لوگوں کے مطابق، حیدرآباد میں سرکاری ہسپتالوں کی حالت اتنی بہتر نہیں ہے ۔ حکومت اپنی اسکیموں کے ذریعے عوام کو سہولت فراہم کراتی ہے، لیکن ان اسکیموں تک عوام کی خاطر خواہ رسائی نہیں ہو پاتی۔ایسے میں غیر سرکاری تنظیمیں بلا تفریق مذہب و ملت عوام کو طبی امداد فراہم کرا رہی ہیں۔
ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشن کے ہیڈ کوارٹر میں کام کرتی ٹیم
شبانہ بیگم شہر حیدرآباد کے علاقے کشن باغ سے تعلق رکھتی ہیں۔ گھر میں ساس، سسر، اوردو بچے ہیں۔ بیٹی ساتویں اور بیٹاچوتھی جماعت میں ایک گورنمنٹ اسکول میں زیر تعلیم ہیں۔ سسر اور خود شبانہ بیگم کی طبیعت اکثر خراب رہتی ہے۔ ساس پلاسٹک ڈبہ بنانے والی ایک فیکٹری میں کام کرتی ہے۔ جس کی آمدنی سے بہ مشکل گھر کا خرچ چلتا ہے۔وہیں، شبانہ کے مائکہ کی اقتصادی حالت بھی اتنی بہتر نہیں ہے کہ وہاں سے کچھ مدد ہوسکے۔ ایسی صورت میں دو بچوں کی پرورش، ساتھ ہی مختلف بیماریوں سے پریشان شبانہ بیگم کا علاج کرانا کافی مشکل ہے۔
اس طرح کے حالات سے دوچارلوگوں کے لیے شہر حیدرآباد میں موجود کئی غیر سرکاری تنظیمیں کام کر رہی ہیں ، اور لوگوں تک بہتر طبی سہولیات کی رسائی کو آسان بنانے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔ ’
ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشن‘ ایسی ہی تنظیموں میں سےایک ہے ۔
شہر کے مختلف حصوں میں اس کی کئی شاخیں ہیں۔ اس کا ہیڈکوارٹر حیدرآباد کے علاقہ شیورام پلی علاقے میں واقع ہے ،جہاں تعینات ملازمین کی ایک بڑی تعداد مختلف شاخوں کو چلانے میں کوآرڈینیٹ کرتی ہے۔
شہر کے معروف اور تقریباً تمام بڑے ہسپتالوں میں ان کی ٹیمیں مریضوں کو ہر طرح کی طبی سہولیات فراہم کرتی ہیں۔
یہ تنظیم مریضوں کے علاج پر آنے والے اخراجات کو برداشت کرتی ہے۔ اس میں ادویات کی خریداری کے علاوہ آپریشن، ڈائلیسس پر آنے والا خرچ بھی شامل ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں’ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشن‘ کے صدر مجتبیٰ حسن عسکری کہتے ہیں کہ شہر میں غربت اورلوگوں کی مالی حالت کو دیکھ کر ہی انہوں نے اس کی بنیاد رکھی تھی۔
وہ آگے کہتے ہیں،’ آج ہماری تنظیم شہر کے مختلف حصوں میں کام کر رہی ہے، مثال کے طورپردس سے بارہ لوگوں کی ٹیم شہر کے عثمانیہ جنرل ہسپتال، گاندھی ہسپتال، نظام انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس اور نیلوفر ہسپتال میں 24 گھنٹےاپنا کام کر رہی ہے۔‘
حسن مزید کہتے ہیں کہ ،کوئی بھی فرد ہم سے رجوع کرتا ہےتو ہماری ٹیم ان کو مکمل مدد فراہم کراتی ہے۔ یہ مدد بلا تفریق مذہب و ملت کی جاتی ہے۔
تنظیم کے آپریشنل منیجرعمران محمد بتاتے ہیں کہ، ہمارا اولین مقصد لوگوں کو امداد فراہم کرانا ہے۔ کم وبیش 20 سے 25 مریض روزانہ ہم سے رابطہ کرتے ہیں ۔
عثمانیہ جنرل ہسپتال میں اس تنظیم کی نگرانی میں علاج کرا رہی شبانہ بیگم نےبتایا کہ میرا تعلق شہر کے کشن باغ سے ہے۔
وہ کہتی ہیں، ’مجھے بریسٹ کینسر ہوا ہے۔ کئی سالوں سے علاج کرا رہی ہوں لیکن معاشی حالت ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے کسی بڑے ڈاکٹر کو نہ دکھا سکی، لیکن اب اس تنظیم کی مدد سے اس ہسپتال میں زیر علاج ہوں۔ ڈاکٹر بتا رہے ہیں کہ آپریشن کے بعد ٹھیک ہو جائے گا۔‘
ہسپتال میں داخل ایک دوسری مریضہ مہیشوری جن کا تعلق ریاست آندھرا پردیش کے ایک گاؤں سے ہے۔ وہ حیدرآباد میں نیٹ امتحان کی تیاری کے لیے آئی تھیں، لیکن گردے خراب ہونے کی تشخیص ہونے کے بعد سے ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ان کا ہر ہفتے ڈائلیسس ہوتا ہے جس کا پورا خرچ یہی تنظیم برداشت کرتی ہے۔
ایک دوسرے مریض صغیر احمد جن کا تعلق بہار سے ہے، یہ شہر کے علاقہ حکیم پیٹ کے مسجد ابراہیم میں امامت کا کام کرتے ہیں۔ گزشتہ کئی دنوں سے ان کی طبیعت خراب تھی، معاشی حالت ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے وہ شہر کے بڑے ڈاکٹر کے پاس علاج نہیں کرا سکتے تھے۔
ایسے میں مسجد کے مصلیوں نے امام صاحب کو ’ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشن‘ کے میڈیکل شاخ قادریہ دواخانہ جو حکیم پیٹ میں موجود ہے، سے رجوع کرنے کوکہا۔ وہاں جانے کے بعد امام صاحب کا نئے سرے سے ٹیسٹ کرا یا گیا اور دوائیں دی گئیں۔ اس کے باوجود طبیعت میں فرق نہ آنے پر عثمانیہ جنرل اسپتال منتقل کر دیا گیا، جہاں ان کا علاج تنظیم کی نگرانی میں دو ہفتے تک کیا گیا۔
ہسپتال میں موجود تنظیم کے ٹیم ممبر نعمت بتاتے ہیں کہ ہم یہاں اپنی ڈیوٹی کے دوران تنظیم کی طرف سے فراہم کیے گئے ٹی شرٹ میں ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ہم سے رابطہ نہیں کر پاتا اور ہم دیکھتے ہیں کہ ان کو علاج میں پیسے کی کمی ہو رہی ہے تو ہم تنظیم سے بات کر کے ان کی مدد کرتے ہیں۔
غیر سرکاری تنظیموں کا کردار
حیدرآباد کے ملک پیٹ علاقے میں تعینات جی ایچ ایم سی کے صحت عامہ کے ایک افسر ڈاکٹر کے وی ایس پرساد شہر کے صحت عامہ کےموضوع پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شہر کی آدھی آبادی اقتصادی طور پر پسماندہ ہے۔انہیں علاج کے لیے حکومت کے جانب سے جتنی بھی طبی سہولیات دستیاب ہیں، اس میں ہم تمام ہسپتال عملہ کی کوشش ہوتی ہے کہ انہیں یہ فراہم ہوں۔ لیکن دوائیں یا پھر دوسری کوئی بھی طبی سہولیات کئی سارے پروسیس کے بعد دستیاب ہوتی ہے۔ اس لیے کبھی کبھار دوائیں وقت پر فراہم نہیں ہوپاتی ہیں۔‘
ڈاکٹر پرساد مزید کہتے ہیں کہ اگر کوئی ایسا مریض ہسپتال آتا ہے جو معاشی طور پر کمزور ہوتا ہے، یاکچھ ایسی بیماری ہوتی ہے جسے شہر کے بڑے ہسپتالوں میں منتقل کرنے پر ہی علاج ممکن ہے، تو ایسی حالت میں ہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ حکومتی فنڈ یا پھر عوامی کراؤڈ فنڈنگ کی ذریعے ان کی حتیٰ الامکان مدد کی جائے۔
شہر کے عثمانیہ ہسپتال میں زیر علاج مریض کے ساتھ “ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشن” کی ٹیم
انہوں نے غیر سرکاری تنظیموں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ غیر سرکاری تنظیمیں سماج کے تئیں ایک اہم فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ خصوصاً ایسی فیملی کے لیے جن کے کسی فرد کو کوئی گمبھیر بیماری ہے۔
’ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشن‘ کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر پرساد کہتے ہیں کہ جب کوئی ایسا مریض ہوتا ہے جسے فوری طور پر علاج کے لیے نجی ہسپتال میں منتقل کرنا ہو تو ہم اس فاؤنڈیشن سے انہیں رجوع کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
وہ آگے کہتے ہیں کہ صحت عامہ کا نظام کووڈ کی وجہ سے بالکل درہم برہم ہو گیا تھا۔ دوائیں وغیرہ پوری طرح سے ختم ہو گئی تھیں، لیکن اب حکومت کے جانب سے اس پر خاطر خواہ توجہ دی جا رہی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں مزید بہتر سہولیات فراہم کرنے کے منصوبے پر بھی کام جاری ہے۔
دریں اثنا، اسٹوڈنٹ اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (ایس آئی او) تلنگانہ شاخ کے صدر ڈاکٹر طلحہ فیاض الدین کہتے ہیں کہ شہر حیدرآباد میں سرکاری ہسپتالوں کی حالت اتنی بہتر نہیں ہے ۔ حکومت اپنی اسکیموں کے ذریعے عوام کو سہولت فراہم کراتی ہے لیکن ان اسکیموں کی عوام تک خاطر خواہ رسائی نہیں ہو پاتی۔
جنید احمد جن کا تعلق شہر حیدرآباد کے علاقے میرال گڑہ سے ہے وہ کہتے ہیں کہ کورونا کا شروعاتی فیز تھا، میں کووڈ کا شکار ہو گیا تھا اور شہر کے ہسپتالوں میں وینٹی لیٹر کے لیے ہاہاکار مچی تھی۔ کوئی کسی کا پرسان حال نہ تھا۔ ایسا لگتا تھا ہسپتال پہنچ کر بھی ہسپتال کے باہر وینٹی لیٹر کی امید لگائے دم توڑ دوں گا، لیکن خاندان کے ایک قریبی کو سوشل میڈیا کے ذریعے ایس آئی او کے جانب سے امداد کا اعلانیہ موصول ہوا۔ دیے گئے نمبر پر رابطہ کیا گیا، پھرمیرا علاج ممکن ہو پاپا۔
معروف سماجی تنظیم کنفیڈریشن آف والنٹیری ایسوسی ایشن (کووا) کے صدر مظہر حسین بتاتے ہیں کہ ہماری تنظیم صحت، تعلیم، جنسی استحصال، جینڈر ایکوالٹی وغیرہ کے معاملوں پر کام کرتی ہے ۔
وہ صحت کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کووڈ کے دوران ہم نے شہر کے مختلف حصوں میں ماسک، سنیٹائزر سے لےکر وینٹی لیٹر تک لوگوں کو مہیا کرایا۔ ہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ عوام میں صحت کولےکر بیداری پیدا ہو ۔
ہیمنت ریڈی جن کا تعلق شہر حیدرآباد کے علاقے بھرت نگر سے ہے کہتے ہیں کہ میرے بلڈ سرکولیشن میں دشواری تھی۔ اس کے لیے ڈاکٹر نے آپریشن کی صلاح دی۔ میری معاشی حالت اتنی بہتر نہیں تھی کہ میں آپریشن کرا سکوں۔ پھر میں نے کووا نامی تنظیم سے رابطہ کیا، اس کے بعد مجھے شہر کے گاندھی ہسپتال میں بھرتی کرایا گیا۔
شہر حیدرآباد میں صحت عامہ کے تئیں کام کر رہی تنظیموں کی اہمیت کے بارے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے دکن اسٹڈیز کی ڈائریکٹر سلمہ فاروقی کہتی ہیں کہ ، یہاں کئی بڑے ہسپتال ہیں جس کی وجہ سے اس شہر کو دواؤں کے شہر کا نام بھی دیا گیا ہے۔ شہر میں ایسے لوگوں کی بڑی تعداد ہے جن کے لیےپرائیویٹ ہسپتال میں علاج کرانا نا ممکن ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کی طبی سہولیات اچھی نہیں ہیں۔
وہ مزید کہتی ہیں، اس کے علاوہ سرکاری ہسپتالوں اور وہاں موجود طبی سہولیات اور عملہ کو لےکر بھی سنگین شکایتیں کی جاتی ہیں،جس کی وجہ سے لوگ سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ ایسےمیں شہر میں فعال غیر سرکاری تنظیمیں کافی اہمیت کی حامل ہیں۔ وہ بلا تفریق مذہب و ملت عوام کو امداد فراہم کراتی ہیں۔
(عبدالمقیت حیدرآباد میں مقیم ایک فری لانس صحافی ہیں۔ انہوں نے یہ رپورٹ این ایف آئی کی آزادصحافیوں کے لیے فیلوشپ پروگرام کے تحت تیار کی ہے۔)