آر ٹی آئی کے تحت پی ایم کیئرس فنڈ سے متعلق خط وکتابت کی کاپی، فنڈ کو ملے کل چندے، اس فنڈ سے خرچ کی گئی رقم اور ان کاموں کی تفصیلات جس میں پیسے خرچ کیے گئے ہیں، یہ تمام جانکاریاں مانگی گئی تھیں۔ پی ایم او نے کہا کہ یہ جانکاری نہیں دے سکتے کیونکہ پی ایم کیئرس آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت پبلک اتھارٹی نہیں ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی(فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: پی ایم کیئرس فنڈ شروع سے ہی متنازعہ ہے اور اس کی بنیادی وجہ مرکزی حکومت کے ذریعے اس کے چاروں طرف بنی گئی رازداری ہے۔ غصے کے ساتھ لوگوں کی تشویش تب اور بڑھ جاتی ہے جب سرکار کو رونا سے لڑنے کے لیے عوام سے مالی ا مداد مانگتی ہے، لوگ آگے بڑھ کر اس فنڈ میں پیسے جمع کرتے ہیں لیکن اسی عوام کو اس فنڈ کا حساب کتاب دینے سے منع کر دیا جاتا ہے۔وزیر اعظم دفتر نے ایک بار پھرآر ٹی آئی قانون کے تحت اس بارے میں جانکاری دینے سے منع کر دیا اور کہا کہ پی ایم کیئرس فنڈ آر ٹی آئی ایکٹ، 2005 کے تحت پبلک اتھارٹی نہیں ہے۔
آر ٹی آئی کے تحت پی ایم کیئرس فنڈ کی تشکیل اور اس کے چلائے جانے کے بارےمیں جانکاری مانگی گئی تھی۔ آر ٹی آئی کے تحت پی ایم کیئرس فنڈ سے متعلق خط وکتابت کی کاپی، فنڈ کو ملے کل چندے، اس فنڈ سے خرچ کی گئی رقم اور ان کاموں کی تفصیلات جس میں پیسے خرچ کیے گئے ہیں، یہ تمام جانکاریاں مانگی گئی تھیں۔ پی ایم او نے کہا کہ یہ جانکاری نہیں دے سکتے کیونکہ پی ایم کیئرس آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت پبلک اتھارٹی نہیں ہے۔
حالانکہ پی ایم او کے سینٹرل پبلک انفارمیشن افسرپروین کمار نے 30 دن کے اندرجواب دینے کے اہتمام کی خلاف ورزی کی اور کافی تاخیرسے جواب بھیجتے ہوئے جانکاری دینے سے بھی منع کر دیا۔دفتر نے پی ایم کیئرس سے متعلق کئی آر ٹی آئی درخواست پر من وعن جواب بھیجا ہے۔
گزشتہ29 مئی کو بھیجے جواب میں کمار نے لکھا، ‘ پی ایم کیئرس آر ٹی آئی ایکٹ، 2005 کی دفعہ ا 2(ایچ) کے تحت پبلک اتھارٹی نہیں ہے۔ حالانکہ پی ایم کیئرس سے متعلق جانکاری pmcares.gov.in ویب سائٹ پر دیکھی جا سکتی ہے۔’لیکن مانگی گئی جانکاری پی ایم کیئرس ویب سائٹ پر موجود نہیں ہے۔ سابق انفارمیشن کمشنروں ، آر ٹی آئی کارکنوں اور ماہرین نے پی ایم او کے اس جواب کی تنقید کی ہے۔
آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 2(ایچ) میں پبلک اتھارٹی کی تعریف دی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح کےانسٹی ٹیوٹ اس کے دائرے میں ہیں۔دفعہ2(ایچ)میں ضمنی دفعہ (اے) سے لےکر(ڈی)تک میں بتایا گیا ہے کہ کوئی بھی اتھارٹی یا باڈی یا انسٹی ٹیوٹ جس کی تشکیل آئین ، پارلیامنٹ کے ذریعے بنائے گئے کسی قانون،مجلس قانون سازکے ذریعے بنائے گئے قانون، سرکار کے ذریعے جاری کیے گئے کسی آرڈر یا گزٹ کے تحت کی گئی ہو، اس کو پبلک اتھارٹی مانا جائےگا۔
سابق انفارمیشن کمشنر شیلیش گاندھی کہتے ہیں کہ پی ایم او کا جواب بالکل غلط ہے اور پی ایم او آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت پبلک اتھارٹی ہے۔
انہوں نے کہا، ‘ پی ایم کیئرس دفعہ 2(ایچ)(ڈی)(آئی) کی تعریف کے دائرے میں ہے۔ وزیر اعظم اوروزیر اس کے ٹرسٹی ہیں، وہ سرکار کی طرف سے ٹرسٹ کو کنٹرول کرتے ہیں۔’
دفعہ2(ایچ)(ڈی)(آئی) کے مطابق کوئی بھی اتھارٹی جس کی تشکیل سرکاری آرڈریاگزٹ کے ذریعے کی گئی ہو اور یہ یا تو سرکار کی ملکیت میں ہو یا اس کو کنٹرول کیا جاتا ہو یا سرکار کے ذریعےکافی حد تک مالی امداد حاصل ہو، اس کو پبلک اتھارٹی کہا جائےگا۔ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ پی ایم کیئرس کااشتہار سرکاری ویب سائٹ کے ذریعے کیا جا رہا ہے اور اس فنڈ میں چندہ کو ‘کارپوریٹ سوشل رسپانسبلٹی’ (سی ایس آر)
خرچ مانا گیا ہے۔ اس سے صاف ہے کہ مرکزی حکومت کا اس میں واضح رول ہے اور اس لیے پی ایم کیئرس سے جڑی جانکاری عوامی کی جانی چاہیے۔
اس کے علاوہ پی ایم کیئرس فنڈ میں چندہ دینے پر ٹیکس میں چھوٹ بھی ملتی ہے اور اس فنڈ کی آڈٹنگ کیگ کے ذریعے نہیں کرائی جائےگی۔یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پی ایم او نے پی ایم کیئرس پر جانکاری دینے سے منع کیا ہے۔ گریٹر نوئیڈا کے وکرانت تونگڑ کے ذریعے دائر ایک آر ٹی آئی پر پی ایم او نے سپریم کورٹ کے
ایک متنازعہ بیان کا سہارا لیتے ہوئے پی ایم کیئرس کے بارے میں جانکاری دینے سے انکار کر دیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی پی ایم او نے لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے فیصلے، کووڈ 19 کو لےکر ہوئی اعلیٰ سطحی میٹنگ، اس بارے میں میں وزارت صحت اور پی ایم او کے بیچ ہوئی خط وکتابت اورشہریوں کی کووڈ 19 ٹیسٹنگ سے جڑی فائلوں کو بھی عوامی کرنے سے منع کر دیا ہے۔اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا(ایس بی آئی)نے بھی اس بارےمیں کوئی بھی جانکاری دینے سے
انکار کر دیا ہے۔ ایس بی آئی نے دلیل دی ہے کہ یہ جانکاری بھروسے سے متعلق اور نجی ہے، اس لیے ایسی جانکاری نہیں دی جا سکتی ہے۔
پی ایم این آر ایف اور پی ایم کیئرس
پی ایم کیئرس کی طرح ہی
پرائم منسٹر نیشنل ریلیف فنڈ(پی ایم این آر ایف)کی تشکیل کی گئی تھی۔قدرتی آفات، حادثات وغیرہ کے متاثرین کی مدد کے لیے پی ایم این آر ایف کا پیسہ استعمال کیا جاتا ہے۔ پی ایم کیئرس فنڈ کی تشکیل کے وقت یہ سوال اٹھے تھے کہ جب پہلے سے ہی ملک کے پاس پی ایم این آر ایف ہے تو الگ سے اسی طرح کا فنڈ بنانے کی کیا ضرورت ہے اور دونوں میں کیا فرق ہے۔ سرکار نے ابھی تک اس سوال کا جواب بھی نہیں دیا ہے۔
بہرحال پی ایم کیئرس کی طرح ہی آر ٹی آئی کے تحت پی ایم این آر ایف کے بارے میں بھی کئی بار جانکاری مانگی گئی ہے اور پی ایم او نے کچھ جانکاریوں کے علاوہ زیادہ تر جانکاریوں کو چھپانے کی کوشش کی ہے۔حالانکہ پی ایم کیئرس کے برعکس پی ایم این آر ایف کی ویب سائٹ پر کل چندہ، کل خرچ اور خرچ کی تفصیلات جیسی بنیادی جانکاری دستیاب ہے۔
سال 2006 میں آر ٹی آئی کاریہ کن شیلیش گاندھی، جو کہ بعد میں سینٹرل انفارمیشن کمشنر بنے تھے، نے آر ٹی آئی دائر کرکے پی ایم این آر ایف کے چندہ دینے والوں اور اس کے مستفید کے نام کی جانکاری مانگی تھی۔ پی ایم او کے ذریعےجانکاری دینے سے منع کیے جانے پر یہ معاملہ سینٹرل انفارمیشن کمیشن(سی آئی سی)پہنچا۔
سی آئی سی میں پی ایم او کے حکام نے کہا کہ چونکہ پی ایم این آر ایف کونہ تو سرکار کے ذریعےکنٹرول کیا جاتا ہے اور نہ ہی اسے مالی امداد دی جاتی ہے، اس لیے یہ آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت پبلک اتھارٹی نہیں ہے۔اس پر سی آئی سی نے کہا کہ چونکہ پی ایم این آر ایف وزیر اعظم دفتر کے صوابدیدی اختیارات میں ہے اور یہیں سے چلایا جاتا ہے، اس لیے پی ایم او عوام کو پی ایم این آر ایف سے جڑی جانکاری دے۔
اس کے علاوہ
کمیشن نے کہا کہ جہاں تک مستفیدکے نام بتانے کا سوال ہے تو ایسی جانکاری نہیں دی جا سکتی ہے کیونکہ یہ پرائیویسی کے دائرے میں ہے۔ حالانکہ اگر اداروں کومنافع دینے کے بارے میں جانکاری مانگی جاتی ہے تو اس کاانکشاف آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت کرنا ہوگا۔
اسی طرح ایک دوسری آر ٹی آئی درخواست پرشنوائی کرتے ہوئے سی آئی سی نے پی ایم این آر ایف بنام اسیم تکیار معاملے میں چھ جون 2012 کو آرڈر دیا کہ محکمہ جاتی چندہ دینے والوں کے بارے میں جانکاری عوامی کی جانی چاہیے۔سی آئی سی کے اس آرڈر کو
19 نومبر 2015 کو دہلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس راجیو اینڈلا کی ایک رکنی بنچ نے برقرار رکھا اور کہا کہ پی ایم این آر ایف محکمہ جاتی چندہ کی جانکاری آر ٹی آئی کے تحت مہیا کرائے۔ حالانکہ اس بنچ نے یہ نہیں طے کیا کہ پی ایم این آر ایف پبلک اتھارٹی ہے یا نہیں۔
اس فیصلے سے ناخوش ہوکر پی ایم این آر ایف نے دہلی ہائی کورٹ کی ڈویژن بنچ کے سامنے پھر سے اپیل دائر کی۔ اس کولےکر کورٹ نے 23 مئی
2018 کو فیصلہ سنایا، حالانکہ دونوں ججوں کے فیصلے الگ الگ تھے جس کی وجہ سے اس معاملے کو اب بڑی بنچ کے پاس بھیج دیا گیا اور فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔
اب پی ایم اوپی ایم این آر ایف والا ہی رویہ پی ایم کیئرس فنڈ میں بھی اپنا رہا ہے۔