اڈانی گروپ کو دھچکا: راجستھان نے ’عوامی مفاد اور محصولات کے نقصان‘ کے باعث لائم اسٹون کے 13 کانوں کی نیلامی رد کی

ناگور ضلع میں واقع یہ کانیں تقریباً چھ ماہ قبل اڈانی گروپ کی کمپنی امبوجا سیمنٹ کو الاٹ کی گئی تھیں۔ لیکن حکومت نے پایا کہ ناگور میں نیلام ہونے والے دیگر بلاکوں کے مقابلے ان کانوں کو بہت کم بولی موصول ہوئی تھی۔

ناگور ضلع میں واقع یہ کانیں تقریباً چھ ماہ قبل اڈانی گروپ کی کمپنی امبوجا سیمنٹ کو الاٹ کی گئی تھیں۔ لیکن حکومت نے پایا کہ ناگور میں نیلام ہونے والے دیگر بلاکوں کے مقابلے ان کانوں کو بہت کم بولی موصول ہوئی تھی۔

اڈانی گروپ کے چیئرمین گوتم اڈانی

اڈانی گروپ کے چیئرمین گوتم اڈانی

نئی دہلی: عوامی مفاد اور محصولات کے نقصان کا حوالہ دیتے ہوئے راجستھان کی بی جے پی حکومت نے اس سال اڈانی گروپ کو الاٹ کیے گئے 13 لائم اسٹون (چونا پتھر) بلاک رد کر دیے ہیں۔ 22 اگست 2024 سے 29 اگست کے درمیان راجستھان کے مائنز اینڈ پیٹرولیم ڈپارٹمنٹ کے جوائنٹ سکریٹری آشو چودھری نے 13 الگ الگ احکامات جاری کرتے ہوئے اس ای-نیلامی کو رد کر دیا ہے، جس کے توسط سےیہ کانیں تقریباً چھ ماہ قبل اڈانی گروپ کی کمپنی امبوجا سیمنٹ کو الاٹ کی گئی تھیں۔ یہ تمام کانیں راجستھان کے ناگور ضلع میں واقع ہیں۔

آرڈر کی ایک کاپی کہتی ہےکہ،’وسیع تر عوامی مفاد اور محصولات کو مدنظر رکھتے ہوئےمیسرزامبوجا سیمنٹ لمیٹیڈکی جانب سے پیش کیے گئےبڈ ٹینڈر ڈاکیومنٹ کلازنمبر 14.11 کے اہتماموں کے مطابق رد کی جاتی ہے۔‘

تمام آرڈر لیٹرکی زبان ایک جیسی ہے، صرف بلاک کا نام اور نیلامی سے متعلق جانکاری کو بدل دیا گیا ہے۔ دی وائر کے پاس ان تمام آرڈر لیٹر کی کاپیاں موجود ہیں۔

راجستھان کے مائنز اینڈ جیولوجی ڈپارٹمنٹ کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مالی سال 2023-24 میں چونا پتھر کے کل 22بلاک کی نیلامی ہوئی تھی، جس میں سے اکیلے امبوجا سیمنٹ نے 20 بلاک اپنے نام کر لیے تھے۔ دی وائر کی تحقیقات کے مطابق، ان 20 کانوں میں سے کم از کم 15 کانوں کی نیلامی میں امبوجا سیمنٹ بولی لگانے والی واحد کمپنی تھی۔ راجستھان حکومت نے ان میں سے 13 بلاک کی نیلامی کو رد کر دیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ نیلامی کو رد کرنے کا اعلان اس وقت ہوا جب دی وائر اس خبر کی بڑے پیمانے پر تحقیقات کر رہا تھا، اور ہم نے آر ٹی آئی (درخواست نمبر – 137414692595643) کے ذریعے ریاستی حکومت سے اس بابت جانکاری بھی مانگی تھی۔ 21 اگست 2024 کو دی وائر نے آر ٹی آئی سے یہ جانکاری  مانگی تھی کہ (1) مالی سال 2023-24 میں ریاستی حکومت نے لائم اسٹون کے کتنے کانوں کی نیلامی کی تھی؟ (2) ان نیلامیوں میں کن کمپنیوں نے حصہ لیا اور کس کو کامیابی ملی؟ (3) ان نیلامیوں سے ریاستی حکومت کےریونیو میں کتنااضافہ ہوا؟

اب تک (4 ستمبر) آر ٹی آئی کا جواب نہیں آیا ہے، لیکن نیلامی کے رد ہونے کا آرڈر آگیا ہے۔

اڈانی گروپ کو دھچکا

حکومت کے اس فیصلے سے گوتم اڈانی کی سربراہی  والے اڈانی گروپ کو بڑا دھچکا لگا ہے کیونکہ وہ سیمنٹ کے کاروبار کو بڑھانے کے لیے بے پناہ کوششیں کر رہا ہے۔ پچھلے سالوں میں اس نے سیمنٹ پروڈکشن  میں استعمال ہونے والے چونا پتھر کے کانوں پر تیزی سے کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔

کمپنی کی سالانہ رپورٹ  کے مطابق ، مالی سال 2023-24 میں اڈانی گروپ کی کمپنی امبوجا سیمنٹ نے نیلامی کے ذریعے لائم اسٹون کی 24 نئی کانیں حاصل کی تھیں۔

اڈانی گروپ کی ویب سائٹ سے پتہ چلتا ہے کہ امبوجا نے لائم اسٹون کے لیے راجستھان، کرناٹک، اڑیسہ اور مہاراشٹر میں کانوں کی نیلامی میں حصہ لیا ہے۔ اورگوتم اڈانی ملک کی دوسری سب سے بڑی سیمنٹ مینوفیکچرنگ کمپنی کے مالک بن چکے ہیں۔

آخر کیوں رد ہوئی نیلامی؟ 

جن 13 بلاکوں کی نیلامی ردکی گئی ہے ان کے نام ہیں – پی ایس بی 13، پی ایس بی 10، پی ایس بی3، پی ایس بی15، پی ایس بی5، پی ایس بی8، پی ایس بی17، پی ایس بی4، پی ایس بی9، پی ایس بی14اور ایچ پی بی 21۔

ان تمام بلاکوں کی نیلامی کی منسوخی کی کہانی ایک ہی ہے۔

ناگور ضلع کے گاؤں ہریما، سرسنی، پتھاسیا اور سومانا کے قریب 15 بلاکوں کی نیلامی کے لیے11 ستمبر 2023 کو نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا۔ نیلامی کا عمل 21 فروری 2024 سے 14 مارچ 2024 کے درمیان مکمل ہوا۔

ان تمام کانوں کی نیلامی کی پہلی کوشش میں تکنیکی طور پر ایک  ہی بولی لگانے والے کو اہل پایا گیا – اوریہ تھا امبوجا سیمنٹ۔

دوسری کوشش میں صرف اڈانی کی کمپنی امبوجا سیمنٹ نے بولی لگائی اور کانیں اپنے نام کر لیں۔ محصولات اور مفاد عامہ کے نقصان کی وجہ سے حکومت نے اب ان کانوں کو رد کر دیا ہے۔

کان کی منسوخی کے احکامات میں کہا گیا ہے کہ نیلامی کے عمل کا جائزہ لینے پر محکمہ نے پایا کہ مذکورہ بلاک میں نیلام کیے گئے دیگر بلاکوں میں موصول ہونے والی بولیوں کے مقابلے بہت کم  بولی موصول ہوئی۔

مثال کے طور پر، ہم پی ایس بی 13 کے حوالے سے جاری کیے گئے آرڈر لیٹر کا جائزہ لیتے ہیں، جس میں لکھا ہے – نیلامی کا ’نوٹیفکیشن 19.06.2023 کو جاری کیا گیا‘، اور اس کے بعدہوئی نیلامی میں’صرف ایک بولی لگانے والا تکنیکی طور پر اہل پایا گیا۔‘

اس کے بعد حکومت نے منرل (آکشن) رولز 2015 کے رول 9 (10) کے تحت نیلامی کی پہلی کوشش کو رد کر دیا اور مذکورہ بلاک کو دوبارہ نیلام کرنے کی دوسری کوشش کی۔

نئی ای-نیلامی (بلاک پی ایس بی 13 کے حوالے سے) کا نوٹیفکیشن 11.09.2023 کو جاری کیا گیا، اور دوسری کوشش میں بلاک کی ریزرو قیمت 25.10فیصد رکھی گئی۔ جب آخری نیلامی 04.03.2024 کو ہوئی، ‘بولی دہندہ امبوجا سیمنٹ لمیٹیڈ کی طرف سے 25.15 فیصد کی سب سے زیادہ بولی جمع کرائی گئی‘۔ اس طرح سب سے زیادہ بولی دینے والی کمپنی امبوجا سیمنٹ لمیٹیڈ کو (بلاک پی ایس بی 13 کا) ترجیحی بولی دہندہ قرار دیا گیا۔

لیکن کان کی الاٹمنٹ کے بعد پورے عمل کا جائزہ لینے پر محکمہ نے پایا کہ چونکہ صرف ایک ہی اہل بولی دہندہ (امبوجا سیمنٹ) ، نیلامی کی بولی 25.15 فیصدموصول ہوئی، ’جومذکورہ بلاک میں نیلام کیے گئے میں دوسرے بلاکوں میں موصول ہونے والی بولی سے بہت کم‘ تھی۔

اس طرح حکومت نے مفاد عامہ اور محصولات کے نقصان کے پیش نظر ان 13 کانوں کی نیلامی کو رد کر دیا۔

دوسری کانوں کی جانچ  میں بھی یہی مسئلہ پایا گیا، جسے مندرجہ ذیل  آرڈر شیٹ میں دیکھا جا سکتا ہے؛

بلاک پی ایس بی 3 کی نیلامی کی منسوخی سے متعلق جاری کیا گیا آرڈر لیٹر (صفحہ نمبر-1)

بلاک پی ایس بی 3 کی نیلامی کی منسوخی سے متعلق جاری کیا گیا آرڈر لیٹر (صفحہ نمبر-1)

بلاک پی ایس بی 3 کی نیلامی کی منسوخی سے متعلق جاری کیا گیا آرڈر لیٹر (صفحہ نمبر 2)

بلاک پی ایس بی 3 کی نیلامی کی منسوخی سے متعلق جاری کیا گیا آرڈر لیٹر (صفحہ نمبر 2)

جن کانوں کی نیلامی رد کی گئی ہے، ان میں سے ایک کو چھوڑ کرسب سے زیادہ بولی (جس قیمت پر کان کے حوالے سے قرار ہوا) 25.15 فیصد اور 25.20 فیصد کے درمیان تھی۔ صرف ایک بلاک (ایچ پی بی 21) کے لیے سب سے زیادہ بولی 27.10 فیصد تھی۔

اس آرڈر لیٹر میں کہا گیا ہے کہ جن بلاکوں کی نیلامی رد کی گئی ہے ان کی نیلامی کا عمل جلد شروع کیا جا سکتا ہے، ’مذکورہ بلاک (جس بھی بلاک کے حوالے سے آرڈر جاری کیا گیا ہے) کی نیلامی میں مسابقت کی کمی اور کم بولی موصول ہونے کی وجوہات معلوم کرتے ہوئے، اصلاحی اقدامات  اپناکربلا تاخیردوبارہ  نیلامی کو یقینی بنائیں۔‘

حکومت کا جواب

تمام آرڈر لیٹر پرمائنز اینڈ پیٹرولیم ڈپارٹمنٹ (راجستھان) کے جوائنٹ سکریٹری آشو چودھری کےڈیجیٹل دستخط ہیں، لیکن جب دی وائر نے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے کچھ بھی کہنے سے انکار کردیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ریاستی حکومت کتنے ریونیوکا نقصان ہو رہا تھا، تو انہوں نے کہا، ’میں کچھ بتانے یا چرچہ کرنے کا مجاز نہیں ہوں۔ آپ ڈی ایم جی (ڈپارٹمنٹ آف مائنز اینڈ جیولوجی) کے دفتر سے رابطہ کریں۔‘

ڈی ایم جی آفس فون کرنے پر بھی کوئی جواب نہیں ملا۔

اس سلسلے میں اڈانی گروپ کو بھی سوال ای میل کیا گیا ہے، لیکن رپورٹ شائع ہونے تک وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا ہے۔ جواب موصول ہوتے ہی اس رپورٹ کو اپڈیٹ کیا جائے گا۔