جواہر لعل نہر و نے کہا تھا کہ -اگر کوئی شخص مذہب کی بنیاد پر دوسروں کو نشانہ بنانے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو میں ملک کا سربراہ ہونے کے ناطے یا عام آدمی کی حیثیت سے اپنی آخری سانس تک اس سے لڑوں گا۔
یہ بھی پڑھیں : جواہر لعل نہرو کا پیغام، اپنے دوستوں اور نکتہ چینوں کے نام
نہرو اکثر صنفی مساوات کی بابت بھی بولا کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ‘ہندوستانی خواتین کی ترقی بہت ضروری ہے، کیونکہ قانونی اور روایتی دونوں طور پر ملک میں ان کی حالت بہت خراب ہے۔ میرا ماننا ہے کہ ایک ملک کی حالت کا اندازہ وہاں کی عورتوں سے لگایا جا سکتا ہے۔’ اس میں وہ جوڑتے ہیں کہ ‘ملک میں مردوں کا دبدبہ ابھی بھی بہت زیادہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ ملک کے قوانین اور روایتیں عورتوں کو دباتے ہیں اور انہیں آگے نہیں بڑھنے دیتے۔ یہ بہت غلط ہے اور اسے ختم کیا جانا چاہیے۔ قوانین میں تبدیلی کے ذریعے یہ کیا جا سکتا ہے۔’ صنفی مساوات کے سلسلے میں نہرو سرکار کے ذریعے کی جانے والی اصلاحات کو ‘سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، کہ ان کے ذریعے ہندو دھرم کو ختم کیا جا رہا ہے۔’ جبکہ نہرو کے خیال میں یہ اصلاحات دراصل ‘ہندو دھرم کو ختم کرنے کے بجائے اس کی خاص خدمت کریں گی، جس سے ترقی ہوگی، نہیں تو ہندو سماج کمزور ہو جائے گا…’ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور صنفی مساوات پرا دھیان دینے کے ساتھ نہرو اپنے ساتھیوں سے ایک ایسا معاشرہ بنانے کی بات بھی کہتے تھے، جس میں سب ایک دوسرے کا بے حد خیال رکھنے والے ہوں۔ وہ ابراہم لنکن کی ‘ہمارے دور کے خوبصورت فرشتے’ والی بات کو زندہ کر دینا چاہتے تھے۔ ایک تقریر میں نہرو نے کہا کہ ‘دوسری پارٹیوں کی بات میں صرف اصولی بنیاد پر کرتا ہوں۔ میں ان (کے لیڈران) کی ذاتیات پر بات نہیں کرتا۔’ جبکہ حزب مخالف کے لیڈران اکثر ان پر ذاتی حملے کرتے، لیکن نہرو کو اس سے فرق نہیں پڑتا تھا۔ انہوں نے کہا بھی کہ ‘میں اپنی ذمہ داری سے بھاگنا نہیں چاہتا۔ یہ حقیقت ہے کہ میں خود سے ہر کام نہیں کر سکتا۔ ہزاروں ہاتھ کام میں لگے ہیں۔ لیکن آخرکار ذمہ داری میری بنتی ہے۔ جب آپ نے مجھے ایک کار عظیم سونپا ہے، تب میں پردے کے پیچھے کیسے چھپ سکتا یا اس کا انکار کیسے کر سکتا ہوں؟ ملک میں سرکار نے اچھا یا برا جو بھی کیا ہو، میں اس سب کی ذمہ داری لینے کو تیار ہوں…’ نہرو چاہتے تو سرکار کی ناکامیوں کے لیے دو سو سالہ عہد غلامی کو، پڑوسیوں کی بدنیتی کو بآسانی ذمہ دار ٹھہرا سکتے تھے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ایک اور اہم بات یہ کہ نہرو ووٹرس کو ان کے مخالفین کی باتیں بھی سننے کی صلاح دیتے تھے۔ جب انہیں پتہ چلا کہ ان کے بعد سماجوادی لیڈر جے پرکاش نرائن پنجاب کا دورہ کرنے والے ہیں، تو انہوں نے اپنے سامعین سے کہا: ‘میں صلاح دیتا ہوں کہ جائیں اور انہیں سنیں۔ کچھ باتوں پر میرا ان سے بھلے اتفاق نہ ہو، لیکن بحیثیت مجموعی وہ ایک عمدہ انسان ہیں…آپ کو سب کی باتیں سن کر سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے، اس کے بعد کوئی فیصلہ لیں۔’ اگر قاری چاہے تو حال ہی میں ختم ہوئی انتخابی مہم کے دوران مختلف لیڈران کی تقاریر کا تقابل نہرو کی انتخابی تقاریر سے کر سکتا ہے۔ اپنی جانب سے میں صرف یہ پیشگوئی کر سکتا ہوں کہ آج سے پچاس یا ساٹھ سال بعد کوئی مؤرخ اس کا ذکر نہیں کرنا چاہے گا کہ سنہ 2019 کے عام انتخاب میں کسی مودی یا راہل (ممتا یا مایاوتی) نے اپنی چناوی تقاریرمیں کیا کہا تھا۔ (انگریزی سے ترجمہ: جاوید عالم) یہ مضمون پہلی بار17مئی2019کو شائع کیا گیا تھا۔