول کے بیانیہ پر اثر پڑتا ہے اور قاری کو اکتاہٹ محسوس ہوتی ہے، یہ باتیں میں نے ان کے ناول آتش رفتہ کے سراغ پر ایک تبصراتی مضمون لکھتے ہوئے بھی کہی ہیں۔حسین الحق صاحب کو میں نے پڑھا نہیں، اس لیے اپنی رائے نہیں دے سکتا۔آپ نے جو لکھا ہے وہ اپنے مطالعے کی روشنی میں لکھا ہوگا۔ عبدالصمد صاحب پر اپنی رائے محفوظ رکھتا ہوں کہ پہلے ان کے ناول کا مطالعہ کرلوں۔غضنفر علی صاحب لکھنے میں محنت ضرور کرتے ہیں لیکن وہ ذوقی کی طرح الفاظ کا سہارا نہیں لیتے بلکہ کم سے کم الفاظ میں باتیں کہنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ کم الفاظ کچھ زیادہ ہی کم ہوجاتے ہیں اور کہانی ادھوری سی لگنے لگتی ہے۔ مانجھی میں مجھے کئی جگہ ایسا لگا جیسا آپ نے مدر ٹریسا والے اقتباس سے بتایا ہے۔کرداروں کی پیش کش اور Visualise کرنے میں جو محنت چاہئے وہ کم ناول نگاروں کے یہاں ملتی ہے۔جب میں نے یہ مضمون چھاپنے سے انکار کیا تو کہنے لگے کہ نہیں شائع کرنے کی وجہ بتائیں؟کیا وہاں بھی کسی گروپ کی لابنگ چلتی ہے۔جس پر میں نے صاف طور پر کہا کہ یہاں کسی کی لابی نہیں ہے، سرکاری رسالہ ہے اس لیے کوشش ہوتی ہے کہ کسی کی بھی دل شکنی نہ ہو۔لیکن میری اپنی رائے ہے کہ یہ مضمون یہاں نہیں چھپنا چاہئے، جس پر ان کے جواب نے ان کی عظمت میرے دل میں مزید بڑھادی۔ انھوں نے کہا کہ آپ کی رائے اچھی لگی، اسے کہیں اور بھیج دوں گا۔بعد میں اس مضمون کے زبان و ادب میں شائع ہونے کی اطلاع دی۔28 مئی 2017 کو انھوں نے اطلاع دی کہ بہت جلد آپ میری دھماکہ خیز کہانی پڑھیں گے لنگی۔ 8 جون 2017 کو جب یہ قصہ منظرعام پر آیا تومیں نے انھیں لکھا کہ تو یہی تھا آپ کا دھماکہ، دھماکہ تو آپ نے واقعی کردیا، بس ذرا چوک ہوگئی، نام، کردار بدل دیتے، کہانی کو اور بڑھاتے، کچھ کمی رہ گئی، موضوع تو صحیح ہے، کالج اور یونیورسٹیوں میں ایسے واقعات ہورہے ہیں لیکن آپ نے تھوڑی جلد بازی کردی،کہانی کو مزید بہتر بنایا جاسکتا تھا اور کہانی کو کہانی رہنے دیتے یوں گندہ نہ کرتے۔میری رائے پر انھوں نے ایک لفظ لکھا، ”گریٹ“۔
لنگی کی اشاعت کے بعد ایک طوفان آگیا اور پٹنہ کے خواتین سمینار کے دوران ان کے ساتھ بدتمیزی کی گئی اور انھیں چوٹ بھی آئی، جس پر میں نے انھیں لکھا کہ لنگی سے مجھے بھی اختلاف ہے لیکن ادب میں اس طرح کی مارپیٹ…کس منہ سے کہیں کہ ہم اردو ادب والے ہیں، اس طرح کے پروگرام میں یہ سب ہونا بہار اور اردو والوں کے لیے شرم کی بات ہے بہت افسوس ہوا۔ان کا افسانہ لنگی بدنام زمانہ ثابت ہوا اور اس پر مختلف مضامین اور تبصرے کیے گئے۔ادب کے لنگی عناصر جیسے مضامین بھی لکھے گئے، شموئل احمد پر حملے کی مذمت بھی کی گئی،شموئل احمد کچھ دن تو خاموش رہے لیکن پھر وہی سب۔۔۔اس انسان پر کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ اپنے افسانوں میں، کہانیوں میں اس طرح کے موضوعات پر لکھتے رہے، ابھی حال ہی میں انھوں نے پروفیسر کا حرم جیسی کہانی لکھی تھی جسے لنگی کا پارٹ ٹو کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس افسانے کو اردو قاری کی بڑی تعداد جب تک پڑھتی تب تک کہانی کا خالق ہی ابدی نیند سوگیا اور اب شاید ہی کوئی ایسا نڈر اور بے خوف افسانہ نگار ہو جو ایسے موضوعات پر اتنا کھل کر لکھے گا۔
شموئل احمد اردو فکشن کے لیجنڈ ہیں، انھوں نے اپنے افسانوں اور ناولوں سے اردو ادب کے دامن میں بیش بہا اضافہ کیا ہے۔ وہ ساری زندگی اپنی شرطوں پر جیے کبھی کسی سے نہیں ڈرے، جو لکھنا چاہا، جس پر لکھنا چاہا بلا خوف لکھا، ان کے آخری دنوں میں لکھے گئے لنگی اور پروفیسر کا حرم جیسے افسانوں سے شدید اختلاف کے باوجود اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شموئل احمد اردو فکشن کا درخشاں ستارہ تھے جس کے غروب ہونے سے اردو افسانے کا میدان سونا سونا ہوگیا۔ شموئل کو دنیا جہان کے علوم سے واقفیت تھی اور انھوں نے اپنے افسانوں، ناولوں میں بھی اسے برتا ہے۔ علم نجوم پر تو خاصی دسترس رکھتے تھے۔ خواتین سے متعلق موضوعات پر لکھنے اور گفتگو کرنے میں انھیں مہارت حاصل تھی۔ انسانی نفسیات اور اس کی پیچیدگیوں کو افسانوں میں بہت کامیابی سے پیش کیا ہے۔ جنس اور رومان بھی ان کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔سنگھاردان، القمبوس کی گردن، آنگن کا پیڑ، چھگمانس،عنکبوت، گھر واپسی، اونٹ، مصری کی ڈلی، بگولے جیسے افسانوں کی بدولت وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ان کے ناول ندی، گرداب، مہاماری، اے دل آوارہ اور چمراسر وغیرہ نے انھیں بطور ناول نگار ایک مستحکم شناخت عطا کی۔ پاکستانی ادب اور ہندی ادب پر بھی گہری نظر تھی۔بہار کے منظرنامے پر دیکھیں تو ادھر دو تین برسوں میں اردو فکشن کے کئی لعل و گہر ہم سے بچھڑ گئے۔ شوکت حیات، شفیع جاوید، مشرف عالم ذوقی،تبسم فاطمہ،مناظر عاشق ہرگانوی،حسین الحق اور شموئل احمد۔ ان سب کا دنیا سے چلے جانا بہت افسوسناک ہے اور ان کے جانے سے اردو فکشن کا بڑا نقصان ہوا ہے۔شموئل احمد جیسا بے باک اور نڈر افسانہ نگار بننا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ افسانے اور ناول لکھے جاتے رہیں گے لیکن شموئل جیسا شاید ہی کوئی دوسرا پیدا ہو۔