دی وائر کو دیے ایک خصوصی انٹرویومیں ہیٹ اسپیچ کے حوالے سے معروف اداکار نصیر الدین شاہ نے کہا کہ اس بارے میں بولنا وزیراعظم کا فرض ہے، ہم سب کی حفاظت کرنا ان کا کام ہے ۔ حکومت کی خاموشی حیران کن ہے۔ یہ اس سلسلے میں ان کی خاموش رضامندی معلوم ہوتی ہے۔
نصیر الدین شاہ اور کرن تھاپر۔ (فوٹو بہ شکریہ: یوٹیوب ویڈیو گریب)
نئی دہلی: ہندوستان کے جید اداکاروں میں سے ایک نصیر الدین شاہ نے نفرت انگیز تقریر (ہیٹ اسپیچ ) کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں وزیر اعظم نریندر مودی کی چپی ان کی خاموش رضامندی معلوم ہوتی ہے۔
نفرت انگیز تقریر کے حوالے سے نصیرالدین شاہ نے کہا، بولنا ان کا (وزیراعظم) کا فرض ہے، ہم سب کی حفاظت کرنا ان کا کام ہے۔ حکومت کی خاموشی حیران کن ہے… یہ خاموش رضامندی کی علامت ہے۔
دی وائر کے لیے کرن تھاپر کے 34 منٹ کے انٹرویو میں نصیر الدین شاہ نے حال ہی میں خبروں میں آنے والے کئی موضوعات کے بارے میں بات کی۔
ان میں اطلاعات و نشریات کے وزیر انوراگ ٹھاکر کا یہ دعویٰ بھی شامل ہے کہ ‘ہندوستان کے پاس وہ سب کچھ ہے جو دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے پاس ہے’، وزیر خارجہ جے شنکر کی یہ تنقید کہ مغرب کو ‘دوسروں پر تبصرہ کرنے کی بری عادت’ ہے، اگر (وہ) ایسا کرتے رہیں تو اس کے بعد دوسرے لوگ بھی تبصرے کرنا شروع کر دیں گے اور ایسا ہونے پر وہ اسے پسند نہیں کریں گے’ اور ساتھ ہی وزیر اعظم کا دعویٰ، جو حال ہی میں امریکی صدر جو بائیڈن کی ڈیموکریسی سمٹ میں کیا تھا، اور کہا گیا تھا کہ ہندوستان ‘جمہوریت کی ماں’ ہے۔
نفرت یا ہیٹ اسپیچ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور ہندوستانیوں کو نسلوں سے نہیں ، بلکہ کئی دہائیوں سے اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ باتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے کہا، یہ ہمیشہ سے تھا، ہمیشہ سے ہمارے معاشرے میں رہتے ہوئے یہ صحیح حالات کے انتظارمیں رہتا ہے، اور موجودہ نظام نے اسے (نفرت انگیز تقریر) جائز بنا دیا ہے۔
شاہ نے کہا، اس سے مجھے غصہ آتا ہے، لیکن مجھے یہ مضحکہ خیز بھی لگتا ہے جب لوگ مجھے پاکستان جانے کو کہتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ انہیں ایک بار بمبئی سے کولمبو اور کراچی جانے کے لیے پورے طور پر ادائیگی شدہ ٹکٹ (ایک نامعلوم شخص سے) موصول ہوا تھا، لیکن انھوں نے مزید کہا، میں یہ ناراضگی پال کر نہیں رہ سکتا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کیسے تمام ناقدین کو ‘ملک دشمن’ کہتی ہے۔
انہوں نے کہا، ‘ملک دشمن اور ٹکڑے ٹکڑے گینگ کے بارے میں ساری بات ہی مضحکہ خیز ہے’۔ انہوں نے کہا کہ یہی وہ حکومت تھی جو ہندوستان کو ٹکڑوں میں تقسیم کر رہی تھی۔
نصیر الدین شاہ نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح ہندوستانی، اکثر اور بغیر سوچے سمجھے، ایک دوسرے کے بارے میں بیہودگی اور سفاکی سے بات کرتے ہیں۔
اس کی مثالیں ہیں مودی کا ششی تھرور کی آنجہانی بیوی سنندا پشکر کو ‘
50 کروڑ گرل فرینڈ‘ کہنا، دگوجئے سنگھ کا
اروند کیجریوال کا موازنہ راکھی ساونت سے کرنا،
سشیل کمار شندے نے جیا بچن کو چپ رہنے کو کہا کیونکہ ذات پات پر مبنی تشدد ایک فلمی موضوع نہیں ہے اور جب سشمیتا سین کا نام للت مودی کے ساتھ جوڑا گیا تو ٹرول ان کو گولڈ ڈگر کہا تھا، یعنی وہ شخص جو خالصتاً پیسے کی وجہ سے کسی سے جڑتا ہے۔
شاہ نے کہا کہ یہ ‘سوچ کی کمی’ ہے اور اس بات سے اتفاق کیا گیا کہ یہ ہندوستانیوں کو ‘مغرور، خودغرض، نرگسی اورمطلب پرست کے طور پر پیش کرتا ہے۔
وزیر اعظم مودی کا دعویٰ کہ ہندوستان جمہوریت کی ماں ہے، نصیر الدین شاہ نے ہندوستان کے حالات کو ‘غیر اعلانیہ ایمرجنسی’ قرار دیا۔
وہ کہتے ہیں، ہم اس وقت تک جمہوریت ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم تمام شہری اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کرتے اور زہر پھیلانا اور نفرت اور تشدد کو فروغ دینا بند نہیں کرتے۔
اس انٹرویو کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔