یہ سروے تعلیمی شعبے میں کام کرنے والے ایک این جی او انڈس ایکشن نے کیا ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 13 ریاستوں اور یونین ٹیریٹری ریاستوں کے پاس آر ٹی ای کے تحت اسکولوں میں پڑھنے والے طلبا کی تعداد کے بارے میں جانکاری نہیں ہے۔
علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی
نئی دہلی: ایک سروے رپورٹ میں بدھ کو دعویٰ کیا گیا کہ دہلی میں 80فیصد سے زیادہ پرائیویٹ اسکول رائٹ ٹو ایجوکیشن (آر ٹی ای)قانون کو نافذ نہیں کررہے اور وہ اقتصادی طور پر کمزور طبقے ( ای ڈبلیو ایس) کے بچوں کے لیے 25 فیصدی سیٹیں بھی ریزرود نہیں کر رہے ہیں۔
برائٹ اسپورٹس: اسٹیٹس آف سوشل انکلوزن تھرو آر ٹی ای کے نام سے جاری یہ رپورٹ ایک سروے پر مبنی ہے ، جس میں 10 ہزار سے زیادہ لوگوں کی رائے لی گئی ہے۔
یہ سروے تعلیمی شعبے میں کام کرنے والے ایک این جی او انڈس ایکشن نے کیا ہے۔ مفت اور لازمی تعلیم ایکٹ 2009 کی دفعہ 12(1)(سی) کا مقصد سماجی مساوات کو بڑھانا ہے اور پرائیویٹ، غیر فنڈیڈ اور غیر اقلیتی اسکولوں میں ای ڈبلیو ایس اور محروم طبقات کے بچوں کے لیے کم سے کم 25 فیصد سیٹیں ریزور رکھنا ضروری ہے۔
سروے میں کہا گیا ہے کہ کئی ریاستی اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی نگرانی سے متعلق اعداد و شمار شائع نہیں کیے جا رہے ہیں ، جبکہ 5 ریاستوں اور یونین ٹیرٹیری ریاستوں نے اس اہتمام کو ابھی تک لسٹ ہی نہیں کیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 13 ریاستوں اور یونین ٹیریٹری ریاستوں کے پاس اس اہتمام کے تحت اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی تعداد کے بارے میں جانکاری دستیاب نہیں ہے۔
پی وی آر نیسٹ کی مدد سے انڈس ایکشن کل اس رپورٹ کو باقاعدہ پیش کرے گی۔ رپورٹ میں ذکر ہے کہ پالیسی کے فقدان کے پس پردہ ایک وجہ یہ ہے کہ کچھ ریاستو ں میں آمدنی کی حد میں چھوٹ ہے جبکہ کچھ ریاستوں میں وہاں کی کم سے کم مزدوری سے کم کی حد ہے۔ وہیں کچھ ریاستوں میں ای ڈبلیو ایس کے تحت صرف بی پی ایل(غریبی ریکھا سے نیچے) فیملی پر غور کیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے حوالے سے
انڈین ایکسپریس نے بتایا ہے کہ ، تعلیم کی تعریف بھی ابھی واضح نہیں ہے ۔کچھ اسکول امدادی فیس وصول کر تے ہیں جو ضرورت مند والدین اور گارجین کو بھاری پڑتا ہے۔اس کے علاوہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ، درجہ 8 پاس کرنے کے بعد طلبا کے مستقبل کو لے کر کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی ‘آدھار’ او رکچھ دوسرے دستاویزوں کی ضرروت نے ضرورت مند آبادی کے ایک طبقے کو اس سے باہر کیا ہے ، جس میں نقل مکانی کرکے آنے والی آبادی کے بچے ، سنگل مدر کے بچے اور دوسرے شامل ہیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)