مجھے تو دوسرا کوئی نہیں دکھتا، جس کو شمال سے لےکر جنوبی ہندوستان تک کے آرٹ ، مثلاً موسیقی، ادب، رقص، عوامی ادب اور بصری آرٹ کے ساتھ ہی اپنی گہری کلاسیکی روایت کی بھی اتنی باریک سمجھ ہو۔ وہ کم سے کم 6ہندوستانی زبانوں میں لکھ، پڑھ اور بول سکتے ہیں۔
اپنی نسل کے زیادہ تر ہندوستانیوں کی طرح گریش کرناڈ کو میں نے بھی پہلی بار شیام بینیگل کی کسی فلم میں ہی دیکھا تھا۔ سامنے دیکھنا الگ ہی تجربہ تھا، جب ان کو دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں اکیلے بیٹھ کر کھانا کھاتے دیکھا۔ یہ 1990 کی بات ہے۔ سب ان کو دیکھ رہے تھے، پہچان رہے تھے، پھر بھی کوئی ان کو ڈسٹرب نہیں کر رہا تھا۔ یہ شاید ان کی شخصیت کا اثر تھا۔
1995 میں بیوی سجاتا کے ساتھ میں بنگلور آ گیا۔ گریش کرناڈ بھی بیوی سرس کے ساتھ یہی رہتے تھے۔ ایک کامن دوست نے تعارف کرایا، تو ملنے جلنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہم زیادہ تر ایک دوسرے کے گھر پر ہی ملتے۔ کرناڈ اپنے ابتدائی کلاسیکل ڈراموں سے ہی اسطوری کہانیوں اور تاریخ کا نیا رنگ ، روپ گڑھتے ہوئے اسٹیج پر اداکاری کی مثال بن چکے تھے۔ انہوں نے فلمیں کم کر دی تھیں اور تخلیقیت کے نئے دور میں تھے۔ لندن کے نہرو سینٹر کا ڈائریکٹر رہتے ہوئے عالمی اسٹیج کی عظمت سے روبرو ہو رہے تھے۔
اسی دوران ہم نے ان کے دو مشہور ڈرامے فلاورس اور بروکین امیج دیکھے۔ بروکین امیج دو ایسی بہنوں کی مسابقت کی کہانی تھی، جن میں سے ایک انگریزی اور دوسری کنڑ مصنفہ تھی۔ ڈرامے نے ادب کی دنیا میں ایک نئی بحث چھیڑ دی، جس کا دوسرا سرا مشہور مضمون نگار یو آر اننت مورتی تک جاتا تھا۔ اننت مورتی زبان کو لےکر بہت محتاط اور فعال تھے۔ ان کو لگتا تھا کہ لسانی حوالوں سے مضمون لکھنے والوں کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا یا انگریزی میں لکھنے والے ہندوستانیوں کے مقابلے میں ان کو کم معاوضہ ملتا ہے۔ ۔
اننت مورتی کے ساتھ کرناڈ سے تمام طرح کے اختلافات تھے۔ ایک بڑی وجہ شاید ان میں سے ایک زبان کے مہذب استعمال کا رہا ہو، جبکہ دوسرے کے لئے یہ مقبولیت کا معاملہ تھا۔ اننت مورتی کی اکثر سیاست دانوں سے قربت اور ان کی مبینہ سیاسی آرزوئیں بھی کرناڈ کو اکھرتی تھیں، جبکہ ان کی خواہش ادب اور جمالیات تھی۔ مجھے لگتا ہے کہ اننت مورتی کے اندر کنڑ کے تئیں ایک خاص طرح کی تڑپ تھی۔ کارواں میگزین کے لئے اننت مورتی کے ساتھ ادب، سیاست اور کچھ دوسرے موضوع پر اپنا وہ مکالمہ یاد آ رہا ہے، جس کا انعقاد ایک بڑے ہوٹل میں تھا۔ سوال و جواب کا دور شروع ہوا۔ ایک دم پیچھے کی کرسیوں سے ایک ہاتھ اٹھا۔ میں نے دیکھا کہ یہ تو کرناڈ ہیں، جو نہ جانے کب آکر سب سے پیچھے بیٹھ گئے تھے۔ لیکن بزرگ اننت مورتی اتنی دوری سے ان کو نہ پہچان سکے۔ کرناڈ نے ایک بہت سدھا ہوا سوال کیا (شکر ہے کہ اس میں جارحیت نہیں تھی)، اننت مورتی میری طرف گھومے اور پر جوش ہو کر یقین کے ساتھ بولے،’ تو گریش بھی آ گیا۔
اننت مورتی کے مقابلے میں کرناڈ اکثر جلوس، نعرے بازی، رہنماؤں کی عوامی مذمت و تعریف یا طلب نامہ پر دستخط کرنے سے بچتے ہیں، لیکن تمام معاصر ین کے مقابلے میں وہ کہیں زیادہ بہوجن وادی اور ٹولرینٹ ہندوستان کے حمایتی ہیں۔ اننت مورتی کی طرح ان کو بھی مذہبی کٹرپن سے نفرت ہے۔ جون 2017 میں شمالی ہندوستان میں اقلیتوں کو مار دینے کے کچھ واقعات کے بعد ملک کے تمام حصوں کی طرح بنگلور میں بھی انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کے طلبا نے ٹاؤن ہال کی سیڑھیوں پر ‘ ناٹ ان مائی نیم ‘ جیسی مزاحمت درج کرائی ۔ بھیڑ والے اس علاقے میں کم سے کم آدھا کلومیٹر پہلے گاڑی پارک کرکے ہی مارچ تک پہنچا جا سکتا تھا۔
میرے لئے تو ایسے مظاہرہ میں شامل ہونا عام بات تھی۔ لیکن کرناڈ کا گھر کافی دور ہے۔ شام کے وقت کم سے کم ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو تو کرنی ہی پڑےگی۔ وہ 80 کے قریب پہنچ چکے تھے۔ بیمار بھی تھے اور ہر وقت ایک چھوٹا سلینڈر ساتھ لےکر چلتے تھے ، جس سے جڑی پائپ ناک کے راستے پھیپھڑوں تک آکسیجن پہنچاتی تھی۔
کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ گریش کرناڈ اس حالت میں وہاں آئیںگے۔ میں نے بھی نہیں سوچا تھا۔ ہم لوگ خاموشی سے کھڑے تھے کہ اچانک کوئی میرے بائیں جانب آکر کھڑا ہو گیا۔ یہ گریش کرناڈ تھے۔ کار سے اترنے کے بعد ان کو کم سے کم دس منٹ تو پیدل چلنا ہی پڑا ہوگا۔ وہ بھی اس حالت میں۔ وہ آئے، کھڑے ہو گئے اور بغل والے شخص کا پلےکارڈ ہاتھ میں لے لیا۔ ان کو اپنے درمیان دیکھ پہلی لائن میں کھڑے کچھ مسلم خاصے پرجوش اور مطمئن دکھے-‘ تو، گریش سر بھی آ گئے ‘۔ ان کے لئے تو وہاں موجود ہر ہندو، مسلمان یا عیسائی کی اہمیت تھی، لیکن اس شخص کا وہاں ہونا ان کے لئے بہت خاص بن گیا۔
اس سال کی شروعات میں ،میں گریش کے آبائی گھر دھارواڑ گیا۔ ان کے ناشر منوہر گرنتھ مالا نے ایک ادبی تقریب کا انعقاد کیا تھا۔ تقریب کے ایک دن پہلے کرناڈ مجھے سبھاش روڈ کے ایک پرانے مکان کی دوسری منزل پر اپنے ناشر کے دفتر لے گئے۔ یہی وہ جگہ تھی، جہاں 50 سے بھی زیادہ سال پہلے وہ اپنے پہلے، لیکن بعد میں مشہور ڈرامہ ییاتی کا مسودہ دینے آئے تھے۔ تب سے ابتک کرناڈ کے سارے ڈرامے اور ان کی بایوگرافی منوہر گرنتھ مالا نے ہی شائع کئے ہیں۔
گریش کرناڈ نہ اپنی سیاست کی نمائش کرتے ہیں، نہ حب الوطنی کا۔ پھر بھی وہ اپنے انداز میں نہ صرف آبائی گھر کے لئے وقف ہیں، بلکہ ملک اور دنیا پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ مجھے تو دوسرا کوئی نہیں دکھتا، جس کو شمال سے لےکر جنوبی ہندوستان تک کے آرٹ ، مثلاً موسیقی، ادب، رقص، عوامی ادب اور بصری آرٹ کے ساتھ ہی اپنی گہری کلاسیکی روایت کی بھی اتنی باریک سمجھ ہو۔ وہ کم سے کم 6ہندوستانی زبانوں میں لکھ، پڑھ اور بول سکتے ہیں۔
اگر چہ انہوں نے اب تک ایسی کوئی کتاب نہیں لکھی، تو اس کی وجہ ان کے لئے بنیادی اور تخلیقی تحریر کا زیادہ اہم ہونا ہے۔ انہوں نے کنڑ میں اپنی آپ بیتی لکھی اور شائع کرائی، لیکن انگریزی ترجمے سے منع کر دیا۔ شاید وہ نہیں چاہتے کہ میرے جیسے تمام لوگ اس کو پڑھیں، یا شاید یہ کہ ان کے دل میں اب بھی تمام موضوع گونج رہے ہوں، جن کو وہ پہلے پڑھانا چاہتے ہوں۔ اسی 19 مئی کو ان کا 80 واں یوم پیدائش تھا۔ ہم گزارش کر سکتے ہیں کہ گریش کرناڈ جیسے عظیم انسان دماغ اور جسم سے اتنے صحت یاب رہیں کہ ہمارے سامنے وہ سارے ڈرامے آ سکیں، جن کا موضوع ان کے دماغ میں گھوم رہا ہے، جن کو وہ لکھنا اور ہم سب دیکھنا چاہتے ہیں۔