کوروناوائرس : دو مہینے سے پوری دنیا میں کو رونا کو لےکر دہشت کا ماحول ہے۔ سرکاریں دن رات جاگ رہی ہیں لیکن اس کے بعد بھی بہار میں اس کی تیاری کا عالم یہ ہے کہ مریض ہاسپٹل میں مر گیا۔ اس کی لاش لےکر گھر کے لوگ چلے گئے اور اس کے کئی گھنٹے بعد پٹنہ میں بتایا جاتا ہے کہ جو مرا ہے اس کی رپورٹ کو رونا پازیٹو ہے۔ بہار کے چیف سکریٹری نے ہی بولا ہے کہ اس مریض کے مر جانے کے بعد جانچ رپورٹ آئی ہے۔
علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی
پٹنہ میں کو رونا سے متاثر مریض کی موت ہو گئی ہے۔ یہ موت بتا رہی ہے کہ کو رونا وائرس کو لےکر یہ ریاست کس طرح سے تیار نہیں تھی۔ یہ وقت کسی رہنماکے لیے عوام الناس بنانے کا نہیں ہے بلکہ تیاریوں کو لےکر سخت سوال کرنے کا ہے۔ ہم ایک شہری سماج کے طور پر یہ کام نہیں کر رہے ہیں۔ یہ کام تو ویسے دو مہینے پہلے سے کرنا چاہیے تھا۔ خیر آپ لوگوں نے جو فیصلہ کیا ہوگا وہ سوچ سمجھ کر ہی کیا ہوگا لیکن کیا اس فیصلے پر پہنچنے سے پہلے آپ نے تیاریوں سے متعلق سارے حقائق دیکھ لیے تھے، ان کی جانچ کر لی تھی؟
دو مہینے سے پوری دنیا میں کو رونا کو لےکر دہشت کا ماحول ہے۔ سرکاریں دن رات جاگ رہی ہیں لیکن اس کے بعد بھی بہار میں اس کی تیاری کا عالم یہ ہے کہ مریض ہاسپٹل میں مر گیا۔ اس کی لاش لےکر گھر کے لوگ چلے گئے اور اس کے کئی گھنٹے بعد پٹنہ میں بتایا جاتا ہے کہ جو مرا ہے اس کی رپورٹ کو رونا پازیٹو ہے۔ بہار کے چیف سکریٹری نے ہی بولا ہے کہ اس مریض کے مر جانے کے بعد جانچ رپورٹ آئی ہے۔
آپ سوچیے۔ مریض کی موت ہو گئی ہے۔ اس کےگھر کے لوگ لاش لےکر چلے گئے ہیں۔ انہیں پتہ نہیں ہے کہ پازیٹو ہے۔لاش کو گھر میں رکھا گیا ہوگا۔ اس کے دفن کرنے میں کچھ لوگ بھی شامل ہوئے ہوں گے۔ مریض بہار کے مونگیر ضلع کا ہے۔ جب پٹنہ میں تیاری دکھاوے کی ہے تو مونگیر میں کیا ہوگا۔ کس طرح سسٹم کی سستی نے عام شہریوں کی جان خطرے میں ڈالی ہے۔
یہی نہیں یہ آدمی قطر سے آیا تھا۔ پٹنہ ایئرپورٹ پر اس کی جانچ ہوئی تھی۔ اس کو جانے کے لیے کہہ دیا گیا۔ کچھ صحافیوں نے بتایا کہ یہ منوگیر گیا۔ وہاں کڈنی میں تکلیف ہوئی تو بس سے پٹنہ کے ایمس ہاسپٹل پہنچا ہے۔سفر کے دوران اس بس میں سوار کتنے مسافروں کوانفیکشن کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے اس کا اندازہ آپ نہیں کر سکتے ہیں۔ یہ پتہ چل رہا ہے کہ ایئرپورٹ پر اسکریننگ کے نام پر دراصل کیا ہو رہا تھا۔ کیا یہی تیاری تھی بہار کی کہ کوئی انفیکشن لیے اتنی آسانی سے نکل گیا؟
گزشتہ 20 مارچ کے ٹائمس آف انڈیا میں رپورٹ کیا گیا ہے کہ پٹنہ کے Rajendra Memoria Research Institute of Medical Sciences RMRI میں ٹیسٹ ہوگا۔ اور دربھنگہ میڈیکل کالج کو ٹیسٹ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ کسی کو نہیں معلوم کہ ایک دن میں کتنے سیمپل ٹیسٹ ہو سکتے ہیں۔ یہ سوال بہت ضروری ہے۔ لوگوں سے پوچھنے پر پتہ چل رہا ہے کہ ایک دن میں 60-70 سیمپل کی ہی جانچ ہو سکتی ہے۔ یہ حالت ہے بہار کی۔ کیا ایسے ہم کو رونا وائرس سے لڑیں گے؟
بہار کی آبادی تقریباً11 کروڑ ہے۔ کیا آپ تھالی بجانے سے پہلے یہ نہیں جاننا چاہیں گے کہ یہاں پر ممکنہ مریضوں کے لیے کتنے بیڈ کا انتظام کیا گیا ہے؟ 20 مارچ کو ٹائمس آف انڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ پورے بہار میں آئسولیشن کے لیے محض 356 بیڈ کا انتظام کیا گیا ہے۔ صرف 356۔ سرکار پٹنہ کے دو سرکاری اسپتال میں سو بیڈ کا انتظام اور کرنے والی ہے۔ اس میں سے بھی پٹنہ میں 100 بیڈ ہی ہیں۔ پی ایم سی ایچ میں 60 اور نالندہ میڈیکل کالج میں 40۔ باقی بہار کے 250 بیڈ؟
یہی نہیں ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق پورے بہار میں 274 آئی سی یو وارڈنشان زد کیے گئے ہیں۔نشان زد سرکاری لفظ ہے۔ سرکار نے یہ نہیں کہا ہے کہ الگ سے 274 وینٹی لیٹر کا انتظام کیا گیا ہے۔ کیا جو پہلے سے آئی سی یو ہیں انہیں کونشان زد کے اعدادوشمار میں شامل کیا گیا ہے؟نشان زد کرنے کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ اگر موجودہ آئی سی یو کو گن لیں گے تو کیا ان کے گمبھیر مریض کو نکال کر باہر کر دیا جائےگا، کیا یہ ہو سکتا ہے؟ اگر یہ پورے بہار کے سرکاری اسپتالوں میں آئی سی یو وارڈ کااعدادوشمار ہے تو آپ تھالی بجانے کے بجائے سوال کریں۔ سوچیں کہ عام دنوں میں بہار کے مریضوں کا کیا حال ہوتا ہوگا۔ 11 کروڑ کی آبادی میں صرف 274 آئی سی یو؟
کیا آپ بغیر وینٹی لیٹر کے علاج کروا لیں گے؟ کیا تھالی بجوانے والوں نے آپ کو بتایا اور آپ نے پوچھا کہ سانس میں تکلیف ہوگی تو وینٹی لیٹر کہاں سے آئےگا، آیا ہے یا نہیں آیا ہے؟
بہار کےوزیر اعلیٰ اوروزیر صحت اگر ہیں تو بتا دیں کہ پی ایم سی ایچ اور نالندہ میڈیکل کالج میں جو 100 وارڈ بنے ہیں ان کے ساتھ کتنے آئی سی یو اٹیچ کئے گئے ہیں؟ پی ایم سی ایچ میں دو آئی سی یو ہیں۔ ایک آئی سی یو میں کوئی دس پندرہ بیج ہوں گے۔ زیادہ سے زیادہ دونوں ملاکر تیس چالیس بھی نہیں ہو ں گے۔ کیا یہ ہماری تیاری ہے؟
ایک شہری کے طور پر آپ سے بھی سوال ہے، کیا آپ نے اس کی جانکاری لی تھی کہ کیا تیاری ہے یا تھالی خریدنے چلے گئے تھے؟
گھر میں نمک نہیں ہوگا تو کوئی تو کہے گا کہ نمک نہیں ہے۔ نمک لانا ہے۔ میں وہی کر رہا ہوں۔ نمک نہیں ہے یہ بتانا نگیٹو ہونا نہیں ہے۔ آپ دیکھیے اپنی آنکھوں سے۔ آج اگر جنتا کرفیو ہے تو پھر پولیس کیوں لاٹھی سے لوگوں کو مار کر بھگا رہی ہے۔ جب آپ نے عوام پر چھوڑا ہے تو ایک بار آزما لیتے، اس میں پولس اور ڈی ایم کیا کر رہے ہیں۔
یاد رکھیے ہم سبھی زندگی اور موت کی ایک ہی ناؤ پر سوار ہیں۔
(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پر شائع ہوا ہے۔)