رام مندر کے افتتاح کے لیے وزیر اعظم کا خود موجود رہنا اور اس تقریب کو صدیوں کی غلامی کا طوق پھینکنے سے تشبیہ دینا، واضح عندیہ دیتا ہے کہ اس بار ٹارگیٹ پر براہ راست مسلمان ہے۔
ایودھیا میں رام مندر بھومی پوجن تقریب میں وزیر اعظم نریندر مودی(فائل فوٹو: پی ٹی آئی)
ویسے تو 2019میں ہی سپریم کورٹ کے عجیب و غریب فیصلہ نے ایودھیا شہر میں واقع مسمار شدہ تاریخی بابری مسجد پر مہر لگائی تھی، مگر اب اس سال 22جنوری کو اس کی جگہ پر ایک عظیم الشان رام مندر کے افتتاح کے بعد یہ مکمل طور پر تاریخ کے اوراق میں گم ہو جائے گی۔
وزیر اعظم نریندر مودی خود اس مندر کا افتتاح کررہے ہیں، تاکہ تاریخ میں اپنا نام درج کروانے کے علاوہ اس سال اپریل-مئی میں ہونے والے عام انتخابات میں ووٹروں کو لبھانے کے لیے ایجنڈہ بھی ترتیب دے سکیں۔ ہندو قوم پرست جماعتیں خاص طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) تین متنازعہ ایشوز کو لےکر ہی انتخابی میدان میں اترتی تھی۔
یہ ایشوز تھے بابری مسجد کی جگہ ایک عظیم الشان رام مندر کا قیام، جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کا خاتمہ اور پورے ملک میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ۔ پچھلے دس سالہ دور اقتدار میں مودی حکومت نے دو اہم وعدوں کو عملی جامہ پہنایا ہے۔
یکساں سول کوڈ، مسلمانوں کے بجائے قبائل اور ہندوؤں کے ہی مختلف فرقوں کو قبول نہیں ہے، کیونکہ شادی بیاہ کی رسوم ہندوستان کے ہر خطے میں مقامی ریتی رواج کے ساتھ عمل میں آتی ہیں۔ اس لیے تجزیہ کار اب حیران ہیں کہ 2024میں اب کس متنازعہ وعدے کو لےکر وہ ہندو اکثریتی ووٹرں کو لبھائیں گے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، بی جے پی کے پاس ہندو ووٹروں کو لام بند کرنے کے لیے تین اہم ہتھیار گائے، پاکستان اور مسلمان ہوتے ہیں۔ 2014کے انتخابات میں گائے کو تحفظ فراہم کرنا ایک اہم ایشو تھا۔
گائے اب اس حد تک محفوظ جانور بن چکی ہے کہ شمالی ہندوستان میں کسانوں کے لیے درد سر بن چکی ہے۔ دودھ خشک ہونے کے بعد ان کو گھروں سے نکالا جاتا ہے، تو یہ دھن دھناتے ہوئے بغیر کسی خوف کے کھیتوں میں گھس کر کھڑی فصلوں کو تہس نہس کرتی رہتی ہیں۔
چند برس قبل مدھیہ پردیش کے کسی شہر میں ایک ٹرک حادثہ میں کسی بزرگ خاتون کی جان چلی گئی، جو سڑک کے کنارے چہل قدمی کر رہی تھی۔ بعد میں ڈرائیور نے بتایا کہ سڑک پر ایک گائے کو بچانے کے لیے اس نے فٹ پاتھ پر گاڑی موڑ دی، جس سے بزرگ خاتون کی جان چلی گئی۔
اس کا استدلال تھا کہ اگر گائے کو ٹکر لگ جاتی تو وہ اور اس کا ٹرک ہجومی تشدد کی نذر ہوجاتا۔ خاتون کی جان جانے سے کم از کم وہ اور اس کا ٹرک تو محفوظ رہا۔ گائے کا ایشو انتخابات میں کیش ہو چکا ہے، اب اس پر ووٹ ملنا مشکل ہے۔
بی جے پی نے 2019 میں پاکستان اور قومی سلامتی کے ایشو کو لےکر بھاری منڈیٹ حاصل کرلیا۔ انتخابات سے بس چند ماہ قبل جنوری 2019میں رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق مودی حکومت خاصی غیر مقبول ہوگئی تھی اور 543رکنی ایوان میں بی جے پی 200 سیٹوں کے اندر ہی سمٹ رہی تھی۔
مگر فروری میں کشمیر میں پلوامہ کے مقام پر فوجی ہلاکتوں اور پھر بالاکوٹ پر فضائیہ کے آپریشن نے تو فضا ہی بدل ڈالی۔ انتخابی نتائج میں بی جے پی نے 300 کا ہندسہ عبور کر لیا۔ اب اس وقت پاکستان خود ہی اپنے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر سیز فائر بھی کامیابی کے ساتھ روبہ عمل ہے۔
پھر ہندوستان میں اسٹریٹجک امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی انتخابات میں نواز شریف کے جیتنے اور وزیر اعظم بننے کے امکانات خاصے قوی ہیں۔ ہندوستان کے اداروں میں نواز شریف کے تئیں ایک نرم گوشہ ہوتا ہے۔ اس لیے ان کی کرسی حاصل کرنے کی دوڑ کو سبو تاژ کرنا ہندوستان کے مفاد میں نہیں ہے۔
اب لے دے کے ایک ہی ایسا ایشو بچتا ہے، وہ ہے مسلمان۔ رام مندر کے افتتاح کے لیے وزیر اعظم کا خود موجود رہنا اور اس تقریب کو صدیوں کی غلامی کا طوق پھینکنے سے تشبیہ دینا، واضح عندیہ دیتا ہے کہ اس بار ٹارگیٹ پر براہ راست مسلمان ہے۔
حال ہی میں ایودھیا میں نئے ہوائی اڈہ کا افتتاح کرتے ہوئے مودی نے اپیل کی کہ رام مندر کے افتاح کے دن پورے ملک میں دیوالی کی طرح چراغاں کیا جائے اور اس دن کو ایک تہوار کی طرح منائیں۔وزیر داخلہ امت شاہ نے اس میں کشمیر کی کھچڑی بھی شامل کردی ہے۔ اس لیے پچھلے دنوں، مسرت عالم کی مسلم لیگ، مرحوم سید علی گیلانی کی تحریک حریت پر پابندی لگائی گئی۔ کشمیر کے سلسلے میں کئی اور سخت اقدامات کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے۔
بی جے پی کے لیے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ جنوبی ہندوستان میں اس کی دال گل نہیں رہی ہے۔ گو کہ کرناٹک کے بغیر باقی جنوبی ریاستوں میں اس کا وجود پہلے سے ہی برائے نام تھا، مگر تلنگانہ، آندھرا پردیش اور تامل ناڈو میں وہ مقامی پارٹیوں کے کندھوں پر سوار ہوکر کسی طرح اپنا الو سیدھا کرتی تھی۔
مگر یکے بعد دیگرے کرناٹک اور پھر تلنگانہ میں کانگریس کی جیت نے ان مقامی پارٹیوں کی ہوا نکال کر رکھ دی ہے اور تامل ناڈو میں اس کی اتحادی پارٹی ڈی ایم کے بھی مضبوظ پوزیشن میں ہے۔جنوبی ہندوستان کی لوک سبھا میں 132نشستیں ہیں۔
بی جے پی نے 2019 میں جن 303 نشستوں پرقبضہ کیا، ان میں 30 سیٹیں جنوبی ہندوستان سے تھیں۔ 224نشستوں پر اس کو 50فیصد سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔ حکومت سازی کے لیے لوک سبھا میں 272سیٹیں لانا لازمی ہے۔ یعنی اس ہدف کو پار کرکے بی جے پی کے پاس اضافی بس 31 سیٹیں ہی ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر بی جے پی شمالی ہندوستان کی سبھی 224سیٹیں برقرار بھی رکھتی ہے، تو اس کو مزید 48سیٹیں لانے کے لیے خاصی جدو جہد کرنی پڑے گی۔ پچھلی بار اس کو مہاراشٹر، مغربی بنگال، اڑیسہ، تلنگانہ اور شمال مشرقی صوبوں سے کل ملا کر 79سیٹیں حاصل ہوئی تھی، جس نے اس کی تعداد کو تین سو سے اوپر پہنچایا دیا تھا۔ اس بار ان صوبو ں میں کانگریس کے زیر قیادت نو زائیدہ انڈیا (یعنی انڈین نیشنل ڈیولپمنٹ انکلوسیو الائنس)اتحاد کو خاصی سیٹیں ملنے کا امکان ہے۔
گو کہ ابھی اپوزیشن میں سیٹوں کے بٹوارے پر خاصی لے دے ہونے کے امکانات ہیں، مگر جس طرح ابھی حال ہی میں پارلیامنٹ اراکین کو تھوک میں معطل کر دیا گیا اور تفتیشی ادارے اپوزیشن لیڈروں کو زچ کررہے ہیں اس سے، لگتا ہے کہ وہ متحدہوکر انتخابات میں آر یا پار کی لڑائی لڑیں گے۔ اس وجہ سے بی جے پی کے لیڈران کی نیند اڑی ہوئی ہے۔ وہ اس فراق میں ہیں کہ کوئی ایسا ایشو ہاتھ آجائے، جس سے 2019کی طرح پورے ملک کو سحر میں گرفتار کرکے ووٹ اس کی جھولی میں گر جائیں۔ اس سلسلے کی ایک کڑی رام مندر کا افتتاح ہے۔
بابری مسجد پر جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا، تو لگتا تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دیرینہ تنازعات اب ختم ہو جائیں گے۔80کی دہائی کے آخر میں جب اس قضیہ نے ایک خونی رخ اختیار کیا تھا، تو کئی مسلم لیڈران اور علماء جن میں مولانا وحید الدین خان پیش پیش تھے، مشورہ دیتے تھے کہ فرقہ وارانہ ماحول کو ختم کرنے کے لیے مسلمانوں کو اس مسجد کی قربانی دینی چاہیے۔
مگر بقول سینئر صحافی عبدالباری مسعود یہ سہانا خواب ادھورا ہی رہ گیا۔ اب تو ہر دوسرے دن کسی نہ کسی مسجد پر دعویٰ ٹھوک کر ہندو تنظیمیں عدالتوں کا رخ کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں ابھی تک وارانسی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی عید گاہ مسجد پر عدالت نے شنوائی بھی شروع کی ہے۔ گوکہ نوے کی دہائی میں پارلیامنٹ نے عبادت گاہوں کی موجودہ حیثیت کو 1947کی پوزیشن میں جوں کا توں رکھنے کا قانون پاس کیا تھا، اس میں صرف بابری مسجد کو باہر رکھا گیا تھا۔
مگر اب عدالتوں کو کہنا ہے کہ یہ قانون گو کہ موجودہ پوزیشن کو جوں کا توں رکھنے کی بات کرتا ہے، مگر یہ مسجد کسی اور عمارت یا عبادت گا ہ کے اوپر بنی ہے، اس کا فیصلہ کرنے یا تجزیہ کرنے سے نہیں روکتا ہے۔ ویسے اس پورے قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے، اور اس پر جلدیا بدیر کوئی فیصلہ آہی جائےگا۔ اور جس طرح کا فیصلہ بابری مسجد کے سلسلے میں آیا، اس کے بعد عدالت سے کس طرح کی توقع کرسکتے ہیں۔
مستقبل کا مؤرخ بھی حیران و پریشان ہوگا کہ اکیسویں صدی میں بھی کسی جمہوری ملک کی عدالت کوئی ایسا فیصلہ دے سکتی ہے۔وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی حکومت میں مشیر اور تجزیہ کار موہن گوروسوامی کے مطابق عدالت کا فیصلہ کچھ اس طرح تھا کہ کسی کے مکان پر قبضہ کرنا اور اس کو مسمار کرنا غیر قانونی اور جرم ہے، مگر اس کی جگہ پر نئے مکان کی تعمیر جائز ہے اور اس میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہیے۔
جیسے جیسے ایودھیا میں رام مندر کے افتاح کی عظیم الشان افتتاح تقریب قریب آرہی ہے، سوال کیے جار ہے ہیں کہ کیا یہ مندر فرقہ وارانہ اتحاد کی علامت بنے گا یا مزید اختلاف کو ہوا دےگا؟جواب ہے کہ جب تک پولرائزیشن کی سیاست سے ووٹ ملتے رہیں گے اور ایک فرقہ خوف میں مبتلا رہےگا، تو یہ کبھی بھی قومی اتحاد کی علامت نہیں بن سکے گا۔