اگست 2017 میں نیتی آیوگ سے استعفیٰ دینے والے اروند پن گڑھیا نے کہا کہ آپ آر سی ای پی سے باہر نہیں رہ سکتے ہیں کیونکہ اس کا مطلب ہوگا کہ ہم جو بھی ان 15 ممالک کے بازاروں میں برآمد کریںگے ان پر بھاری فیس لگےگی۔ وہیں، وہ بنا کسی روک-ٹوککے اپنا سامان برآمد کریںگے۔ اس سے ہمارے برآمد کنندگان کو بہت نقصان ہوگا۔
نئی دہلی: ریجنل کمپریہنسواکانومک پارٹنر شب (آر سی ای پی) کو ہندوستان کے مفاد میں بتاتے ہوئے نیتی آیوگ کے سابق وائس چیئرمین اروند پن گڑھیا نے کہا کہ آر سی ای پی پر 15 ممالک نے دستخط کئے ہیں اور ہم باہر رہ گئے ہیں، اس سے کوئی ملٹی نیشنل کمپنی ہندوستان نہیں آئےگی۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، پن گڑھیا نے کہا، ‘ ہندوستان کے لئے ملک میں سرمایہ کار کے طور پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کو لانے کا بہت اچھا وقت ہے اور اگر ان کے پاس بڑے ایشیائی بازاروں میں بغیر فیس کے پہنچ ہے، تو یہ ان کے لئے ہندوستان میں خود کو قائم کرنے کے لئے ایک اورطرح کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ اگر آر سی ای پی پر دیگر 15 ممالک دستخط کرتے ہیں اور ہم باہر بیٹھے ہیں، تو کوئی بھی ملٹی نیشنل کمپنی یہاں نہیں آنا چاہےگی۔ ‘
آر سی ای پی میں دس ASEAN(دی ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشنس) ممالک اور ان کے چھ آزاد کاروبار شراکت دار چین، ہندوستان، جاپان، ساؤتھ کوریا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔ اے سی ای اے این رہنماؤں اور چھ دیگر ممالک نے نومبر، 2012 میں 21ویں ASEAN چوٹی کانفرنس کے دوران آر سی ای پی مذاکرہ کی شروعات کی تھی۔ حالانکہ، مختلف ممالک کے درمیان اختلافات کی وجہ سے اندازہ سے کہیں زیادہ وقت لگ گیا۔
آر سی ای پی مذاکرہ کو شروع کرنے کا مقصد ایک جدید، وسیع، اعلیٰ معیار والا اور آپسی فائدےمند اقتصادی قرار کرنا تھا۔ پن گڑھیا کا بیان ہندوستان کے ذریعے آر سی ای پی میں شامل نہیں ہونے کے اعلان کے بمشکل ایک ہفتہ بعد آیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ یہ سمجھوتہ اس کے اصل ارادے کو نہیں دکھاتا ہے اور ہندوستان کے بڑے خدشات کو دور نہیں کرتا ہے۔
اگست 2017 میں نیتی آیوگ چھوڑنے والے پن گڑھیا نے کہا، ‘ وزیر اعظم نریندر مودی نے ان میں سے کئی وجہوں کو بتایا کیونکہ وہ بہتر شرطیں چاہتے تھے ۔کچھ چھوٹ جو وہ چاہتے تھے، وہ آفر نہیں کی گئیں، اس لئے انہوں نے اس سے باہر رہنے کا فیصلہ لیا۔ میرا سمجھنا ہے کہ یہ آخری بات نہیں ہے، اس میں آگے اور بات چیت ہوگی۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘ میرا ماننا ہے کہ یہ ہندوستان کے مفاد میں ہے اور مجھے لگتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اس کو سمجھتے ہیں۔ حالانکہ، ہندوستان جن کچھ چھوٹ کی مانگکر رہا تھا وہ نہیں مل پائیں۔ یہ بہت بڑا بازار ہے، آپ کے پاس تین ارب لوگ ہیں، اس میں دنیا کی جی ڈی پی کا 20 فیصد آتا ہے اس لئے آپ اس سے باہر نہیں رہ سکتے ہیں کیونکہ اس کا مطلب ہوگا کہ ہم جو بھی ان بازاروں میں برآمد کریںگے ان پر بھاری ٹیکس لگےگا، جہاں پر پہلے سے ہی 15 ممبر ہیں۔ وہیں، وہ بنا کسی روک-ٹوککے اپنا سامان برآمد کریںگے۔ اس سے ہمارے برآمد کنندگان کو بہت نقصان ہوگا۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘ آخرکار، ہندوستانی صنعت کو عالمی بازار سے مقابلہ کرنا ہے۔ ورنہ ،ہم باہر رہ جائیں گے۔ مجھے امید ہے کہ وزیراعظم اس کو دیکھیں گے۔’