لوک سبھا میں اپوزیشن کےرہنماؤں کی جانب سے پی ایم کیئرس فنڈ پر لگاتار سوال اٹھانے پر بی جے پی رہنما کانگریس پرحملہ آور ہوتے رہے، ساتھ ہی کہا کہ پی ایم ریلیف فنڈگاندھی پریوار کی ذاتی ملکیت کی طرح کام کرتا ہے۔ حالانکہ پی ایم کیئرس فنڈ کی جوابدہی کو لےکر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
لوک سبھا میں وزیر خزانہ نرملا سیتارمن اور انوراگ ٹھاکر۔ (فوٹو: ٹوئٹر/پی ٹی آئی)
نئی دہلی: پی ایم کیئرس فنڈ میں غیر شفافیت کے معاملے پرگزشتہ سنیچر کوپارلیامنٹ میں زوردار بحث دیکھنے کو ملی۔مرکزی حکومت کی جانب سےوباکے دوران استعمال کرنے کے لیے بنائے گئے پی ایم کیئرس فنڈ کی جانکاری عوامی نہیں کیے جانے دوسرے ممالک اور کئی دیگر ذرائع سے چندہ اکٹھا کیے جانے پر لوک سبھا میں کئی اپوزیشن رہنماؤں نے تشویش کا اظہار کیا اورسرکار کے اس رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
لوک سبھا میں کانگریس رہنماادھیر رنجن چودھری نےموجودہ پی ایم ریلیف فنڈ(پی ایم این آرایف)کے ہوتے ہوئے ایک نجی ٹرسٹ بنائے جانے پر نریندر مودی سرکار پر سوال اٹھایا۔
پارلیامنٹ میں ٹیکسیشن اور دیگر قانون (کچھ اہتماموں میں راحت اور ترمیم)ایکٹ،2020 پر چرچہ کے دوران چودھری نے کہا،‘میں وزیر خزانہ نرملا سیتارمن سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب ہمارے پاس پی ایم این آرایف ہے تو متوازی فنڈ بنانے کی کیا ضرورت ہے؟’
انہوں نے کہا، ‘ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ نجی اور کارپوریٹس کےچندے کو چھپانے کے لیے بنایا گیا ہے۔’انہوں نے دونوں ممالک کے بیچ سرحد پر تعطل کے بیچ چینی بینکوں سے قرض لینے کے لیے بھی سرکار کو تنقید کانشانہ بنایا۔
انہوں نے پوچھا، ‘میں ہماری وزیر خزانہ سے یہ بھی پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا یہ سچ ہے کہ گلوان گھاٹی میں ہمارے جوانوں کی لڑائی کے بعد بھی آپ نے چینی بینکوں سے قرض لیا تھا۔ اپریل سے چین سے کتناقرض لیاگیا ہے؟’
چودھری کے تبصروں کی وجہ سےاپوزیشن اور سرکار کے حامی ممبروں کے بیچ زوردار بحث اور ہنگامہ ہوا۔ اس دوران مالیاتی اور کارپوریٹ معاملوں کے جونیئر وزیر انوراگ ٹھاکر نے الزام لگایا کہ پی ایم این آرایف گاندھی پریوار کی نجی ملکیت کی طرح کام کرتا ہے، جبکہ پی ایم کیئرس ایک رجسٹرڈ ٹرسٹ ہے۔
اکساوے والے اور فرقہ وارانہ بیان دینے کے لیےمعروف ٹھاکر نے کہا، ‘ہندوستان کے پہلےوزیر اعظم جواہر لال نہرو نے 1948 میں پی ایم این آرایف کاقیام کیا تھا۔ پی ایم این آرایف ابھی بھی رجسٹرڈ نہیں ہے۔ ٹرسٹ کے ممبروزیراعظم ، نائب وزیر اعظم اور کانگریس کے صدر اور ٹاٹا ٹرسٹ کے ایک ممبر تھے۔’
انہوں نے آگے کہا، ‘1908 کے ایکٹ کے تحت 27 مارچ، 2020 کو پی ایم کیئرس فنڈرجسٹرڈ کیا گیا تھا۔ ایک آزادانہ آڈیٹرکی تقرری کی گئی۔ کسی کو بھی اس فنڈ کو چندہ دینے کے لیے مجبور نہیں کیا جاتا ہے۔ ٹرسٹ کے ممبروزیر اعظم ،وزیر دفاع، داخلہ امور کے وزیراور وزیر خزانہ جیسےتمام عہدیدار ممبر ہیں۔’
انہوں نے کہا کہ فنڈکا قیام وزیر اعظم ،وزیردفاع،وزیر داخلہ اور وزیر خزانہ کے عہدیدارممبروں کی صورت میں ایک ٹرسٹ کے طور پر کیا گیا تھا اور آزادانہ آڈیٹر(سارک اینڈ ایسوسی ایٹس)کے ذریعے آڈٹ کیا گیا تھا جس نے کہ پی ایم این آرایف کا بھی آڈٹ کیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان کےمحصولاتی فنڈ کا کوئی پیسہ پی ایم کیئرس میں نہیں جاتا ہے۔
حالانکہ، جونیئروزیر کے جواب سےاپوزیشن مطمئن نہیں ہوئی اور ٹی ایم سی کی رکن پارلیامان مہوا موئترا نے دخل اندازی کرتے ہوئے کہا کہ یہ فنڈ ایک ایسا ‘بلیک ہول’ ہے، جس کی کوئی جوابدہی نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ کم سے کم 38پبلک سیکٹر کی کمپنیوں(پی ایس یو)نے پی ایم کیئرس فنڈ میں2100 کروڑ روپے کا چندہ دیا(فنڈ کا لگ بھگ 70 فیصدی حصہ)اور یہی وجہ ہے کہ سرکار کو فنڈ کو لےکر شفاف رویہ اپنانا چاہیے۔
مغربی بنگال کے کرشنانگر کی ایم پی موئترا نے ٹک ٹاک جیسی چینی کمپنیوں کے ذریعے اس فنڈ میں دیے گئےچندے کو واپس نہ کرنے کے لیے سرکار کی تنقید کی، جسے سرکار نے دونوں ممالک کے بیچ لداخ تعطل کے بعد بین کر دیا۔
انہوں نے چندہ دینے والوں کو ملنے والی ٹیکس چھوٹ اور سی ایس آر ٹیگ پر بھی سوال اٹھائے۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ جہاں پی ایس یو کو پی ایم این آرایف کے لیے چندہ دینے کی اجازت نہیں ہے، وہیں انہیں پی ایم کیئرس میں چندہ دینے کی اجازت دی گئی ہے۔
انہوں نے سرکاری کمپنیوں کو درباری ٹھہراتے ہوئے کہا کہ وہ عوام کے پیسوں سے حکمراں کو تحفے دے رہی ہیں۔کیرل کی ریوولیوشنری سوشلسٹ پارٹی کے رہنمااین کے پریم چندرن نے بھی پی ایم کیئرس فنڈ کے قیام پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ وہ پہلے سے ہی ایک الگ فنڈ ہوتے ہوئے دوسرے فنڈ کو بنانے کی بات نہیں سمجھ پا رہے ہیں۔
کانگریس کے منکم ٹیگور نے کہا کہ پی ایم کیئرس میں شفافیت کی کمی ہے اور یہ کیگ اور پارلیامنٹ کے آڈٹ کے دائرے سے باہر ہے اور اس نے فنڈ کو دقت طلب بنا دیا ہے۔لوک سبھا میں کثیراکثریت کی وجہ سے تمام اعتراضات کے باوجود مرکزی حکومت ٹیکسیشن اور دیگرقانون (کچھ اہتماموں میں راحت اور ترمیم)ایکٹ، 2020 کو آسانی سے پاس کرا لے گئی۔
حالانکہ، ایکٹ ٹیکس دینے والوں کو کئی تعمیلی ضروریات سے راحت دینے کے ساتھ دفعہ80(جی)کے تحت پی ایم کیئرس فنڈ کو کیے گئے چندے کے لیے کٹوتی کا بھی اہتمام کرتا ہے۔ بدھ کو سیشن ختم ہونے سے پہلے اس کو راجیہ سبھا میں پیش کیا جائےگا۔اس دوران وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے پی ایم کیئرس کا بچاؤ کیا اور پوچھا کہ سالوں سے جاری رہنے کے باوجود پی ایم این آرایف کو ٹرسٹ کے روپ میں رجسٹرڈ کیوں نہیں کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘فنڈکی طرح ہی شفافیت بھی گھر سے شروع ہونی چاہیے۔ پی ایم کیئرس پبلک چیرٹیبل ٹرسٹ کے طورپر رجسٹرڈ ہے، لیکن پی ایم این آرایف نہیں ہے۔’انہوں نے کہا، ‘صرف کانگریس صدر ہی پی ایم این آرایف کے ممبر ہیں۔ جن سنگھ کا نمائندہ کیوں نہیں تھا؟ پی ایم این آرایف میں صرف کانگریس پارٹی کے صدرکو شامل کرنے سے شفافت کیسےحاصل کی جا سکتی ہے؟’
حالانکہ، نہ تو انہوں نے اور نہ ہی ٹھاکر نے فنڈ کے خلاف اٹھایا گئے جوابدہی اور شفافیت کے سوالوں کا جواب دیا اور اپنا زیادہ تروقت کانگریس پر حملہ کرنے میں بتایا۔الزامات کا جواب دیتے ہوئے کانگریس نے مدعے کو بھٹکانے کے لیے بی جے پی پر جوابی حملہ کیا اور سوال اٹھائے۔
کانگریس کی جانب سے سوال اٹھایا گیا،‘کیا بی جے پی راجیو گاندھی فاؤنڈیشن کی طرح آر ایس ایس سے اپنے سبھی چندہ دینے والو ں کواورافراد، ادارے،تنظیموں اور سرکاروں سمیت تمام غیرملکی ذرائع سے حاصل رقم کی فہرست عوامی کرنے کے لیے کہےگی۔
کانگریس نے بی جے پی سے یہ بھی پوچھا کہ کیا بی جے پی سے جڑے مانے جانے والے وویکانند فاؤنڈیشن اور انڈیا فاؤنڈیشن جیسے تھنک ٹینک کو بھی اپنے چندہ دینے والوں کے ناموں کا انکشاف کرنا چاہیے۔کانگریس نے یہ بھی کہا کہ بی جے پی کو الیکٹورل بانڈ کے توسط سے ملے رقم کا بھی انکشاف کرنا چاہیے۔
(اس خبر کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)