گزشتہ14اگست کو قصوروار ٹھہرائے گئے پرشانت بھوشن نے سپریم کورٹ میں اپنا بیان دائر کرتے ہوئے کہا کہ انہیں افسوس ہے کہ جس عدالت کی عظمت کو قائم رکھنے کے لیے وہ پچھلی تین دہائی سے کام کرتے آ رہے ہیں، اسی کورٹ کی ہتک کا مجرم ٹھہرایا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ بھوشن اپنے بیان پر 2-3 دن نظرثانی کرکے جواب دیں۔
میں نے اس کورٹ کے پورے فیصلے کو پڑھا ہے۔ اس بات کا مجھے بہت دکھ ہے کہ مجھے توہین عدالت کا قصوروارقرار دیا گیا ہے۔ وہی کورٹ جس کی عظمت کو برقرار رکھنے کے لیے پچھلی تین سے زیادہ دہائی سے میں ایک درباری یا جئے جئےکار کرنے والے کے طورپر نہیں، بلکہ ایک خاکسارمحافظ کے طور پر کام کرتا آ رہا ہوں۔ مجھے اس کا افسوس نہیں ہے کہ مجھے سزا دی گئی ہے، بلکہ اس بات کا افسوس ہے کہ مجھے بے حدغلط سمجھا گیا ہے۔ میں حیران ہوں کہ عدالت نے مجھے انصاف کے انتظامیہ کے ادارے پر ‘بدنیتی، توہین آمیز، منصوبہ بند حملہ’کرنے کا قصور وار ٹھہرایا ہے۔ میں اس بات سے مایوس ہوں کہ عدالت اس طرح کا حملہ کرنے کے پیچھے میرے مقاصد کا کوئی ثبوت فراہم کیے بغیر اس نتیجےپر پہنچی ہے۔ مجھے یہ قبول کرنا چاہیے کہ میں مایوس ہوں کہ عدالت نے مجھے اس شکایت کی ایک کاپی بھی دینا ضروری نہیں سمجھا جس کی بنیاد پر از خود نوٹس جاری کیا گیا تھا اور میرے جوابی حلف نامے میں اٹھائی گئی باتوں اور میرے وکیل کی جانب سےدی گئی دلیلوں کا بھی جواب دینا ضروری نہیں سمجھا۔ میرے لیے یہ یقین کرنا بہت مشکل ہے کہ کورٹ نے پایا ہے کہ میرے ٹوئٹ میں ‘ہندوستانی جمہوریت کے اس اہم ادارےکی بنیاد کو ہلانے کی صلاحیت ہے۔’ میں صرف وہی بات دوہرا سکتا ہوں کہ یہ دونوں ٹوئٹ میرے ذاتی خیالات اور اظہار ہیں، جس کی اجازت کسی بھی جمہوریت میں دی جانی چاہیے۔معلوم ہو کہ جسٹس ارون مشرا، جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس کرشن مراری کی بنچ نے پرشانت بھوشن کوتوہین عدالت کا قصوروار ٹھہرایا ہے اور سزا پر فیصلہ لیا جانا ابھی باقی ہے۔غور طلب ہے کہ27 جون کو ایک ٹوئٹ کرتے ہوئے بھوشن نے پچھلے چھ سالوں میں رسمی ایمرجنسی کے بغیر جمہوریت کی تباہی کے لیے سپریم کورٹ کے آخری چارچیف جسٹس جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس دیپک مشرا اور جسٹس جےایس کھیہر کے رول کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اس کے علاوہ ایک دیگر ٹوئٹ انہوں نے ہندوستان کے موجودہ چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کے ذریعے موٹر سائیکل پر سوار ہونے کو لےکر کیا تھا۔جمعرات کو کورٹ نے وکیل پرشانت بھوشن کی اس اپیل کو خارج کر دیا کہ ان کے خلاف ہتک کی کارروائی میں سزا طے کرنے سے متعلق دلیلوں کی شنوائی عدالت کی دوسری بنچ کے ذریعےکی جائے۔ جسٹس ارون مشراکی قیادت والی بنچ نے بھوشن کو یقین دلایا کہ جب تک انہیں معاملے میں قصوروارقرار دینے کے فیصلے کے خلاف ریویو پٹیشن پر فیصلہ نہیں آ جاتا، تب تک سزاسے متعلق کوئی کارروائی نہیں کی جائےگی۔خاص بات یہ ہے کہ اس معاملے میں اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے بھی پرشانت بھوشن کی حمایت کی اور کورٹ سے گزارش کی کہ وہ انہیں کوئی سزا نہ دیں۔ وینوگوپال نے کہا، ‘میرے پاس نو ججوں کی لسٹ ہے، جنہوں نے کہا ہے کہ عدلیہ کے اعلیٰ عہدوں میں بدعنوانی ہے۔ میں نے خود 1987 میں کہا تھا۔’حالانکہ اس معاملے میں بنچ نے اٹارنی جنرل کو نہیں سنا۔کورٹ نے کہا کہ 14 اگست کے فیصلے کے سلسلے میں پرشانت بھوشن اپنے بیان پر 2-3 دن غور کرکے جواب دائر کریں۔دراصل عدلیہ کے صحت مند کام کاج کے لیے عوامی جانچ ضروری ہے۔ میرا ماننا ہے کہ آئینی نظام کے تحفظ کے لیے جمہوریت میں کسی بھی ادارے کی کھلی تنقیدضروری ہے۔ ہم اپنی تاریخ میں اس لمحہ سے گزر رہے ہیں، جب اعلیٰ اصولوں کو روزانہ کی ذمہ داریوں سے آگے نکلنا چاہیے، جب آئینی نظام کو بچانے کی کوشش ذاتی اور کاروباری مفادات سے پہلے ہونی چاہیے، جب مستقبل کے لیے ہماری ذمہ داریوں کو نبھاتے وقت حال کاخیال آڑے نہیں آنا چاہیے۔ آواز نہ اٹھانے کا مطلب فرائض کی توہین ہوگی، بالخصوص میرے جیسے عدالت کے ایک اہلکار کے لیے۔ میرے ٹوئٹ کچھ نہیں بلکہ ہماری جمہوریہ کی تاریخ کے اس موڑ پر اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی ایک چھوٹی سی کوشش تھی۔ میں نے بنا سوچے سمجھے یہ ٹوئٹ نہیں کیے تھے۔ میرے ذریعےکیے گئے ٹوئٹ کے لیے معافی مانگنا بےایمانی اور توہین آمیز بات ہوگی، جس کو لےکر اب بھی میرے خیالات وہی ہیں اور اس میں میرایقین ہے۔ اس لیےمیں عاجزی سے اسی بات کو دوہرا سکتا ہوں، جو بابائے قوم مہاتما گاندھی نے اپنے ٹرائل کے دوران کہا تھا: میں معافی نہیں مانگ رہا ہوں۔ میں رحمدلی کی اپیل نہیں کرتا ہوں۔ میں یہاں اس لیے ہوں تاکہ عدالت کے ذریعے طے کیے گئے جرم کے لیے مجھے قانون کے مطابق دیے گئے کسی بھی سزا کو خوشی کے ساتھ قبول کر سکوں اور یہ میرے لیے ایک شہری کاسب سے بڑا فریضہ معلوم ہوتا ہے۔پرشانت بھوشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں دیا گیا بیان۔