سب کے لیے مکان، بیت الخلاء اور سڑکوں کے وعدے ان گاؤں میں بھی پورے نہیں ہوئے ہیں جنہیں وزیر اعظم نریندر مودی نے ‘سنسد آدرش گرام یوجنا’ کے تحت اپنے انتخابی حلقہ وارانسی میں گود لیا تھا۔
ڈومری گاؤں میں مہیش چوہان کا کچامکان۔ (تمام تصاویر: سرشٹی جسوال)
وارانسی: پچھلی ایک دہائی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے سنسد آدرش گرام یوجنا (ایس اے جی وائی) کے تحت وارانسی میں آٹھ گاؤں کو گود لیا ہے۔ 48 سالہ مہیش چوہان کا ڈومری گاؤں بھی ان میں سے ایک ہے، جو گنگا ندی کے کنارے واقع ہے۔ چوہان دلت ہیں اور گاؤں کی ہریجن بستی میں رہتے ہیں۔ دسمبر 2023 کی ایک سرد صبح میں، وہ بانس، اینٹ اور مٹی سے بنے اپنے کچے مکان کے سامنے ایک گڑھا کھود رہے تھے کیونکہ حال ہی میں جب وہ کھلے میں سو رہے تھے ان کی بکریاں چوری ہو گئی تھیں، جس کے بعد انہوں نے اپنے پڑوسیوں کی مدد سے گڑھا کھودنے کا فیصلہ کیا، تاکہ ان کے گھر تک پہنچنا مشکل ہو، کیونکہ ان کے گھر کو محفوظ رکھنے کا یہی واحد طریقہ بچا تھا۔
اپنے گھر کے سامنے گڑھا کھودتے ہوئے مہیش چوہان۔
ایس اے جی وائی اسکیم کے تحت، ہندوستان میں ہر ایم پی اپنے حلقہ انتخاب سے ایک گاؤں کو اپنے دور میں ‘آدرش گاؤں’ بنانے کے لیے گود لیتا ہے۔ مودی نے 2014 میں اپنی پہلی یوم آزادی کی تقریر میں اسمارٹ اسکولوں، بنیادی صحت کی سہولیات تک رسائی اور بے گھر گاؤں والوں کے لیے پختہ رہائش کے وعدے کے ساتھ ایس اے جی وائی کا اعلان کیا تھا۔
تاہم، وارانسی کا ڈومری گاؤں آدرش یعنی مثالی گاؤں بننے سے کوسوں دور ہے۔ گھر نہ ہونے کی وجہ سے ہریجن بستی کے اکثر خاندانوں کا کہنا ہے کہ وہ مانسون میں پلاسٹک کے نیچے رہتے ہیں اور باہر سوتے وقت مچھروں سے بچاؤ کے لیے پتلے کپڑے اپنے اوپر ڈال لیتے ہیں۔کئی لوگوں کے لیے موسم سرما، گرمی اور بارش سے بھی زیادہ ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔
سال 2014 میں ایس اے جی وائی کا اعلان کرنے کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے دوسری مدت کے لیے اپنے 2019 کے منشور میں درج ذیل وعدے کیے تھے؛ 2022 تک کچھے گھروں میں رہنے والے تمام لوگوں کے لیے پکے گھر، 2024 تک سب کے لیے نل کا پانی، 2022 تک تمام پنچایتوں میں بھارت نیٹ کے ذریعے ڈیجیٹل کنکٹویٹی، بڑے پیمانے پر سڑک کنکٹویٹی اور صاف صفائی (مائع فضلے کے پانی کا 100فیصد ڈسپوزل)۔
بی جے پی کے 2019 کے منشور کا صفحہ 16، جس میں گرام سوراج کا وعدہ کیا گیا ہے۔
تاہم، دی وائر نے پایا کہ وارانسی میں مودی کے گود لیے گئے زیادہ تر گاؤں میں ‘گرام سوراج’ کے وعدے اب بھی حقیقت کا روپ اختیارنہیں کر سکے ہیں۔
مودی کے گود لیے گئے پہلے گاؤں جیا پور میں کئی دلتوں کے پاس گھر یا استعمال میں آنے والے بیت الخلاء نہیں ہیں۔ ناگے پور میں بھی یہی صورتحال ہے اور سڑکوں کی حالت بھی خستہ ہے۔ پرم پور میں پورے گاؤں میں نلکے لگے ہوئے ہیں لیکن ان نلوں میں پانی نہیں ہے۔
دسمبر میں جب دی وائر نے دورہ کیا تو پورے گاؤں میں پچھلے دو مہینوں سے پانی کی سپلائی نہیں ہوئی تھی۔ وہاں کئی دلت اور یادو مٹی کےمکانوں میں رہتے ہیں۔ پورے بریار پور میں دلت محلے کو گاؤں سے الگ کر کے ایک نیا گاؤں جوگا پور بنایا گیا۔جہاں پورے بریار پور میں سہولیات موجود ہیں، وہیں جوگا پور میں کئی دلتوں کے گھروں میں نل نہیں ہیں۔ ہینڈ پمپ کا پانی انتہائی آلودہ ہے۔ کچھ کو اندرا آواس یوجنا کے تحت مکان مل گئے ہیں۔ ککرہیا، جو کہ ایک استثنیٰ ہے، میں گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ ان کی صورتحال مودی کے گود لینے سے پہلےبھی بہتر تھی۔کئی لوگوں کے پاس نل، پانی اور پکے گھر ہیں۔
دی وائر نے گاؤں میں نریندر مودی کے ایک اسکول اور ایک سڑک کا افتتاحی بورڈبھی دیکھا۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ گاؤں میں ‘اونچی ذات’ کا دبدبہ ہے۔
پرم پور گاؤں میں گندے پانی سے برتن صاف کرتی خاتون۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے سینٹر فار اکنامک اسٹڈیز اینڈ پلاننگ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہمانشو کہتے ہیں کہ پالیسیوں کی تشکیل میں بہت سے مسائل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ‘ان پالیسیوں کے لیے دی جانے والی سبسڈی شاذ و نادر ہی کافی ہوتی ہے، اور مقامی بدعنوانی کی وجہ سے نچلی سطح پر تبدیلی لانا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔’ بیت الخلاء ایک اچھی مثال ہے۔ ان کا استعمال میں نہ ہونا لازمی ہے کیونکہ اتنی کم رقم میں شاید ہی ایک ٹھیک ٹھاک بیت الخلاء بنایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت دی جانے والی سبسڈی ٹھیک ٹھاک گھر بنانے کے لیے کافی نہیں ہے۔ پھر اسکیم میں تال میل بھی ٹھیک نہیں ہے، مثال کے طور پر لوگوں کو بغیر گھر کے بیت الخلاء دے دیا جا تا ہے یا نل کے پانی کے بغیر رہائش دے دی جاتی ہے۔’
اس کی تصدیق زمینی سطح پر دی وائر نے کی۔ جبکہ جیا پور میں لال دھر کے پاس ٹوٹے ہوئے دروازے والا بیت الخلاء ہے، لیکن اس کے پاس گھر نہیں ہے۔ اسی طرح ڈومری گاؤں کے موہت چوہان کے پاس گھر نہیں ہے لیکن نل اور بیت الخلاء ہے۔ ناگے پور کی کرما دیوی کے پاس نہ تو گھر ہے اور نہ ہی بیت الخلاء، لیکن ان کے پاس ایک نل ہے جس میں دن میں تین بار پانی آتا ہے۔
دی وائر نے اپنی تحقیقات کے سلسلے میں وارانسی کے ڈویژنل کمشنر اور ضلع کمشنر سے رابطہ کیا ہے۔ ان کا جواب موصول ہونے پر اس رپورٹ کو اپڈیٹ کیا جائے گا۔
لوگوں کو کفایتی رہائش فراہم کرنے کے لیے مودی حکومت نے
اندرا آواس یوجنا کو پردھان منتری آواس یوجنا (پی ایم اے وائی) کے نام سے نئی صورت عطا کی تھی، جس میں 2022 تک سبسڈی کے ذریعے لوگوں کو کفایتی رہائش فراہم کی جانی تھی۔ تاہم اب 2024 آچکا ہے لیکن
منصوبہ ابھی تک نامکمل ہے ۔
چوہان کی بیوی برکھا دیوی نے دی وائر کو بتایا کہ انہوں نے نریندر مودی کی پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت تقریباً پانچ بار گھر کے لیے درخواست دی۔ انہوں نے کہا، ‘ہم نے چار بار پردھان کو آدھار کارڈ، پین کارڈ، پاس بک کی دو کاپیاں اور تصویر کے ساتھ درخواست دی ہے۔ اس بار پھر ہم نے درخواست دی ہے۔ حال ہی میں کلکٹر صاحب (ڈومری) آئے تھے۔ اس وقت انہوں نے ہمیں چلا کر کہا تھاکہ… مہیش، برکھا… تمہارا گھر پاس ہوگیا ہے۔ تاہم چھ ماہ گزرنے کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ گھر پاس نہیں ہوا ہے۔’
پی ایم اے وائی مفت گھر کا وعدہ نہیں کرتا ہے، بلکہ لوگوں کو گھر بنانے کے لیے اپنا حصہ ڈالنا پڑتا ہے۔ کمزور معاشی صورتحال کے درمیان بہت سے لوگ اپنی آمدنی میں کمی کی وجہ سے اپنا حصہ ادا نہیں کر پا تے ہیں اور ان کے گھر ادھورے رہ جاتے ہیں۔
دی ہندو کی ایک رپورٹ کے مطابق، سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ملک بھر میں
کل 513654 مکانات مکمل ہونے کے باوجود ‘خالی’ ہیں ۔ اس کے علاوہ،
ایک پارلیامانی اسٹینڈنگ کمیٹی نے پایا کہ نتائج دکھانے کی جلدی میں بنیادی سہولیات ہو نہ ہو، لیکن گھر کا ڈھانچہ کھڑا ہوتے ہی اس کو ‘مکمل’تعمیر شدہ’ گھر میں شمار کر لیا جاتا ہے۔
اتر پردیش پی ایم اے وائی اسکیم میں سب سے زیادہ مختص کرنے والی ریاستوں میں سے ایک ہے، اس کے ساتھ ہی اس کو اسکیم کے تحت اضافی فنڈ بھی فراہم کیے گئے تھے۔ اس کے باوجود، یوپی کے گاؤں میں بہت سے لوگ اب بھی مٹی کے مکانوں میں رہ رہے ہیں، جن میں مودی کے گود لیے گئے پورے گاؤں کے 55 سالہ دلت لکھندر رام بھی شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہم صدیوں سے مٹی کے گھروں میں رہ رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے کوئی مدد نہیں مل رہی ہے۔ ہمارے دادا اور والد بغیر گھر کے ہی مر گئے۔ ہمیں ایک کمرہ بھی نہیں ملاہے۔’
پورے گاؤں میں اپنے گھر میں کھانا کھا رہے لکھندر رام۔
پانی
‘نل سے جل’ پروگرام کے تحت مودی حکومت نے 2024 تک ہر گھر کو پائپ سے پانی کے کنکشن فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم،
ایک اندازے کے مطابق، 100 فیصد کوریج کے وعدے کے باوجود، 2024 تک چار میں سے صرف تین دیہی گھروں میں ہی پینے کے پانی کے لیے نل کے کنکشن ہونے کا امکان ہے۔ حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق 5 فیصد گھروں میں تو کام بھی شروع نہیں ہوا ہے۔
کئی نل کپڑے اور مکڑی کے جالوں سے ڈھکے ہوئے تھے کیونکہ پانی کے کنکشن نہ ہونے کی وجہ سے وہ استعمال میں نہیں ہیں۔
پی ایم اے وائی کی طرح ہی اتر پردیش مرکز کی ‘ہر گھر جل’ اسکیم کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا ہے۔ کاغذوں پر یوپی کی ترقی متاثر کن ہے۔ مثال کے طور پر، جب ہر گھر جل یوجنا شروع کی گئی تھی، تب ریاست میں
صرف 5.1 لاکھ – یا 1فیصد – گھروں میں نل کنکشن تھے۔ اگست 2021 تک یہ بڑھ کر 32 لاکھ اور اگست 2022 تک بڑھ کر 42 لاکھ ہو گئے۔ ابھی تک، اتر پردیش میں
آدھے گھروں میں نل کے کنکشن ہیں (کاغذ پر)۔
تاہم کئی گاؤں میں پائپ تو ہیں لیکن ان میں پانی نہیں ہے۔ دی وائر نے مودی کے گود لیےگاؤں پورےگاؤں اور پرم پور میں پایا کہ نلوں میں پانی نہیں ہے؛ پورےگاؤں میں کبھی پانی کا کنکشن ہوا ہی نہیں، جبکہ پرم پور کے رہائشیوں نے بتایا کہ انہیں دو ماہ سے پانی نہیں ملا ہے۔ مودی کے گود لیے گاؤں بریار پور کے ساتھ واقع جوگا پور میں نل ہی نہیں تھے۔
ہینڈ پمپ سے نکلا والا پانی، جو واضح طور پر آلودہ ہے۔
لوگ پانی کو کپڑے سے چھان کر استعمال کرتے ہیں۔
دی ہندو کی ایک رپورٹ کے مطابق، اتر پردیش کے 98455 گاؤں میں سے صرف 13085 گاؤں ہی پوری طرح سے پائپ لائنوں سے جڑے ہوئے ہیں – اور ان میں سے صرف 2837 گاؤں میں ہی پنچایت نے ‘نلوں میں پانی آنے’ کی تصدیق کی ہے۔ اس طرح، حقیقت میں یوپی کے صرف 3 فیصد گاؤں ہر گھر جل یوجنا کے تحت 100 فیصد کوریج کو پورا کرتے ہیں۔
ڈیجیٹل انڈیا
‘انفارمیشن کے ذریعے بااختیار بنانے’ کے توسط سے 2022 تک ہندوستان کی تمام پنچایتوں میں ڈیجیٹل کنکٹویٹی لانے کا وعدہ بھی کئی ڈیڈ لائنیں گزر جانے کے بعد پیچھے رہ گیا ہے۔ ہندوستان کی 2.5 لاکھ گرام پنچایتوں میں سے تقریباً
2 لاکھ گرام پنچایتوں کو بھارت نیٹ کے ذریعے جوڑا گیا ہے۔ تاہم، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان گرام پنچایتوں میں انٹرنیٹ کام کر رہا ہے۔
بھارت براڈ بینڈ نیٹ ورک لمیٹڈ (بی بی ایل) کے
29 جنوری 2024 کے اعداد و شمار کے مطابق
صرف 6307 پنچایتوں میں وائی— فائی ایکٹو ہے۔ دی وائر اس بات کی تصدیق نہیں کر سکا کہ مودی کے گود لیے گئے کتنے گاؤں انٹرنیٹ سے منسلک تھے کیونکہ زیادہ تر گرام پنچایت دفاتر بند ملے اور بی بی این ایل ڈیٹا پنچایتوں کے ناموں کا انکشاف نہیں کرتا ہے۔
سڑکیں
نریندر مودی کے مضبوط روڈ کنکٹویٹی کے وعدے کے باوجود، مودی کے گود لیے گئے بہت سے گاؤں میں کارآمد سڑکیں نہیں ہیں۔
پورے گاؤں کے اظہر انصاری نے دعویٰ کیا کہ جب مودی نے ان کے گاؤں کو گود لیا تھا تو سڑک کو چوڑا کرنے کے پروگرام کو منظوری دی گئی تھی۔ انہوں نے کہا، ‘سڑک لمبی اور چوڑی ہونی تھی۔ ایسا ابھی تک نہیں ہوا ہے۔ کم از کم جو کام انہوں نے ہاتھ میں لیاہے اسے تو پورا کرنا چاہیے۔ ورنہ انکوائری کرائی جانی چاہیے۔’
مودی کے گود لیے ناگے پور گاؤں کی ایک سڑک۔
لکھندر رام نے اپنے گاؤں کا جہنم سے موازنہ کرتے ہوئے کہا، ‘ہمارے یہاں کوئی سہولت نہیں ہے۔ بھگوان جانے چند سال پہلے نالے کی منظوری کیسے ہوگئی۔’
ہندوستان میں دیہی سڑکوں کی تعمیر پچھلے کچھ سالوں سے پیچھے رہ گئی ہے۔ پردھان منتری گرام سڑک یوجنا کے تحت 47171 کلومیٹر دیہی سڑکوں کی تعمیر کا سالانہ ہدف 2023 میں 17414 کلومیٹر سے چوک گیا۔
صاف—صفائی
لکھندر نے دعویٰ کیا کہ ان کے گاؤں میں بیت الخلاء کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ہم ہر صبح پیشاب کرنے جانے کو لے کر لڑتے اور ایک دوسرے کو گالی دیتے ہیں۔’ پورے گاؤں کے ان کے پڑوسی، انصاری نے دکھایا کہ کس طرح ان کے گاؤں میں عوامی بیت الخلاء میں پانی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر مودی جی نے ہمارے گاؤں کوگود لیا ہے تو وہ کسی کو بھیج کر دیکھیں کہ وہاں کیا سہولتیں ہیں اور کونسی سہولیات نہیں ہیں۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے۔’
دیہاتوں میں کئی بیت الخلاء ہیں جو گڑھے بھرنے کی وجہ سے استعمال نہیں ہو پا رہے ہیں۔
جیا پور گاؤں میں لال دھر کے لیے مختص بیت الخلاء کا دروازہ آدھا ٹوٹا ہوا ہے اور گڑھا تقریباً بھر چکا ہے۔ تقریباً 10 لوگ اس ٹوائلٹ استعمال کرتے ہیں جس میں نل نہیں ہے۔ لال دھر کے گھر کی خواتین صرف رات کو بیت الخلاء استعمال کرپاتی ہیں۔ لال دھر کہتے ہیں، ‘یہ مودی کا گاؤں ہے۔ ہوا یہ کہ انہوں نے کچھ فرضی کام کیے اور چلے گئے۔’
وارانسی میں دی وائر نے تقریباً جن تمام گاؤں کادورہ کیا، ان میں سےکئی بیت الخلاء مکمل طور پر استعمال سے باہر تھے کیونکہ وہ بغیر چھت والے تھے یا ان کے گٹر کے گڑھے بھر گئے تھے، جس سے وہ ناقابل استعمال ہو گئے تھے۔
تقسیم
دی وائر نے جتنے بھی گاؤں کا دورہ کیا وہ ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر تقسیم تھے۔ اکثر دیہاتوں میں مسلمانوں کی موجودگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ پورے گاؤں میں جہاں مسلم آبادی رہتی ہے، وہاں اونچی ذات، دلت، یادو اور مسلمانوں کے الگ الگ علاقے تھے۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )