نوٹ بندی اور جی ایس ٹی لائے جانے کے دو سال بعد مرکزی حکومت نے مائیکرو، چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں پر ان دونوں کے اثرات کے بارے میں پارلیامنٹ کو گمراہ کیا ۔ سرکار کی یقین دہانیوں سے متعلق پارلیامانی کمیٹی نے گمراہ کن بیانات اور مکمل سچ نہ بتانے کے لیے سرکار کی سرزنش کی تھی اور دونوں فیصلوں سے ہوئے نقصان کا فیکٹ چیک بھی کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: کیسے اڈانی کے مبینہ گھوٹالوں کی تحقیقات کے سلسلے میں پارلیامنٹ میں کیے گئے وعدوں سے مکرنا سرکار کا شیوہ ہے
میٹنگ کے منٹس کے مطابق ، آر بی آئی نے کمیٹی کو بتایا کہ ‘یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ جس اثر کا رکن ( کانگریس ایم پی سیم ، جنہوں نے ایم ایس ایم ای پر منفی اثرات کے بارے میں پوچھا تھا) نے اپنے سوال میں ذکر کیا ہے، وہ ڈیمونیٹائزیشن کی وجہ سے تھا یا نہیں ؟‘ اگلے ہی جملے میں آر بی آئی حکام نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس ثبوت ہیں کہ ایم ایس ایم ای کمپنیاں متاثر نہیں ہوئی ہیں۔ میٹنگ کے منٹس کے مطابق ، آر بی آئی نے کہا کہ ‘ ڈیٹا پورے ملک میں اچھی ترقی کو ظاہر کرتا ہے ، اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ نوٹ بندی نے ایم ایس ایم ای پر منفی اثر ڈالا ہے ۔’ آر بی آئی کا یہ بیان بینک کے ہی عہدیداروں کی جانب سے ایک سال قبل اگست 2018 میں شائع ہونے والے ایک پیپر میں کہی گئی بات سے متضاد تھا ۔ اس پیپر میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھاکہ ‘نوٹ بندی کی وجہ سے ایم ایس ایم ای سیکٹر کے پہلے سے ہی سست رفتار کریڈیٹ گروتھ میں اور گراوٹ آئی ۔’ یہاں کریڈٹ گروتھ سے مراد وہ رقم ہے جو بینکوں کی طرف سے کاروباری اداروں کو دی جاتی ہے۔ کریڈٹ کی اعلیٰ سطح کو اقتصادی ماہرین صحت مند معیشت کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ چونکہ یہ دکھاتا ہے کہ کمپنیوں کے پاس سرمایہ کاری اور اپنے کاروبار کو بڑھانے کی صلاحیت اور رجحان زیادہ ہے۔ کریڈٹ میں گراوٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ کمپنیاں بینکوں سے قرض لینے میں احتیاط سے کام لے رہی ہیں۔ سود کے ساتھ قرض کی ادائیگی کے لیے زیادہ کمائی کرنے کی ان کی صلاحیت کے بارے میں خدشات سے یہ خوف پیدا ہوتا ہے۔ آر بی آئی کے پیپر میں بتایا گیا تھا کہ نوٹ بندی کے بعد کے چار مہینوں کے دوران ( پچھلے سال کے مقابلے ) ایم ایس ایم ای کریڈٹ گروتھ منفی تھی ۔ ایم ایس ایم ای سیکٹر کو حال ہی میں دو بڑے جھٹکے لگے ہیں؛ نوٹ بندی اور گڈز اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) ۔ مثال کے طور پر ، ٹیکسٹائل- ملبوسات اور جواہرات – جیولری دونوں سیکٹر میں کانٹریکٹ ورکرز کو مبینہ طور پر نقصان کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ کمپنیوں نے ڈیمونیٹائزیشن کے بعد پیسہ دینا کم کر دیا ،’ پیپر میں کہا گیا۔ بلاشبہ ، ہمیشہ کی طرح آر بی آئی نے اس پیپر کو ایک نوٹ کے ساتھ شائع کیا کہ یہ مصنفین کے خیالات ہیں نہ کہ سینٹرل بینک کے۔اس ترکیب کا استعمال آر بی آئی اور کئی دوسرے ادارے اکثر کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے، وہ اہم تحقیقی نتائج کو شیئر کر سکتے ہیں ، اور ان نتائج سے پیدا ہونے والے کسی بھی سیاسی طوفان سے بچ کر نکل سکتے ہیں۔ اس پیپر کے شائع ہونے کے ایک سال بعد ، آر بی آئی کے اہلکار اب پارلیامانی کمیٹی کے سامنے ایم ایس ایم ای سیکٹر کے مسائل کو نوٹ بندی سے الگ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ تاہم، دلچسپ بات یہ ہے کہ آر بی آئی کے جواب میں ایم ایس ایم ای پر جی ایس ٹی کے اثرات کا کوئی ذکر نہیں تھا ، لیکن مذکورہ پیپر میں اس کے بارے میں یقینی طو رپر بات کی گئی تھی۔پیپر میں، آر بی آئی کے حکام نے پایا تھا کہ جی ایس ٹی کے نفاذ سے کئی مہینوں تک اس طرح کے کاروبار کی برآمدات میں کمی واقع ہوئی۔ ملک کی برآمدات میں ایم ایس ایم ای کی حصے داری 40 فیصد ہے۔ پارلیامانی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے والے آر بی آئی اہلکار نے ان تجاویز کو مسترد کر دیا کہ نوٹ بندی کا ایم ایس ایم ای پر منفی اثر پڑا ہے۔ اسی طرح ، کمیٹی کو اپنے جواب میں، پبلک سیکٹر بینکوں کے نمائندوں نے کسی بھی مستقل نقصان کے الزامات کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے ان فیصلوں سے پیدا ہونے والی مشکلات کو ‘عارضی’ قرار دیا ، اور اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے مارچ 2018 تک ایم ایس ایم ای کمپنیوں کے کریڈٹ گروتھ میں ‘ریکوری’ کی طرف اشارہ کیا ۔ حالانکہ یہ بات درست تھی، لیکن حکومت تصویر کا ایک ہی رخ دکھا رہی تھی۔ ایم ایس ایم ای کمپنیوں کے نان پرفارمنگ اثاثوں ( این پی اے ) کی شرح میں اضافہ ہوگیا تھا۔ این پی اے ایسے قرضوں کو کہا جاتا ہے جن کی ادائیگی ممکن نہ ہو۔ اگست 2018 کے آر بی آئی کے پیپر میں کہا گیا ہے کہ ‘ نجی اور پبلک سیکٹر دونوں بینکوں کے ایم ایس ایم ای سیکٹر سے متعلق این پی اے وقت کے ساتھ بڑھے ہیں ۔’ کریڈٹ انفارمیشن ایجنسی ٹرانس یونین سیبل کا ایم ایس ایم ای اسٹرینتھ انڈیکس مارچ 2018 کی بیس لائن کی بنیاد پر اس شعبے کی صحت کی پیمائش کرتا ہے ۔ اس کے مطابق، اس شعبے کی صحت دسمبر 2019 تک مسلسل گرتی رہی۔ مارچ 2020 میں کووڈ 19 وبا کی آمد کے ساتھ ایم ایس ایم ای سیکٹر کو ایک اور شدید دھچکا لگا ۔ مائیکرو ،ا سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز (ایم ایس ایم ای) کی وزارت کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ انہوں نے بھی اس سیکٹر پر نوٹ بندی کے اثرات کا اندازہ نہیں لگایا ہے۔ تاہم ، وزارت نے ایم ایس ایم ای ایسوسی ایشنز کے ساتھ اپنی میٹنگوں کا ذکر کیا ، جس میں نوٹ بندی کی مبینہ طور پر تعریف کی گئی تھی ۔ وزارت کے اہلکار کے مطابق ‘ ان تنظیموں نے نوٹ بندی کا خیر مقدم کیا تھا ۔’ سرکاری اعلانات کو قبول کرنے میں احتیاط برتتے ہوئے یقین دہانی کمیٹی نے اس دعوے کا فیکٹ چیک کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ان کا ردعمل جاننے کے لیے تمل ناڈو اور کیرالہ میں چھ مختلف ایم ایس ایم ای ایسوسی ایشنز سے ملاقات کی۔
یہ بھی پڑھیں: خفیہ ایجنسیوں کے مشورے پر مرکزی حکومت نے رائٹ ٹو پرائیویسی بل کو تار تار کر دیا
کیرالہ ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ ایسوسی ایشن کے سربراہ نے کمیٹی کو بتایا ، ‘ کساد بازاری کی وجہ سے ہزاروں ہوٹل بند ہو گئے ۔‘ دریں اثنا ، تمل ناڈو کے سیلم واقع مبنی ایم ایس ایم ای ایسوسی ایشن نے کہا کہ چھوٹے کاروباری اداروں کے پاس پیسے کی اتنی کمی ہوگئی ہے کہ ان کے لیے اپنی ای ایم آئی یا ماہانہ قسطیں ادا کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ مدورائی کی ایک ایسوسی ایشن نے کہا کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے بعد برآمدات میں بھی کمی آئی ہے۔ یہ حقیقت 2018 کے آر بی آئی پیپر میں بھی سامنے آئی تھی ۔ اسی طرح ، رائس مل اور لکڑی کے مینوفیکچررز نے نوٹ بندی کے بعد آمدنی میں زبردست کمی کے بارے میں بتایا۔ کمیٹی نے آر بی آئی کے امید افزا نقطہ نظر اور ایم ایس ایم ای کمپنیوں کے تجربات کے درمیان تضادات کو اجاگر کیا۔ میٹنگ کے منٹس کے مطابق ، کمیٹی نے کہا ، ‘ ایم ایس ایم ای سیکٹر کے نمائندوں نے اس کے سامنے پیش ہوکر کہا کہ وہ نوٹ بندی سے حقیقی طور پر متاثر ہوئے ہیں ۔’ ڈیڈ لائن میں کئی بار توسیع کے بعد، یقین دہانی کو بالآخر مکمل طور پر نافذ سمجھا گیا۔ تاہم،کمیٹی کو دی گئی مخصوص معلومات کی وجہ سے یہ نتیجہ اخذ ہوا،یہ پتہ نہیں لگایا جا سکتا ۔ پارلیامنٹ میں وزارت خزانہ اور ایم ایس ایم ای وزارت دونوں کو معیشت ، خاص طور پر چھوٹے پیمانے کی صنعتوں پر نوٹ بندی کے اثرات کے حوالے سے مزید سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ حال ہی میں ، اگست 2023 میں ، دونوں وزارتوں نے واضح کیا کہ ان میں سے کوئی بھی معیشت یا ایم ایس ایم ای پر نوٹ بندی کے اثرات کا اندازہ نہیں لگا رہا ہے۔ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی انڈیا ریٹنگز اینڈ ریسرچ کے ایک سروے میں پتہ چلا ہے کہ 2015-16 اور 2022-23 کے درمیان 63 لاکھ ایم ایس ایم ای کمپنیاں بند ہوئیں ، جس کے نتیجے میں ملک بھر میں 1.3 کروڑ نوکریاں چلی گئیں۔ ایجنسی نے اس تباہی کے لیے نوٹ بندی ، جی ایس ٹی اور کووڈ 19 کی وبا کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے ۔ یہ وعدے بھی پورے نہیں ہوئے مالی سال کی ری شیڈولنگ اپنی پہلی مدت کے آغاز میں وزیر اعظم نریندر مودی نے وزارت خزانہ سے ہندوستان کے مالیاتی کیلنڈر کا جائزہ لینے اور اس کا دوبارہ تصور کرنےکوکہا تھا۔ یہ بی جے پی حکومت کی طرف سے مبینہ طور پر ہندوستانی حکومت کو ‘ ڈی کالونائز ‘(نوآبادیاتی جبر سے آزاد) کرنے کی ایک اور کوشش تھی۔ کیلنڈر سال کے برعکس، مالی سال کا استعمال بجٹ ، اکاؤنٹنگ اور ٹیکس وغیرہ کے لیےکیا جاتا ہے۔ یونین بجٹ آپ کو بتاتا ہے کہ حکومت آئندہ مالی سال کے آخر تک کتنا خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اسی طرح ، کاروباری اداروں کو اسی وقت تک اپنے سالانہ مالیاتی گوشوارے جمع کروانے ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم کی تجویز یہ تھی کہ مالیاتی کیلنڈر کو بھی جنوری سے دسمبر کرنے یا اکتوبر نومبر کے دوران دیوالی سے شروع ہونے پرغور کیا جائے ۔ اس وقت مالی سال اپریل سے شروع ہوتا ہے۔ ان کی تجویز کے بعد، وزارت نے فوری طور پر جولائی 2016 میں ایک ماہرین پر مشتمل ایک پینل تشکیل دیا ۔ اس پینل کو ملک کے ٹیکس نظام ، کاشتکاری کے موسم اور یونین بجٹ سے متعلق امور وغیرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے مالی سال کا تعین کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔ سات اپریل ، 2017 کو ، اس وقت کے بی جے پی ایم پی ابھیشیک سنگھ نے وزارت سے پوچھا، ‘زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک سے الگ، مالی سال اپریل — مارچ کے دوران ہونے سے جو تکلیف ہوتی ہے، کیا وہ اس سے واقف ہیں ؟ ‘ سنگھ نے یہ بھی پوچھا کہ کیا حکومت مالی سال کو بڑھانے پر غور کرے گی۔ اس وقت کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے ایوان کو بتایا کہ یہ بہت سے لوگوں کی تجویز ہے ، اور یہ جاننے کے لیے 2016 میں ایک پینل تشکیل دیا گیا تھا کہ یہ کتنا عملی ہوگا ۔ انہوں نے پارلیامنٹ کو کمیٹی کی تجاویز کے بارے میں نہیں بتایا۔ لیکن ان کے جواب نے ایک بحث چھیڑ دی۔ اس وقت کے کانگریس ایم پی کمل ناتھ نے حکومت سے کہا کہ وہ اس ماہر پینل کے نتائج کو شیئر کرے۔ وہ یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ حکومت حتمی فیصلہ کب لے گی۔ جواب میں جیٹلی نے اس معاملے کو ٹال دیا۔ انہوں نے ایوان کو بتایا کہ اس کے لیے’انتہائی وسیع مشاورت اور سوچ بچار کی ضرورت ہے ۔’ انہوں نے کہا کہ حکومت اپنا ذہن بنا رہی ہے اور فیصلہ لینے کے بعد پینل کی سفارشات جاری کی جائیں گی۔ دوسرے لفظوں میں ، ان کا مطلب یہ تھا کہ ماہرین کے پینل کی رپورٹ کو اس کے بعد پبلک کیا جائے گا جب حکومت یہ فیصلہ کرے گی کہ آیا اس کی سفارشات کو اپنانا ہے یا نہیں۔