دیپک چورسیا پاکسو ایکٹ کے تحت درج ایک معاملے میں مقدمے کا سامنا کر ر ہے ہیں، جہاں ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک نابالغ اور اس کے خاندان کے ایڈیٹیڈ اور فحش ویڈیو نشر کیے تھے۔ حال ہی میں نچلی عدالت نے ان کے خلاف گرفتاری وارنٹ جاری کیا تھا۔
نئی دہلی: پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے جمعرات (10 نومبر) کو نیوز اینکر دیپک چورسیا کی پاکسو ایکٹ کیس میں گرفتاری پر روک لگا دی اور انہیں 17 نومبر یا اس سے پہلے گڑگاؤں کی ٹرائل کورٹ میں حاضر ہونے کی ہدایت دی ہے۔
لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق، جسٹس وویک پوری نے کہا کہ چورسیا ضمانت اور گرفتاری وارنٹ واپس لینے کی درخواست گڑگاؤں کی عدالت میں پیش کریں گے۔
جسٹس پوری نے کہا، مزید یہ حکم دیاجاتا ہے کہ درخواست گزار کی گرفتاری پر روک رہے گی اور درخواست گزار کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے حکم ضمانت کی درخواست کے نمٹنے تک یا اس کے بعد درخواست خارج ہونے کی صورت میں سات دن کی مدت تک کے لیے ملتوی رہیں گے۔
چورسیا 2015 کے ایک معاملے میں مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں، جو انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ کی دفعہ 67بی، آئی پی سی کی دفعہ 469، 471، 180. 120بی اورپاکسو ایکٹ-2012 کی دفعہ 23 کے تحت ان کے خلاف درج کیا گیا ہے۔
گزشتہ 28 اکتوبر کو ٹرائل کورٹ نے چورسیا کی ضمانت رد کر دی تھی اور ان کے خلاف گرفتاری وارنٹ جاری کرنےکا حکم دیا تھا۔ وہ اس تاریخ کو عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے۔ اگرچہ انہوں نے ہیلتھ ایمرجنسی کی بنیاد پر شخصی طور پر پیشگی سے چھوٹ کی درخواست دائر کی تھی، لیکن ٹرائل کورٹ نے کہا تھا کہ وہ’جان بوجھ کر ان کے سامنے پیش ہونے سے بچ رہے ہیں’۔
چورسیا کی نمائندگی کرنے والے سینئر ایڈوکیٹ سمت گوئل نے 10 نومبر کو ہائی کورٹ کو بتایا کہ چورسیا مقررہ تاریخ پر ٹرائل کورٹ میں حاضر نہیں ہوسکتے کیونکہ انہیں اشلوک اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔
عدالت کو بتایا گیا کہ انہیں 28 اکتوبر کو داخل کرایا گیا تھا اور 3 نومبر کو چھٹی دے دی گئی تھی۔
عرضی کو قبول کرتے ہوئے جسٹس پوری نے فیصلے میں کہا، ہسپتال سے ڈسچارج کی تفصیلات بتاتی ہیں کہ درخواست گزار کو 28.10.2022 کو ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا، یعنی ٹرائل کورٹ میں سماعت کی تاریخ والے دن۔ عرضی گزار کے ہسپتال میں ہونے کی وجہ سے وہ ٹرائل کورٹ میں پیش نہیں ہوسکے۔
نیوز لانڈری کی ایک رپورٹ کے مطابق، چورسیا ان آٹھ لوگوں میں شامل ہیں، جن پر ایک 10 سالہ بچی اور ان کے خاندان کے ‘ایڈیٹیڈ’، ‘فحش’ ویڈیو کونشرکرنے اور اس ویڈیو کو خود ساختہ سنت آسارام کے خلاف درج جنسی زیادتی کے کیس سے جوڑنے کا الزام ہے۔