ریلی سے پہلے لگتا تھا کہ بہار میں پارٹی کی کوئی اپنی پہچان نہیں ہے، پارٹی کسی کے بھروسے اور رحم پر ہے۔ جن آکانشا ریلی سے بہار کانگریس کی یہ امیج ٹوٹی ہے۔
کانگریس پارٹی کے ذریعے تقریباً تین دہائی بعد بہار کی راجدھانی پٹنہ میں ریلی کرنے کے بعد سیاسی گلیاروں میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ریلی کامیاب رہی یا فلاپ؟ اس سوال کا سیدھا-اورآسان ساجواب یہ ہے کہ کانگریس کا اپنے دم پر پٹنہ میں ریلی کر لینا ہی کانگریس کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ ریلی میں جمع ہوئی بھیڑ کے اعداد و شمار میں نہ جاتے ہوئے وسیع ترین گاندھی میدان میں ہونے والی ریلیوں کے لحاظ سے اتوار کی جن آکانشا ریلی ایک اسٹینڈرڈ(سطح کی)ریلی رہی اور کانگریس کے نظریے سے تو بہت کامیاب ریلی ثابت ہوئی۔ ریلی سے پہلے ایک خدشہ یہ تھا کہ اگر ریلی میں لوگ نہیں آئے تو ریلی کرنا کانگریس اور مہاگٹھ بندھن کو الٹا پڑ جائےگا۔ لیکن ریلی میں آئی بھیڑ نے اس خدشے کو غلط ثابت کیا۔
ریلی میں کانگریس کا بطور پارٹی بہتر مینجمنٹ بھی دکھا۔ اس ریلی سے کانگریس نے ثابت کیا کہ بہار میں اس کی ایک سیاسی بنیاد اب بھی ہے۔ ریلی کی تیاری کے بہانے کانگریس کے رہنما-کارکن جوش میں دکھ رہے تھے اور اس کا اثر ریلی کی کامیابی کے طور پر دیکھنے کو ملا۔ کانگریس کے رہنما-کارکنان کے حوصلے میں ایک مثبت تبدیلی اس ریلی کے ذریعے آئی ہے جس کو کانگریس عام انتخابات کی رائے دہندگی تک بنائے رکھ سکے تو اس کے لئے بہتر رہےگا۔ ریلی سے پہلے لگتا تھا کہ بہار میں پارٹی کی کوئی اپنی پہچان نہیں ہے، پارٹی کسی کے بھروسے اور رحم پر ہے۔ جن آکانشا ریلی سے بہار کانگریس کی یہ امیج ٹوٹےگی۔
یہ ریلی دھول جھاڑکر پھر اٹھ کھڑی ہو رہی ریسرجینٹ کانگریس کی ریلی ثابت ہوئی۔ بہار اور اتر پردیش میں اپنی کھوئی ہوئی زمین واپس حاصل کرنا کانگریس کا طویل مدتی تاریخی ایجنڈہ رہا ہے۔ منڈل- کمنڈل کے دور میں کانگریس اتر پردیش میں تو کچھ ایک بار اپنے دم پر اچھا مظاہرہ کر چکی ہے لیکن بہار میں ان تین دہائیوں میں وہ کبھی ایسا نہیں کر پائی۔اس لئے بھی کانگریس نے حالیہ اسمبلی انتخاب سے ملی طاقت کے بعد عام انتخاب کے ماحول میں ریلی کرنے کی ٹھانی۔ اور کل کی ریلی بتاتی ہے کہ کانگریس اب کامیابی سے کچھ اضافی کوشش کر رہی ہے۔
بہار میں کانگریس اپنا وجود بچاتے ہوئے اپنی پرانی حالت پانے کے لئے جدو جہد کر رہی ہے۔اس ریلی کے بعد اس کو اپنے اس جدو جہد کے لئے طاقت ملےگی اور اب کوئی جماعت اس کی اندیکھی نہیں کر سکےگی۔ اس ریلی کے بعد مہاگٹھ بندھن میں سیٹوں کی تقسیم پر پارٹی کی حالت مضبوط ہوئی ہے۔ مانا جا رہا تھا کہ ریلی کی وجہ سے ہی کانگریس سیٹ-شیئرنگ کو آخری شکل دینے میں دلچسپی نہیں دکھا رہی تھی۔ اس کے پیچھے اس کی حکمت عملی ریلی میں طاقت دکھاکر اپنی حالت مضبوط کرنے کے ساتھ-ساتھ پارٹی ٹکٹ کے تمام امیدواروں کو ریلی کے لئے فعال رکھنے کی بھی تھی۔
ساتھ ہی اس ریلی نے اتر پردیش کی طرح بہار میں بھی اتحاد ختم ہونے کی تمام بحثوں اور امکانات پر پوری طرح سے روک لگانے کا کام کیا ہے۔ یہ اس ریلی کے دوران رہنماؤں کی باڈی-لینگویج اور تقریروں میں دکھا بھی۔ راہل اور تیجسوی ساتھ ساتھ منچ پر آئے۔ بہار میں مہاگٹھ بندھن کی تمام جماعتیں اپنے اعلیٰ ترین رہنماؤں کے ساتھ راہل گاندھی کے ساتھ منچ پر موجود تھیں۔ اتناہی نہیں سی پی آئی بھی کانگریس کے منچ پر موجود رہی اور اس کے بہار ریاستی سکریٹری ستیہ نارائن سنگھ نے جلسہ کو خطاب بھی کیا۔ تیجسوی نے وزیر اعظم کے عہدے کے لئے راہل گاندھی کی امیدواری پر یہ کہتے ہوئے مہر لگائی کہ راہل جی میں کوئی شک نہیں ہے۔ تو دوسری طرف راہل نے منچ سے تیجسوی کو کام کرکے دکھانے والا نوجوان رہنما بتایا۔
ریلی میں کون آئے
کانگریس کی پرانی سیاسی اور سماجی بنیاد اونچی ذاتوں، دلتوں اور اقلیتوں کو لےکر بنتی تھی۔ اس میں سے بہار میں اب ایک حد تک اشرافیہ ہی اس کے ساتھ ہیں۔ اس طبقے میں کانگریس کے متعلق ایک تاریخی کشش ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ فی الحال نریندر مودی حکومت کی پالیسیوں اور مظاہرہ سے مایوس اور ناراض اعلیٰ طبقہ پھر سے کانگریس کی طرف لوٹتا دکھائی دے رہا ہے اور اس کی جھلک کل ریلی میں بھی دیکھنے کو ملی۔ ریلی میں آئے زیادہ تر لوگ اسی سماجی گروہ سے دکھائی دے رہے تھے۔ اب شہر کے لوگ عام طور پر ریلی، سیاسی سرگرمیوں میں کم شامل ہوتے ہیں وہ ٹی وی اور سوشل میڈیا پر تقریر سننا پسند کرتے ہیں۔ مگر کل کی ریلی میں پٹنہ میں شہر کے لوگ بھی اچھی تعداد میں دکھے۔ یہ کانگریس کے لئے ایک خاص اورمبارک اشارہ ہے۔ کانگریس نے حال کے دنوں میں بہار میں بھی اعلیٰ طبقے کو دھیان میں رکھتے ہوئے پارٹی میں تبدیلی کی ہے۔ گزشتہ دنوں پارٹی نے ریاستی صدر اور انتخابی تشہیر کمیٹی کی کمان اعلیٰ طبقے کے رہنماؤں کو سونپ دی تھیں۔
ابھی اعلیٰ طبقے میں مرکزی حکومت کو لےکر غصہ نہیں تو ایک نوع کی علیحدگی ضرور ہے۔ ایسے میں کانگریس اگر’اپر کاسٹ پالیٹکس ‘ کرتی ہوئی دکھائی بھی دے رہی ہے تو اس کی پختہ وجہ ہے۔ دراصل کانگریس کو انتخابی حکمت عملی کے تحت لگتا ہے کہ پسماندہ اور اقلیتی طبقہ معاون جماعتوں کی وجہ سے اس کے ساتھ ہیں اور مرکزی حکومت کے مظاہرہ اور مقامی فارمولے کی وجہ سے اگر وہ ایک حد تک بھی اعلیٰ طبقے کو متوجہ کر سکی تو وہ فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ مثلاً اگر این ڈی اے کا امیدوار پسماندہ طبقے سے ہو تو کانگریس وہاں اپنے اعلیٰ طبقہ کے امیدوار کو میدان میں اتار کر فائدہ اٹھانے کی حکمت عملی پر کام کر رہی ہے۔ جب ملک میں عام طور پر اقدار اور مسائل کی جگہ محض انتخاب جیتنے کی سیاست ہو رہی ہے تب کانگریس کی یہ سمجھ انتخابی لحاظ سے صحیح ہی دکھائی دیتی ہے۔
تیاری کرکے آئے تھے راہل
پارٹی کے ذریعے قریب تین دہائی بعد منعقد کی گئی ریلی کے لئے راہل گاندھی خاص تیاری کرکے آئے تھے۔ انہوں نے موقع ملنے پر دوسرا سبز انقلاب بہار سے کرنے کی بات کہی۔ پٹنہ کو سینٹرل یونیورسٹی کا درجہ دینے کے لئے مرکز میں کانگریس کی حکومت بنانے کے لئے حمایت مانگی۔ اس کے علاوہ راہل نے کسانوں کی قرض معافی اور منیمم انکم گارنٹی کا اپنا پرانا وعدہ بھی پٹنہ میں دوہرایا۔ نوٹ بندی کی ناکامی بتاتے ہوئے اپنی پارٹی کی ریاستی حکومتوں کی قرض معافی اور دوسرے کاموں کو بھی سامنے رکھا۔ گاندھی میدان میں راہل کی تقریر نے بھلےہی ناظرین میں نریندر مودی یا لالو یادو جیسا جوش نہیں بھرا لیکن ان کی تقریر کو کئی بار عوام کی حمایت ضرور ملی۔
عوام کے ساتھ ساتھ ریلی کے بعد سیاسی جماعتوں میں بھی کانگریس کی کشش بڑھےگی۔ بہار میں انتخابی سیاست کرنے والے رہنما پہلے عام طور پرآرجے ڈی ، جے ڈی یو اور بی جے پی جیسی پارٹیوں میں سے ہی چنتے تھے۔ ایسے رہنما اب ریلی کے بعد کانگریس کے بارے میں بھی سوچنا شروع کریںگے، وہ کانگریس پر بھی دھیان دیںگے۔ ویسے خبروں کے مطابق رکن پارلیامان ارون سنگھ اور پپو یادو، سابق رکن پارلیامان لولی آنند، ایم ایل اے اننت سنگھ جیسے رہنما ریلی کے پہلے سے ہی کانگریس کے ٹکٹ پر لڑنے کے لئے تدبیرکر رہے ہیں۔ ساتھ ہی ایسے رہنما اور کارکن بھی اب ریسرجینٹ کانگریس میں امکان دیکھ رہے ہیں جن کو بی جے پی یا جے ڈی یو میں مناسب جگہ نہیں مل پا رہی ہے۔ ٹکٹ کے خواہشمندوں میں کانگریس مقبول ہو رہی ہے تو یہ کانگریس کے لئے مثبت پیغام ہے۔ کل تک ایسا سوچا تک نہیں جاتا تھا۔
کانگریس کے چیلنجز
منڈل- کمنڈل کی سیاست کے تیکھے دور کے تقریباً تیس سال بعد آج کانگریس نتیش کمار کی طرح بہار میں سیاست کے دو قطبین کے درمیان تال میل کرنے کی کوشش کرتی دکھائی دے رہی ہے، حالانکہ کہ ایسا کر پانا ایک بڑا چیلنج ہے۔اشرافیہ ریزرویشن پر کانگریس اورآر جے ڈی الگ الگ رخ اپناتے ہوئے بھی ساتھ بنے ہوئے ہیں۔ سماجی طور سے کانگریس پھر سے اعلیٰ طبقے کو اپنی طرف کرنے کی کوشش کرتے ہوئے معاون جماعتوں کے ذریعے دلت اور پسماندوں کی حمایت پانے کی کوشش کر رہی ہے۔ مانا جاتا ہے کہ نریندر مودی حکومت کے متعلق الگ الگ سماجی گروپوں میں آج موجود ناراضگی کو بھنانے کی یہ سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔
دیگر ریاستوں کے مقابلے بہار میں کانگریس کے سامنے چیلنجز زیادہ ہیں۔ بہار میں کانگریس کو اب بھی سات-آٹھ فیصد ووٹ مل جاتے ہیں مگر یہ ریاست بھر میں بکھرے ہوئے ووٹوں کو ملا کر بنتا ہے اور ایسے میں کانگریس کوئی بڑی منظم انتخابی طاقت نہیں بن پاتی۔ ساتھ ہی بہار میں اس کے پاس کوئی مقبول عام رہنما نہیں ہے، کوئی چہرہ نہیں ہے۔ ابھی دسمبر میں جن تین ریاستوں میں اس کو جیت ملی ہے وہاں اس پارٹی کے پاس ہر ریاست میں کئی مقبول عام رہنما ہیں مگر بہار میں ایسا کوئی نہیں ہے۔ بہار کانگریس کی یہ کمی جن آکانشا ریلی کے دوران ایک المیہ کے طور پر سامنے آئی۔ چرچہ ہے کہ اس ریلی کو کامیاب بنانے میں بااثر امیج والے مکامہ ایم ایل اے اننت سنگھ کا اہم رول ہے۔ پٹنہ میں لگے بینر-پوسٹر میں اننت سنگھ چھائے رہے۔ اننت سنگھ ریلی کے دوران کانگریس کی ٹوپی پہنے بھی دکھے مگر پارٹی ان کو عوامی طور سے اپنا مانتی ہی نہیں ہے۔
مانا جاتا ہے کہ انتخابی فارمولے کے لحاظ سے آج این ڈی اے بہار میں ہی سب سے مضبوط دکھائی دیتی ہے لیکن اگر کانگریس رائے دہندگی آتے-آتےاعلیٰ طبقے کو اپنی طرف کرنے میں کچھ حد تک بھی کامیاب رہی اور اس کی معاون جماعت اپنی بنیاد بچانے اور مضبوط کرنے میں کامیاب رہے تو بہار چونکانے والے انتخابی نتیجے دے سکتا ہے۔
The post
جن آکانشا ریلی: کیا بہار میں کانگریس کو اپنی کھوئی ہوئی زمین مل جائے گی؟ appeared first on
The Wire - Urdu.