مان لیجئے خبر آتی کہ ممبئی حملے کے بعد تک منموہن سنگھ ڈسکوری چینل کے لئے شوٹنگ کر رہے تھے تب آپ کا کیا رد عمل ہوتا؟ بی جے پی ترجمان ہر گھنٹے پریس کانفرنس کر رہے ہوتے۔
(فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر / راہل گاندھی)
پلواما حملے کی خبر آتے ہی جب سننے والے حیران ہو رہے تھے، وزیر اعظم مودی کیمرے کے سامنے
پوز دے رہے تھے۔ ڈسکوری چینل کے ویڈیو اور اسٹل کیمرے کے درمیان وزیر اعظم کا الگ الگ کپڑوں میں دکھائی دینا حیران کرتا ہے۔ اسٹل تصویر میں وہ اپنے کرتا پاجامہ میں نظر آ رہے ہیں اور ویڈیو فوٹیج میں پرنس سوٹ میں ہیلی کاپٹر سے اترتے دکھتے ہیں۔ گھڑیال دیکھنے کے لئے کشتی رانی کے وقت وہ تیسرے کپڑے میں نظر آ رہے ہیں۔ کیا انہوں نے شوٹنگ کے لئے تین بار کپڑے بدلے تھے؟
ڈسکوری چینل اپنی شوٹنگ کا را-فوٹیج دے دے تو سارا کچھ پتہ چل سکتا ہے۔ را-فوٹیج بنا کانٹ چھانٹ کا ہوتا ہے۔ ریکارڈنگ کے تسلسل سے ہی پتہ چلےگا کہ کب کون سے کپڑے میں ہیں۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ شوٹنگ کب شروع ہوئی تھی اور حملے کی خبر آنے کے بعد کب تک جاری رہی یا نہیں۔ اگر پہلے شوٹنگ ہو چکی تھی تب پھر کانگریس کے الزام میں کوئی دم نہیں ہے۔
کانگریس کا الزام یہی ہے کہ حملے کے بعد وہ شوٹنگ کر رہے تھے۔ ڈسکوری چینل کی ٹیم کے ساتھ تھے اوران کے ساتھ ان کے اپنا پروموشنل میڈیم بھی تھا۔ اس کا پتہ صرف ڈسکوری کے را فوٹیج سے چل سکتا ہے۔ را-فوٹیج سے پتہ چل جائےگا کہ ان کے چہرے پر پلواما کی اداسی تھی یا کیمرے کے سامنے اپنا بیسٹ دینے کی فکر تھی۔ وزیر اعظم ہمیشہ کیمرے کے سامنے اپنا بیسٹ دینا چاہتے ہیں۔ پی ایم او کو خودہی را فوٹیج جاری کر دینا چاہیے تاکہ کانگریس کو جواب مل جائے تاکہ پتہ چل جائے کہ شام ساڑھے چھے بجے تک شوٹنگ ہوئی تھی یا نہیں۔
کانگریس کا الزام ہے کہ حملہ 3:10 بجے ہوا تھا۔ جم کاربیٹ میں 6:45 تک شوٹنگ ہوئی۔ اس بیچ پی ایم نے چائے-ناشتہ بھی کیا۔ اب اس کے لئے باورچی سے پوچھ تاچھ کی ضرورت نہیں ہے کہ انہوں نے اس اچھے موسم میں کیا کھایا تھا، جس کو اڑان بھرنے کے لئے خراب مانا گیا تھا۔ سرکاری ذرائع کی تردید میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے کچھ نہیں کھایا تھا۔ چلیے جب سرکار ہی اہمیت دے رہے ہیں تو کوئی بات نہیں ورنہ میرے لحاظ سے کھانا کوئی بری بات نہیں ہے۔ بری بات یہی ہے کہ کیا وہ واقعہ کے بعد پوز دے رہے تھے؟ انہوں نے شوٹنگ کینسل کیوں نہیں کی؟
کانگریس کے مطابق 6:45 تک شوٹنگ کر رہے تھے تب پھر میڈیا رپورٹ کے مطابق 5:30 کے آس پاس فون سے ریلی کو خطاب کیا۔ اس کا مطلب وہ جہاں تھے، وہاں فون کام کر رہا تھا۔ بغیر اچھے سگنل کے ریلی کو خطاب نہیں کیا جا سکتا ہے۔ تو پھر اس خبر کا کیا مطلب ہے کہ وزیر اعظم نے پلواما حملے کی اطلاع وقت پر نہ ملنے کی شکایت قومی سلامتی کے مشیرسے کی ہے۔ قومی سلامتی کے مشیر نے اس کی جانچکے حکم دئے ہیں۔ یہ خبر کانگریس کے الزام کے بعد سرکاری ذرائع کے حوالے سے میڈیا میں بھیجی گئی۔ کیا ہم کبھی جان پائیںگے کہ حملے کی خبر ان کو کتنی دیر سے ملی؟
سرکاری ذرائع کے حوالے سے جاری یہ خبر، خبروں کے مینج کرنے والوں کی ہڑبڑاہٹ ثابت کرتی ہے۔ صفائی دےکر اور بھی گڑبڑ کر دی ہے۔ کیا ہندوستان کے سلامتی کے مشیر واقعی پلواما جیسے بڑے اٹیک کے فوراً بعد وزیر اعظم سے رابطہ نہیں کر سکے؟ وہ بھی اس اتراکھنڈ میں جہاں سے وہ خود آتے ہیں؟ وزیر اعظم کو ایسی جگہ پر کیسے لے جایا جا سکتا ہے جہاں اطلاعاتی نظام کمزور ہو جائے؟ جم کاربیٹ میں ایسا کون سا مشکل علاقہ ہے جہاں سگنل کمزور ہو جاتے ہیں۔
اطلاع میں چوک حفاظت میں چوک ہے۔ وزیر اعظم کے آس پاس اطلاعاتی نظام ایک سیکنڈ کے لئے کام نہیں کرتا ہے تو یہ ان کی حفاظت میں چوک ہے۔ اس سے سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ یہ سمجھوتہ کیسے ہو گیا؟ اس چوک کو ان کی شوٹنگ کی خبر کو ڈھکنے کے لئے سامنے لایا گیا ہے یا چوک کا فائدہ اٹھاکر وزیر اعظم شوٹنگ کرنے میں لگے تھے۔ چلو فون نہیں لگ رہا ہے تو کچھ شوٹنگ کر لیتے ہیں۔
40 جوانوں کی موت کے بعد کچھ گھنٹوں تک وزیر اعظم شوٹنگ کرتے رہے۔ جب حملے کے اگلے دن وزیر اعظم جھانسی میں اپنے لئے ووٹ مانگ سکتے ہیں تو کیمرے کے لئے پوز کیوں نہیں دے سکتے ہیں۔ حملے کے بعد بلائی گئی کل جماعتی میٹنگ میں نہیں گئے۔ حزب مخالف کا مقابلہ نہیں کرنے کے لئے یا پھر اس سیاست کو اکیلے کرنے کے لئے؟ کانگریس کے الزام کے بعد روی شنکر پرساد کی پریس کانفرنس آپ بھی سنیں۔ اس میں وہ سوالوں کے جواب نہیں دے رہے ہیں۔ بےوجہ سنجیدہ دکھنے کی کوشش میں وزیر اعظم مودی کا مذاق اڑوا رہے ہیں۔ غنیمت ہے کہ مودی کے حامیوں کو حقائق سے فرق نہیں پڑتا ورنہ روی شنکر کی پریس کانفرنس سے وزیر اعظم کا بڑا سیاسی نقصان ہو سکتا تھا۔
مان لیجئے خبر آتی کہ ممبئی حملے کے بعد تک منموہن سنگھ ڈسکوری چینل کے لئے شوٹنگ کر رہے تھے تب آپ کا کیا رد عمل ہوتا؟ بی جے پی کے ترجمان ہر گھنٹے پریس کانفرنس کر رہے ہوتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ شیوراج پاٹل احمد آباد ہسپتال دھماکےکے بعد دورے پر گئے تھے۔ کیمرے کا ایک شاٹ دکھا تھا جس میں وہ کیچڑ بچاکر پاؤں رکھ رہے ہیں۔ اتنے بھر سے شاٹ لےکر میں نے ہی اس حصے کو گولے سے گھیرکر کھنچائی کر دی تھی۔ امیج کا اتنا نقصان ہوا کہ شیوراج پاٹل کو استعفیٰ دینا پڑا۔
ممبئی حملے کے وقت تو گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی ممبئی ہی پہنچ گئے۔ راجیو پرتاپ روڈی کا ویڈیو ہے جس میں وہ پوری حکومت سے ہی استعفیٰ مانگ رہے ہیں۔ بی جے پی تب سیاست نہیں کر رہی تھی؟ آج بھی قومی یکجہتی کے نام پر بی جے پی سیاست ہی کر رہی ہے۔ اس کے رہنماؤں کے بیان کافی ہیں تصدیق کرنے کے لئے۔ راشٹر واد کے نام پر حزب مخالف کو ڈرا دیتی ہے اور حزب مخالف ڈر جاتا ہے۔ پلواما حملے کے بعد حزب مخالف خاموش ہی رہا۔ بی جے پی کے رہنما ماحول بنانے کا بیان دیتے رہے۔
میری رائے میں حکومت کو حزب مخالف کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ اس سے کسی رہنما نے استعفی نہیں مانگا۔ حکومت کو اپنے حامیوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انہوں نے اب سوال کرنا چھوڑ دیا ہے۔ استعفیٰ کا تصور ان کے دماغ سے غائب ہو گیا ہے۔صرف ان لوگوں کو چھوڑکر جو
جوتا پہنکر ماتمی جلسہ میں آئے وزراء پر غصہ ہو گئے اور جوتے اتروا لئے۔ ان لوگوں نے بھی استعفیٰ نہیں مانگا۔
حزب مخالف کی خاموشی کی وجہ سے پلواما حملے کو لےکر چوک کا سوال عوام تک نہیں پہنچا۔ کانگریس نے بھی تین دنوں بعد الزام لگائے کہ پلواما حملے کے بعد قومی ماتم کا اعلان ہو سکتا تھا مگر اس لئے نہیں کیا گیا کیونکہ اس سے وزیر اعظم کے سرکاری جلسے ردہو جاتے۔ کانگریس کو واقعہ کے فوراً بعد ہی قومی ماتم کے اعلان کی مانگ کرنی چاہیے تھی۔
دی ٹیلی گراف اخبار میں شائع وزیر اعظم نریندر مودی کی 14 فروری کو اتراکھنڈ دورے کی ٹائم لائن۔
ہندی اخباروں نے اس کو کیسے چھاپا ہے۔ امر اجالا کے ای پیپر (دہلی)کے پہلے صفحے پر خبر نہیں ہے۔ دینک جاگرن کے ای پیپر (نیشنل) کے پہلے صفحے پر یہ خبر نہیں ہے۔ پانچویں صفحے پر ہے۔ ہندوستان میں پہلے صفحے پر ہے۔ کسی کے ہیڈلائن سے پتہ نہیں چلتا ہے کہ وزیر اعظم حملے کے وقت شوٹنگ کر رہے تھے۔’شہادت پر سرکار راج دھرم بھولی-کانگریس’، اس ہیڈلائن کی آڑ میں واقعہ کے بعد تک شوٹنگ کرنے کی بات کو اہمیت نہیں دی گئی ہے۔ آپ انگریزی اخبار ٹیلی گراف کو دیکھیے، اس نے کیسے اس خبر کو ٹریٹ کیا ہے۔
(یہ مضمون رویش کمار کےفیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)