ملازمین کا دعویٰ؛ اُردو نیوز بلیٹن کی تعداد کم کرنے کے معاملے میں پرسار بھارتی کی ’تردید‘ گمراہ کن  

دی وائر نے مرکزی ڈی ڈی اُردو چینل پر بلیٹن کے گھٹائے جانے کے بارے میں ویڈیو اسٹوری کی تھی، اس پر جواب دیتے ہوئے پرسار بھارتی نے اُردو بلیٹن سے متعلق ایک ایسی فہرست پیش کی ہے جو نیٹ ورک کے دوسرے چینلوں پر نشر ہو رہے ہیں۔

دی وائر  نے  مرکزی ڈی ڈی اُردو چینل پر بلیٹن کے گھٹائے جانے  کے بارے میں ویڈیو اسٹوری کی تھی، اس پر  جواب دیتے ہوئے  پرسار بھارتی نے اُردو بلیٹن سے متعلق ایک ایسی فہرست پیش کی ہے جو نیٹ ورک کے دوسرے چینلوں پر نشر ہو رہے ہیں۔

ڈی ڈی اردو السٹریشن: دی وائر

ڈی ڈی اردو السٹریشن: دی وائر

گزشتہ 15 جنوری کو پرسار بھارتی نے دی وائر کی ایک ویڈیو اسٹوری کا جواب دیتے ہوئے  ٹوئٹ کیا تھا؛

فرضی خبروں کے پیروکار، دوردرشن نیٹ ورک پر اردو خبروں کی کوریج کی تفصیل کے لیے  اس تھریڈ پر توجہ مبذول کر سکتے ہیں۔

دراصل دی وائر کی یہ خبر ڈی ڈی اردو پر اُردو میں نشر ہونے والے روزانہ نیوز بلیٹن کی تعداد کو 10 سے کم کر کے2 کرنے کے سلسلے میں کی گئی تھی۔

 متعدد کانٹریکٹ اور کیزول اسٹاف نے دی وائر کو بتایا تھاکہ، دوسرے ڈویژن میں باقاعدہ پروگرام شروع کردیے گئے ہیں،جبکہ  اردو ڈویژن میں اب تک ایسا نہیں کیا گیا۔

 ان دستیاب معلومات کی بنیاد پر دی وائر نے سوال کیا تھاکہ ،  کیا پرسار بھارتی اردو زبان کو نظر انداز کر رہی ہے؟

حالاں کہ، رپورٹ میں کیے گئے دعوؤں کی تردیدکرنے یا مناسب جواب دینے کے بجائے پرسار بھارتی نےٹوئٹ میں ڈی ڈی کاشر، ڈی ڈی بہار، ڈی ڈی اُردو، ڈی ڈی یڈگیری، ڈی ڈی بنگلہ، ڈی ڈی اتر پردیش اور ڈی ڈی مدھیہ پردیش جیسے اپنے نیٹ ورک میں چینلوں پر نشر ہورہے اردو بلیٹن کی فہرست پیش کردی اور دی وائر کی جانب سے اٹھائے گئے ڈی ڈی اردو کے نیوز بلیٹن کی تعداد میں کمی پر کسی طرح کے ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔

البتہ، انہوں نے اپنےٹوئٹ میں دی وائر کے اس دعوے کی تصدیق کردی کہ ڈی ڈی اردو پر اب محض  دو بلیٹن نشر کیے جارہے ہیں ۔ ایک صبح 9 بجے اور دوسرا شام 5:30 بجے۔یہ جانکاری پرسار بھارتی نے اپنے ٹوئٹر تھریڈ میں دی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ دی وائر کی رپورٹ میں کہیں بھی یہ دلیل نہیں دی گئی تھی کہ ڈی ڈی نیٹ ورک کے دیگر چینلوں پر اردو بلیٹن نشر نہیں کیے جاتے ہیں۔ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ ڈی ڈی اردو پر نشر ہونے والے 8 بلیٹن بند کر دیے گئے ہیں۔

ڈی ڈی نیوز (اردو ڈیسک) کے ساتھ اسسٹنٹ نیوز ایڈیٹر کیزو ل کے طور پر ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک چینل کے لیے کام کر چکے اشرف علی بستوی کا کہنا ہے کہ،  بات یہ نہیں ہے کہ  نیٹ ورک کے دوسرے چینلوں پر کتنے بلیٹن نشر ہو رہے ہیں بلکہ مین اُردو چینل پر بلیٹن کی تعداد کم ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ ،پرسار بھارتی کا دعویٰ گمراہ کن ہے، کیونکہ اس میں بلیٹن کے  بندکیے جانے کے بارے میں حقائق کو چھپایا گیا ہے۔ جس نے مجھ جیسے اردو صحافیوں کو متاثر کیا ہے۔

کئی دوسرے کانٹریکٹ اسٹاف،کیزول اسٹاف اور اردو صحافیوں سے بھی دی وائر نے بات کی۔انہوں نے اشرف علی بستوی کی بات کو درست قرار دیا۔

 ڈی ڈی اردو کے ایک موجودہ ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ،  وبا سے پہلے چینل روزانہ 10 بلیٹن نشر کرتا تھا، اب اسے کم کر کے صرف دو کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ عملہ نہیں ہے، لیکن ہندی اور انگریزی بلیٹن کی طرح اُردو بلیٹن کودوبارہ شروع نہیں کیا گیا ہے۔

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اردو سے متعلق کام تفویض کرنے کے بجائے اردو کے کچھ عملے کو دوسرے ڈویژن میں زبردستی کام کرنے کو مجبور کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اردو میں اب خاطر خواہ کام ہی نہیں ہے۔

ڈی ڈی اردو کے ایک اور اسٹاف نے کہا، اگر اردو زبان کے کسی ملازم کا کسی دوسرے ڈویژن میں تبادلہ کیا جاتا ہے تو مان لیجیے کہ وہ غلطی کا مرتکب ہوا ہے، ایسی صورت حال میں اردو زبان کے ملازم کو یہ کہہ کرمعطل کیا جا سکتا ہے کہ وہ لائق  نہیں ہیں کیونکہ وہ مذکورہ  زبانوں میں ان زبانوں میں کام کرنے والوں کی طرح ماہر نہیں ہو سکتے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ،  سوال یہ نہیں ہے کہ ڈی ڈی کے نیٹ ورک کا حصہ رہے مختلف چینلوں پر کتنے بلیٹن نشر کیے جا رہے ہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ ڈی ڈی اردو پر کتنے بلیٹن نشر کیے جا رہے ہیں؟

 انہوں نے پوچھا،فرض کیجے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کا’من کی بات’ 50 چینلوں پر ٹیلی کاسٹ ہو رہا ہے، تو کیا  ہم یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ 50 ‘من کی بات’ پروگرام ٹیلی کاسٹ ہو رہے ہیں؟

ایک دہائی سے زائد عرصے تک ڈی ڈی اردو کے ساتھ کام کر چکے ایک سینئر اینکر نے کہا، ہم نے سی ای او کے ساتھ ساتھ ڈی جی کو درجنوں ای میل اور خطوط لکھے ہوں گے، لیکن ان  کی طرف سے شاید ہی کوئی جواب آیا ہو۔

حالاں کہ دوسری زبانوں میں کیزول ملازمین نے مختلف شفٹوں میں دوبارہ کام کرنا شروع کر دیا ہے، مگرہمیں ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

انہوں نے کہا، امید ہے کہ ان کی درخواست جلد ہی سنی  جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹوئٹر پر پرسار بھارتی کی طرف سے درج بہت سے بلیٹن علاقائی اسٹیشنوں کے ذریعے تیار کیے گئے ہیں اور ان کا ڈی ڈی اردو نیشنل ڈیسک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

واضح ہوکہ یہ صحافی ایک سال سے زائد عرصے سے بلیٹن کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پچھلے سال فروری میں ان کے مطالبے کی بنیاد پرمؤقر اُردو روزنامہ انقلاب نے رپورٹ کیا تھا کہ اردو نیوز بلیٹن کو مکمل طور پر بند کرنے کے پیچھے ایک’منصوبہ بند سازش’  نظر آتی ہے۔

اس رپورٹ کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے قومی اقلیتی کمیشن (این سی ایم) کے اس وقت کے وائس چیئرمین عاطف رشید نے دوردرشن کے ڈائریکٹر جنرل کو نوٹس جاری کیا تھا۔

دی وائر سے بات کرتے ہوئے رشید نے کہا کہ مجھے اس معاملے کی موجودہ صورتحال کا علم نہیں ہے ،کیونکہ میری مدت ختم ہو چکی ہے اور میں اب کمیشن کا حصہ نہیں ہوں۔

حالاں کہ، انہوں نے کہا کہ ڈی جی نے جواب دیا تھا کہ جیسے ہی صورتحال ‘بہتر’ ہوگی بلیٹن دوبارہ شروع کر دیے جائیں گے۔

 دی وائر نے قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین اقبال سنگھ لال پورہ سے بھی رابطہ کیا،  لیکن ان کے پرسنل سکریٹری بھوپیندر سنگھ نے کہا کہ چیئرمین سرکاری دورے پر ہیں اور کچھ دنوں بعد واپس آئیں گے۔ ان کا جواب موصول ہوتے ہی اس رپورٹ کو اپ ڈیٹ کر دیا جائے گا۔

ابھی تک اس معاملے میں کوئی کارروائی نہ ہونے کی وجہ سےکئی  اردو صحافیوں نے پرسار بھارتی کے سی ای او کو خط لکھنے کی مہم بھی شروع کی ہے، جس میں آل انڈیا ریڈیو اور ڈی ڈی نیوز اردو ڈیسک کی طرف سے اردو سروسز کو پہلے کی طرح دوبارہ شروع کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

خطوط

خطوط

دریں اثنا، اردو کے فروغ اور ترقی کے لیے کام کرنے والے کئی اداروں مثلاً؛  غالب انسٹی ٹیوٹ اور دہلی اردو اکادمی کے عہدیداروں نے پرسار بھارتی کے سی ای او ششی شیکھر ویمپتی کو خط لکھ کر صحافیوں کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔ حالاں کہ  ابھی تک انہیں اس حوالے سے کوئی جواب یا یقین دہانی نہیں کرائی گئی  ہے۔

دی وائر نے جواب کے لیے پرسار بھارتی کے سی ای او اور ڈی ڈی نیوز کے ڈائریکٹر جنرل سے رابطہ کرنے کی کئی بار کوشش کی، لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ جواب موصول ہونے پر رپورٹ کو اپ ڈیٹ کیا جائے گا۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)

Next Article

دو ہزار چھ کے ممبئی ٹرین دھماکے: جو برسوں پہلے جیل گئے یا بری کر دیے گئے، پولیس آج بھی ان کے خاندان کو ’تنگ‘ کرتی ہے

سال 2006کے ممبئی ٹرین دھماکہ کیس میں جن لوگوں کو عدالت نے مجرم قرار دیا  یا بری کر دیا ،  ان کے خاندانوں کو اب بھی پولیس کی مسلسل پوچھ گچھ اور نگرانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ بری کر دیے گئے لوگ بھی خود کوریاست کی نظر میں اب تک مجرم جیسا محسوس کرتے ہیں۔

السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر

ممبئی: 11 جولائی 2006 کو ممبئی ٹرین بلاسٹ معاملے میں مبینہ رول کی وجہ سے جب شیخ محمدعلی عالم شیخ کوگرفتار کیا گیا تھا، تب ان کے بچے اسکول میں پڑھتےتھے ۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک جب ممبئی کی اسپیشل مہاراشٹر کنٹرول آف آرگنائزڈ کرائم ایکٹ (مکوکا) عدالت میں مقدمہ چلتا رہا ، تب مختلف محکموں کی پولیس ہر جمعرات کو علی کے گھر جا کر اس کے بارے میں معلومات اکٹھی کرتی تھی۔

‘میرے والد ان کی حراست میں تھے، پھر بھی وہ ہر ہفتے ہمارے گھر آتے اور فضول سوالات کرتے۔’ علی کے بیٹوں میں سےایک کہتے ہیں۔ 2015 میں جب مکوکا کورٹ نے علی اور دیگر 11 افراد کو مجرم قرار دیا اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی ۔ تب کہیں جاکر یہ دورے دھیرے دھیرے کم ہوگئے۔

لیکن تقریباً ایک دہائی بعد جب علی کے ایک بیٹے نے اپنی تعلیم مکمل کر کے شہر میں نوکری شروع کی، تو پولیس کے دورے دوبارہ شروع ہو گئے۔ ممبئی پولیس کمشنر کو دی گئی شکایت میں علی کی اہلیہ سعیدالنسا نے بتایا کہ کچھ نامعلوم پولیس اہلکار ان کے گھر آتے ہیں اور علی کے بارے میں پوچھتے ہیں، حالانکہ وہ گزشتہ 20 سال سے جیل میں ہیں۔

اب یہ ہراسانی مزید بڑھ گئی ہے – پولیس علی کے بیٹوں سے بھی رابطہ کرتی ہے اور ان سے بار بار وہی سوال کرتی ہے۔ علی کے بڑے بیٹے کہتے ہیں،’یہ  سوال  ہمیں سمجھ نہیں آتے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ پولیس کی طرف سے ایک اشارہ ہے کہ ہم ہمیشہ ان کی نگرانی میں ہیں۔’

پریشانیاں اور نگرانی

نگرانی صرف محمد علی کے خاندان تک محدود نہیں ہے۔ یہ کیس سے جڑے تقریباً ہر فرد تک پھیلا ہوا ہے، جن میں عبدالواحد شیخ بھی شامل ہیں — جنہیں تمام الزامات سے بری کر دیا گیا تھا اور 2015 میں رہا کر دیا گیا تھا۔

واحد شیخ اب جنوبی ممبئی کے ایک پرانے اردو اسکول میں استاد ہیں اور حال ہی میں انہوں نے قیدیوں کے حقوق پر پی ایچ ڈی کا مقالہ جمع کیا ہے۔ وہ بتاتے  ہیں کہ بری ہونے کے باوجود انہیں اور ان کے خاندان کو مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے۔

‘ہر چند دن بعد پولیس میرے دروازے پر دستک دیتی ہے یا مجھے فون کرتی ہے۔ میں سمن کے بغیر بات کرنے سے انکار کرتا ہوں – جو وہ کبھی نہیں لاتے۔’ شیخ کہتے ہیں۔

شیخ نے ہر بار کی اس طرح کی پولیس کارروائی کو دستاویزی شکل دی ہے اور بتاتے ہیں کہ انہوں نے کمشنر کے دفتر میں کتنی بار شکایت کی ہے اس کی گنتی بھی اب یاد نہیں ہے۔ شیخ مزیدکہتے ہیں،’شکایات اوپر تک جاتی ہیں، ہراسانی چند مہینوں کے لیے بند ہو جاتی ہے، پھر دوبارہ شروع ہو جاتی ہے۔’

شیخ نے نو سال سے زیادہ عرصہ جیل میں گزارا اور بری ہونے کے بعد سے وہ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ دہشت گردی کے اس مقدمے میں سزا پانے والے 12 افراد بے قصور ہیں۔ انہوں نے ‘انوسنس نیٹ ورک’ کے نام سے ایک مہم شروع کی ہے۔

قصوروار ٹھہرائے گئے 12 لوگوں  میں سے 5 – کمال انصاری، محمد فیصل عطا الرحمان شیخ، احتشام قطب الدین صدیقی، نوید حسین خان اور آصف خان کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔ باقی سات افراد – تنویر احمد محمد ابراہیم انصاری، محمد ماجد محمد شفیع، شیخ محمد علی عالم شیخ، محمد ساجد، مرغوب انصاری، مزمل عطا الرحمان شیخ، سہیل محمود شیخ اور ضمیر احمد لطیف الرحمان شیخ کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

سزا سنائے جانے کے فوراً بعد تمام مجرموں نے بامبے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ استغاثہ نے ان پانچوں مجرموں کی سزائے موت کی توثیق کے لیے ایک اپیل بھی دائر کی ہے – جو یہ ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ کیس ‘ریئرسٹ آف دی ریئر’ کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ اپیلیں ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں اور ان کے فیصلے اگلے ماہ متوقع ہیں۔

سال 2006 میں گرفتاری کے بعد سے تمام 12افرادجیل میں ہیں۔ انہیں گزشتہ دو دہائیوں میں صرف چند مواقع پر عارضی ضمانت دی گئی ہے، جیسے کہ جب کسی قریبی رشتہ دار کی موت ہوئی ہو۔ باقاعدہ پیرول یا چھٹی، جو عام طور پر قیدیوں کو ملتی ہے، عدالتوں کی طرف سے مسلسل مسترد کی جاتی رہی ہے۔

ہمیں سوالوں کی ایک فہرست تھما دی جاتی ہے

‘اتنے سالوں تک ان لوگوں کو حراست میں رکھنے کے بعد آپ اور کیا جاننا چاہتے ہیں؟’ ضمیر کے بڑے بھائی شریف پوچھتے ہیں۔

گرفتاری کے وقت ضمیر کی عمر 31 سال تھی اور اب وہ جلد ہی 50 سال کے ہو جائیں گے۔ 2006 کے سیریل بالسٹ کے واقعے میں قصوروار ٹھہرائے گئے ضمیر، جن پر 189لوگوں کی موت اور 824 کو زخمی کرنے کا الزام ہے، گزشتہ دو دہائیوں میں صرف ایک بار جیل سے باہر آئے – وہ بھی چند گھنٹوں کے لیے – جب چند سال قبل ان کی والدہ کا انتقال ہوا تھا۔ ‘اس کے باوجود پولیس آج تک ہمارے پاس آتی ہے اور اسی کیس کے بارے میں سوالات کرتی ہے جسے وہ خود پچھلے 20 سال سے دیکھ رہے ہیں۔’ شریف کہتے ہیں۔

پانچ سال پہلے تک شریف کے خاندان کو بھی پولیس کے ان بار بار دوروں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ‘وہ ضمیر کے بارے میں پوچھتے تھے، پھر میری ذاتی زندگی کے بارے میں بھی۔ میں کئی سالوں تک صبروتحمل کا مظاہرہ کرتارہا، لیکن جب انہوں  ہماری بہنوں اور ان کے خاندان کے بارے میں جانکاری مانگنی شروع کی  تو میں نے احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا،’ وہ بتاتےہیں۔

شریف نے کرائم برانچ کے ایک سینئر افسر کے خلاف شکایت درج کرائی، جس کے باعث کچھ وقت کے لیے پولیس کا آنا بند ہو گیا۔ تاہم، گزشتہ ہفتے جمعہ (30 مئی) کو دو پولیس اہلکار سادہ لباس میں دوبارہ ان کے گھر آئے اور وہی پرانے سوالات کرنے لگے۔

ان بے بنیاد پوچھ گچھ کے ذریعے جہاں پولیس ان خاندانوں کو مسلسل ہراساں کرتی رہی ہے، وہیں کچھ پولیس اہلکار دی وائر سے بات کرتے ہوئے اپنا دفاع کیا اور کہا کہ وہ  توصرف ‘اوپر سے آنے والے احکامات کی پیروی کر رہے ہیں۔’

‘ہمیں سوالات کی ایک فہرست تھما دی جاتی ہے، اور ہم صرف جا کر پوچھ لیتے ہیں،’ ٹرین بلاسٹ کے ایک مجرم کے گھر حال ہی میں گئے ایک سپاہی نے کہا۔

مسلسل ہراسانی

ممبئی ٹرین دھماکوں کے کیس میں قصوروار ٹھہرائے گئے افراد کے گھروں کا پولیس کا حالیہ دورہ شہر میں جاری پولیس کی وسیع تر پروفائلنگ مہم کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔

شیخ کا کہنا ہے کہ انہیں ممبئی کے مختلف حصوں سے ایسے لوگوں کے فون آتے ہیں جنہوں نے ممنوعہ اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی) یا دیگر دہشت گردی کے مقدمات میں ٹرائل کا سامنا کیا ہے، لیکن عدالتوں سے انہیں بری کر دیا گیا ہے۔ ‘وہ بحالی کے لیے کوئی ڈیٹا بیس تیار نہیں کر رہے ہیں، بلکہ یہ ساری مشق بے گناہ لوگوں کے مجرمانہ پروفائل تیار کرنے کے لیے ہے۔ عدالت سے بری ہونے کے بعد بھی ریاست انہیں بے گناہ ماننے سے انکاری ہے۔’ شیخ نے اصرار کیا۔

اس طرح کی مسلسل ہراسانی سے تنگ آکر شیخ اور ان جیسے کئی دوسرے سابق قیدیوں نے اپنے گھروں کے ارد گرد سی سی ٹی وی کیمرے نصب کر وا دیے ہیں۔

سال 2023میں دی وائر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں  شیخ نے کہا  تھاکہ یہ مجبوری میں اپنایا گیا راستہ ہے تاکہ خود کو اور اپنے خاندان کو پولیس سے محفوظ رکھاجا سکے، اور سب سے اہم – کسی طرح کے جھوٹے مقدمے میں پھنسایا نہ  جا سکے۔ دی وائر نے ملک بھر میں کئی ایسے سابق قیدیوں کا انٹرویو کیا تھا، جنہوں نے پولیس کی مداخلت سے بچنے کے لیے اپنے گھروں میں کیمرے لگوائے ہیں۔

شیخ کہتے ہیں کہ مشکلات ختم نہیں ہوئیں۔ اکتوبر 2023 میں، نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا، یہ الزام لگاتے ہوئے کہ وہ ممنوعہ تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف ائی) سے منسلک ایک معاملے میں مشتبہ ہیں۔ بعد میں انہیں لکھنؤ بلایا گیا، پوچھ گچھ کی گئی اور چھوڑ دیا گیا۔ ‘لیکن انہوں نے میرے گھر پر اس طرح چھاپہ مارا جیسے میں شہر میں چھپا ہوا کوئی بڑا دہشت گرد ہوں۔’

برسوں پہلے، جب دہلی ٹربیونل – جو وقتاً فوقتاً سمی پر پابندی کا جائزہ لینے کے لیے قائم کیا جاتا ہے – نے مہاراشٹر کا دورہ کیا تھا، تب  ریاستی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ شیخ سمی کا حصہ تھے۔ اس کے علاوہ انہیں ‘دہشت گردی کے معاملے میں قصوروار’ بھی کہاگیا، جو مکمل طور پر غلط تھا۔ شیخ کو اس غلط معلومات کو ہٹوانے کے لیے دہلی ہائی کورٹ جانا پڑا۔

‘عدالت نے مجھے تمام الزامات سے بری کر دیا ہے، میرے خلاف کوئی مقدمہ زیر التوا نہیں ہے، پھر بھی ریاست مجھے ایک قانونی شہری کے طور پر قبول کرنے کو تیار نہیں ہے’۔ شیخ کہتے ہیں۔

( انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

ڈرائنگ رومز اور وہاٹس ایپ جرنیلوں کے نام

شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے  ڈرائنگ رومز کو جنگی ہیڈکوارٹر کے بجائے امن کے مراکز میں بدلیں۔ جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں، ذہنوں سے بھی لڑی جاتی ہے۔ اگر ہم صرف نفرت، افواہوں اور پوائنٹ اسکورنگ میں الجھے رہے، تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے بچے فلمی اور اصلی جنگ کا فرق بھول جائیں گے۔

علامتی تصویر: پی ٹی آئی

مئی کے مہینے میں، جب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حالات اس قدر کشیدہ ہو گئے کہ جنگ کی گھنٹیاں بجنے لگیں،  سرحدوں پر فوجیں صف آرا تھیں اور میزائل سرحد پار کر رہے تھے،  تو اصل لڑائی شہروں، محلوں، چائے خانوں اور ڈرائنگ رومز میں لڑی جا رہی تھی۔ نہ وردی کی ضرورت تھی، نہ تربیت کی۔ ہر شخص وہاٹس ایپ پر جرنیل بنا بیٹھا تھا۔ ہر دوسرا فرد اسٹریٹجک تجزیہ کار بن کر عسکری مشورے دے رہا تھا۔

جیسے کرکٹ میچ کے دوران ہر شائق ماہر کوچ بن جاتا ہے، ویسے ہی مئی کی اس کشیدگی کے دوران ہر فرد اپنی رائے دے رہا تھا—کب، کہاں، اور کیسے حملہ ہونا چاہیے۔

دہلی کی ہماری رہائشی سوسائٹی گروپ میں ایک آنٹی نے بیلسٹک میزائل ٹکنالوجی پر ایک لمبی پوسٹ شیئر کی ۔ دعویٰ کیا گیا کہ یہ معلومات انہیں اپنے کزن سے ملی، جو فضائیہ میں کام کرتا تھا۔

بعد ازاں پتہ چلا کہ وہ کزن دراصل تنخواہوں والے اکاؤنٹس سیکشن میں تھا، اور اس کا میزائلوں سے اتنا ہی تعلق تھا جتنا ایک اکاؤنٹنٹ کا میزائل لانچر سے ہو سکتا ہے۔

اسی گروپ میں ایک انکل جو جنگی مشورہ دے رہے تھے سے پوچھا گیا کہ ان کی عسکری قابلیت کیا ہے؟، تو انہوں نے اعلان کیا ؛’میں نے ‘بارڈر’ اور ‘اوڑی’ فلمیں دس بار دیکھی ہیں، مجھے جنگ کی باریکیاں بخوبی معلوم ہیں ‘ اعتراضات کرنے والوں پر انہوں نے ملک دشمنی کا الزام لگا کر چپ کروادیا۔

دہلی کے ایک پوش علاقے کے وہاٹس ایپ گروپوں میں گویا جنگ چھڑ گئی تھی ،جب پاکستان پر ہندوستان نے میزائلوں سے حملے کیے ،ٹی وی پر جب وہ جگہیں دکھائی جا رہی تھیں۔ ایک آنٹی نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا،’ارے بھئی، عمارت تو جوں کی توں کھڑی ہے! مرنے والے بھی وردی میں نہیں تھے۔’

ان کی سب سے بڑی شکایت یہ تھی کہ میزائل نے عمارت پر عمودی حملہ نہیں کیا تھا، بلکہ قوس کی شکل میں گرا۔’یہ کیا طریقہ ہوا؟ میزائل تو اوپر سے سیدھا مارنا چاہیے تھا!’ انہوں نے لکھا تھا۔

ابھی دفاعی ترجمان کی پریس کانفرنس مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ سوشل میڈیا پر دفاعی حکمت عملی طے ہونے لگی تھی۔ ایک پان والے نے پوسٹ کیا تھا،’بھائی صاحب، وہ ہدف درست نہیں تھا۔ ہمیں ان کا تیل کا ذخیرہ ملتان میں اڑا دینا چاہیے تھا!’

ایک خاتون نے ٹوئٹر پر مشورہ دیا کہ انڈین ایئر فورس کو ملتان میں تھوکر نیاز بیگ کو نشانہ بنانا چاہیے، کیونکہ وہاں مبینہ طور پر ہندوستان مخالف عناصر موجود ہیں۔ بعد میں جب کسی نے ان کی تصحیح کی کہ تھوکر نیاز بیگ تو لاہور میں ہے، تو انہوں نے خاموشی سے پوسٹ ڈیلیٹ کر دی—اور اگلے دن اسٹریٹجک خاموشی اختیار کر لی۔

ہندوستانی نیوز چینلوں پر ایسا ماحول بن گیا تھا گویا گلیڈیئیٹرز کا میدان ہو۔ ایک خود ساختہ جنرل صاحب میز پر بیٹھے فرما رہے تھے؛

‘اگر میرے مشورے پر حملہ ہوتا، تو آج دشمن ہتھیار ڈال چکا ہوتا۔’

ایک شادی کی تقریب میں، دولہا ابھی ہال میں داخل بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک ماموں صاحب نے گھونٹ بھرتے ہوئے کہا؛

‘یہ جو حملہ ہوا ہے نا، یہ الیکشن اسٹنٹ ہے۔ اصل حملہ تب ہوتا جب ہم ان کا ریڈار سسٹم تباہ کرتے۔’

دلہن کی خالہ نے کان میں سرگوشی کی؛

‘ارے چھوڑو حملہ، یہ بتاؤ، لڑکا کس رجمنٹ میں ہے؟’

جنوبی دہلی کے لاجپت نگر علاقے کے شرما جی، جو دن بھر لائف انشورنس کی پالیسیاں بیچتے ہیں، شام کو عسکری ماہر بن جاتے ہیں۔ وہ بھارتی فوج کو جیسلمیر کے قریب تعیناتی کی اسٹریٹجی سمجھا رہے تھے؛

‘اگر میں جنرل ہوتا، تو میں برہموس میزائل شمال مشرق سے چلاتا، مغرب سے نہیں۔ پھر دیکھتے وہ کیا کرتے!’

پھر فرمایا؛’ہائپرسانک میزائل استعمال کرنے چاہیے، جیسا روس نے کیا۔ سب سے پہلے پاکستان کے ڈرون ہیک کرو۔ میرے بیٹے کو ہیکنگ آتی ہے۔ ایرفورس کو اس کی خدمات لینی چاہیے !’

جب حقیقی جرنیل خطرات کا حساب لگا رہے تھے، تب وہاٹس ایپ کے سِم کارڈ جرنیل مشورے دے رہے تھے؛

‘بھائی، کراچی پر ایٹم بم پھینکو اور کھیل ختم کرو!’

ایک بابو نے مشورہ دیا؛

‘ریورس میزائل استعمال کرو، اگر انٹرسیپٹ ہو جائے تو واپس آ جائے گا!’

ایک خاتون نے صبح جھاڑو دیتے ہوئے دوسری سے کہا؛

‘بی بی، رات کے حملے کی آواز سنی؟’

جواب آیا؛

‘وہ میزائل نہیں تھا، میرا شوہر خراٹے مار رہا تھا!’

مگر سچ یہ ہے کہ سرحدوں پر جب گولیاں چلتی ہیں، جب لاشیں گرتی ہیں، تب صرف سپاہی نہیں، انسانیت بھی مرتی ہے۔

مجھے یاد ہے کہ 2016 میں سرجیکل اسٹرائک کے بعد ایک معروف چینل کے ایڈیٹر جو خود کو اسٹریٹجک امور کے ماہر سمجھتے ہیں، کیونکہ ماضی میں پتہ نہیں کیوں پاکستان نے ان کو قبائلی علاقوں میں ڈاکو مینٹری بنانے کی اجازت دی، نے سرینگر کے ڈل گیٹ علاقے میں لائن آف کنٹرول کھینچ کر ایک کرنل کے ساتھ ایک گھنٹے کا لائیو شو کیا۔

وہ کرنل سے پوچھ رہے تھے کہ مظفر آباد تک پہنچنے میں فوج کو کتنا وقت لگے گا۔ ان کا جواب تھا کہ بس سترہ گھنٹوں میں قبضہ ہو جائےگا اگر راستہ میں ٹریفک جام نہ ہوا۔

ایسے ماحول میں، جہاں جوش کو حب الوطنی سمجھا جائے، وہاں اگر کوئی تجزیہ کار احتیاط کا مشورہ دے، تو اسے دشمن کا ایجنٹ سمجھا گیا۔ سفارت کار اگر جنگ سے بچنے کی بات کریں تو انہیں بزدل، اور صحافی سوال کریں تو غدار قرار دیا گیا۔

کیا ہم جانتے ہیں کہ آسٹریا کے آرچ ڈیوک فرڈیننڈ کے ایک قتل نے پہلی جنگ عظیم چھیڑ دی تھی؟

کیا ہم بھول گئے کہ نازی جرمنی کے فالس فلیگ حملے سے دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی تھی، جس میں کروڑوں افراد مارے گئے؟

اور کیا ہم یاد رکھتے ہیں کہ جب واجپائی کو مشورہ دیا گیا کہ نیپال سے دہلی آنے والے اغوا شدہ طیارے کو لاہور میں تباہ کر دیں، تو انہوں نے انکار کیا؟ انہوں نے تین سو جانوں کو بچانے کو ترجیح دی، محض سفارتی پروپیگنڈے کی خاطرانہوں نے جانیں قربان کرنے سے انکار کردیا تھا۔

شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے ڈرائنگ رومز کو جنگی ہیڈکوارٹر کے بجائے امن کے مراکز میں بدلیں۔ جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں، ذہنوں سے بھی لڑی جاتی ہے۔ اگر ہم صرف نفرت، افواہوں اور پوائنٹ اسکورنگ میں الجھے رہے، تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے بچے فلمی اور اصلی جنگ کا فرق بھول جائیں گے۔

تب ہمیں احساس ہوگا کہ میزائل صرف پاکستان پر ہی نہیں، ہمارے شعور پر بھی گرے تھے۔

Next Article

مہاراشٹر: اسی فیصد سے زیادہ مسلم آبادی والے علاقے کے رہائشی لگاتار نگرانی کی اذیت میں مبتلا

مہاراشٹر کی دارالحکومت سے محض 55 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع اسی فیصد سے زیادہ کی مسلم آبادی والا یہ گاؤں تقریباً چار دہائیوں سے تنازعات کے مرکز میں ہے۔

السٹریشن: پری پلب چکرورتی

علی الصبح 3 بجےسعیدہ* کے دروازے پر دستک اب کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں تھا۔ عام طور پر، اس وقت دستک کا مطلب یہ ہے کہ پولیس کی ایک بڑی نفری ان کی زندگی کو تباہ کرنے آن  پہنچی ہے۔ 1 اور 2 جون کی درمیانی شب کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا، جب مہاراشٹر کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) کی قیادت میں ممبئی اور تھانے کی مقامی پولیس سمیت 350 سے زیادہ پولیس اہلکاروں نے ممبئی سے 55 کلومیٹر دور بوریولی-پڑگھا گاؤں کو اپنے محاصرے میں لے لیا۔ ایک مربوط آپریشن میں، عدالتی سرچ وارنٹ کے ساتھ  ٹیموں نےبیک وقت 22  لوگوں کے دروازے پر دستک دی اور چھاپے ماری  کی کارروائی شروع کر دی۔

سعیدہ کہتی ہیں،’چھاپے ماری میں صرف 22 افراد کو نشانہ بنایا گیا تھا (جن میں تین بھائی ایک ساتھ رہتے تھے)، لیکن پورے گاؤں کو گھیرے میں لے لیا گیا، اور پولیس نے ایسی صورتحال بنا دی جیسے یہاں خوفناک دہشت گرد چھپے ہوئے ہوں۔’

سعیدہ کہتی ہیں کہ ڈیڑھ سال سے بھی کم عرصے میں گاؤں میں یہ دوسری  بڑی  چھاپے ماری تھی۔ دسمبر 2023 میں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی(این آئی اے) کی جانب سے کی گئی پچھلی چھاپے ماری اور گرفتاریوں میں، ان کے شوہر ان 15 لوگوں میں سے ایک تھے، جنہیں علاقےمیں  کالعدم دہشت گرد تنظیم، آئی ایس آئی ایس میں شامل ہونے کے لیے مبینہ طور پر ‘نوجوانوں کو متاثر’ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا ۔ ‘پچھلی بار، تقریباً اسی وقت، وہ میرے شوہر کو لے گئے اور میرے بچوں کے اسکول پروجیکٹ کے لیے استعمال کیے جانے والے فون اور کمپیوٹر ہارڈ ڈسک سب ضبط کر لیے ،’ انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا۔

پچھلی چھاپے ماری فلسطین میں اسرائیل کی نسل کشی کی جنگ کے آغاز کے ساتھ ہوئی تھی۔ سعیدہ کے اسکول جانے والے بچوں نے اپنی جیب خرچ سے گاؤں میں ہونے والےاحتجاج کے لیے فلسطینی پرچم خریدا تھا۔ جھنڈے ضبط کر لیے گئے، اور بعد میں این آئی اے نے دعویٰ کیا کہ ان کا تعلق ‘عسکریت پسند گروپ حماس’ سے تھا۔ چھاپے اور گرفتاریوں کے دوران اکثر کیے جانے والے یہ دعوے میڈیا میں سنسنی پیدا کرتے ہیں اور عدالت میں ابتدائی حراستی ریمانڈ کو یقینی بنانے میں مدد کرتے ہیں۔ تاہم، ان کے قانونی جواز کو عدالت میں ثابت کرنے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ تب تک فوجداری نظام انصاف کے اندر طویل عرصے تک انصاف کے حصول میں الجھی  نسلیں تباہ ہو چکی ہوتی  ہیں۔

اس بار اے ٹی ایس ان کے ایک اوربیٹے کے خلاف جاری سرچ وارنٹ کے ساتھ پہنچی تھی۔ اے ٹی ایس نے مقامی عدالت سے اس بنیاد پرسرچ وارنٹ حاصل کیا تھا کہ ان کے گھروں میں ‘غیر قانونی/اینٹی نیشنل’ سرگرمیوں کے لیے استعمال کیے جانے والے ‘مجرمانہ دستاویز/مواد’ جمع تھے۔ تقریباً 10 گھنٹے تک جاری رہنے والی چھاپے ماری میں پولیس نے 19 موبائل فون، ایک تلوار اور ایک چاقو ضبط کیا۔ گاؤں والوں کا دعویٰ ہے کہ پولیس اور میڈیا نے جسے ’مہلک ہتھیار ‘ بتایا ہے وہ دراصل باورچی خانے میں استعمال کیا جانے والا چاقو ہے۔

‘کیا واقعی کسی گھرکے باورچی خانے میں، خصوصی طور پر مچھلی اور گوشت کھانے والے گھروں میں بڑی، تیز دھار چھریوں کا ملنااس قدر غیر معمولی واقعہ ہے؟’ جن کے گھر پر چھاپہ مارا گیا، ان میں سے ایک نے سوال کیا۔

چھاپے ماری میں تلوار اور ایک چاقو کی ضبطی کے بعد دو الگ الگ ایف آئی آر درج کی گئیں۔ پولیس نے ابھی تک گاؤں میں کوئی گرفتاری نہیں کی ہے۔

سال 2023 میں کی گئی آخری چھاپے  ماری میں، پولیس نے اور بھی بڑے دعوے کیے تھےکہ بڑی تعداد میں چاقو ضبط کیے کیے گئے ہیں۔’اس کے بعد، تقریباً ہم سب نے بڑے چاقوپھینک دیے اور کچن میں چھوٹی چھریاں استعمال کر رہے ہیں۔ آپ نہیں جانتے کہ پولیس کب ہمارے گھر میں داخل ہو گی اور ہمارے برتنوں کو گولہ بارود میں بدل دے گی،’ ایک نوجوان خاتون نے کہا، جس کے گھر پر 2023 میں چھاپہ مارا گیا تھا، حالانکہ کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔

چھاپے کے دوران مقامی پڑگھا پولیس اے ٹی ایس کے ساتھ تھی۔ ایک مولانا کے گھر میں، پولیس نے دعویٰ کیا کہ دو گائے ضروری کاغذی کارروائی کے بغیر رکھی گئی تھی۔ پڑگھا پولیس نے مولانا کو مہاراشٹر اینیمل پریزرویشن ایکٹ کے تحت گرفتار کیا  تھا۔ انہیں ایک دن بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔

دہائیوں سے تنازعات کے مرکز میں

بوریولی-پڑگھا ممبئی-ناسک ہائی وے پر واقع ہے۔ 80فیصد سے زیادہ مسلم آبادی والا یہ گاؤں تقریباً چار دہائیوں سے تنازعات کے مرکز میں ہے۔ یہ سب 1980 کی دہائی کے اوائل میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ سابق فائربرانڈ اسٹوڈنٹ لیڈرثاقب ناچن کے واسطہ پڑنے کےبعدسے شروع ہوا تھا۔ ناچن کی طرح کئی دوسرے لوگوں پر اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی) کا حصہ ہونے کا الزام لگایا گیا تھا، ایک ایسی تنظیم جو بعد میں 2001 کے اوائل میں کالعدم قرار دی گئی ۔

ثاقب ناچن۔ تصویر: ایکس

ناچن، جس نے دہشت گردی کے متعدد مقدمات کا سامنا کیا ہے، قصوروار ٹھہرائے گئے، اور انہوں نےکئی سال جیل میں گزارے ہیں، ان پر ریاست میں آئی ایس آئی ایس ماڈیول کی سربراہی کا الزام ہے۔ وہ اور ان کا چھوٹا بیٹا شمیل 2023 سے حراست میں ہیں۔ ناچن فی الحال دہلی کی تہاڑ جیل میں بند ہیں، جبکہ شمیل کو ممبئی کی تلوجا جیل میں رکھا گیا ہے۔

اے ٹی ایس کا دعویٰ ہے کہ حالیہ چھاپے ماری انٹلی جنس معلومات کی بنیاد پر کی  گئی تھی کہ ناچن خاندان ابھی بھی گاؤں پر کنٹرول رکھتا ہے۔ تقریباً 10000 کی آبادی والے بوریولی-پڑگھا گاؤں میں زیادہ تر کونکنی مسلمان رہتے ہیں۔ یہاں کے مسلمان معاشی طور پر خوشحال ہیں، وہ ممبئی-ناسک ہائی وے کے پاس  زمینوں کے مالک ہیں۔ پچھلی دہائی کے دوران، یہاں زمین کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہےاور کئی  گودام بنائے گئے ہیں۔ یہاں کے مقامی لوگ روایتی طور پر ماہی گیری، ریت یا تعمیراتی کاروبار سے وابستہ ہیں۔ لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ پولیس کے مسلسل چھاپوں نے ان کے کاروبار کو بہت متاثر کیا ہے۔

زیادہ تر لوگ ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پوچھ گچھ کا موضوع ناچن کے ساتھ ان کی ‘وابستگی’ کے اردگرد گھومتا ہے۔ ‘ہم میں سے اکثر لوگ براہ راست یا دور سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں،جس میں ناچن خاندان بھی شامل ہے۔ ہم ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں، ایک ہی مسجد میں جاتے ہیں؛ ہم رابطے میں ضرور رہتے ہیں، اسے غیر قانونی کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟’ اس بار کی چھاپے ماری میں شامل 22 افراد میں سے ایک نوجوان سوال کرتا ہے ۔

اس بار جب اے ٹی ایس آئی تو انہوں نے ناچن کے ایک اور بیٹے عاقب کو نشانہ بنایا۔ وارنٹ میں اس کا نام تھا، اور پولیس نے اس کا فون ضبط کر لیا۔ چھاپے کے وقت گھر میں موجود ایک رشتہ دار نے بتایا کہ جیسے ہی پولیس اندر داخل ہوئی، شمیل کا پانچ سالہ بیٹا خوف سے چیخنے لگا۔ اس نے کہا، ‘بچے نے اتنی سی چھوٹی عمر میں بہت کچھ دیکھا ہے۔

چھاپے بچوں کو کس طرح  متاثر کرتے ہیں

بوریولی-پڑگھا گاؤں میں بڑا ہونا اور زندگی گزارنا آسان نہیں رہا۔ گزشتہ برسوں میں چھاپے اور گرفتاریاں اس قدر معمول  کا حصہ بن چکی ہیں کہ اب یہ بچوں کے درمیان ایک عام ساکھیل بن گیا ہے۔ ایک ماں نے بتایا،’یہاں کے بچوں نے اپنے خودکے کھیل ایجاد کرلیے ہیں۔ وہ چھاپے، جیل ملاقات اور گرفتاری کھیلتے ہیں،’، جبکہ اس کے چھوٹے بچے اور چند پڑوسی بچے تجسس کے ساتھ ہماری بات چیت سن رہے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ بچوں کو اس طرح کی  بات چیت سے دور رکھنا فضول ہے۔حال ہی میں دسویں جماعت کا امتحان پاس کرنے والی لڑکی نے پوچھا،’جب پولیس وقت کا خیال کیے بغیر ہمارے دروازے پر دستک دیتی ہے اور صرف ایک یا دو لوگوں کو ہی نہیں بلکہ پورے گاؤں کو دہشت گرد سمجھتی ہے تو ہم ان سے کیسے بچ سکتے ہیں؟’پولیس اس بار اس کے بڑے بھائی کی تلاش میں آئی تھی۔ ‘انہوں نے میرا فون بھی لے لیا، اور رابطے کی فہرست اور ایپس کو اسکرول کیا۔ جیسے ہی انہوں نے  میری فوٹو گیلری دیکھنا شروع کی، میں نے طے کر لیا کہ بہت ہوگیا۔ مجھے اپنا فون چھیننا پڑا اور سختی سے کہنا پڑا کہ میں ایک نوجوان لڑکی ہوں اور وہ غیر قانونی طور پر ایک نوجوان لڑکی کی فوٹو گیلری تک رسائی کی کوشش کر رہے ہیں۔’

تلاشی کے 22 وارنٹ میں سے کم از کم دو افراد حج پر گئے ہوئے تھے۔ تاہم سرچ ٹیم ان کے گھروں میں بھی داخل ہوئی۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ چھاپے کے وقت صرف ان کی دو نوعمر بچیاں گھر پر تھیں۔ ایک رشتہ دار نے سوال کیا،’اے ٹی ایس نے دعویٰ کیا ہےکہ ان کے پاس ٹھوس انٹلی جنس معلومات  تھیں۔ انہیں یقیناً معلوم رہا ہوگا کہ بچیاں  گھر میں اکیلی ہیں، پھر بھی انہوں نے چھاپے ماری کی۔ کیا یہ بھی قانونی ہے؟’

چھوٹی عمر کے کچھ لڑکوں نے شکایت کی کہ پولیس نے انہیں کئی بار اٹھایا اور پوچھ گچھ کی ۔ ایک 22 سالہ نوجوان نے کہا،’وہ ہم سے ہماری پیدائش سے پہلے کی باتیں پوچھتے ہیں۔ جب ہم انہیں بتاتے ہیں کہ ہم 80 اور 90 کی دہائی کے بارے میں نہیں جانتے تو وہ ہم پر بھروسہ نہیں کرتے ۔’

’میڈیا ہمارا موقف سننے میں دلچسپی نہیں رکھتا‘

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ میڈیا یکطرفہ خبریں دے کر پولیس کے اقدامات کو مزید تقویت دیتا ہے، اور پولیس کی اس طرح کی کارروائیوں کے کمیونٹی پر پڑنے والے اثرات کو سمجھنے کی کبھی زحمت نہیں کرتا۔ جب بھی کوئی چھاپہ پڑتا ہے تو میڈیا کا عملہ بڑی تعداد میں پہنچ جاتا ہے۔ سعید* کا دعویٰ ہے کہ ،’انہیں ہماری کہانی سننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ،  بلکہ وہ مسلم مخالف بیان بازی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔’

وہ ایک مثال پیش کرتے ہیں، جب ٹی وی رپورٹروں کی ایک ٹیم نے خفیہ طور پر ایک کار سے گاؤں کی فلم بندی شروع کر دی تھی۔ سعید کہتے ہیں، ‘میں حیران تھا کہ انہیں کارسے اس قدر دھندلے مناظر کیوں لینے پڑے۔ میں نے ان میں سے ایک کو باہر نکل کر مقامی لوگوں سے ملنے اور ان کا انٹرویو کرنے کو بھی کہا۔ لیکن انہوں نے منع  کر دیا۔’ ان کا خیال ہے کہ یہ جان بوجھ کر کیا گیا تھا، تاکہ گاؤں کو صحافیوں کے لیے بھی ‘خطرناک’ جگہ کے طور پر پیش کیا جا سکے ۔

پولیس اور میڈیا دونوں کی دشمنی نے گاؤں والوں کوحددرجہ شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیا ہے۔ جب دی وائر نے ان سے رابطہ کیا تو وہ بات کرنے کو تیار تھے لیکن انہوں نے واضح طور پر کہا کہ کسی کی تصویر نہ لیں یا اسٹوری میں ان کی شناخت کو ظاہرنہ کریں۔ ان میں سے ایک نے کہا، ‘وہ تمام لوگ جو آخری چھاپے کے بعد آواز اٹھا رہے تھے، اب انہیں تلاشی کے وارنٹ مل چکے ہیں۔’

پولیس کی طرف سے پیش کی گئی متعدد تھیوریوں  میں سے، جس نے میڈیا کی توجہ حاصل کی، وہ یہ ہے کہ ناچن نے گاؤں کو ایک ‘آزاد اسلامی اسٹیٹ’بنا دیا اور اس کا نام بدل کر’الشام’ رکھ دیا، یہ اصطلاح دہشت گرد گروہ آئی ایس آئی ایس کے علاقائی عزائم کو ظاہر کرتی ہے۔ مقامی لوگ اس دعوے کا مذاق اڑاتے ہیں۔ جیل میں رہ چکے ایک بزرگ شخص کہتے ہیں۔’ہمارے گاؤں میں مسلمانوں، دلتوں اور آدی واسیوں کا گھر ہے،جو تاریخی طور پر ایک دوسرے کا تہوار مناتے آئے ہیں۔’ وہ پوچھتے ہیں،’ہم اجتماعی طور پر ایک سالانہ گنپتی جلوس کا اہتمام کرتے ہیں۔ ‘ وہ پوچھتے ہیں ،’ایک ‘اسلامی اسٹیٹ’ میں ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟’

دی وائر نے ایک 65 سالہ خاتون وسیمہ ملا کے گھر کا دورہ کیا جو پولیس کے گھر میں داخل ہوتے ہی دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئی تھیں۔ ان کے گھر والوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا، لیکن مقامی لوگوں نے بتایا کہ جب پولیس نے ان کی بیٹی کے گھر پر چھاپے ماری کی تو خاتون گھبرا گئی تھیں۔ایک پڑوسی نے بتایا، ‘وہ چیخنے لگیں اور پھر فرش پر گر گئیں۔’ پڑوسی نے دعویٰ کیا کہ یہ جاننے کے بعد بھی کہ ان کی موت ہو گئی ہے، پولیس نے ان کے داماد کو انہیں دیکھنے تک کی اجازت نہیں دی۔

گاؤں والوں کا خیال ہے کہ چھاپے ماری، اگر اتنی اہم تھی، تو اس کو دن کے وقت بھی انجام دیاجا سکتا تھا۔ ایک بزرگ خاتون نے کہا، ’وہ چاہتے تھے کہ ہم گھبرا جائیں، وہ چاہتے تھے کہ لوگ حیران ہو جائیں، وہ یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں اور کوئی بھی ان سے سوال نہیں کر سکتا۔‘

*رازداری کے لیے نام  تبدیل کر دیا گیا ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

Next Article

اکتوبر 2026 سے دو مرحلوں میں ہوگی مردم شماری

مرکزی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ 15 سال بعد مردم شماری اکتوبر 2026 سے دو مرحلوں میں شروع ہو گی۔ اس کے ساتھ ذات پر مبنی  اعداد و شماربھی جمع کیے جائیں گے۔ اپوزیشن نے تاخیر پر سوال اٹھائے ہیں اور الزام لگایا ہے کہ بی جے پی حد بندی کے ذریعے جنوبی ریاستوں کی سیٹیں گھٹانا چاہتی ہے۔

بہار میں 2023 ذات پر مبنی سروے کے دوران شہریوں کا ڈیٹا اکٹھا کرتے ہوئے اہلکار۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: مرکزی حکومت نے بدھ 4 جون کو اعلان کیا کہ مردم شماری اور ذات پر مبنی گنتی دو مرحلوں میں کی جائے گی، جس کی شروعات 1 اکتوبر 2026 سے ہوگی۔

مرکزی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری  بیان میں کہا گیا ہے کہ مردم شماری کی ریفرنس ڈیٹ (تاریخ) 1 مارچ 2027 کو  رات 12 بجے ہوگی، جبکہ مرکز کے زیر انتظام علاقے لداخ اور جموں و کشمیر، ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ کے برفانی علاقوں میں یہ تاریخ 1 اکتوبر 2026 کی رات 12 بجے ہوگی۔

یہ پہلا موقع ہوگاجب 15 سال کے وقفے کے بعد مردم شماری کرائی جائے گی۔ آخری مردم شماری 2011 میں کی گئی تھی، جبکہ 2021 میں مجوزہ مردم شماری کووڈ 19 کی وجہ سے ملتوی کر دی گئی تھی۔

وزارت داخلہ کے بیان میں کہا گیا، ‘ہندوستان کی آخری مردم شماری 2011 میں دو مرحلوں میں کی گئی تھی(الف)پہلا مرحلہ-ہاؤس لسٹنگ (1 اپریل سے 30 ستمبر 2010 تک) اور (ب) دوسرا مرحلہ-آبادی کی گنتی (9 فروری سے 28 فروری 2011 تک)، جس کی ریفرنس ڈیٹ 1مارچ 2011 کی رات 12 بجےتھی۔ تاہم،جموں و کشمیر، اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش کے برفانی علاقوں میں یہ عمل 11 سے 30 ستمبر 2010 کے درمیان انجام دیاگیا تھااور ریفرنس ڈیٹ 1 اکتوبر 2010 کی رات  12بجے  رکھی گئی تھی۔’

مرکزی وزارت داخلہ نے کہا کہ 2021 کی مردم شماری بھی اسی طرح دو مرحلوں میں کی جانی تھی – پہلا مرحلہ اپریل-ستمبر 2020 کے دوران اور دوسرا مرحلہ فروری 2021 میں۔ لیکن وبائی امراض کی وجہ سے اسے ملتوی کر دیا گیا تھا۔ تاہم، وزارت نے یہ نہیں بتایا کہ یہ عمل پانچ سال تک کیوں تاخیر کا شکار ہوا۔

‘سال2021میں مردم شماری کے پہلے مرحلے کی تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی تھیں اور کچھ ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں 1 اپریل 2020 سے فیلڈ ورک شروع ہونا تھا۔ لیکن ملک بھر میں کووڈ کے پھیلاؤ کی وجہ سے مردم شماری کا کام ملتوی کر دیا گیا۔’ وزارت نے کہا۔

اپوزیشن نے مردم شماری میں تاخیر پر سوال اٹھائے

اپوزیشن جماعتوں نے مردم شماری کی شروعات کو اور ٹالنے کے حکومت کے فیصلے پر سوال اٹھایا ہے۔

کانگریس کے رکن پارلیامنٹ جئے رام رمیش نے کہا، ‘2021 میں ہونے والی مردم شماری کو اب اور 23 ماہ کے لیے ملتوی کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ مودی حکومت صرف سرخیاں ہی بنا سکتی ہے، وقت پر کام مکمل نہیں کر سکتی۔’

تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے کہا کہ 2027 میں مردم شماری کرانے کا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ بی جے پی تمل ناڈو کی پارلیامانی نشستیں گھٹانا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا، ‘ہندوستانی آئین کے مطابق 2026 کے بعد ہونے والی پہلی مردم شماری کی بنیاد پر حد بندی کی جانی ہے۔ بی جے پی نے اب مردم شماری کو 2027 تک ملتوی کر دیا ہے، جس سے ان کا مقصد واضح ہوگیاہے کہ وہ تمل ناڈو کی پارلیامانی نشستوں کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے اس بارے میں پہلے ہی خبردار کیا تھا اور اب یہ حقیقت بن رہا ہے۔’

حد بندی ایک متنازعہ مسئلہ بن گیا ہے، خاص طور پر جنوبی ریاستوں میں، جو آبادی پر قابو پانے کے بہتر اقدامات کی وجہ سے پارلیامنٹ میں اپنی نمائندگی میں کمی کا خدشہ  ظاہر کر رہے ہیں۔

سال1976 میں، 1971 کی مردم شماری کے اعداد و شمار پر مبنی حد بندی کو روک دیا گیا تھا تاکہ وہ ریاستیں جنہوں نے خاندانی منصوبہ بندی کے ذریعے اپنی آبادی کم کی تھی، اپنی نشستوں سے محروم نہ ہوں۔ 2001 میں اس پابندی کو 2026 تک بڑھا دیا گیا۔

ذات پر مبنی مردم شماری

اس سال اپریل میں مرکزی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ مردم شماری میں ذات کے ڈیٹا کو شامل کیا جائے گا، لیکن اس وقت یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ مردم شماری اور ذات پر مبنی مردم شماری کب کرائی جائے گی۔

ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ اپوزیشن جماعتوں کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے اور 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں بھی یہ ایک بڑا ایشو تھا۔

بیس اپریل کو مرکزی کابینہ کے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے مرکزی وزیر اشونی ویشنو نے کہا تھا کہ یہ فیصلہ وزیر اعظم نریندر مودی کی سماج اور ملک کی اقدار کے تئیں وابستگی کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے اپوزیشن انڈیا الائنس پر ذات پر مبنی مردم شماری کو ‘سیاسی ہتھیار’ کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگایا تھا اور کہا تھا کہ کانگریس کی حکومتوں نے ہمیشہ ذات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت کی ہے۔

تاہم، یہ فیصلہ بی جے پی کے 2024 کے انتخابی موقف کے بالکل برعکس ہے، جب انہوں نے ذات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے کو سماج کو تقسیم کرنے والا قدم قرار دیا تھا۔

سماج وادی پارٹی کے سربراہ اور لوک سبھا ایم پی اکھلیش یادو نے اس معاملے کو 2027 میں ہونے والے اتر پردیش اسمبلی انتخابات سے جوڑا۔

انہوں نے کہا، ‘ مطلب یہ کہ جب یوپی میں پی ڈی اے کی حکومت آئے گی، تب ہی ذات پر مبنی مردم شماری شروع ہوگی۔’ انہوں نے یہ تبصرہ اپنے 2024 کے انتخابی نعرے ‘پچھڑا، دلت، الپ سنکھیک’ (پی ڈی اے) کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا۔

( انگریزی میں پڑھنے کے لیے  یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

پہلی جماعت کے بچوں کے لیے فوجی تربیت: مہاراشٹر حکومت کے منصوبے پر اٹھتے سوال

مہاراشٹر حکومت کے پہلی جماعت کے اسکولی بچوں کو فوجی تربیت دینے کے منصوبے نے تعلیم اور بچوں کے حقوق سے متعلق بنیادی خدشات کو جنم دیا ہے۔ حکومت اسے ‘نظم وضبط’ اور ‘حب الوطنی’ کی مثال قرار دے رہی ہے، لیکن یہ قدم بچوں کی ذہنی نشوونما، تعلیم کی آزادی اور جمہوری اقدار کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

’ میں نے جاپان میں لوگوں کو اپنی حکومت کی طرف سے عائد کردہ آزادی کی حدود کو خوشی سے قبول کرتے ہوئے دیکھا ہے… لوگ اس ہمہ گیر ذہنی غلامی کو خوشی اور فخر کے ساتھ قبول کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنے آپ کو طاقت کی ایک مشین، جسے قوم کہا جاتا ہے، میں تبدیل کرنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں …‘-رابندر ناتھ ٹیگور، ‘قوم پرستی’

بچوں کے لیے فوجی تعلیم

1

ہندوستان کی سب سے خوشحال ریاستوں میں شامل مہاراشٹر حکومت نے ایک نئی اسکیم شروع کی ہے، جس کے تحت پہلی جماعت کے اسکولی بچوں کو بنیادی فوجی تربیت دی جائے گی ۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کا مقصد بچوں میں حب الوطنی، نظم و ضبط اور بہتر جسمانی صحت کو فروغ دینا ہے۔ اس مرحلہ وار منصوبے کے تحت تقریباً ڈھائی لاکھ ریٹائرڈ فوجیوں کی تقرری کی جائے گی۔

آپریشن سیندور کے بعد اس تجویز پر پورے ملک کی نظر ہے اور ممکن ہے کہ بی جے پی مقتدرہ دیگر ریاستیں بھی اس طرح کی اسکیم کی شروعات کریں۔

یہ منصوبہ کئی سطحوں پر خدشات کو جنم دیتا ہے۔

سب سے پہلے، ماہرین تعلیم کے مطابق، ریاست کا اسکول سسٹم پہلے ہی شدید بحران کا سامنا کر رہا ہے — ناقص انفراسٹرکچر، اساتذہ کی شدید کمی اور پالیسی پر عملدرآمد میں رکاوٹیں۔ نتیجتاً طلبہ کے امتحانی نتائج متاثر ہو رہے ہیں،ا سکولوں میں طلبہ کی تعداد کم ہو رہی ہے، اور بنیادی سہولیات بھی ناپید ہیں۔ ایسے میں اگر حکومت فوجی تربیت پر زور دیتی ہے تو امکان ہے کہ تعلیم کے لیے مختص وسائل مزید کم ہو جائیں گے۔

دوسرا، مہاراشٹرا میں پچھلی دہائی میں ہزاروں اسکول بند ہوچکے ہیں، جس کی بنیادی وجہ وسائل کی کمی اور پالیسی میں تبدیلی ہے۔ اس سے تعلیم کے حق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ سالانہ رپورٹیں بھی ریاست کی بگڑتی ہوئی تعلیمی صورتحال کی تصدیق کرتی ہیں ۔ اب خدشہ ہے کہ حکومت یہ نئی اور دکھاوے کی اسکیم لا کر ان مسائل پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے۔

تیسری بات، یہ تجویز یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ حکومت کے پاس تعلیم کے حوالے سے کوئی ٹھوس یا دور بیں پالیسی نہیں ہے۔ حال ہی میں، ریاستی حکومت نے بغیر کسی عوامی مشاورت کے، اپنے اسکول کے نصاب کو ترک کرنے اور سی بی ایس ای کے نصاب کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا، جس سے 2.1 کروڑ طلبہ اور 7 لاکھ اساتذہ متاثر ہوں گے ۔ اس پر ماہرین کی جانب سے پہلے ہی شدید تنقید کی جا چکی ہے۔

چوتھا، سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ تین- چار سال کے بچوں کو فوجی تربیت دینا تعلیم کے جوہر کے خلاف ہے۔ تعلیم کا مقصد بچوں کی سوچ کو آزاد بنانا ہے، معاشرے، خاندان یا ریاست وغیرہ کی طرف سے بچوں کے ذہنوں پر جو طرح طرح کی زنجیریں ڈالی جاتی ہیں، انہیں ایک جھٹکے میں توڑنا ہوتاہے، نہ کہ اطاعت اور نظم و ضبط کے نام پر انہیں خوف اور پابندیوں کا غلام بنانا ۔

پانچویں، پہلی جماعت سے فوجی تربیت کا آغاز بچوں کے ذہنوں میں ‘نامعلوم دشمنوں’ کا خوف پیدا کر سکتا ہے۔ یہ خوف ان کی ذہنی صحت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے اور مختلف نفسیاتی مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔

2

تہذیب کا سب سے اہم کام لوگوں کو سوچنا سکھانا ہے۔ ہمارے پبلک اسکولوں کا بنیادی مقصد یہی ہونا چاہیے… ہمارے طریقہ تعلیم کی پریشانی یہ ہے کہ یہ ذہن  میں لچک پیدانہیں ہونے دیتا۔ یہ ذہن کو ایک سانچے میں ڈھالتا ہے۔ یہ بچے کے موافق ہونے پر اصرار کرتا ہے۔ یہ   غوروفکریا استدلال کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا، اور یہ مشاہدے کے مقابلے میں یادداشت پر زیادہ زور دیتا ہے۔- تھامس ایڈیسن

حکومت کا یہ منصوبہ اسکولی تعلیم میں ایک بڑا قدم مانا جا سکتا ہے، جو دوسری ریاستوں کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے۔ ایسے میں توقع تھی کہ حکومت ماہرین تعلیم سے مشورہ کرے گی اور پرائمری سطح پر فوجی تربیت کے اثرات کا جائزہ لے گی اور پھر کوئی فیصلہ کرے گی۔

لیکن حالیہ برسوں میں، مرکز میں بی جے پی کی حکومت اور مختلف ریاستوں میں اس کی حکومتوں نے وسیع بحث اور مشاورت کے بغیر بڑے فیصلے لینے کی عادت بنالی ہے – چاہے وہ نوٹ بندی ہو، اچانک لاک ڈاؤن ہو یا سینٹرل وسٹا پروجیکٹ جس کی لاگت ہزاروں کروڑ روپے ہے۔ مہاراشٹر حکومت کا یہ فیصلہ بھی اسی  غیرشفافیت کی  مثال ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کسی بھی قیمت پر اس اسکیم کو نافذ کرنا چاہتی ہے۔

تعلیمی دنیا پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام براہ راست وزیر اعظم کے دفتر (پی ایم او) کے اس سابقہ منصوبے سے منسلک ہے ، جس میں سینک اسکول ماڈل کو کیندریہ ودیالیوں اور نوودیا ودیالیوں میں لاگو کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ اس تجویز میں سخت جسمانی تربیت، نظم و ضبط اور حب الوطنی پر زور دینے کی بات کہی گئی تھی۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وزیر اعظم کے دفتر کی اس متنازعہ سفارش کا ایک اثر یہ ہواہے کہ ملک کے دو تہائی سینک اسکولوں کا انتظام اب سنگھ پریوار، بی جے پی لیڈروں اور ان سے منسلک تنظیموں کے ہاتھوں  میں ہے۔ اس تبدیلی کا کوئی باضابطہ اعلان نہیں ہوا تھا، لیکن رپورٹرز کلیکٹو کی رپورٹ میں اس کا انکشاف ہوا تھا۔

آزادی کے بعد، ملک میں تعلیمی پالیسی پر فیصلہ کرنے کے لیے ماہرین تعلیم کی قیادت میں وقتاً فوقتاً تعلیمی کمیشن بنائے جاتے رہے ہیں – جیسے 1953 کے رادھا کرشنن کمیشن۔ لیکن پچھلی دہائی میں، اس طرح کے ادارہ جاتی عمل تقریباً رک گئے ہیں۔ اب پالیسی سازی اور اس کے نفاذ کا مرکز صرف پی ایم او رہ گیا ہے جہاں تعینات نوکرشاہ اور کچھ ماہرین ہی اہم فیصلوں کی سمت ورفتار طے کرتے ہیں۔

3

پچھلی دہائی میں، مرکز میں ہندوتوا کی بالادستی والی حکومت کے عروج کے بعد، ‘نظم و ضبط’ اور ‘حب الوطنی’ کا فوجی ماڈل اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں قائم کیا گیا ہے۔

اس سوچ کی ایک مثال جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے اس وقت کے وائس چانسلر جگدیش کمار کی تجویز تھی، جس میں انہوں نے یوم کارگل کے موقع پر کیمپس میں ایک پرانا فوجی ٹینک نصب کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ طلبہ میں ‘فوج کے تئیں محبت’ پیدا ہو سکے۔ انہوں نے اس سیاسی تقریب میں موجود دو مرکزی وزراء سے ٹینک کا بندوبست کرنے کی اپیل کی تھی ۔

اس کے ساتھ ہی پروگرام میں موجود دو ریٹائرڈ فوجی افسران نے جے این یو پر ‘کنٹرول’ قائم کرنے کے لیے مرکزی حکومت کو مبارکباد دی تھی اور کہا تھا کہ یہی کنٹرول دوسری یونیورسٹیوں پر بھی لاگو کیا جانا چاہیے۔

جے این یو میں ٹینکوں کی نمائش کی تجویز کی طلبہ، ماہرین تعلیم اور سماجی طور پر باشعور شہریوں نے سخت مخالفت کی تھی۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ قدم یونیورسٹی میں اختلاف کی آوازوں کو دبانے کی نیت سے اٹھایا گیا ہے۔ یونیورسٹیوں کا مقصد سپاہی یا فرمانبردار عوام  پیدا کرنا نہیں بلکہ ایسے باشعور شہری پیدا کرنا ہے جو ذی علم ہوں ، ان میں تجسس کا مادہ ہو اور اختلاف رائے کا اظہار کرنے کی ہمت رکھتے ہوں۔

درحقیقت، یہ بات اکثر فراموش کر د ی جاتی ہے کہ آزادی کے بعد ہی حکومت ہند کی طرف سے ملک میں سینک اسکولوں کا ایک سلسلہ  قائم کیا گیا تھا اور چند ڈیفنس اکیڈمیاں بھی قائم کی گئی تھیں جہاں دلچسپی رکھنے والے طلبہ کو داخلہ مل سکتا تھا۔

پہلی جماعت سے فوجی تربیت شروع کرنے کے مہاراشٹر حکومت کے فیصلے پر سنجیدگی سے نظرثانی نہیں کی گئی ہے۔ نہ ہی اس بات کی چھان بین کی جا رہی ہے کہ کیا یہ اقدام تعلیم کے شعبے کی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش ہے، اور نہ ہی یہ دیکھا جا رہا ہے کہ یہ ہندوستانی معاشرے کی عسکریت پسندی کی سمت  ایک اہم قدم ہے۔ یہ منصوبہ ہندوتوا کی بالادستی کے نظریے کے ایجنڈے سے میل کھاتا ہے، جو پورے سماج کو عسکری بنا کر ‘اندرونی دشمنوں’ سے لڑنے کی  تیاری کراتا ہے۔

آر ایس ایس کے بانی رکن اور ڈاکٹر ہیڈگیوار کے سیاسی سرپرست بی ایم مونجے نے 1930 کی دہائی میں اٹلی کا سفر کیا تھا اور فاشسٹ منصوبوں کا مطالعہ کیا تھا۔ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ آر ایس ایس کے لیے ایسے ادارے قائم کریں گے اور ہندوستان واپس آکر انہوں نے بھونسالہ ملٹری اسکول قائم کرنے کی تگ ودوکی۔

ہندوتوا جماعتوں کے پسندیدہ ویر ساورکر نے 1942 میں ‘ہندوستان چھوڑو تحریک’ کے دوران ملک بھر کا سفر کیا تھااور نوجوانوں سے برطانوی فوج میں شامل ہونے کی اپیل کی تھی۔ ان کا نعرہ تھا، ‘ سیاست کا ہندو کرن کرو اور ہندوتوا کا سنیہ کرن کرو۔’

مہاراشٹر حکومت کا یہ قدم اسی خواب کو پورا کرتا ہے۔

(سبھاش گاتاڈے بائیں بازو کے کارکن، مصنف اور مترجم ہیں۔)